tag:blogger.com,1999:blog-67966541120859480222024-03-19T01:26:04.074-07:00Zulqarnain Hundal:چوہدری ذوالقرنین ہندلA Young Columnist, Blogger, Poet.
Student Of Mechanical Engineering.
Political, Social Personality.
Column Logo: Meri Raye(میری رائے).
Cell No:03424652269.
.سٹی کوآرڈینیٹر:ہماری ویب رائٹرز کلب.
ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستانAnonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.comBlogger86125tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-43125320149841135882019-01-18T07:01:00.001-08:002019-01-18T07:01:28.718-08:00مہنگائی کا طوفان اور منی بجٹ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<span style="color: navy;"><strong>چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
</strong></span><br /><hr />
ایک طرح سے تو موجودہ حکومت بھی پرانی روایتی حکومتوں جیسی ہی نکلی۔انہی کی طرح الیکشن سے قبل بڑے دعوے،عقل مندانہ ترکیبیں اور حقائق پر مبنی دلیلیں، معیشت میں بہتری کے منتر،عوام کو ریلیف جیسے خواب، اور قسمتیں بدلنے کے کرتب دکھائے جاتے رہے۔عوام نے ان کی باتوں پر بھروسا کرتے ہوئے انہیں موقع فراہم کیا۔ الیکشن سے قبل ،عوام کے نزدیک اس حکومت میں کچھ نئی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔یہ جماعت جس میں چاہے پرانے ہی سوار شامل ہیں،عوام کے لئے حقیقی تبدیلی کے دعویدار لگ رہے تھے۔تاہم حکومت میں آتے ہی جادوئی ترکیبیں جیسے رک سی گئی ہوں۔جیسے کسی نے حکومت کو نظر لگا دی ہو۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ ،ایک جماعت کا ہر رہنما ہی اپنی ترکیبیں بھولنے لگے۔لگتا ہے کہ، روایتی جماعتوں نے اس جماعت کو بھی روایتی بنانے کے لئے کوئی جادوئی علم کروایا ہے۔وگرنہ الیکشن سے قبل تو اس حکومت کی تبدیلیاں بظاہر تھیں۔مانتے ہیں کہ ،حکومت کا نشہ ایسا ہے کہ باقی نشوں پر حاوی آجائے۔لیکن نئے پاکستان والے تو اس میں مبتلا ہی نہیں ہوسکتے۔ مگر پھر بھی روایتی انداز کیوں؟<br />خیر عوام تو آج بھی امیدیں لگائے بیٹھی ہے کہ، اس دن کا سورج کب طلوع ہوگا۔جب سب نیا نیا سا لگے گا۔جہاں امیر و غریب، گورے و کالے، اور پنجابی و بلوچی میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔جہاں تعلیمی نصاب ایک ہوگا۔جہاں غربت کی بدولت کوئی علاج سے محروم نہیں رہے گا۔جہاں نوکریاں ہوں گی، روزگار ہوگا۔جہاں ریاست عوام کی رکھوالی ہوگی۔جہاں عوام کو مہنگائی کی بجائے ریلیف ملے گا۔آہ !نہ جانے یہ تبدیلی کب نمودار ہوگی۔<br />ابھی تک کے وقت میں حکومت اپنے کسی بھی دعوے پر پورا نہیں اتری۔حکومت نے کرپشن پر قابو پانے کا جو شور مچا رکھا ہے اس میں کامیابی اس دن ہوگی۔جب کرپشن سے لوٹا ہوا روپیہ قومی خزانے میں جمع ہوگا۔تب حکومت کو عوام پر مہنگائی جیسے بم گرانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔بات معیشت کی ہو تو حالات آپ کے سامنے ہیں۔ڈالر روپے کے برعکس اونچی اڑان اڑ رہا ہے۔بجلی وگیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔روزمرہ کی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔انسانی علاج کے لئے استعمال ہونے والی دوا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔بڑی انڈسٹریوں میں ’ڈاؤن سائیزنگ ‘شروع ہوچکی ہے۔زراعت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ایسے میں تاجر مافیا دیگر چیزوں میں مصنوعی قلت پیدا کر کے منگائی کا طوفان برپا کر رہا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی بے روزگار ہو رہا ہے۔بے روزگاری کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اس سب میں حکومت کا کردار کیا ہے؟ شاید حکومت ابھی ریاستی معاملات کو سیکھ رہی ہے۔حالات ایسے ہی رہے تو آنے والے وقت میں جو ’ڈاؤن سائیزنگ‘ کا سلسلہ شروع ہوا ہے، لاکھوں گھروں کو بے روزگار کر کے ہی دم لے گا۔بے روزگاری غربت و مہنگائی کو جنم دے گی ۔ غربت و مہنگائی لوگوں کی بے بسی کا باعث بن کر معاشرے کو تباہی کے دیہانے پر لا کھڑا کرے گی۔افراتفری میں اضافہ ہوگا۔<br />حکومت مسلسل معیشت کو قابو پانے میں ناکام ہو رہی ہے۔نہ ہی مراد سعید کی اربوں کی رقم والی تقریر کسی کام آ رہی ہے نہ ہی جناب اسد عمر صاحب کی حکمت و دانائی۔حکومت 23جنوری کو تیسرا منی بجٹ پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔گزشتہ سال ستمبر میں جو بجٹ پیش کیا گیا ، اس میں 183ارب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے تھے ۔اندازے کے مطابق جنوری میں پیش کئے جانے والے منی بجٹ میں 200ارب کے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے۔ کہنے کو تو منی بجٹ میں آسانیاں ہوں گی۔یہاں سوال یہ ہے کہ، چند ماہ بعد ہی بجٹ میں نظر ثانی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟<br />معروف اکانومسٹ جناب اسد عمر صاحب کی انجینئرنگ کی بدولت جو مہنگائی کا طوفان برپا ہے، اس کی زد میں شامل ہر کلاس و طبقہ ہے۔بقول وزیر خزانہ ٹیکس صرف امیروں پر اثر انداز ہوں گے۔جناب کاروباری رجحان میں جو کمی واقع ہوگی، اس کے اثرات کی بدولت غریب بے روزگار ہوگا۔<br />یہ بھی تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ نت نئے ٹیکسز آئی ایم ایف کی شرائط ہیں ،یا پھر فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی ناکامی کا سبب ہیں۔اگر یہی ٹیکسز رفتا رفتا پوری منصوبہ بندی کے تحت لگائے جاتے تو مہنگائی پر بھی کنٹرول رہتا اور بے روزگاری سے بھی بچت ہوتی۔جناب اپنی منصوبہ بندیوں پر نظر ثانی کریں ،فوری ٹیکسوں کا بوجھ مجبور و بے روزگار عوام پر نہ ڈالیں۔اپنی الیکشن سے قبل والی منطقوں کو آزمائیں اور عوام کو ہلکہ پھلکا ریلیف بھی فراہم کریں۔غریب عوام کی نہ ہی معیشت لفظ سے کوئی شناسائی ہے نہ ہی قرض سے۔انہیں صرف اپنے خاندان اور اپنی اولاد کا پیٹ پالنا ہے،جس میں ٹیکس کی بدولت انہیں دقت پیش آرہی ہے۔صاحب!ہر کام جنون سے ہی نہیں ہوتا ۔کچھ کام سکون سے بھی ہوتے ہیں۔ہمارے وزیر خزانہ آج تک یہ نہیں طے کر پائے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا بھی ہے یا نہیں۔<br />آج کوئی بیان کل کوئی۔اپنی ہی باتوں سے پھر جاتے ہیں۔باتیں غریبوں کو ریلیف دینے کی کرتے ہیں اور مشاورت مالدار طبقے سے ۔آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔ہر بات میں تضاد۔ایسے تبدیلی نہیں آتی۔ہر گز نہیں!</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-85904695773440100202018-11-14T22:10:00.002-08:002018-11-14T22:10:48.285-08:00پریشان حال چھوٹے کسان<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
<span style="color: navy;"><strong>ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</strong></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<strong><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></strong></div>
<br />
<hr style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;" />
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
’روٹی بندہ کھا جاندی اے‘ پنجابی کا یہ مشہور فقرہ آپ کو سچ نظر آئے گا۔ اگر آپ بے چارے چھوٹے کسانوں کی حالت زار کا اندازہ لگائیں گے۔گزشتہ ادوار میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو ۔مگر موجودہ دور میں آئے روز کوئی نہ کوئی کسان روزی روٹی کی نظر ہورہا ہے۔چاہے ہماری طرف ہو یا بارڈر کے دوسری طرف ہو۔تقسیم کے بعد سے دونوں ملکوں کے چھوٹے کسان مایوسیوں کی نظر ہوتے چلے آرہے ہیں۔ہر گزرتا دن ان محنتی اور جفاکش کسانوں کے لئے نئی پریشانیاں لاتا ہے۔زندگی ہل چلاتے گزر جاتی ہے ۔مگر قرض کا بوجھ ہے کہ کم نہیں ہوتا۔کتنے دکھ و تکلیف کی بات ہے کہ، وہ کسان جو لوگوں کے لئے خوراک و اجناس کاشت کرتے ہیں ۔وہ خود اپنے خاندان کی اچھی کفالت نہیں کر سکتے۔ان کی اچھی پرورش نہیں کرسکتے۔نہ ہی معیاری تعلیم دلا سکتے ہیں۔نہ ہی بہتر طبی سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں۔روٹی جس کے بغیر انسانی زندگی نہ ممکن ہے۔اس کی کاشت کرنے والا آج سماج میں سب سے زیادہ بدحال ہے۔اس کے برعکس کپڑا اور مکان بنانے والا سماج میں بڑی کاروباری شخصیت تصور ہوتاہے۔شاید زمانے کی رفتار نے کسان کی اہمیت و قدر کو بھی کھو دیا ہے۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
پاکستان کا زیادہ تر رقبہ زرعی و دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ شعبہ زراعت سے وابسطہ ہیں۔لیکن بدلتی صورتحال اور ضروریات کی بدولت لوگ اس شعبے کو ترک کر کے دیگر شعبوں سے منسلک ہو رہے ہو۔ اس بدلتی صورتحال کی وجہ سے پاکستان زرعی لحاظ سے اپنے ہم پلہ زرعی ملکوں سے زراعت کے شعبے میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔شاید یہ فرق آئندہ کئی برسوں میں بڑھتا چلا جائے۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
پاکستان میں زیر کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے۔ایسے کسانوں کی اکثریت ہے، جن کے پاس چند کنالوں سے لے کر بیس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔یہی کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان حال و بدحال بھی ہیں۔زمانے کی اس تیزی نے ان کسانوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ان کی کاشت کردہ اجناس سے حاصل شدہ معاوضہ ان کی روز مرہ کی ضرورتوں کی نسبت بہت کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔آئے روز ان کی ضرورتیں ان کے روزگار کو دھکیلتے ہوئے برق رفتار ی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔قرضوں کے بوجھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
بعض کسانوں کے حالات ایسے ہیں کہ برسوں سے ان پر قرضوں کا بوجھ چلا آرہا ہے۔ان کے باپ دادا بھی اسی قرض کے بوجھ کو کم کرتے کرتے ،اپنی زندگی تمام کر گئے۔کچھ کو اپنی گزشتہ نسلوں سے قرض زدہ وراثتی زمینیں ملی ہیں ۔جن کے بدلے وہ اپنے بزرگوں کو بد دعائیں تو نہ دیتے ہوں، لیکن کوستے ضرور ہوں گے۔بعض مفکرین کے نزدیک شعبہ زراعت سے وابسطہ یہ متوسط طبقہ شروع ہی سے پریشان حال چلا آرہا ہے۔ہر حکومت کی ترجیحات میں شہراور شہری مسائل ہی شامل رہے ہیں۔بعض کے نزدیک نہ صرف حکومت بلکہ نام نہاد تنظیموں اور حتی کہ میڈیا کی ترجیحات میں بھی شہری مسائل اور ان کا حل ہی رہاہے۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
کم علم ہونے کی بدولت یہ متوسط طبقہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے میں بھی ناکام رہا ہے۔دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کی ترجیحات میں بھی شہر اور شہری آبادی شامل رہی ہے۔سیاسی پارٹیوں اور حکومت کو تو صرف اپنی شہرت اور ووٹ حاصل کرنے سے غرض ہوتی ہے۔انہیں اس بات سے ہر گز کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو یا پھر پھلے ، پھولے۔اقتدار کا لالچ ہمیشہ سے زرعی علاقوں کو نظر انداز کرتا چلا آیا ہے۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
واقعی اس میں کسانوں کی اپنی کم علمی اور بڑی غلطیاں بھی شامل ہیں۔کسی بھی حکومت نے اس متوسط طبقے کی خود مختاری کے لئے صدق دل سے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔قرضوں کی نت نئی اسکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں۔جس کے جال میں پھنس کر چھوٹا کسان اپنی زندگی زہنی اذیتیوں کی نظر کر دیتا ہے۔کروڑوں اربوں کی سبسڈیاں نہ جانے کہاں چلی جاتی ہیں۔کبھی کسی چھوٹے کسان کو براہ راست کسی سبسڈی کا فائدہ نہیں پہنچا ۔بلکہ اس کے برعکس بڑے ذخیرہ اندوز اور بڑے جاگیردار ہی اس سے مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں۔اس جاگیردارانہ نظام میں ڈھنڈیاں مارنے کا سلسلہ بھی کافی پراناہے۔ڈھنڈیاں مارنے میں محکمہ زراعت ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
اس کرپٹ نظام میں چھوٹے کسان کا ہمیشہ بھرکس ہی نکلتا رہا۔جو آج بھی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے۔کھادوں دواؤں کے بڑھتے ریٹ، چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اکساتے ہیں۔ڈیزل کے بڑھتے ریٹ، کسانوں کو خود پر چھڑک کرآگ کی نظر ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔زرعی آلات کی قیمتیں اور ان کے معیار، کسانوں کو ٹریکٹر کے نیچے دب کر کٹھن حالات سے چھٹکارے کی نشاندہی کرتے ہیں۔آخر میں فصلوں کے نامناسب ریٹ ،کسان کو ایسی فصل کے ساتھ ہی دفن ہونے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔جس سے کسان کے خون پسینے کا ازالہ نہ ہو ۔جس سے وہ اپنی اولاد کی پرورش نہ کر سکیں۔کسان تو آئے روز ویسے ہی مرتا ہے۔لیکن ’مڈل مین‘ مراد کاروباری اشرافیہ کے روپ میں ڈیلرز وغیرہ نے تو کسانوں کو جیسے راکھ کرنے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے، کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔یہ وہ متحرک گروہ ہے، جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹس کو کنٹرول کرتا ہے۔ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسان انہیں اپنی فصل اونے پونے بیچ جائے ۔ذخیرہ اندوزی ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
ہمیشہ ہی سے حکومت اور اس کا چہیتا محکمہ زراعت اس سارے معاملے میں غفلت کی نیند ہی سویا رہا ۔من مانیاں اس محکمے کا جیسے فرض ہو۔زمانہ ادھر سے ادھر ہو گیا ہے۔دنیا میں جدت آگئی ہے۔زراعت کے شعبے میں بڑی ترقیاں ہو ئیں۔لیکن مجال ہے کہ، ہمارا محکمہ زراعت کبھی اپنی شاہانہ سستی کم کرنے لئے ٹس سے مس بھی ہوا ہو۔<br />کم آگاہی اور جدید مشینیری کی کمی، کی وجہ سے ہمارے کسان آج بھی وہی چاول کی فصل ، وہی گندم کی فصل اور دیگر اجناس اگا رہے ہیں، جو برسوں پہلے ان کے آباؤ اجداد لگایا کرتے تھے۔اور وہی پیداواری اوسط نکل رہی ہے، جو آج سے کوئی دس برس قبل ہوا کرتی تھی۔وہی پرانی چند ٹریکٹرز کمپنیاں آج بھی راج کر رہی ہیں جو برسوں پہلے تھیں۔کسان وہی پرانی طرز کی مشینری خریدنے پر مجبور ہیں جو دنیا نے برسوں پہلے استعمال کرنا بھی چھوڑ دی تھیں۔وہی لاعلم کسان جنہیں صرف یہی علم ہے، کہ لال رنگ کی دوا ڈالنی ہے اور سفید رنگ کی کھاد۔انہیں کچھ علم نہیں کے کوئی زمین کا چیک اپ بھی ہوتا ہے ،جس سے زمین کی زرخیزی کے بارے علم ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر رپورٹ کے مطابق انہیں کیمکلز یعنی دوائیں ڈالنا ہوں گی۔لیکن ہمارا لاڈلہ محکمہ زراعت اور ہماری مفاد پرست حکومتوں کے نزدیک شاید اس بارے آگاہی و کام کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئی ہو۔ کیونکہ بڑے جاگیردار اور اشرافیہ توآج بھی جدید طریقہ کاشت کاری سے مستفید ہو رہے ہیں۔معاملہ تو صرف ان کسانوں کا ہے ۔جن کے ووٹ خریدے جا سکتے ہیں، گلی نالیوں اور چھوٹے موٹے لالچ کے برعکس۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ اس محکمے کا کردار کیا ہے؟ کون یہ طے کرے گا کہ اکثریت میں موجود چھوٹے بدحال و پریشان کسانوں کے لئے کچھ کرنا ہے؟کب وہ وقت آئے گا جب محکموں پر لاڈلوں کی چھاپ ختم ہو گی؟کب یہ محکمہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوگا؟چھوٹے کسانوں کے زخموں پر کون مرہم رکھے گا؟آخر کب تک یونہی سبسڈی کے نام پر کرپشن کے مینار کھڑے ہوتے رہیں گے؟آخر کب تک ہماری معشیت اور زراعت مفادات کی نظر ہوتی رہے گی؟۔</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
موجودہ حکومت پر عوام کو اعتماد ہے۔حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سنگین مسئلے پر کام سے لگایا جا سکتا ہے جسے گزشتہ حکومتیں مسئلہ ہی تصور نہیں کرتی تھیں۔مراد آبی مسئلہ جس کے ضمن میں حکومت ڈیم فنڈ اکٹھا کر رہی ہے۔حکومت نے جلد از جلد نئے ڈیمز تعمیر کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔جو زراعت کی مضبوطی کے لئے مفید ترین ثابت ہوگا۔ مہنگائی کے اس دور میں گندم کی بوائی سے پہلے کھادوں ،دواؤں اور ڈیزل کے بڑھتے ریٹ چھوٹے کسانوں پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہیں۔حکومت کو کسانوں کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے انہیں سہولتیں مہیا کرنی چاہئیں۔کسانوں کو آپ سے بڑی امیدیں وابسطہ ہیں۔امید کرتے ہیں کہ، موجودہ حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔وگرنہ ،رفتہ رفتہ شعبہ زراعت سے لوگوں کا دل اٹھتا چلا جائے گا۔جس کے نتیجہ میں زراعت کی تنزلی اور ہماری معیشت کی کمزوری بڑھتی چلی جائے گی۔۔۔ذرا سوچئے!</div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif;">
<strong>جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی </strong><br /><strong>اس کھیت کے ہر گوشہ گندم کو جلا <span style="font-size: x-small;">دو</span></strong></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-90114756856862085782018-10-21T05:56:00.004-07:002018-10-21T05:56:44.187-07:00سنگین افغان صورتحال<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div name="str" style="direction: rtl; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">
<br /><b>چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
</b><br />افغانستان پہاڑوں سے گھرا ہوا خشکی کا خطہ ہے۔جو ایشیاء کے جنوب۔وسط میں واقع ہے۔جس کی 99فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔جس کے ہمسایہ ممالک میں پاکستان،ایران، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان اور چائنہ شامل ہیں۔<br />یوں تو صدیوں سے ہی جنگوں اور لڑائیوں کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔افغانستان بھی ایسا ملک ہے، جو موجودہ جدید دور میں بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔گزشتہ چالیس برس کی طویل خانہ جنگی نے افغانستان کی زمین کو سرخ کر دیا ہے۔خطے میں دہشت طاری ہے۔ان گنت جانوں کا نقصان، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اس جنگی صورتحال کا آغاز 1978میں ہوا۔جب کیمیونسٹ حامی گروپ کی بغاوت سامنے آئی۔تاہم اس سے پہلے بھی افغانوں میں قبیلوں کی لڑائیاں ،برسوں سے لڑی در لڑی چلتی آرہی تھیں۔انہیں بغاوتوں اور لڑائیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے1979کو سویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجی مداخلت شروع کردی۔خانہ جنگی دن بدن بڑھتی چلی گئی۔افغان گروپ متحرک ہوکر روسیوں اور اتحادیوں کے خلاف لڑنے لگے۔تاہم اس افغانی لڑائی میں افغانیوں کو امریکہ ،پاکستان، اور سعودیہ کی مدد حاصل تھی۔امریکی جدید اسلحے کی بدولت افغانی دوبارہ اپنے علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے لگے۔جہاں افغانستان کی تاریخ خون سے رنگی جا رہی تھی، وہیں سویت یونین بھی اپنی بدترین شکست کی طرف گامزن تھی۔اس خونی جنگ میں لاکھوں افغانیوں نے پاکستان ہجرت کی۔ایک لمبی خونی جنگ کے بعد روسیوں اور اتحادیوں کو ہار تسلیم کرنا پڑی ،اور سویت یونین نے 1989میں افغانستان سے اپنی فوجوں کو نکال لیا۔<br />تاہم بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی۔امریکہ جس نے سویت یونین کو شکست دینے کے لئے افغانیوں کی مدد کی ،انہیں استعمال کیا ،افغانستان کو اپنے اسلحے سے لیس کر کے بے یارو مددگار چھوڑ گیا۔افغانستان میں مختلف گروہ اپنی بالادستی کے لئے آپس میں لڑنے لگے۔آپسی جنگوں کے بعد افغان طالبان کی حکومت سامنے آئی ۔جس میں شریعت کا قانون نافذ کیا گیا۔پاکستان افغان طالبان کا حامی تھا۔مگر امریکہ و دیگر اس حکومت سے خائف تھے۔پھر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نائن الیون کا واقع رونما ہوتا ہے۔جسے القاعدہ کے ذمہ ڈالا جاتا ہے۔امریکہ دنیا بھر کی ہمدردیاں سمیٹتا ہے۔مسلمان دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہونے لگتے ہیں۔امریکہ اپنی ہمدردیوں کی بدولت نیٹو اتحاد کے زریعے 2001کو افغانستان میں اپنی فوجیں اتاردیتا ہے۔مکمل کنٹرول حاصل کرتا ہے۔طالبان اور اتحادیوں کی حکومت کا خاتمہ کرتا ہے۔طالبان اور اتحادی دوبارہ جنگی محاذوں پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔امریکہ حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرتا ہے۔پاکستان بھی امریکی نان نیٹو اتحادی کی صورت میں امریکہ کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتا ہے۔پاکستانی چیف ایگزیکٹیو مشرف امریکیوں کو افغانستان میں سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے ہر ممکن راستہ فراہم کرتا ہے۔بہت سے افغانی گروہ پاکستان مخالف ہو جاتے ہیں۔جس کی بدولت پاکستان میں بھی دہشتگردی کی گونج سنائی دیتی ہے۔امریکہ اسی دہشتگردی کی آڑ میں پاکستان میں ڈراؤن اٹیک کی صورت میں مداخلت کرتا ہے۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتا ہے۔اسی دوران اسامہ بن لادن کی موت کا ڈرامہ بھی رچایا جاتا ہے۔<br />امریکہ کو اس جنگ سے پہلے اور درمیان میں بہت سے زرائع نے خبر دار کیا تھا کہ، افغانستان میں مداخلت سے باز رہو۔افغانستان میں فتح حاصل کرنا جتنا آسان ہے، فتح برقرار رکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔بہت سے زرائع نے مذاکرات کے زریعے معاملے کو حل کرنے کی بھی تجویز دی۔پاکستان بھی مذاکرات کا حامی ہے۔تاہم امریکہ اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا۔امریکہ طاقت کے نشے میں وہ احداف حاصل کرنا چاہتا تھا ،جو وہ ظاہر نہیں کرتا ۔وقت گزرتا گیا ۔امریکہ اپنے اصل احداف جن کی بدولت افغانستان پر قابض تھا نہ حاصل کر سکا۔درحقیت امریکہ براسطہ افغانستان خطے کو کنٹرول نہ کرسکا۔نہ ہی پاکستان پر نہ ہی ایران پر اس طرح سے اثر انداز ہو سکا ،جو اس کے اصل احداف میں شامل تھا۔امریکہ کو اس جنگ میں پسپائی نظر آرہی ہے۔اوپر سے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور شراکت داریوں نے امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے۔امریکہ اس طرح سے ابھرتی ہوئی طاقتوں کو کاؤنٹر نہیں کر پا رہا، جس طرح اس کی چاہ ہے۔امریکہ اپنے حصے میں آنے والی شکست سے خائف ہے۔اور چاہتاہے کہ، سویت یونین کی طرح اسے نقصان نہ اٹھانا پڑے۔کسی درمیانے طریقے سے نکل جائے۔بالادستی اور عزت بھی قائم رہے۔درحقیت دنیا کو مختلف محاذوں پر الجھانے والا امریکہ خود اس خطے میں الجھن کا شکار بن گیا ہے۔یہی وجہ ہے گزشتہ سالوں سے طرح طرح کے تجربات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔کبھی پاکستان کو اپنا بڑا اتحادی گردانتے ہوئے تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔کبھی پاکستان کو ڈو مور کا حکم دیتا ہے۔کبھی پاکستان کو سنگین دھمکیاں دیتا ہے۔کبھی پابندیاں عائد کرتا ہے۔کبھی افغانستان میں بم باری کرتا ہے۔کبھی مذکرات کو ترجیح دیتا ہے۔کبھی بھارت کو افغانستان میں سرگرمیاں تیز کرنے کی تنبیہ کرتا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔گزشتہ امریکی ردو بدل سے صاف ظاہر ہوتا ہے ۔امریکہ بھی اب کے بار بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔افغانستان سے انخلاء چاہتا ہے ،مگر اپنی انا پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔امریکہ جیسی سپر پاور کے طرف سے مذاکرات کے اشارے افغان امن کے لئے نہایت ضروری ہیں۔امید کرتے ہیں کہ ان مذکرات کی بدولت افغانستان میں امن و امان کی صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہوگی۔گزشتہ روز افغان طالبان کی طرف سے گورنر ہاؤس میں منعقدہ اجلاس کے بعد امریکی کمانڈر اور گورنرز پر جو حملہ کیا گیا ،نہایت تشویش ناک ہے۔جب مذاکرات کی راہ نکل رہی ہو۔ ایسے میں جان لیوا حملے مذکرات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اور معاملات مزید بگھڑ سکتے ہیں۔دونوں گروہوں کو صبر سے کام لینا چاہئے۔تاہم امریکہ سے کوئی زیادہ امیدیں وابسطہ نہیں رکھنی چاہئیں۔امریکہ ماضی میں بھی سویت یونین کے خلاف جنگ کے بعد افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چلا گیا تھا۔جس کا خمیازہ پاکستان اور افغانستان کو بھگتنا پڑا۔اب کے بار بھی امریکہ اسی موقعے کی تلاش میں ہے۔امریکہ اب کی بار پھر افغانیوں کو یوں ہی چھوڑ کر چلا گیا ، تو یہ پھر گروہوں میں بھٹ کر خانہ جنگی کو فروغ دیں گے۔جس سے افغانستان کے حالات مزید سنگین تر سنگین ہو جائیں گے۔جس سے نبردآزما ہونے کے لئے پاکستان کو زہنی لحاظ سے تیار رہنا چاہئے۔جتنا جلد ہوسکے بارڈر مینجمنٹ کو مکمل کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ، پاکستان امریکہ اور اتحادیوں کو امن امان کی صورتحال بہتر ہونے تک، انخلاء نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔امریکہ کو پاکستان سے ایسی امیدیں وابسطہ نہیں رکھنی چاہئیں، جس پر ان کا اختیار ہی نہیں۔امریکہ مسلسل پاکستان کو الجھانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔جہاں تک ہوسکے گا، پاکستان امن کے فروغ کے لئے اپنی کاوشیں جاری رکھے گا۔کیوں کہ خطے کا امن ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔پاکستان کو اپنا مؤقف قائم رکھنا چاہئے۔اور کسی بہلاوے کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔یہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔</div>
<div>
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-10910973281274554982018-10-14T20:58:00.000-07:002018-10-14T20:58:01.620-07:00قابل تعریف اقدامات ،مگر نامناسب منصوبہ بندی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<span class="im" style="background-color: white; color: #500050; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: x-small;"><br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">پاکستان تحریک انصاف نے جب سے حکومت سنبھالی ہے، لگاتار مشکلات کا شکار ہے۔الیکشن سے قبل برسر اقتدار جماعت کی طرف سے بلند و بانگ دعوے کئے گئے تھے۔شاید ایسے دعوؤں کو فی الفور عملی جامہ پہنچانا، صرف مشکل ہی نہیں ہے۔بلکہ ناممکن کے قریب ترین ہے۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ، مناسب منصوبہ بندی کے تحت، حکومت عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرسکتی ہے۔برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں حکومت مشکلات سے دو چار ہے۔ وہیں اس میں حکومت کی اپنی ناتجربہ کاری اور گزشتہ حکومتوں کی نامناسب منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔موجودہ حکومت کی ایمانداری پر عوام کو ابھی شک نہیں کرنا چاہئے۔انہیں مناسب منصوبہ بندی کا وقت دینا چاہئے۔برسراقتدار حکومت لگاتر اچھے اقدامات اٹھا رہی ہے۔جو واقعی قابل تعریف ہیں۔جیسے کلین اینڈ گرین پاکستان،تجاوزات کا خاتمہ، ہاؤسنگ سکیم ،ٹریفک قوانین کی پابندی اور احتساب وغیرہ۔ تاہم سارے اقدامات نامناسب منصوبہ بندی اور جلد سازی کی نظر ہورہے ہیں۔</span></span><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">گزشتہ روز سے یہ خبر سر گرم عمل ہے ،کہ 20اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون قابل استعمال نہیں رہیں گے۔موبائل صارفین کو 8484نمبر کی طرف سے پیغامات وصول ہو رہے ہیں ،کہ20اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون بند کر دیئے جائیں گے۔تفصیلات جاننے کے لئے 8484پر اپنا IMEIنمبر بھیجیں۔تاہم مختلف موبائل فونز کی طرف سے نمبر بھیجنے پر کوئی خاطر خواہ تفصیلات موصول نہیں ہوتیں۔جواب موصول ہوتا ہے کہ ،کوئی تفصیل موجود نہیں براہ کرم دوبارہ کوشش کیجئے۔یقین مانئے حاکم وقت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے یہ نہایت ہی اچھا اور قابل تعریف اقدام ہے۔تاہم اس اقدام کے پیچھے مناسب منصوبہ سازی نظر نہیں آتی۔یہ اقدام بھی دوسرے اقدامات کی طرح جلد بازی کا شاخسانہ نظر آرہا ہے۔لوگوں کو موبائل فون بند کرنے کے پیغامات تو بھیج دیئے گئے ہیں۔مگر چند چیزیں مد نظر نہیں رکھی گئیں۔آیا حکومت یا متعلقہ ادارے کو، لوگوں میں پی ٹی اے،آئی ایم ای آئی نمبر وغیرہ بارے آگاہی نہیں دینی چاہئے؟کیا متعلقہ ادارے کو پہلے ایسے زرائع کو کنٹرول نہیں کرنا چاہئے جہاں سے پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل آتے ہیں؟ہونا تو یہ چاہئے تھا حکومت ایسے موبائل فونوں کے امپورٹ پر پابندی لگاتی۔لوگوں میں موبائل فونوں کی خریداری بارے آگاہی پھیلاتی۔پہلے سے موجود لوگوں کے پاس موبائل فونوں کو رجسٹرڈ ہونے کا موقع فراہم کرتی۔یقین سے یہ موقع فراہم کیا جا رہا ہے ۔مگر عوام اس سے بے خبر کیوں ہے؟۔کیا کوئی آگاہی اشتہار جاری نہیں کرنا چاہئے؟۔فقط چند ویب سائٹس پر معلومات سے عام لوگوں تک خبر نہیں پہنچ پاتی۔ایسی معلومات کوسماجی ویب سائٹس اور ٹیلی ویژن پر عام کرنا چاہئے۔پھر جا کر کہیں موبائل فونوں کی بندش کا عندیہ دیا جانا چاہئے تھا۔حکومت اپنے ہر آغاز ہی کو اختتام گردانتی ہے۔حکومت کی طرف سے جلد بازی میں کئے گئے یک طرفہ اقدامات، جس میں عوام کو ہر صورت نقصان ہی پہنچے ،یا پریشانی کا سبب بنے۔ کسی صورت قابل قبول نہیں۔موبائل فونوں کی بندش کے فوری اقتدامات پر حکومت کو نظر ثانی کرنا ہوگی۔اور ایسا کرنے سے پہلے آگاہی پھیلانا ہوگی۔حکومت کو زمینی حقائق و مسائل اور عوام کی بھلائی کو مد نظر رکھ کر پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔حکومت کا کام عوام کو سہولیات میسر کرنا ہوتا ہے ۔نہ کہ اپنے جارحانہ فیصلے ان پر مصلت کرنا۔ہر کام کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے ۔پہلے آگاہی دی جاتی ہے۔پھر اس پر عملدرآمد کر وایا جاتا ہے۔</span><br style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">حکومت نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کر کے بڑے بڑے برجوں کو الٹ دیا ہے۔عوام حکومت کے اس اقدام سے کافی خوش بھی ہے۔واقعی حکومت کا یہ اقدام بھی قابل تعریف ہے۔مگر اس اقدام کی گہرائی میں بھی جایا جائے تو علم ہوتا ہے کہ مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔بظاہر یہ منصوبہ بہت اچھا ہے اور واقعی اس کے نتائج پاکستان کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔مگر دیکھا جائے تو تجاوزات کے خلاف آپریشن کسی ترتیب کے تحت نہیں کیا جا رہا۔کسی روز دائیں جانب دو کلومیٹر جا کر کوئی عمارت گرا دی جاتی ہے تو کسی روز بائیں جانب۔اس غیر ترتیب شدہ آپریشن میں جہاں مال داروں کو وقت مل رہا ہے۔ وہیں غریبوں کے سر پر کم وقت کی تلوار لٹک رہی ہے۔اگر آپریشن کسی ترتیب کے تحت کیا جائے تو غریب لوگوں کو اپنی باری کا اندازہ ہو جائے اور اپنے مقررہ وقت سے پہلے وہ اپنا بندوبست کر لیں۔ایسے میں عوام کو بھی وقت مل جا ئے گا اور حکومت کا بھی وقت بچ جائے گا۔</span><span class="im" style="background-color: white; color: #500050; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: x-small;"><br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">اسی طرح پچاس لاکھ گھروں کی اسکیم میں بھی نامناسب منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔وزیر اعظم کچھ کہتے ہیں اور تفصیلات کچھ نظر آتی ہیں۔تاہم اس حکومتی جلد سازی و فیصلے پر بعد میں بھی ردو بدل ہو سکتا ہے۔</span><br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">حکومت کی نامناسب منصوبہ بندی کے تحت آج عوام سو پیاز اور سو جوتے بھی کھا رہی ہے۔یعنی ٹیکسوں کی بھرمار نے مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔غربت کی ماری عوام مہنگائی کے اس طوفان میں مزید پس رہی ہے۔حکومت ایک طرف عوام پر مہنگائی کا طوفان مصلت کر کے دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرض مانگ رہی ہے۔اگر قرض ہی مانگنا تھا تو عوام کو پھر ریلیف کیوں نہیں دیا؟ مانتے ہیں کہ اس میں گزشتہ حکومتوں کا پورا پورا قصور شامل ہے۔مگر یاد رکھئے! کہ عوام کو نہ ہی دیا ہوا ریلیف بھولتا ہے اور نہ ہی مہنگائی۔</span><br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">حکومتی وزراء کی طرف سی پیک جیسے منصوبے پر نامناسب بیان بازی نے ،اس مفید منصوبے کو متاثر کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ دوبارہ اسے سبوتاز کرنے کی تگ و دو کرہا ہے۔آئی ایم ایف ہم سے سی پیک کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔چائنہ ہم سے کترانہ شروع ہوگیا ہے۔خطے میں ہمارا مذاق بن رہا ہے۔حکومت کی یونہی ڈگمگاتی پالیسیاں اور منصوبہ بندی ہر گز وطن کے مفاد میں نہیں۔</span><br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">اسی طرح ٹریفک قوانین پر پابندی جو کہ نہایت ہی قابل تعریف اقدام ہے۔صرف اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر مذاق بنا، کیوں کہ قوانین پر عملدرآمد سے پہلے ان کے بارے آگاہی نہیں دی گئی۔</span><br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے سارے اقدامات قابل تعریف ہیں۔اور واقعی خالص عوام کی بھلائی کے لئے ہیں۔مگر حکومت اپنے ہر عمل میں جلد بازی کا شکار ہو رہی ہے۔منصوبہ بندی کا فقدان حکومت کے لئے تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج حکومت کا ہر منصوبہ مذاق بن رہا ہے اور عوام مایوس نظر آرہی ہے۔حکومت کو ایک بات زہن نشین کرنی چاہئے کہ وہ ایک سال یا دو سال کے لئے منتخب نہیں ہوئے ۔بلکہ عوام کی طرف پانچ سال کے لئے منتخب کیے گئے ہیں۔اگر حکومت کا رویہ یونہی غیر سنجیدہ رہا۔ تو وہ دن دور نہیں جب انکا نام بھی گزشتہ روایتی حکومتوں کے ساتھ موجود ہوگا۔</span></span><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">حکومت پاکستان کو مناسب و دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔جس میں دانائی نظر آئے۔جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو۔جس سے عوام کو بھی ریلیف ملے۔تنقیدی تبصروں سے نکل کر مناسب منصوبہ بندی کے تحت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔</span><br />
<div class="yj6qo ajU" style="background-color: white; color: #222222; cursor: pointer; font-family: Arial, Helvetica, sans-serif; font-size: small; margin: 2px 0px 0px; outline: none; padding: 10px 0px; width: 22px;">
</div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-81940598476983705092018-10-09T02:47:00.002-07:002018-10-09T02:47:49.852-07:00 احتساب یا سیاسی انتقام<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<span style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;">پاکستان</span><span style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;"> </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<span style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;"> میں لفظ’ احتساب‘ مشکوک نظروں او ر غلط نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔احتساب کو مشکوک بلندیوں تک پہنچانے میں گزشتہ سیاسی پارٹیوں اور آمروں کا خاصہ کردار رہا ہے۔گزشتہ ادوار میں احتساب کو ذاتی و سیاسی مفادات و انتقام کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔</span><br style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;" /><span style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;">پاکستانی عوام برسوں سے حقیقی احتساب کی راہ تک رہی ہے۔ہمارے آباؤ اجداد بھی اس کی گونج سننے کو بے تاب تھے۔یہی وجہ ہے لفظ احتساب کی مقبولیت آج بھی قائم ہے۔احتساب کے معنی ’جانچ پڑتال‘ کے ہیں۔یعنی محاسبہ کرنا نفس عارف کا تفصیل تعینات سے،ڈھونڈنا ان میں حقائق کو، اور پھر روک تھام وغیرہ۔</span><br style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;" /><span style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;">ہمارے ہاں درمیانہ طبقہ احتساب کا خاصہ متلاشی رہا ہے۔کیونکہ اس طبقے کو ہر دور میں یہی ابہام رہا ہے، کہ ان کے جائز حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔دوسری طرف امراء و جاگیرداروں میں اسے مزاح کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔کیونکہ انہیں یقین ہے کہ، یہ ممکن ہی نہیں کہ احتساب ہوسکے۔بروقت مناسب احتساب قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ ،یورپ، اور چائنہ وغیرہ ہم سے بہت آگے ہیں۔بروقت احتساب نے قوموں کو بام عروج تک پہنچایا ہے۔واقعی اس میں ان کی محنت ہی شامل ہے۔</span><br style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;" /><span style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;">ہمارے ہاں جیسی محنت و کارکردگی دیگر شعبوں میں ہے ،ویسی ہی احتساب کے عمل میں۔بلکہ ہمارے ہاں حکومتیں اور ادارے احتساب کو اپنے ذاتی مفاد و مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔گزشتہ کئی عرصوں سے ہمارے ہاں احتساب مسلسل ذاتی مفادات کی غرض سے جاری ہے۔کبھی پیپلز پارٹی، تو کبھی مسلم لیگ، ایک دوسرے کو فرضی احتساب میں دھکیلتے آئے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ ،ہمارے ہاں بار بار وہی چہرے سامنے آرہے؟کیا وجہ ہے کہ بار بار احتساب کی ضرورت پڑتی ہے؟وجہ یہی ہے کہ احتسابی عمل کی کبھی تکمیل ہی نہیں ہوئی۔جس کی بدولت ان کو بار بار کرپشن کا موقع ملتا ہے۔بار بار وہی پرانے چہرے سامنے آرہے ہیں۔ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں احتساب کی بازگشت صرف اور صرف سیاسی انتقام کی صورت میں ہی سنائی دی۔سیاسی انتقام کی صورت میں صرف ہدف و نشانہ بنا کر ہی احتساب ہوتا ہے۔سیاسی پارٹیوں میں انتقامی احتساب برسوں سے چل رہا ہے۔کبھی اس کی باری تو کبھی اس کی۔اور یہ انتقامی احتساب ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمارے ملک پر عسکری آمر بھی قابض رہے ۔سنا ہے کہ آمریت بہت مضبوط ہوتی ہے۔مگر افسوس کہ گزشتہ ادوار کے آمر بھی فقط حدفی احتساب کو ہی فروغ دیتے رہے۔احتساب پر مفادات اور اقتدار کو ترجیح دیتے رہے۔بروقت اور شفاف احتساب کی تکمیل میں گزشتہ آمر و منتخب حکومتیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔احتساب کے ڈر سے پارٹی مفادات بدلتے بھی دیکھے گئے۔احتساب کے خوف سے پارٹیاں بدلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔نا مکمل احتساب کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ، بہت سے کرپٹ سیاستدان احتساب سے بچنے کے لئے سیاسی پارٹیاں بدل لیتے۔ اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ،جو احتساب کی صدا بلند کرتی۔مگر افسوس کہ، احتساب کی صدا لگانے والوں کو اپنی پارٹی یا گروہ میں کبھی کوئی بدعنوان و کرپٹ نظر نہیں آیا۔گزشتہ چند سالوں سے تبدیلی کی صورت میں احتساب کی باز گشت پھر سنائی دے رہی ہے۔جس کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے۔عمران خان نے ہمیشہ ہر فورم پر کرپشن کے خاتمے پر زور دیا۔یہی وجہ ہے عوام نے انہیں آج ایوانوں میں پہنچایا ہے۔عوام آج احتساب کے مطالبے پر عملدرآمد چاہتی ہے۔ مانتے ہیں کہ، عمران خان بھی اپنے اس وعدے پر قائم ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف آج دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہیں۔شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں بلا کر، آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں گرفتار کیا گیا ۔اس میں کوئی مزائقہ نہیں۔نیب ایک آزاد و خودمختار ادارہ ہے۔ اسی لئے اسپیکر قومی اسمبلی کو بتائے بغیر گرفتار کیا گیا۔مگر سوال یہ ہے کہ نیب کی گزشتہ کارکردگی کیا ہے؟ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ، ضمنی انتخابات سے پہلے ہی کیوں گرفتار کیا گیا؟ کیا یہ گرفتاری انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوگی؟کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ انتخابات میں ہارنے کے خوف سے گرفتاری عمل میں لائی گئی ہو؟ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں۔ موجودہ حکومت صدق دل سے احتساب کا عمل چاہتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ، احتساب صرف ایک پارٹی تک ہی محدود کیوں؟کیا دیگر پارٹیوں میں موجود وزراء اور منتخب نمائندے بھی نیب و دیگر کیسوں میں ملوث نہیں؟نیب کی لسٹ میں موجود ، زلفی بخاری، علیم خان،پرویز خٹک ، پرویز الہی اور دیگر نمائندوں کو کیوں نہیں بلایا جا رہا؟ کیا نیب کے پاس ان کے لئے وقت نہیں؟ عوام ایسا احتساب ہر گز نہیں چاہتی ،جس میں ایک ہی جماعت کو نشانہ بنایا جائے۔ سب کا احتساب چاہتی ہے ،نہ کہ صرف حدفی احتساب۔عوام ہر گز یہ نہیں چاہتی کے پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ضرور ڈالا جائے۔مگر عوام کو بتایا جائے نیب والے کب آصف زرداری اور شجاعب حسین کو بلا رہے ہیں؟ کب بیرون ملک موجود پرویز مشرف کا احتساب ہوگا؟عوام تو چاہتی ہے کہ، جلد از جلد ملک کو نقصان پہنچانے والے سلاخوں کے پیچھے ہوں۔ چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں۔اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اسے انتقامی سیاست سمجھا جائے ؟روایتی سیاست کو ہر گز احتساب کا رنگ نہ دیں ۔احتساب کے لئے کچھ نیا کرنا پڑے گا ۔اپنی صفوں سے بھی صفایا کرنا پڑے گا۔پشاور میٹرو جس کی لاگت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔کیا اس منصوبے کا فرانزک آڈٹ ضروری نہیں؟ احتساب کی جیسی فضا آج چل رہی ہے۔ایسی ہی فضا گزشتہ ادوار میں بھی چلتی رہی ہے۔گزشتہ منتخب حکومتوں اور آمروں نے اداروں کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کیا ہوتا۔تو آج ہمارے اداروں پر سوالیہ نشان نہ ہوتا۔ویسی ہی غلطی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔موجودہ حکومت کی طرف سے احتساب کی فضا صرف سیاسی حدف حاصل کرنے کا شاخسانہ نظر آرہی ہے۔وریراعظم صاحب اگر واقعی احتساب چاہتے ہیں، تو پارٹیوں کی تفریق کئے بغیر ہر رنگ کی پارٹی کے شخص کو جو مطلوب ہو، کٹہرے میں لایا جائے۔چاہے اپنی ہی پارٹی کا کیوں نہ ہو۔ ابھی عوام موجودہ حکومت پر اعتماد کرتی ہے، اور امید کرتی ہے کہ یہ گزشتہ ادوار کی طرح لوگوں کو حدف بنا کر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کریں گے۔بلکہ صدق دل سے سیاسی انتقام، پارٹی، اور ذاتی مفادات کو پرے رکھ کر احتساب کے عمل کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔اگر موجودہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو اس میں او ر جنرل مشرف کے دور میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ بہت سے شکوک و شبہات جنم لیں گے۔اگر حالات ایسے ہی رہے تو حکومت سے عوام کا اعتماد جلد اٹھ جائے گا۔</span><br style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;" /><span style="background-color: white; color: #555555; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: right;">۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-61782667945927919582018-09-30T07:30:00.004-07:002018-09-30T07:30:24.050-07:00تبدیلی کہاں ہے؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span></b><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></b></div>
<b><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /></b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ہم سب بھی دنیا میں موجود ایسی قوم کا حصہ ہیں،جن کی اکثریت عملی لحاظ سے سست اور کاہل ہے۔ایسی قوم جس نے بڑے قابل ، زہین اور تاریخ دان دیئے ہوں۔مگر اس کی اکثریت عملی لحاظ سے سست اور زبانی کلام میں درجہ اول کی ہو۔ہمیشہ اکثریت کی بدولت اقلیت کو پنپنے کا خاص موقع ہی نہیں ملتا۔مجموعی لحاظ سے ہم خاصی الجھی ہوئی قوم ہیں۔لیڈرشپ کا فقدان واضح ہے۔اپنی سمت خود تعین کرنے سے عاری، بنے بنائے راستوں پر چلنے کی عادی قوم۔شاید دنیا میں ایسی ہی اکثریت ہو ۔مگر ہم بھی وہی قوم ہیں، جن کو واویلہ مچانا خوب آتا ہو۔کامل یقین سے عاری، اور بے یقینی سے پیوستہ۔بے یقینی ہمیشہ وسوسوں کو جنم دیتی ہے۔وسوسے افراتفری کو فروغ دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عمل سے عاری قوموں میں ہمیشہ مایوسی ہی جھلک رہی ہوگی۔شکایات کے انبار نے زہنوں پر منفیت کو مصلت کیا ہوگا۔’اللہ اتنی دیر تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود نہ چاہے‘۔یہاں چاہنے سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ کوئی خلائی مخلوق آئے اور سب بدل جائے۔حقیقی تبدیلی عوام ہی لا سکتی ہے۔عمل سے،تحمل سے اور دانائی سے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ،ہم کسی ایک نظریے پر چلتے ہی نہیں۔ہماری باتوں اور عمل میں بڑا تضاد موجود ہے۔شاید ہم زمانے کی رفتار کو صحیح سمجھ نہیں پائے۔بطور پاکستانی عوام ہم سب عمل سے عاری ہیں۔اول درجے کے بے صبر۔تحمل وبرداشت شاید قریب سے بھی نہ گزری ہو۔البتہ باتوں سے ہم خود کو بڑے درجے کے دانشور و دانا ظاہر کرتے۔مگر عملی میدان میں ہماری دانائی گہری نیند سو جاتی ہے۔بات پاکستان کی موجودہ حکومت کی ہو۔چند مہینے پہلے بڑی دانائی کی باتیں کر رہے تھے۔واقعی خود کو عوام میں اول درجے کے دانا بھی ثابت کر چکے۔یہی وجہ ہے کہ آج حکومت میں ہیں۔تحمل و برداشت تو پہلے ہی سے دور رہی ۔مگر ایک دانائی کا ہی سہارا تھا ،جس کی بدولت حکومت ملی۔تبدیلی کے بڑے دعوے۔سو دن میں ملکی قسمت بدلنے کے کرتب۔کرپشن کا دنوں میں ہی جڑ سے سوکھ جانا۔بیرون ملک موجود پاکستانی رقم کی وطن واپسی کی کامیاب ترین ترکیبیں۔قومی کرکٹ ٹیم پر سے وزیراعظم کے اثر ات کا خاتمہ۔رشتہ داروں اور دوستوں کو وزارتوں سے پرے رکھنا۔وزراتی پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کی دوا۔نوجوانوں سے بھرے ایوان۔پڑھا لکھا ایوان ہمارا۔پروٹوکول کو غائب کرنا۔سائیکل کو جہاز کا درجہ دینا۔پٹرول کو پانی کی طرح عام کرنا۔مہنگائی کی کمر توڑ دینا۔آئی ایم ایف سے نظر چرانا۔ملک کو خودمختار بنانا۔دوسرے ملکوں کو قرض دینا۔ایسے دعوے ہرگز کسی بنگالی بابا نے نہیں کئے تھے۔ بلکہ ہماری ہونہار موجودہ حکومت نے کئے تھے۔ایسے ہی کچھ کرتب اور ترکیبیں 2013 کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ نواز نے بھی بتائی تھیں۔اس سے پہلے یہ کرتب دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی بتائے گئے ہوں گے۔تو تبدیلی کہاں گئی؟ہو سکتا ہے، تبدیلی الیکشن کی تھکاوٹ اتار رہی ہو۔الیکشن کے بعد وہی رویہ حکومت کا ہے ،جو ماضی کی حکومتوں کا رہا۔وہی رویہ اپوزیشن کا ہے، جو ماضی میں اپوزیشن کا رہا۔تو بدلاؤ کہاں ہے؟فواد چوہدری اور مشاہداللہ کا ایک دوسرے پر تنقید کرنا، بھی تبدیلی کا حصہ نہیں۔بلکہ ہر گز نہیں ،ماضی میں ایسی تنقید خود عمران خان، خواجہ آصف،عابد شیر اور مراد سعید اور دیگر بھی کرتے رہے ہیں۔الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پہلے بھی تھے ،اور اب بھی ہیں۔اپوزیشن کی حکومت کا دنوں میں بستر گول کرنے کی دھمکی، بھی تبدیلی کا حصہ نہیں۔ایسا تو گزشتہ معروف دھرنوں میں بھی ہوتا رہا ہے۔عوام کا حکومت کو منتخب کر کے جلد بدگمان ہو جانا، بھی ہر گز نیا نہیں۔ایسا بھی ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہے۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر ملکی امور کو روکنا،پہلے بھی ہماری فطرت میں شامل تھا ،اور اب بھی ہے۔حکومتی اکڑ پہلے بھی تھی، اور اب بھی ہے۔تنقید برائے تنقید پہلے بھی تھی ،اور اب بھی ہے۔عہدوں کی بندر بانٹ پہلے بھی تھی ،اور اب بھی ہے۔تو بدلا کیا ہے؟کچھ نہیں۔صرف طریقہ واردات کے علاوہ۔گزشتہ حکومت نے چار دن تنخواہیں نہ لینے کے دعوے کر کے عوام کو بے وقوف بنایا تھا۔اب کی حکومت بھینسیں بیچ کر خوب داد وصول کر رہی ہے۔میں اس فقرے سے بالکل متفق ہوں’ جیسی عوام ویسے حکمران‘۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">یاد رکھئے !کہ اتنی دیر تک کچھ نہیں بدلے گا ،جب تک ہم نہیں بدلیں گے۔ہمیں اپنے اندر مثبت سوچ کو جذب کرنا ہوگا۔منفیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔صبر کے پیمانے کو وسیع کرنا ہوگا۔تحمل و برداشت سے آشنا ہونا پڑے گا۔ذاتی انا کو پرے رکھ کر غلط کو غلط اور درست کو درست کہنا ہوگا۔اپنی منتخب کردہ حکومت اور نمائندے پر یقین کرنا ہوگا۔انہیں وقت دینا ہوگا۔تنقید کرنا ہوگی مگر جائز تنقید۔پارٹیوں کی گرفت سے نکل کر محب وطن پاکستانی بننا ہوگا۔جائز تنقید سننا ہوگی۔چاہے خود پر ہی کیوں نہ ہو۔کسی کی مخالفت میں گھٹیا جملوں اور پرپیگنڈہ سے اجتناب کرنا ہوگا۔اگر حکومت غلط ڈگر پر ہو تو مل کر پوری قوم کو مخالفت کرنا ہوگی۔اگر اپوزیشن غلط کرے تو سب کو مل کر اسے براکہنا ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں کی محبت سے نکل کر ملکی سلامتی کا سوچنا ہوگا۔سیاسی ورکر بننے کی بجائے ملکی ورکر بننا ہوگا۔حق کا ساتھ دینا ہوگا۔جتنا بھٹو گے اتنا بھٹکو گے۔چھوٹی سی مثال آخر پر ،اس گاؤں کا کام کوئی سیاستدان نہیں کرتا ۔جس کی عوام مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوجائے۔کیوں کہ اس گاؤں کی نظریاتی تقسیم کی بنا پر ووٹ کی قدر ختم ہوجاتی ہے۔عوام کو اپنی قدر بڑھانا ہوگی ،متحد ہوکر۔ورنہ! تبدیلی لفظ کو بھول جاؤ۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">شعر کو زرا مروڑنے پر معزرت</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">یہاں بدلی ہے نہ عادت حکومت کی ،نہ ہی اپوزیشن کی</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">وہی ہے بے صبرعوام ،اس میں ہر گز کوئی تبدیلی تو نہیں</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-77070354641942868202018-09-16T03:22:00.003-07:002018-09-16T03:22:44.311-07:00بے روزگار انجینئرز <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;"><b>چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری مکینیکل انجینئر اور وائس وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</b></span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></b></div>
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">اعزاز جیسے کتنے ہی انجینئرز ہوں گے جنہوں نے انٹرمیڈیٹ میں سخت محنت کی بدولت انجینئرنگ یونیورسٹیز میں داخلہ لیا ہوگا۔یہ لمحات واقعی ان کے اور گھر والوں کے لئے مسرت کا باعث بنے ہوں گے۔والدین کے چہروں کی چمک عیاں ہوتی ہوگی۔بہت سی امیدوں اور خوابوں کی تعبیر میں، کامیابی کی راہ پر گامزن !ان کی آنکھوں کے تارے گھر کے آنگن کو روشن کر رہے ہوں گے۔جوں توں کر کے ،قرض اٹھا کر، مزدوری کرکے ،زیورات بیچ کر، یا پراپرٹی بیچ کر چار سال کی فیسیں اتاری ہوں گی۔یہ کٹھن وقت والدین نے بڑی ہمت اور آس و امید سے گزار دیا ہوگا۔ڈگری مکمل ہونے پر’ کنووکیشن ‘کے موقع پر والدین کو اپنے چمکتے ستاروں کی مسکراہٹ میں اپنے خوابوں کی تکمیل نظر آرہی ہو گی۔باعث فخر سارے خاندان کو مٹھائیاں کھلائی ہوں گی ،مبارکبادیں وصول کی ہوں گی۔مگر وقت کی رفتار تھی کہ کم نہ ہوئی نہ ہی ان مسرت بھرے لمحات کا دورانیہ بڑھا۔کچھ عرصہ گزرا کہ چند انجینئرز ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ٹرینی انجینئرز بھرتی ہوگئے۔کچھ کی سیاسی وابستگی اور شناسائی کام آگئی۔کچھ کے والدین نے ہمت بڑھاتے ہوئے اپنے ستاروں کو مزید پڑھنے کے لئے بیرون ملک اور پاکستان میں داخلہ کر وا دیا۔اب آخری قسم کے انجینئرز جن کی تعدا د شاید سب سے زیادہ ہے۔یہ درمیانے طبقہ سے ہوتے ہیں، اور درحقیقت ان کے والدین اپنی ساری جمع پونجی حتی کہ قرض لے کر بھی ان کی تعلیم پر صرف کر چکے ہوتے ہیں۔اب انہی انجینئرز پر بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔عرصہ گزرتا ہے،مسلسل ناکامی کے باعث بہت سے اپنی فیلڈ بدل کر سکول ٹیچر بن جاتے ہیں ،سیلز مین بن جاتے ہیں،اور یہاں تک کہ سی ایس ایس جیسے مقابلے کے امتحانوں کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔زہنی دباؤ ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ڈپریشن میں اضافہ کے لئے رشتہ داروں کی پوچھ گیچھ جلتی پہ تیل کا کام انجام دیتی ہے۔ایسے مشکل حالات اور ڈپریشن کی حالت میں بہت سے انجینیئرز غلط راہ اختیار کرتے ہیں۔باقی بچنے والے انجینئرز کی قسم اعزاز والی ہے۔اعزاز راولپنڈی سے نسٹ سے مکینیکل انجینئرنگ گریجوئیٹ تھا۔ جس نے مسلسل نوکری نہ حاصل کر نے پر زہنی دباؤ و ڈپریشن سے ہمیشہ نجات کے لئے اکتوبر 2017کوخودکشی کا راستہ اختیار کیا۔ایسے مزیدکم ہمت نوجوان ہیں، جو خود کو الجھنوں سے آزاد کر کے والدین کی آنکھوں کا نور ہمیشہ کے لئے بے نور کر جاتے ہیں۔یہ واقعات ہماری حکومت ومعاشرے کی بد انتظامی کوعیاں کرتے ہیں۔دنیا بھر میں انجینئرنگ و ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ سر فہرست ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ ، روس، انگلینڈ ، چائنہ، جرمنی، اور جاپان وغیرہ دنیا میں نمایاں ہیں۔ مگر ہمارا نظام تو یکسر مختلف ہے۔ہمارے ہاں انجینئرز تھوک کے حساب سے تول کر بک رہے ہیں مگر پھر بھی خریدارانہیں خریدنے سے قاصر ہیں۔آج ہمارے انجینئرز یونیورسٹیز میں بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر دنیا بھر میں نام کما رہے ہیں۔مگر ہماری حکومتیں بڑے پراجیکٹس پر اپنے انجینیئرز کو موقع دینے سے قاصر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے شہر کراچی اور لاہور جتنے بڑے ممالک بھی مختلف مقامات پر ہم سے بہت آگے ہیں۔ہماری حکومت اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کی ناکامی کی انتہا یہ ہے، کہ آج تک 2015 ,2016,2017کے انجینئرز فریش ہیں،اور ٹرینی انجینئرز کی پوسٹوں پر اپلائی کر رہے ہیں۔آج بھی پاکستان بھر سے پچاس ہزار کے قریب انجینئرز بے روزگار ہیں۔حکومت اور پی ای سی ہمیشہ سے ’جاب پلیسمنٹ ‘میں ناکام رہی ہے۔ڈسکاؤنٹ جیسے جھوٹے بہلاوے دیے جا رہے ہیں۔کیا فائدہ ایسے ڈسکاؤنٹ کا اگر سپر وائزری سرٹیفیکیٹ حاصل کر کے بھی روزگار نہیں ملنا؟ جب روزگار ہی نہیں تو کیا خریدیں کیسے ڈسکاؤنٹ استعمال کریں؟ہماری حکومتوں کا المیہ یہ ہے، کہ انہیں’ چیک اینڈ بیلنس‘ نام سے آشنائی ہی نہیں۔کوئی خبر و علم نہیں کہ کیسے اداروں کو کنٹرول کرنا ہے۔ہماری ہاں ڈیمانڈ کہاں ہے۔بھائی جتنی گنجائش ہے جس شعبے میں اسی حساب سے یونیورسٹیز کو سیٹیں آلاٹ کرو۔اگر ’سپلائی و ڈیمانڈ‘ کا علم ہی نہیں ہوگا ،تو ہمارے ادارے عدم توازن کا ہی شکار رہیں گے۔ہماری حکومتیں جب بڑے پراجیکٹس پر فارن انجینئرز اور ورکرز کو لگاتی ہیں، تو انجینیئرز کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔طرح طرح کے سوال جنم لیتے ہیں۔کیا ہمارے انجینئرز قابل نہیں؟ اگر ایسا ہے تو بیرون ملک جا کر یہ کامیاب کیوں ہو جاتے ہیں؟ہمارے ہاں بہت سی کمپنیاں سوائے چند ملٹی نیشنل کے فریش انجینئرز کو بھرتی ہی نہیں کرتیں۔بھائی کہاں سے لائیں یہ تجربہ موقع نہیں دو گے تو تجربہ کہاں سے آئے گا۔اگر کوئی کمپنی فریش انجینیئرز کی پوسٹ نکالے بھی تو چھ ماہ کا تجربہ مانگ لیتی ہے۔بہت سی چھوٹی کمپنیوں میں انجینئرز مزدوروں سے بھی کم اجرت پر کام کررہے ہیں۔ایسے میں انجیئرز کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوگا۔ یہ حالات تو ان انجینیئرز کے ہیں جو پاکستان انجینیرنگ کونسل سے رجسٹرڈ ہیں۔ آپ خود سوچ لیں کہ، وہ انجینئرز اور ٹیکنالوجسٹ جو انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ نہیں انکی بے بسی کا کیا عالم ہوگا؟کیابڑھتا ڈپریشن خودکشی کے لئے کافی نہیں؟کیا ہمارا نظام و معاشرہ بلو وہیل جیسی خونی گیموں سے زیادہ بھیانک نہیں؟کیا یہی قصور ہے ان انجینئرز کا کہ انہوں نے سوچا کہ اپنے وطن کی ترقی کے لئے انجینئرنگ و ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ میں کام کریں گے؟کون ان کی بے روزگاری کا حل نکالے گا؟کیا کروڑوں نوکریوں میں ان کا بھی کوئی حصہ بنتا ہے؟کیا لاکھوں گھروں میں انہیں بھی کوئی گھر ملے گا؟یا یونہی ہر سال حکومت نے اپنا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نظر کرنا ہے؟وقت ہے کہ ملک کا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نظر ہونے سے بچایا جائے۔ اس سرمائے کو، ان کی جوان ہمت کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے۔ذرا سوچئے!</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-19692195181239383802018-07-15T00:21:00.001-07:002018-07-15T00:21:11.492-07:00الیکشن اور ضلع گوجرانوالہ کی سیاسی و انتخابی صورتحال<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div name="str" style="direction: rtl; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">
<br /><b>چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
</b><br />گوجرانوالہ پہلوانوں کا شہر،خوش خوراک لوگوں کا مسکن،حسن پرستوں اور مہمان نوازوں کا گھر ہے۔گوجرانوالہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔جو رقبہ کے لحاظ سے3198kmsqپر پھیلا ہوا ہے۔شہر کی کل آبادی 2238243نفوس پر مشتمل ہے۔گوجرانوالہ کو صنعتی لحاظ بڑا درجہ حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ، پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی میں گوجرانوالہ کی 5%شراکت ہوتی ہے۔ضلع گوجرانوالہ کی بات کی جائے تو اس میں شہر کی دو تحصیلوں(صدر،سٹی) کے ساتھ دیہی علاقوں کی تحصیلوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس میں کامونکی ،وزیر آباد اور نوشہرہ ورکاں شامل ہیں۔رقبہ کے لحاظ سے ضلع کی حدود3622kmsqتک پھیلی ہوئی ہیں۔جبکہ ضلع کی کل آبادی5014196نفوس پر مشتمل ہے۔سیاست کی بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ ،گوجرانوالہ کی بھولی عوام ہمیشہ سے اپنے نمائندے چننے میں فہم و فراست سے کام نہیں لیتی۔یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ جیسا بڑا ضلع آج بھی بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔قومی اسمبلی کی نشتوں کی بات کی جائے تو، گوجرانوالہ ضلع چھ قومی حلقوں پر مشتمل ہے۔حلقہ بندیوں سے پہلے نشتوں کی تعداد سات تھی ،جو اب کم ہوکر چھ رہ گئی ہے۔اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشتوں کی تعداد 14ہے۔قومی اسمبلی کے حلقے 79سے لے کر84 تک جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقے51سے لے کر 64تک ہیں۔گوجرانوالہ کو جی ٹی روڈ کی سیاست کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جو ماضی میں حکومتوں کی تخلیق میں اہم کردار نبھاتا رہا ہے۔ گوجرانوالہ ماضی میں مسلم لیگ ن اور ق کا گڑھ رہ چکا ہے ،بلکہ گوجرانوالہ کو اب بھی مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔مگر الیکشن 2018کی بات کی جائے تو صورتحال بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔الیکشن سے عین قبل مسلم لیگ ن کے دو ایم این ایز رانا عمر نذیر اور میاں طارق کا پارٹی کو خیر آباد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہونا ،اور اپنے ساتھیوں اور حلقے پر اثر انداز ہونا۔ تحریک انصاف کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔اسی بنا پر تحریک انصاف اب مسلم لیگ کے لئے آسان حدف نہیں رہا۔اور آل صورتحال میڈیا ایجنسیز کے سروے اور ہماری اپنی تشخیص کے مطابق اندازہ لگایا جائے تو ;گوجرانوالہ کے ووٹرز کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے۔مسلم لیگ ن 45%تحریک انصاف39%باقی تیسری پوزیشن تحریک لبیک اور آزاد امیدوران جبکہ چوتھی پوزیشن پی پی پی کی ہوگی۔ضلع کے ہر حلقے میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔گوجرانوالہ کے حلقہ NA79 کی بات کی جائے تو یہ حلقہ تحصیل وزیر آباد اور علی پور ٹاؤن کے علاقوں پر مشتمل ہے ۔جس کی کل آبادی830396نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر نثار چیمہ ہیں جو سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ اور سابق ایم این اے افتخار چیمہ کے بھائی ہیں۔افتخار چیمہ اسی حلقہ سے دو دفعہ2008اور2013میں ایم این اے منتخب ہو ئے تھے۔جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار احمد چٹھہ ہیں ۔ جو سابق اسپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے ہیں۔اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔تاہم پی ٹی آئی کے جیتنے کے چانسز زیادہ ہیں۔اس حلقہ کے زیر نگیں صوبائی اسمبلی کے حلقہً PP51,52 پر کانٹے کامقابلہ متوقع ہے۔حلقہNA80کی بات کی جائے تو یہ حلقہ گوجرانوالہ کینٹ راہوالی قلعہ دیدار سنگھ اور شہر کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔جس کی کل آبادی833310نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار محمود بشر ورک ہیں۔جو سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔پی ٹی آئی کے امیدوار میاں طارق محمود ہیں ۔جو سابق ایم این رہ چکے ہیں اور کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے تاہم الیکشن سے قبل جیت کا اندا زہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہاں ففٹی ففٹی چانسز ہیں۔تاہم اس کے زیر نگیں صوبائی نشتوں PP53,62پر پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔حلقہNA81کی بات کی جائے تو یہ گوجرانوالہ شہر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ جس میں سیٹلائٹ ٹاؤن اورپیپلز کالونی کے علاقے بھی شامل ہیں۔جس کی کل آبادی852472نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار خرم دستگیر ہیں ۔جو سابق ایم این اے دستگیر خاں کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر ہیں۔دستگیر خاندان عرصہ درازسے ہی گوجرانوالہ سے یہ نشست جیت رہا ہے۔خرم دستگیر کے مد مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار صدیق مہر ہیں۔اس حلقہ میں خرم دستگیر گروپ کافی مضبوط ہے اور ان کے جیتنے کے امکانات واضح ہیں۔تاہم اس کے زیر نگیں صوبائی نسشتوںPP54,58 پر کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔خصوصی تور پر PP54جہاں پومی بٹ کے بھائی عمران خالد بٹ مسلم لیگ ن اور سابق میئر اسلم بٹ کے بیٹے رضوان اسلم بٹ پی ٹی آئی کی طرف سے مد مقابل ہیں۔اندرون شہر کی اس نسشت پر مقابلہ بازی زور و شور سے جاری ہے۔ دونوں ہی گروپ خاصے مقبول اور مضبوط ہیں۔ یہاں مقابلہ ففٹی ففٹی ہے، اسی لئے اس صوبائی نشت کے نتائج کے بارے کچھ کہنا جلد بازی ہوگی ۔حلقہNA82 گوجرانوالہ کا سب سے بڑا حلقہ ہے ۔جس کی کل آبادی867382نفوس پر مشتمل ہے۔اس حلقہ میں گوجرانوالہ میونسپل کارپوریشن اور ضلع گوجرانوالہ کے مختلف علاقے شامل ہیں۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق وفاقی وزیر عثمان ابراہیم ہیں ۔جبکہ ان کے مد مقابل سپر ایشیاء گروپ کے مالک علی اشرف مغل ہیں۔تاہم اس حلقے میں عثمان ابراہیم کے جیتنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔اس کے زیر نگیں صوبائی نشستوں PP55,56پر بھی مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔حلقہ NA83تحصیل کامونکی،ٹاؤن سادھوکی،تلونڈی موسی خان،منڈیالہ میر شکاراں، کوہلوال، اور گوجرانوالہ شہر کے دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔اس کی کل آبادی837017نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم پی اے ذوالفقار علی بھنڈر ہیں۔جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے امیدوار سابق وفاقی وزیر رانا نذیر احمد خاں ہیں۔رانا نذیر گروپ اس حلقہ میں خاصہ مقبول ہے اور سات دفعہ اس حلقہ سے ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔موجودہ الیکشن میں کانٹے کا مقابلہ ہو سکتا ہے ۔تاہم مختلف زرائع کے مطابق رانا نذیر گروپ کے جیتنے کے چانسز واضح ہیں۔اس حلقہ کے زیر نگیں صوبائی اسمبلی کی نشستوںPP59,60,61پر کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔خصوصی تور پر PP60جہاں پر مسلم لیگ ن کی طرف سے سابق ایم پی اے قیصر سندھو اور پی ٹی آئی کی طرف سے سابق ایم پی اے ظفراللہ چیمہ مد مقابل ہیں۔ یہاں مقابلہ ففٹی ففٹی ہے اسی لئے قبل از وقت کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔حلقہNA84یہ گوجرانوالہ کا آخری حلقہ ہے۔جوتحصیل نوشہرہ ورکاں، ایمن آباد ٹاؤن اور گوجرانوالہ میونسپل کارپوریشن کے مختلف علاقوں پر مشتمل ہے۔اس کی کل آبادی793857نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوارسابق ایم این اے اور حاجی مدثر قیوم ناہرہ کے بھائی اظہر قیوم ناہرہ ہیں۔جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار سابق ایم این اے بلال اعجاز ہیں۔اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔اس کے زیر نگیں صوبائی نشستوںPP63,64پر مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔تاہم PP63جہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق صوبائی وزیر اقبال گجر اور تحریک انصاف کے امیدوار سابق ایم این اے راعمر نذیر کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔<br />قارئین یہ تھی ہماری رائے مگر اصل نتائج تو 25جولائی کو ہی سامنے آئیں گے۔<br />گوجرانوالہ کے ووٹروں کی بات کی جائے تو آج بھی لوگ گلیوں ،نالیوں، سوئی گیس اور تھانے کچہریوں کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں سیاسی فہم نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ اندرون شہر میں لوگوں کی کچھ تعداد سیاسی بصیرت رکھتی ہے۔مسائل کی بات کی جائے تو سنٹرل پنجاب کے اس ضلع میں آج بھی تعلیم اور صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔شہر آج بھی بڑی سرکاری یونیورسٹی سے محروم ہے۔ایک سول ہسپتال ہے۔ جہاں مناسب سہولیات نہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹرز سیریس مریضوں کو لاہور ریفر کردیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔امن وامان کی صورتحال ضرور بحال ہوئی ۔تاہم کاروبار و زراعت آج بھی ویسے ہی ہیں۔چھوٹے کسان مسائل کی گرفت میں ہیں۔روزگارکے مواقع کم ہیں۔سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے آمدورفت کافی بہتر ہوئی ہے ۔تاہم محلوں گلیوں میں آج بھی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔گنجان آباد محلوں اور دیہاتوں میں سیوریج کے مسائل ہیں۔اہم گزرگاہ کنگنی والا پل جو شاید زمانہ انگریز سے بنا ہوا ہے۔اس پل کی ازسر نو تعمیر بہت ضروری ہے۔اس کے علاوہ دیہاتوں کے ساتھ ساتھ شہر کے بھی اکثر علاقوں میں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔اس کے علاوہ نہ جانے کتنے مسائل جو برسوں سے چلے آرہے ہیں نمائندوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔<br />گوجراونوالہ کے پہلوانوں،حسن پرستوں اور بھولے بھالے لوگوں سے گزارش ہے کہ، اس بار ضرور دیکھ بھال کر ووٹ دیں اور 25جولائی کو اپنا فیصلہ سنا دیں۔</div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-11739307704045462142018-04-29T02:48:00.003-07:002018-04-29T02:48:40.783-07:00بجٹ و ترقیاتی سروے حقیقت میں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;"><b>چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینئر،پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ممبر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں</b>۔</span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<br style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">گزشتہ روز پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کے وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل نے اپنی حکومت کی طرف سے آخری بجٹ2018-19پیش کیا ۔جس کا حجم 59کھرب32ارب50کروڑ روپے مختص کیا گیا۔جس میں ترقیاتی بجٹ 20کھرب143ارب جبکہ پی ایس ڈی پی کے لئے 800ارب روپے مختص کئے گئے۔وزیر خزانہ نے اپنی حکومت کی طرف سے ترقیاتی کارکردگی پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔بتایا گیا کہ مجموعی ترقی کی شرح 5.4فیصد ہے۔مارچ تک کے سروے کے مطابق افراط زر3.8فیصد رہا، جبکہ شرح نمو 13سال کی سب سے زیادہ سطح پر پہنچ کر5.79فیصد ہوگئی۔اسی طرح حکومت کے مطابق ٹیکس وصولیوں میں پانچ سال کے دور حکومت میں 2ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔گزشتہ پانچ سال میں33ہزار 285کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔وغیرہ وغیرہ۔موجودہ حکومت سے معصومانہ سوال ہے کہ اتنا سب کچھ بہتر ہونے کے باوجود عام عوام کیوں ناخوش ہے؟کیوں غریب !غریب تر ہوتا جا رہا ہے؟آج بھی لاکھوں لوگ بے روزگار کیوں ہیں؟کیا 2ہزار ارب کے ٹیکس سے کوئی بھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کہ بے روزگاری کم ہو؟کیا ہزاروں نئی رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں میں بے روزگار لوگوں کے لئے کوئی نوکری نہیں؟کیاان پانچ سالوں میں ملک میں حالات سے مجبور بے روزگار لوگوں کے لئے بھی کوئی ادارہ بنا یا گیا، کوئی منصوبہ بندی کی گئی؟نہ جانے ترقی کہاں ہورہی ہے۔شاید اشرافیہ کی نظر میں ہو رہی ہو۔کیوں کہ انہیں تو گاڑیوں کے ٹیکس میں چھوٹ مل رہی ہے۔ان کے لئے معیاری سڑکیں بن رہی ہیں۔غریب کے لئے تو روزگار کا حصول ہی افضل ہے۔</span><br style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">مانتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بہت اچھا بجٹ پیش کیا۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھا دیں پنشرز کی پنشنز میں اضافہ ہوگیا۔کھاد بنانے والی کمپنیوں کے لئے ٹیکس میں چھوٹ ہو گئی۔زرعی مشینری پر عائد ٹیکس کم ہوگیا۔الیکٹرک گاڑیوں پر عائد ٹیکس ختم کر دیا۔دودھ مکھن پنیر مچھلی مرغی کی خوراک سستی کر نے کا اعلان کردیا۔ایل این جی لنڈے کے کپڑے جوتے اور میٹرس وغیرہ بھی سستے کرنے کا اعلان کردیا۔کینسر کی ادویات،ایل ای ڈیز اور قرآن پاک کی طباعت والے کاغذ پر بھی عائد ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان۔ہائبرڈ گاڑیوں پر ڈیوٹی کم کر کے 50سے25فیصد کردیا۔وغیرہ وغیرہ۔بہت ہی اچھا اقدام ہے، اور پاکستان کی ترقی کے لئے ایسے اقدامات ضروری ہیں۔مگر معصومانہ سوال پھر وہی ہے کہ ،بے روزگاروں کے لئے کیا !کیا گیا؟پاکستان 21کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہے۔جس میں سے اکثریت غربت کی زندگی بسر کرہی ہے۔بہت سے لوگوں کو تو ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کا کچھ علم نہیں کہ یہ کیا ہیں۔بہت سے تو گاڑی خرید ہی نہیں سکتے۔دنیا بھر میں ملک کی اکثریت عوام کاپیشہ سرکاری ملازمت ہوتاہے ۔مگر ہمارے ہاں اکثریت عوام پرائیویٹ سطح پر کام کرتی ہے۔سب سے بڑی معیشت زراعت کا حال دیکھ لیجئے چھوٹے کسان ذلت امیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں قرضوں کا بوجھ ہے کہ ان کے سروں پر منڈھلاتا رہتا ہے۔ اب ایسے میں ،کیا بھوکے ننگھے کسان زرعی مشینری امپورٹ کریں گے۔آپ کے دور حکومت میں صرف کسانوں کو ایک ہی فائدہ ملا جو عام عوام تک بھی پہنچا وہ تھا کھاد پر براہ راست سبسڈی مگر اب کھاد پر 10ارب کی سبسڈی کو ختم کر کے اس کے لئے صرف ایک ارب ہی مختص کرنا سراسر زیادتی ہے۔سرکارنے کینسر کی دوا تو سستی کردی مگر کینسر ہسپتال بنانا شاید ضروری نہیں سمجھا۔اکیس کروڑ عوام میں اتنے زیادہ ہسپتالوں کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی شاید!</span><br style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چلیں ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں سے سب سے بہتر بجٹ پیش کیا گیا۔یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس میں غرباء اور ملازمین کے لئے بڑی رعائتی جھلک نظر آ رہی ہے۔مگر معصومانہ سوال ہے کہ ایسا بجٹ گزشتہ پانچ سالوں میں کیوں پیش نہیں کیا گیا؟اب جب کہ حکومت کی مدت میں دو ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے اتنا عوام دوست بجٹ کتنا معنی خیز ہوگا؟ دو ماہ کی مہمان حکومت کا پورے سال کا بجٹ پیش کرنا اور پھر اپنے دور حکومت کا سب سے اچھا بجٹ !آخر یہ معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے۔کہیں حکومت ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی کوشش میں تو نہیں؟یعنی بجٹ سے عوام خوش اور الیکشن کمپین بھی باخوبی۔یا پھر پیپلز پارٹی کی طرح بجٹ تو نام کا ہے اصل میں مختص رقم تو الیکشن لڑنے اور اپنے زیر التوا پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے ہے۔تاریخ گواہ ہے پاکستان میں ہر منتخب حکومت نے سرکاری خزانہ استعمال کر کے ووٹ خریدنے کی ہی سیاست کی ہے ،چاہے کسی آمر کی حکومت ہو یا منتخب جماعت کی۔</span><br style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">موجودہ حکومت سے بہت سے سوالات ہیں۔آج حکومت زراعت کا نام استعمال کرکے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔تعلیم اور صحت کا نام استعمال کرنا چاہتی ہے۔سی پیک کا نام تو پہلے ہی استعمال ہورہا ہے۔مگر افسوس کہ حکومت نے اپنی کسی رپورٹ میں تعلیم کی بہتری کے لئے بنائے جانے والے اسکول کالجز اور یونیورسٹیز کی تعداد نہیں بتائی۔صحت کے حصول کے لئے بنائے گئے ہسپتالوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔آخر ایسا کچھ کیا ہوگا تو رپورٹ مرتب کریں گے۔ دنیا بھر میں،لاہور شہر سے چھوٹے ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں متعدد کالجز یونیورسٹیاں اور ہسپتال موجود ہیں۔مگر ہمارے سب سے زیادہ ڈیولپ صوبہ پنجاب کا یہ عالم ہے کہ پورے صوبے کے شہروں سے عوام آج بھی لاہور کے واحد ہسپتال میں ہی علاج کے حصول کے لئے آتی ہے۔ایسا ہی عالم تعلیم کا ہے لوگ پورے پنجاب سے لاہور ہی یونیورسٹیز کے لئے آتے ہیں۔اب جبکہ حکومت دو ماہ کی مہمان ہے۔ایسے میں صحت کے لئے مختص 37ارب اور ایچ ای سی کے لئے مختص47ارب روپے سے کیا ہوجائے گا۔اکیس کروڑ آبادی کے بڑے ملک جہاں اکثریت نوجوان ہوں اور ان کی بھی اکثریت بے روزگار ہو۔ وہاں یوتھ کے لئے 10ارب بہت زیادہ نہیں وہ بھی دو ماہ کی حکومت کی طرف سے۔معصومانہ سوال ہے میٹرو بس، سڑکیں اور اورنج لائن ٹرین تعلیم وصحت کے متبادل ہو سکتی ہیں۔؟افسوس کہ حکومت زراعت ،صحت اور تعلیم جیسے بہت سے سیکٹرز کا بجٹ استعمال کر کے بھی ایک توانائی کے مسئلے کو حل نہیں کر سکی۔جتنا بجٹ موجودہ حکومت کے دور میں تعمیرات پر خرچ ہوا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سی پیک پر چائنہ نہیں بلکہ صرف پاکستان ہی خرچ کر رہا ہو۔باقی رہی بات زراعت کی تو گندم کی فروخت کے لئے باردانہ حاصل کرنے والے کسانوں کو ہی مل لیجئے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔حقیقت میں حکومت کی طرف سے پیش کیا جانے والا ترقیاتی سروے اور بجٹ صرف اور صرف عوام کو دیا جانے والا ایک بہلاوہ ہے۔باقی پاکستان کے سارے ادارے آپ کے سامنے ہیں ۔گزشتہ سالوں کی کارکردگی کا اندازہ لگاتے ہوئے موجودہ حکومت کو پرکھ لیجئے۔بجٹ کے بہلاوے میں نہ آئیے گا ۔کیوں کہ دو ماہ کی حکومت کا،سال کے بجٹ کا کوئی جواز نہیں بنتا، اور نہ ہی یہ حکومت اس بجٹ کے ثمرات عوام تک پہنچا سکتی ہے۔ذرا سوچئے!</span><span style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 12.8px;"> </span><br clear="all" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 12.8px;" /><br />
<div>
<span style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 12.8px;"><br /></span></div>
<div style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 12.8px;">
<div class="m_-4586108657926355818gmail_signature" data-smartmail="gmail_signature">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
<div dir="ltr">
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-36885786954159383592018-04-08T05:56:00.001-07:002018-04-08T05:56:22.598-07:00پی ٹی آئی کا سفر اور نوجوان کارکن<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;"><b>چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</b></span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></b></div>
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">پاکستان تحریک انصاف1996میں ایک معروف سابق قومی کرکٹر عمران خان کی کی سربراہی میں سیاسی جماعت کی صورت میں سامنے آئی۔ابتدائی مراحل میں کافی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن عمران خان نے اپنے ارادے و حوصلے پست نہیں کئے وہ ڈٹا رہا۔عمران نے 1997کے جنرل الیکشنز میں سات نشستوں پر انتخابات لڑے کسی بھی حلقے سے بھاری ووٹ حاصل نہیں کرسکے۔پھر 2002کے انتخابات میں میانوالی سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔پی ٹی آئی نے 2008کے الیکشنز کا بائیکاٹ کیا۔پارٹی 2011میں نئے عزم کے ساتھ عوام کی توجہ کا مرکز بنی۔ طلباء اورنوجوانوں میں کافی مقبول ہوئی۔الیکشنز 2013سے قبل پی ٹی آئی ایک مقبول ترین جماعت بن گئی۔عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں تیسری اور بنیادی تور پر دوسری بڑی جماعت بن گئی۔تحریک انصاف نے اس سارے عرصے میں خوب کمپین چلائی۔تحریک انصاف کے کارکن ،پڑھے لکھے باشعورنوجوان اور باہمت مڈل و غریب طبقہ نے تحریک انصاف کو حقیقی معنوں میں بام عروج تک پہنچایا۔ملک کے کونے کونے میں لوگوں میں شعور اجاگر کیا۔سب سے بڑی بات تحریک انصاف نے اپنے پلیٹ فارم سے انتخابات میں عام کارکنوں، نوجوانوں اور غریب لوگوں کو برابری کے درجے کے تحت میدان میں اتارنے کا اعلان کیا۔جسے دیکھ کر کارکنوں نوجوانوں کا جذبہ بڑھا اور ملک کے گلی کوچے میں تحریک انصاف کے تبدیلی کے پیغام کو پہنچایا۔کارکنوں نے بے انتہا محنت کی اور حقیقی معنوں میں تحریک انصاف کو ایک نئی روح و پہچان بخشی۔وقت گزرا 2013کے عام انتخابات آئے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے دوسری پارٹیوں کے مضبوط امیدواروں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ۔اپنے اس مقصد میں کچھ حد تک کامیاب بھی ٹھہرے۔پارٹی ٹکٹوں کا وقت آیا تو مضبوط اور طاقتور امیدواروں کو ٹکٹ دیئے گئے۔کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا۔جن حلقوں میں کوئی مضبوط امیدوار نہ ملا وہاں کارکنوں کو ٹکٹ بھی ملے۔ ان سارے حالات میں کارکنوں نے صبر سے کام لیا۔پارٹی قیادت کی طرف سے تسلیم کیا گیا کے ٹکٹ میرٹ پر تقسیم نہیں ہوئے۔یقین دہانی کروائی گئی کہ آئندہ باشعور اور قابل لوگوں کو ٹکٹ دیں گے۔اب جب کہ 2018کے الیکشنز کا وقت ہے تو خان صاحب پھر یوٹرن مارنے کو تیار ہیں۔خان صاحب کارکنوں نے بڑا صبر کرلیا کچھ ایسے یو ٹرنز پر</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">جیسے۔1۔شیخ رشید کواپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔شیخ رشید کی اور ہماری سوچ ایک ہی ہے۔2۔پرویز الہی پنجاب کا بڑا ڈاکو ہے۔پرویز الہی اور ہم مل کر کرپشن کے لئے لڑیں گے۔3۔آف شور کمپنی رکھنے والے چور ہیں۔میں نے کمپنی ٹیکس بچانے کے لئے بنائی۔ اور مزید بہت سے یوٹرنز جیسے پارٹی میں صاف شفاف انتخابات سے جعلی انتخابات ،کے پی کے میں احتساب سے ناانصافی تک ۔ہر محاذ پر آپ کو کارکنوں نے نہ صرف برداشت کیا بلکہ اپنی پوری کوشش و توانائی سے آپ کادفاع بھی کیا۔خان صاحب جان لیجئے کہ ایک لیڈر اور سیاستدان کے لئے اس کے ورکرز ہی ہمیشہ میدان بناتے ہیں۔اسے بام عروج تک پہنچاتے ہیں۔اس کے لئے لڑتے جگھڑتے ہیں۔اپنی خوشیاں اس کی خوشیوں پر نچھاور کر تے ہیں۔سیاستدان اگر فہم و فرواست والا ہو تو ورکروں کی عزت کرتا ہے انہیں ان کی قربانیوں کا صلہ دینے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ان کی قربانیوں کا ہمیشہ معترف رہتا ہے اور انہیں ہمیشہ سراہتا ہے۔ہر محاظ پر ان کو اعتماد میں لیتا ہے ان سے مشورہ کرتا ہے۔اگر کوئی لیڈر اپنے کارکنوں کی قدر نہ کرے تو یہ کارکنوں کا نقصان نہیں بلکہ لیڈر کی کم عقلی ہے۔یاد رکھئے کہ ورکر عزت و قدر کا بھوکا ہوتا ہے۔اگر انہیں عزت و احترام نہ دیا جائے تو وہ اپنا لیڈر بدلنے کا پورا حق رکھتے ہیں اور ایسا کر گزرتے ہیں۔جو آپ کو شہرت کی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے وہ واقعی آپ کو اس شہرت کی بلندی سے گرانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">خان صاحب آپ کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو،آپ کی جماعت یوتھ یعنی نوجوانوں کی نمائندہ جماعت تھی۔آپ نے بھی قائد کی طرح نوجوانوں کو پاکستان کے لئے متوجہ کیا۔مگر افسوس کے آپ نوجوان کار کنوں کو نہ تو عزت دے سکے نہ ہی ان کی نمائندگی کرسکے۔پی ٹی وی سنٹر حملہ ہی دیکھ لیجئے آپ کے کارکن کیسے کیسز میں ذلیل ہوتے رہے مگر آپ نے نہ تو انہیں اپنایا نہ ہی ان کی کوئی مدد کی۔انسان اگر شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتا ہے تو اس میں ہمت حوصلہ اور صبر بھی ہونا چاہئے۔خان صاحب موجودہ الیکشنز نزدیک ہیں اور آپ بھی پارٹی میں پرانے بے وفا اور آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو بھرتی کر رہے ہیں۔کہاں گئی ؟خان صاحب وہ نوجوانوں کی نمائندگی !وہ جنونی کارکن !وہ تبدیلی !کہاں گئے باشعور لوگ ،وہ طلباء ، اوروہ باہمت غریب؟۔آخر کہاں گئے؟یوٹرن کہیں انہیں بھی ساتھ بہا کر تو نہی لے گیا؟کیا پاکستان تحریک انصاف کا مقدر بھی وہی خاندانی جاگیردار مفاد پرست سیاستدان ہی ہیں جو بھرسوں سے کبھی اس پارٹی تو کبھی اس پارٹی حکومت کے مزے لے رہے ہیں؟بے وفا آزمائے ہوئے اور کرپٹ لوگوں کا ہی ٹولہ بنانا تھا تو پھر کیوں تبدیلی کے دعوے کئے؟کہاں گئی وہ’ نیا پاکستان‘ کی تحریک؟آخر میں !آ پ بھی کرسی کی خاطر جوڑ توڑ کرنے والے ہی نکلے۔تبدیلی تو چھٹیوں پر چلی گئی۔خان صاحب یاد رکھئے گا یہ بے وفا اپنی پارٹی اور لیڈروں کے قصیدے پڑھا کرتے تھے آج انہیں دھوکا دیا کل آپ کو بھی دیں گے۔ان کے لئے حکومت اور اس کے ثمرات افضل ہیں کوئی پارٹی کوئی لیڈر افضل نہیں۔خان صاحب بہادر کارکن اور نوجوان پوچھنا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو کرپٹ اور لٹیروں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟آپ کے پاس ایسا کونسا کلینر ہے جس میں سے گزر کر ہر کرپٹ کرپشن سے پاک ،ہر چور شریف اور ہر بد تمیزتمیز دار ہو جاتا ہے؟خان صاحب جواب دیجئے گا کہ آپ نے کیوں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے بزنس ٹائیکونوں کے برعکس فوزیہ قصوری، ناز بلوچ اور جسٹس وجیہہ الدین جیسے رہنماؤں کو گنوایا؟تحریک انصاف کا حقیقی نظریہ کیا ہے اور آج پارٹی اپنا نظریہ کیوں بھلا بیٹھی ہے؟کیوں غلط سمت پر گامزن ہیں؟</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">خان صاحب یہ جو آپ نے اپنے ارد گرد موجود کرپٹ نیب سے شہرت یافتہ لوگوں کے کہنے پر ایم این اے کی درخواست کے لئے ایک لاکھ اور ایم پی اے کی درخواست کے لئے پچاس ہزار کی فیس رکھی ہے۔یہ ان امیر اور دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے مفاد پرست امیروں کے لئے تو موزوں ہے۔ مگر یہ ایک عام شہری اور ورکر ایک نوجوان سیاسی سپاہی اور جیالے کے لئے بہت زیادہ ہے۔یہ غریب کارکنوں امیدواروں اور نوجوانوں کے منہ پر تو آپ کے گرد جمع امراء کا ایک طمانچہ ہے۔آخر یہ ساری سکیم اس لئے تیار کی گئی کہ کوئی ورکر اور غریب ٹکٹ کے لئے اپلائی ہی نہ کر سکے۔آپ ان آزمائے ہوئے کارتوسوں کو ضرور ٹکٹیں دیجئے اور واضح کر دیجئے کہ آپ سیاسی بازار میں زرداری ،نواز اور مولانا حضرات کے بھائی ہی ہیں۔کیا فرق آپ میں اور ان میں ؟وہ بھی کرسی کے لئے ہر طرح کی بدعنوانیاں کرنے والے امراء کو ساتھ ملاتے ہیں آپ بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔ وہ بھی جنونی و جذباتی ورکرز کا استعمال کرتے ہیں آپ بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔خان صاحب آپ ان ساری اسکیموں سے 2018کے الیکشنز تو جیت جائیں گے ،مگر عوام کے دل نہیں جیت پائیں گے۔کارکنوں و نوجوانوں کا حوصلہ ہمت سب ختم ہو جائے گا۔دوران حکومت آپ کو کوئی ڈیفینڈ کرنے والا نہیں ہوگا۔حکومت لعن تعن کا شکار رہے گی۔کارکنوں نے ساتھ چھوڑنا شروع کیا تو آپ کی حالت بھی نواز شریف جیسی ہوگی طرح طرح کے تعنے کسے جائیں گے۔ایسے حالات میں مفاد پرست ٹولہ آپ کا ساتھ دینے کی بجائے آپ کو ہی پارٹی اور حکومت سے الگ کرنے کی اسکیمیں بنائے گا۔یاد رکھئے یہ کرپٹ کبھی کرپشن سے باز نہیں آئیں گے اور نہ ہی آپ سے کنٹرول ہوں گے۔خان صاحب اب آپ کی مرضی ہے کہ عوام کا ساتھ حاصل کر کے نیا پاکستان تشکیل دینا ہے یا پھر مفاد پرست ٹولے کو ملا کر ملک کو مزید کھوکھلا کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-35496985053124003442018-04-01T05:41:00.004-07:002018-04-01T05:41:37.803-07:00ہماری سلامتی کو لاحق اندرونی خطرات<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;"><b>چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</b></span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">آج پاکستان مختلف (سیکیورٹی تھریٹس) خطرات کی وجہ سے متعدد محاظ پر الجھا ہوا ہے۔ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی سیاست کا ماحول اس کے جغرافیائی مقام کی اہمیت پر منحصر ہے۔ کسی بھی ملک کے لئے اس کے زمینی حقائق اور اثرات سے بچنا ناممکن ہوتا ہے۔اہم یہ ہے کہ کوئی ملک کیسے اپنے اوپر اثر انداز ہونے والے عوامل و دباؤ کو ہینڈل کرتا ہے۔کسی بھی ملک کی پالیسیاں بھی اس کی زمینی اہمیت پر منحصر ہوتی ہیں۔جغرافیائی لحاظ سے جنوبی ایشیاء کو بحر ہند کا ذیلی خطہ کہا جا سکتا ہے ۔پہاڑی دیواروں کی بنیاد جو کہ کرتھر بلوچستان کی حد سے خیبر پاس تک وسیع ہے۔ہمالیہ کے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ مشرق کی جانب پھر یہ تیزی سے جنوب کی طرف آرکانا یامہ کی طرف شمال مغرب سے شمالی مشرقی دیواروں تک۔ جبکہ خلیج بنگال شمال کی طرف ،مرکزی بحر ہند جنوب میں اور بحیرہ عرب مغرب کی طرف جنوبی ایشیاء کے ثقافتی زون کی حد کو مکمل کرتا ہے۔پاکستان اس خطے میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔پاکستان ایسی جکہ پر واقع ہے جہاں تین اہم علاقے آپس میں ملتے ہیں۔جیسے جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیاء اور جنوبی مشرقی ایشیاء جسے’ فلکرم آف ایشیاء‘ بھی کہتے ہیں۔ اس زمینی مقام کی بنا پر دنیا بالخصوص ایشیاء کی طاقتیں پاکستان پر اپنی نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔پاکستان نا چاہتے ہوئے بھی ایسی لڑائیاں لڑنے پر مجبور ہے جو دنیا کی سیاست کی بدولت پاکستان کے حصے میں آرہی ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں بھی اسی جغرافیائی لوکیشن کی بدولت ہیں۔پاکستان ایک ایسا رفاقتی معاشرہ ہے ،جہاں بہت سے مذہبی گروپ فقط چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدت کی انتہا تک بھٹے ہوئے ہیں۔پاکستان میں مذہب، ذات، زبان، عقیدے اور حالات کی بنا پر ایسے بہت سے تنازعات نے جڑیں مضبوط کر رکھیں ہیں جو ہماری اندرونی سلامتی کے لئے خطرات کا باعث ہیں۔یہی وجوہات پاکستان کی اقتصادی ترقی کو روکنے کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی عدم استحکام کا بھی باعث بن رہی ہیں۔درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر پاکستان کی اندرونی سلامتی ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">سیاسی نظام کی خرابی۔پاکستان میں قائد کی وفات کے بعد کوئی بڑا قومی لیڈر سامنے نہیں آیا جو ملک کو سیاسی مصلحت کے ساتھ چلا سکے۔مفاد پرست وڈیروں ،بزنس ٹائیکونوں اور سرکاری افسروں نے ملک کی سیاست میں عمل دخل شروع کر دیا اور سیاسی جمہوری نظام کی آڑ میں مفادات کے کھیل کھیلے گئے۔ایسے ملک میں اندرونی و بیرونی خطرات ہمیشہ منڈھلاتے رہتے ہیں جہاں سیاسی نظام مفلوج ہو۔یہاں جسکی لاٹھی اس کی بھینس والے قانون کے تحت آمریت و جمہوریت نامی الفاظ کی آڑ میں کم عقل کم فہم با اثر لوگ سیاست جیسے مقدس شعبے کو ملک و قوم کی مفادات کی بجائے اپنے مفادات و اثر رسوخ کے لئے استعمال کرتے ہیں جو ہمارے سیاسی نظام کی خرابی کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">غیر منظم شدہ جدیدیت۔عالمگیریت نے جہاں مغرب کو بے بہا وسائل فراہم کئے ہیں وہیں ترقی پذیر ممالک کے اقتصادی نظام میں جیسے چھید کردیا گیاہو۔ جو کسی بھی ملک کی سیاسی و سماجی بربادی کے لئے کافی ہے۔ورلڈ ٹریڈ آرڈر کے تحت مغرب نے اپنی بنی ہوئی ٹیکنالوجی کی اشیاء کو اتنا عام کیا کہ دنیا اس کی حیرت میں گم ہو گئی اور اسی کے برعکس دنیا بھر سے غذائی اجناس اور تیل جیسے بہت سے ذخیروں تک اپنی رسائی حاصل کی ۔پاکستان بھی ایسے ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جہاں الیکٹرانک کی جدید اشیاء عیش و عشرت سے مزین ہوٹل عام عوام کی توجہ کا مرکز ہیں۔مگر اپنی معیشت ،زراعت پر جیسے پردہ پڑ گیا ہو۔آج ہماری غذائی اجناس اور دوسری پراڈکٹس کی قیمتیں بہت کم ہیں جس کی بنا پر ہمارا ملک مالی مسائل کا شکار رہتا ہے اور ہماری عوام غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے روزگارموجود نہیں۔مغرب نے پاکستان کو بھی ایک منافع بخش مارکیٹ کے طور پر گردانتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں عیش و عشرت اور جیدیت کو فروغ دیا۔آج پاکستان میں لوگوں کے پاس موبائل اور کمپیوٹر ضرور موجود ہوگا چاہے وہ معیاری خوراک حاصل نہ کرسکے۔پاکستان آج بھی بجلی و پانی کے مسئلے سے دو چار ہے ۔مغرب نے گلوبلائزیشن سے اپنے مفادات کو حاصل کیا ہے باقی دنیا آج بھی مسائل سے دوچار ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بیگانگی کا احساس۔نظام میں موجود خرابیاں اور ناکافی صلاحیتیں پاکستان کو گھر میں ہی کمزور کر رہی ہیں۔وڈیروں سیاستدانوں اور افسروں کی طاقت کے غلط استعمال اور ظلم و جبر سے تنگ لوگوں کے لئے ملک صرف امراء کی جاگیر ہوتا ہے۔حالات و واقعات سے اکتائے لوگ خود کو اور ملک بیگانہ تصور کرتے ہیں جو ملکی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">میڈیا پول۔میڈیا پر بزنس ٹائیکونوں کا قبضہ بھی ہمارے اندرونی معاملات کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔میڈیا ہاؤسز اکثریت ایسے لوگ چلا رہے ہیں جنہیں صرف روپے سے غرض ہے چاہے اس میں ملکی سلامتی داؤ پر لگ جائے۔ مختلف چینلز پربنی بنائی من گھرٹ کہانیاں ملک میں صرف افراتفری اور انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں۔ایسے میں صحافتی اداروں کو حکومت کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ ملک سے بکاؤ میڈیا گروپس کا خاتمہ ہو سکے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">سیاست، ایک کاروبار۔بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سیاست کی کوئی درسگاہ نہیں یہاں مقدس و خالص سیاست سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔یہاں سیاست کی آڑ میں کاروبار چمکائے جا رہے ہیں ۔سیاست کی آڑ میں اثر ورسوخ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔معاشرہ خود غرض ہے ،ووٹر خود غرض ہیں، سیاستدان خود غرض ہیں۔کوئی روپے دے کر صرف اس امید پر ووٹ خریدتا ہے کہ منتخب ہو کر اس سے کہیں زیادہ کما لے گا۔اور کوئی اتنا خود غرض اور جاہل ہے کہ قیمے والے نان ، گلیوں نالیوں، موبائل فون ،نقدی اور نوکری کے لالچ میں ووٹ فروخت کر دیتا ہے۔سیاسی کاروبار کی خریداری کا موسم پھر شروع ہوا چاہتاہے۔ایسا ملک خطرات کی زد سے کیسے باہر نکلے گا جس ملک و وطن کے نام کا چورن بیچ کر منافع کمانے والے لوگ موجود ہوں گے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">مذہبی بد انتظامیت۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہبی قوم کی نسلیں آباد ہیں جن کا ریاست سے متفق ہونا ضروری نہیں جن کے اپنے ہی الگ نظریات ہیں۔غیر مسلم کے مقابلے ممتاز ہونا ایک طرف یہ تو فرقے ہیں جوایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ایک دوسرے میں فرق کرتے ہیں خود کو ممتاز سمجھتے ہیں دوسرے کو کافر۔کوئی بھی مذہبی گروپ اٹھتا ہے اور ریاست کو یرغمال بنا لیتا ہے۔جتنے فرقے اتنے نظریے اور قانون ہیں ۔جب ریاست کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تو پھر ملکی بہتری کی امید کیوں؟جب خود انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہو تو پھر دھماکوں پر افسوس کیوں؟</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">غیر ریاستی اداکاروں کا اضافہ۔بے شمار فرقہ پرستی، مذہبی عدم برداشت ،قومیت پرستی اور انا کی بنا پر بہت سی غیر ریاستی طاقتیں سرگرم ہیں۔ہماری آپس کی تفرقہ بازی غیر ریاستی اداکاروں کے اضافے کا سبب ہے۔غیر ریاستی طاقتیں ہمارے بہت سے علاقوں اور لوگوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔بعض اوقات ہماری عوام اپنی کم ضرفی میں غیر ریاستی اداکاروں کو پرموٹ کرتی ہے اور ہماری ریاست ایسے میں کچھ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">فلسفیانہ دو فرعی تقسیم۔علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقاتی تقسیم بھی ہمارے ملک کے اندرونی معاملات کے خطرات کی بڑی وجہ ہے۔علماء حضرات کی اکثریت جدید طرز تعلیم سے عاری ہے اور جدید طبقہ مذہبی پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یوں دو دھڑے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکرمیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں جتے ہوئے ہیں ۔ان کے لئے ایک پیج پر متفق ہونا جیسے قیامت ہو۔جبکہ حقیقت میں ملک کی بہتری میں دین و دنیا دونوں کی ضرورت ہے۔ ایک چیز سے ایک طرف کا پلڑا بھاری ہوتا ہے جبکہ دونوں کے توازن سے معاشرہ بھی متوازن ہو جاتا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بے روزگاری و غیر ملکی مداخلت۔بے روزگاری ایک اہم اور بڑا مسئلہ ہے۔بہت سے غریب حالات سے تنگ آکر غلط کاموں کا سہارا لیتے ہیں۔بے روزگاری انسان کو کمزور اور اندھا بنا دیتی ہے اچھے و برے کی تمیز ختم کر دیتی ہے پھر انسان کے لئے صرف رزق کی تلاش ہوتی ہے چاہے وہ اچھے زریعے سے ملے یا کسی غلط راہ سے۔ایسے اکتائے ہوئے لوگ عدم برداشت کا شکار ہوجاتے ملک میں افراتفری پھیلتی ہے اور غیر ملکی ایجنسیاں مداخلت کرتی ہیں بہت سے حالات کے مارے لوگ دشمن کے لئے کام کرتے ہیں اور دشمن ممالک ہمارے ملک میں افراتفری کو مزید فروغ دے کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">یہ ہمارے ملک کے اندرونی خطرات کی بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج بھی ملک حالت جنگ میں ہے۔جن پر قابو پانا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ہمیں مل جل کر ایسے کام کرنے چاہئے جو ہمارے ملک کی بہتری کے لئے ضروری ہیں۔ہمیں عوام میں شعور اجاگرکرنا چاہئے۔ذرا سوچئے!</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-11465071152531523092018-03-11T01:27:00.001-08:002018-03-11T01:27:10.663-08:00سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے):لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینینئر ہیں۔</span></b><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></b></div>
<b><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /></b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">پاکستان ایک جنوبی ایشیائی ملک ہے ،جو مشرق وسطی اور وسط ایشیاء کے پار قریب ترین ملک ہے۔پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے دنیا و خطے کی بہت سی طاقتیں اس پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔پاکستان کو جہاں اپنی جغرافیائی اہمیت کا مان ہے اور سی پیک جیسے کئی مفاد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔وہیں اگر محتاط اندازہ لگایا جائے تو باخوبی علم ہوتا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی بدولت بہت سے ممالک جیسے بھارت و امریکہ اسے کمزور و غیر مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔پاکستان میں پھیلتی افراتفری ،عدم مساوات اور انتہا پسندی انہیں طاقتوں کی منصوبہ بندی ہے۔پاکستان معرض وجو د سے ہی بہت سے اقتصادی انتظامی اور سماجی مسائل کا شکار تھا۔ وقت کے ساتھ کچھ پر قابو پالیا گیا۔ مگر کچھ مسائل گمبھیر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔پاکستانی حکومتیں ہمیشہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہیں۔اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ملکی و غیر ملکی قرضوں کی دوڑ میں مگن ہو گئیں۔تمام حکومتوں نے بنیادی مسائل کو حل کرکے اقتصادی و سماجی مسائل پر کنٹرول پانے کی بجائے، وقتی قرضوں کی بدولت اپنی نااہلیوں کو چھپایا۔پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کی راہ میں چند حائل رکاوٹیں۔ </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ملکی و غیر ملکی قرضے، چند حساس میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کا گردشی قرضہ 10کھرب سے تجاوز کر گیا ہے۔صرف پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 10کھرب22ارب روپے ہوگیا ہے۔قانون کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے60فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے،مگر ہمارا قرض قریب جی ڈی پی کے75فیصد تک پہنچ چکا ہے۔گزشتہ چار سال میں پاکستان کے قرضوں میں12ہزار500ارب کا اضافہ ہوا۔موجودہ ملکی و غیر ملکی قرض کا حجم26ہزار814ارب ہے۔جس میں غیر ملکی قرض کا حجم9ہزار816ارب کے لگ بھگ ہے۔پاکستانی کی اقتصادی و سماجی ترقی میں قرضے رکاوٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان ان قرضوں پر ہر سال اربوں روپے سود دیتا ہے اور اصلی قرض بڑھتا چلا جا رہاہے ۔جو ہماری معیشت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔اسی طرح ہماری خودمختاری بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اسی قرض کی بدولت ہمیں غیر ممالک کو اپنے بہت سے معاملات میں رسائی دینا پڑتی ہے۔جو ہمارے سماج پر گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بڑھتی آبادی،پاکستان کی بڑھتی آبادی اور محدود وسائل پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا کردار ادا کر رہی ہے۔قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان کی آبادی 3کروڑ کے لگ بھگ تھی۔موجودہ 2017کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی21کروڑ ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عام آدمی یومیہ 2ڈالر کے قریب کماتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں غربت و افلاس ہے۔لوگ سماجی و اقتصادی مسائل سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔معاشرہ عدم مساوات کا شکار ہے۔آبادی و معیشت پر کنٹرول صفر ہے۔ایک اچھی و معیاری زندگی بسر کرنے کے لئے حکومت کو عوام میں آبادی کے کنٹرول کے حوالے سے آگاہی دینی چاہئے ۔تا کہ آبادی و وسائل میں توازن قائم رہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">غربت، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں 80فیصد دیہاتی لوگ خط غربت سے نیچے بنیادی سہولیات سے محروم زندگی بسر کررہے ہیں۔خیبر پختونخوا کی حکومتی رپورٹ کے مطابق44فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کرہے ہیں۔فاٹا میں 60فیصد لوگ غط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔بہت سے مزید علاقے جیسے تھر جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اسی محرومی کے باعث وہ دشمن کے ہاتھوں اونے پونے اپنا ایمان فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔جو ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا سبب ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ناقص تعلیمی سہولیات،تعلیم ہی ایک ایسا زریعہ ہے جو لوگوں کو صبر اور شعور فراہم کرتا ہے اور معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔مگر افسوس کہ ہمارا تعلیمی ڈھانچہ ہی بہت کمزور اور ناقص ہے۔بہت سے علاقے تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں۔قریب79فیصد پاکستانی میٹرک سے نیچے یعنی انڈر میٹرک ہیں۔تعلیم معاشرے کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ تعلیم کا فقدان ہی معاشرتی و سماجی برائیوں کو جنم دیتا ہے اور معاشرہ ہر لحاظ سے کھوکھلا ہوجاتا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بے روزگاری،بے روزگاری مجبور و لاچار لوگوں کے لئے جلتی پر تیل کا کام انجام دیتی ہے۔بہت سے لوگ روزگار سے محروم اور معاشرے سے نالاں ہو کر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔بہت سے لوگ روزگار کے لئے دشمن کے عزائم کا حصہ بن کر دہشتگردی کو فروغ دیتے ہیں۔پاکستان میں2015\16کی رپورٹ کے مطابق 7فیصد لوگ بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں۔جن کو روزگار کا موقع ہی میسر نہیں ہوتا ہے ۔وہی بے روزگار دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔آخر کار ایک وقت ان کے لئے اچھا برا سب تمیز ختم ہوجاتی ہے اور متعدد بدعنوانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">توانائی کا بحران،بجلی کی بندش نے لاکھوں مزدوروں کے روزگار کو سوالیہ نشان بنا رکھا ہے۔سینکڑوں کاروبار ی افراد دیوالیہ ہوگئے ہیں۔ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے۔معاشی عدم استحکام کے باعث معاشرہ ناپاک عزائم میں دشمن کا ہم نوا بن رہا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">کرپشن، یہ ایک بڑا ناسور ہے جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔کھوکھلا کر رہا ہے۔ملک میں نانصافی کو فروغ دے رہا ہے۔لوگوں کی حق تلفی ہورہی ہے۔پاکستان کی معیشت کو آئے روز چونا لگایا جارہا ہے۔کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان 175میں سے 127نمبر پر ہے یعنی پاکستان میں 127ممالک سے زیادہ شرح کرپشن ہے۔پاکستان میں سیاستدان،بیوروکریٹ ، افواج، پولیس ،ججز اور بہت سے ادارے و عام لوگ کرپشن جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔جو ہماری ترقی کے راستے میں آئے روز سوراخ کر رہے ہیں، گڑھے کھود رہے ہیں اور ہماری ترقی انہیں گڑھوں میں رک جاتی ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">جنگی اثرات، پاکستان نے بھارت کے ساتھ جنگوں میں کافی نقصان اٹھایاہے۔مگر 9/11 کے بعد سے امریکہ نے جہاں پاکستان کی دفاعی معاملات میں مدد کی،وہیں ہمارے سماجی و اقتصادی مسائل بھی بڑھنے لگے۔پاکستان کی طالبان کے لئے حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، امریکہ نے بین الاقوامی پریشر کی بدولت(وار آن ٹیرر)دہشتگردوں کے خلاف جنگ کے نام پر بہت سی انتہا پسند تنظیموں اور افغانستان کو پاکستان کے مخالف کروا دیا۔بعد ازاں امریکی اثرات کی بدولت یہی دہشگردوں کے خلاف جنگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوگئی اور اس کے اثرات پاکستان کے مختلف شہروں میں بم دھماکوں کی صورت میں سامنے آنے لگے۔امریکہ اور دہشتگردوں نے پاکستان کو یرغمال بنانا شروع کر دیا۔پاکستان نے امریکی دوستی کی شکل میں اپنی معیشت اور بنیادی ڈھانچے میں 40بلین ڈالرز کا نقصان اٹھایا۔ لاکھوں جانوں جن میں سویلین شہریوں اور فوجی جوانوں کو قربان کیا۔بدلے میں امریکہ کی طرف سے متعدد سختیوں سے مشروط اتحادی فنڈ جو کہ1.2 بلین سالانہ تاخیر اور ٹال مٹول کے ساتھ دیا جاتا رہا۔شرائط ایسی کے پاکستان اس فنڈ کو اپنے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔پاکستان کو اس فنڈ کے بدلے دہشتگردی کا ٹیگ ملا اور دہشتگردوں کی دشمنی، مارکیٹ میں امریکی اسمگل اسلحہ براستہ افغانستان ملا جو انتہا پسندی کے فروغ کا کردار ادا کررہا ہے۔جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کو برسوں سے روکے ہوئے ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">خطے میں بھارتی اثر و کردار،بھارت نے اپنے برسوں پرانے نمبرداری کے خواب کو پورا کرنے کے لئے بلی چوہے کا کھیل رچایا ہوا ہے۔بھارت خطے میں موجود ممالک بالخصوص پاکستان کو اپنے اثر کی بدولت دبانا چاہتا ہے۔بھارت کشمیر پر جبری قبضہ جمائے ہوئے ہے۔پاکستان کو کشمیر پالیسی کی بدولت اقتصادی سطح پر بہت سے نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔بھارت پاکستان کا پانی روکنے کے لئے دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہا ہے جو ہماری زراعت اور معیشت کے لئے ایک بڑا دھچکہ ہے۔بھارت پاکستان کو مسلسل مختلف محاذوں پر الجھائے ہوئے ہے جس میں ورکنگ باؤنڈری ،افغانستان ،ایران اور کشمیر وغیرہ۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں39000کے قریب بھارتی سپاہی موجود ہیں جن کا مقصد پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دینا ہے اور براستہ افغانستان پاکستان کی تجارت کو روکنا ہے۔۔یہی نہیں بھارت پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تجارتی معاملات میں بھی نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ایسے بہت سے مزید چھوٹے بڑے عناصر ہیں جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل ہیں ج کا حل بہت ضروری ہے، اور فوری ہونا چاہئیے تا کہ پاکستان آنے والے مزید چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-53013369124322323542018-03-04T04:01:00.002-08:002018-03-04T04:01:17.742-08:00ہمارا نظام تعلیم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے):لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینئر ہیں۔</span></b><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></b></div>
<b><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /></b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">دنیا بھر میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ نت نئی و حیرت انگیز ہونے والی ایجادات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے ۔انسان کا چاند اور سیاروں پر جانا صرف تعلیم کی بدولت ہی ممکن ہوا۔تاریخ سے باخوبی علم ہوتا ہے کہ دین اسلام بھی روز اول سے لے کر آج تک دنیا میں علم کی شمع جلا رہا ہے،اور قیامت تک علم کی اس مشعل کو لے کر آگے بڑھتا رہے گا۔دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے سب نے اللہ رب العزت کے احکامات کو لوگوں تک پہنچایا ،اور توحید و تقوی کی تعلیم دی۔اللہ کے آخری نبیﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ کچھ یوں تھی،ترجمہ:’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا‘‘۔آپﷺ نے اللہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچایا اور دین اسلام کو مکمل کیا۔کیا جس نے صحرا نشینوں کو یکتا! آپﷺ نے عرب کی بھگڑی ہوئی قوم کو ایک پرامن معاشرے میں تبدیل کیا ۔انہیں اخلاق و ایمان کی تعلیمات دیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ،’آپ تعلیم پر پورا دیہان دیں۔اپنے آپ کو عمل کے لئے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ہماری قوم کے لئے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے‘۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">قارئین پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اسی دوران بیسیوں پالیسیاں بنیں اور مرتب کی گئیں مگر ہمارا تعلیم کا مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے بہت سے ممالک اس میدان میں آج ہم سے بہت آگے ہیں۔ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں136thنمبر پر ہے۔پاکستان میں58%لوگ پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں جنہیں ہم خواندہ کہتے ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 67لاکھ بچے سکول جانے کی عمر میں سکول جا ہی نہیں پاتے۔قریب59%بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کے کچھ عرصہ بعد مختلف وجوہات کی بنا پر سکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں5.3ملین بچے سکول ہی نہیں جا پاتے جو دنیا میں سکول سے محروم بچوں کا9.2%ہیں۔ پاکستان میں قریب49ملین بالغ افراد پڑھنا لکھنا ہی نہیں جانتے جو دنیا میں ناخواندہ افراد کا6.3%ہیں۔یو این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پرائمری سطح کی تعلیم میں دنیا سے پچاس سے زائد سال اور سیکنڈری سطح کی تعلیم میں ساٹھ سے زائد سال دنیا سے پیچھے ہے۔ہمارے نظام تعلیم میں بہت سی خرابیاں اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم آج دنیا سے پیچھے ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">غیر متوازن نظام تعلیم ،ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کا بڑا سبب ہے۔ہمارا تعلیمی نصاب ہو یا تعلیمی ڈھانچہ سب غیر متوازن ہیں۔ریاست ہمیشہ ملک کی عوام کو ایک جیسی تعلیم اور ایک جیسے تعلیمی مواقع دینے میں نکام رہی ہے۔ہمارے ہاں پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم جیسے مقدس شعبے میں مافیا کا کردار ادا کر رہے ہیں۔من چاہے تعلیمی نصاب اور من چاہے تعلیمی اخراجات عام عوام پر مسلط کئے جاتے ہیں۔غیر متوازن نظام تعلیم نے معاشرے کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور تعلیم کے میدان میں بھی افراتفری کا سماں ہے۔سرکاری ادارے میٹرک اور ایف اے کروا رہے ہیں اور پرائیویٹ ادارے اے لیول او لیول کروا رہے ہیں۔سرکاری ادارے اردو میڈیم ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر انگلش میڈیم ہیں۔اس غیر متوازن نظام تعلیم نے مڈل کلاس اور غرباء کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔جو کہ ہمارے نظام تعلیم کی بہتری میں حائل بڑی رکاوٹ ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">علاقائی عدم مساوات، بھی تعلیمی بہتری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔بلوچستان فاٹا اور دوسرے علاقے جہاں پہلے ہی علاقائی اختلافات کے باعث تعلیمی میدان متاثر ہورہا ہے وہاں حکومت کا معیاری تعلیم کی فراہمی میں توجہ نہ دینا بھی نظام تعلیم کی بڑی ناکامی ہے۔ایسے علاقوں میں کالجز اور یونیورسٹیز بہت کم ہیں اور ان علاقوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کے سکول و کالجز کے معیار میں بھی زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ان علاقوں کو برابری کی سطح پر تعلیمی ماحول و مواقع فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست اپنے اس فرض سے بھی غافل دکھائی دیتی ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">فنی تعلیم کا فقدان ،بھی ہمارے نظام تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔دنیا بھر میں ریاست اپنے نوجوانوں کو خودمختار بنانے کے لئے انہیں فنی تعلیم مہیا کرتی ہے۔اسی ضمن میں فنی تربیتی ادارے قائم کئے جاتے ہیں کالجز بنائے جاتے ہیں۔تربیت یافتہ نوجوان خودمختار ہوکر نہ صرف فنی تعلیم اور معاشرے کی بہتری میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں۔پاکستان میں ایسے فنی تربیتی کالجز کا فقدان ہے۔جو کچھ کالجز ہیں وہاں مناسب تربیتی سہولیات موجود نہیں،مناسب لیبارٹریز اور آلات موجود نہیں ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">صنفی فرق(gender unequality) ،یعنی مرد و عورت کی غیر برابری کا نظریہ بھی ہمارے نظام تعلیم کو بہتر ہونے سے روکتا ہے۔اس کا اندازہ پرائمری سکولوں میں لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد سے ہوتا ہے جو 10:4ہے۔بہت سے والدین آج بھی لڑکیوں سے غیر امتیازی طور پر ان کے بہت سے بنیادی حقوق چھین لیتے ہیں یا فراہم ہی نہیں کرتے۔اسی بنا پر بہت سی قابل لڑکیاں اپنی قابلیت کو نکھارنے سے محروم ہو جاتی ہیں۔جو ہمارے ملک کی ترقی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">غیر تربیت یافتہ اساتذہ ،بھی ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔دنیا بھر میں تعلیم میں اول نمبر اور قابل ترین افراد کو معلم کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے۔مگر ہمارے ہاں تو نظام ہی الٹ ہے جسے کوئی نوکری نہ ملے وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنی قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے جیسے بہت سے کم علم اور کم فہم طلباء کو پروان چڑھاتا ہے جو ہمارے نظام تعلیم کی خرابی اور معیار کی پستی کا باعث بنتے ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">غربت ،ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے ۔ملک کی بڑی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ایسے میں لوگوں کے لئے تعلیم کا حصول مشکل ہو جاتا ہے اور غریب والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کی بجائے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے بھٹوں اور مکینکوں کے پاس مزدوری کے لئے چھوڑ آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا ایک بڑا حصہ تعلیم سے محروم ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ناقص امتحانی طریقہ و تشخیص ،بھی ہمارے تعلیمی اداروں اور امتحانی مراکزکی بڑی خامی ہے۔دنیا بھر میں طلباء کو تعلیم بوجھ کے تصور سے بالاتر ہو کر بغیر کسی خوف اور سیکھانے کے نظریے سے دی جاتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں گریڈز اور نمبروں کی دوڑ میں ماں باپ اور اساتذہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے تعلیم کے بوجھ تلے دبے انہیں 90فیصد نتائج تو دے رہے ہیں مگر حقیقت میں سیکھنے کے مرحلے میں انہوں نے 50%بھی نہیں سیکھا۔دنیا بھر کے تعلیمی میدان میں روز یعنی معمول کاکام روز کروا کر اسی دن اس کام کو پرکھ لیا جاتا ہے اور اسی حساب سے طلباء کو نمبرز اور گریڈز دیئے جاتے ہیں۔اس طرح طلباء کام کے بوجھ سے بالاتر ہوکر سیکھتے ہیں اور گھر جا کر تعلیمی پریشانی سے آزاد کھیل کود کر اپنی جسمانی نشونما میں بھی بہتری لاتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں تو بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں ہفتے کا کام دو دنوں میں کروایا جاتا ہے اور اس کی تشخیص کے لئے مہینوں بعد کوئی امتحان لیا جاتا ہے۔جس کے باعث طلباء نمبروں کے لئے نقل یا رٹہ سسٹم کا سہارا لیتے ہیں۔اسی طرح ناقص امتحانی طریقے اور تشخیص نے ہمیں ایسے رٹے لگوائے ہیں کہ ہمیں انگریزی میں ہر لفظ یاد تو ہے مگر اس کے مطلب کا پتہ نہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ریاستی ناکامی، ان سب وجوہات کا باعث ہے۔ریاست برسوں سے میدان تعلیم میں اپنی ناہلی کی راہ پر گامزن ہے۔ہر حکومت اپنے مفادات کی دوڑ میں تعلیم جیسے اہم شعبے پر توجہ دینے سے کتراتی ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">پاکستان کے آئین کی شق 25Aکے مطابق ’ریاست 5 سے16سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے‘۔مگر یہاں تو سارا نظام ہی الٹ ہے ریاست اپنے دوسرے فرائض کی طرح اس مقدس اور اہم فریضے کو بھی پورا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ریاست کی ناکامیوں کے باعث پرائیویٹ مافیا دن رات ہمارے نظام تعلیم کو پنکچر لگانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ہماری حکومتیں تعلیمی فنڈز میں کرپشن کرتی ہیں۔تعلیم کے لئے مختص کئے گئے فنڈز GDPکا 2%ہوتے ہیں جسے کم از کمGDPکا7%ہونا چاہئے۔دنیا بھر میں تعلیم کے لئے دفاع سے زیادہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ایسے مزید بہت سے عناصر(Factors) ہیں جو ہمارے نظام تعلیم کی راہ میں حائل ہیں اور آج ہم تعلیمی میدان میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ریاست کو تعلیم جیسے اہم شعبے کی ترقی کے لئے خلوص نیت سے کام کرنا ہوگا ،تبھی جاکر ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں شامل ہوگا اور ایک پرامن اور نمبر ون ملک بن کر ابھرے گا۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-74060990133070299532018-02-18T00:54:00.004-08:002018-02-18T00:54:52.978-08:00حبیب بینک ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><b><span style="color: #20124d;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے):لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینئر ہیں۔</span></span></b><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><span style="color: #20124d;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></span></b></div>
<b><span style="color: #20124d;"><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /></span></b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">حکومت پاکستان حکومتی اداروں کو نجی اداروں میں منتقل کرنے میں مگن ہے۔ ریاست کے ان اقدامات کی وجہ سے غریب لوگ اور نچلے درجے کے ملازمین متاثر ہورہے ہیں۔پرائیویٹ مالکان اور سرمایہ دار ملازمین سے ان کے بنیادی حقوق چھین کر انہیں جبری تور پر ملازمت سے فارغ کر رہے ہیں۔سینکڑوں پنشنرز عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔حکومت یا حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے مظلوم ملازمین کی رسوائی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔اسے ریاستی کمزوری سمجھا جائے ؟یا پھر سرمایہ داروں کے لئے منافع خوری؟</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ہمیشہ کی طرح 22دسمبر2017کے دن ایچ بی ایل بینک ملازمین پوری تیاری کے ساتھ اپنے دفتروں میں داخل ہوئے۔کام کے آغاز کے لئے سسٹم کو لاگن کرنا چاہا مگر سسٹم نے ایرر کی حالت دکھانا شروع کردی۔ملازمین نے اسے معمول کی خرابی تصور کرتے ہوئے اپنا کام شروع کردیا۔اتنے میں پوسٹ ماسٹر زآئے اور پاکستان بھر میں 144ایچ بی ایل ملازمین کو خط تھما کر چلے گئے۔خطوں کو دیکھتے ہی ملازمین کے پاؤں تلے زمین نکلنے لگی۔لمحہ بھر کے لئے سکتے میں چلے گئے۔خط کو ڈراؤنا خواب تصور کرنے کی بھی کوشش کی۔مگر حقیقت سے منکر نہیں ہوا جا سکتا۔دیکھتے ہی ساری ہمت اور چہرے کی رونق گہری گرد کی لپیٹ میں آگئی۔ چہروں پر حیرت کے بادل چھا گئے۔بعض تو یہ گہرا صدمہ سہہ نہ پائے اور ادھ موا ہوکر بے ہوشی کی حالت میں چلے گئے۔باقی اس آفت سے بچے ملازمین کے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگ گئے۔سرگودھا برانچ کے ایک صاحب کا دل یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔دل کے دورے نے انہیں گرنے پر مجبور کردیا۔تمام متاثرہ ملازمین وہی خط اٹھائے بدحواسی کی حالت میں پہلے پہر ہی گھروں کو لوٹنے لگے۔ایچ بی ایل کے اس خط میں ان ملازمین کی فراغت کے الفاظ درج تھے۔یہ دن ان کے لئے قیامت صغری سے کم نہ تھا۔نکالے جانے والے ان ملازمین کی عمریں45سے55سال تک کی تھیں۔ نچلے درجے کے ان کمزور وبڑی عمر کے ملازمین کے نہ جانے کتنے ارمان بکھر ے ہوں گے۔کسی نے اپنی رحمت یعنی بیٹی کو پوری شان و شوکت سے رخصت کرنا تھا۔کسی کو ابھی اپنا گھر بنانا تھا۔کسی نے اپنے بچوں کو مہنگی و معیاری تعلیم دلانا تھی۔ اسی طرح کسی نے کاروبار اور کسی نے خاندان کی لئے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔جو ان کو ملنے والی پنشن اور رقم سے ہی ممکن ہونا تھا۔نہ ختم ہونے والی پریشانیوں سے یہ لوگ بیمار ہونے لگے۔اسی آب و تاب میں کراچی ناظم آباد برانچ کے کمال مصطفی صدمے کے باعث اپنے خاندان کو بے آسرا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔سجاد احمد، اصغر ندیم اور عبدالشکور جیسے بہت سے ملازمین 30سے35برس تک محنت و دیانتداری سے بینک کے لئے اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔دوران ملازمت بہت سے بینکوں کی آفرز کو ٹھکرایا۔اب جب بڑھاپہ قریب ہے اور ریٹائرمنٹ میں صرف چند ماہ یا سال باقی ہیں۔ایسے میں بینک کی طرف سے جبری تور پر ملازمت سے فارغ کر کے صرف چھ ماہ کی تنخواہیں تھما دینا کہاں کا انصاف ہے۔بینک کی طرف سے ان کے ریٹائرمنٹ اور پینشن کے حقوق صلب کرنا انتہائی گھٹیا اور قابل مذمت اقدام ہے۔بینک کے دسمبر2017میں ریٹائر ہونے والے صدر نعمان کے ڈار کی تنخواہ ان 144ملازمین کی مجموعی تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔ ان ملازمین کو پنشن دینا بینک کے لئے ایسے ہے جیسے چیونٹی کا سمندر سے پانی پینا۔مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہی ہے!</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ سال 2017میں امریکی ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سےHBLبینک کو 66کروڑ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔یہ جرمانہ بعد میں سودے بازی کے تحت کم کروا کے22.5کروڑ ڈالر جمع کروا دیاگیا۔اسی ضمن میںHBLنیو یارک برانچ کو بھی بند کرنا پڑا۔امریکی فنانشل سروسز کی رپورٹ کے مطابق حبیب بینک پر50کے قریب الزامات عائد کئے گئے۔جن کی بنا پر انہیں جرمانہ عائد کیا گیا۔جن میں منی لانڈرنگ، بلیک مارکیٹ ٹریڈنگ، دہشتگردوں کی مالی امداد اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے الزامات عائد کئے گئے۔بتایا گیا کہ2007سے2017تک منی لانڈرنگ کا سلسلہ جاری رہا جس میں بڑی سیاسی شخصیات بھی ملوث رہیں۔بینک کے ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔اسٹاک مارکیٹ میں نقصان ہوااور ڈالر کے ریٹ بڑھ گئے۔پاکستان کو بڑا معاشی دجھکا لگا۔ان اقدامات پر نہ تو چکومت کی طرف سے کوئی ایکشن سامنے آیا اور نہ ہی کسی حکومتی ادارے کی طرف سے۔ایسے میں بینک انتظامیہ کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے اپنا مالی خسارہ پورا کرنے کے لئے نچلے درجے کے ملازمین کے حق صلب کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ پاکستان بھر سے 144ملازمین کو جبری ریٹائر کردیا گیا اور انہیں انکے بنیادی ریٹائرمنٹ کے حقوق سے بھی محروم کردیا۔اطلاعات کے مطابق بینک انتظامیہ نے مزید 2000کے قریب ملازمین کو فارغ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">متاثرہ ملازمین نے قانونی جنگ کا فیصلہ کیا تو انہیں ماسٹر اینڈ سرونٹ رول کے تحت ٹرخایہ گیا۔بلا آخر ان کی جدوجہد کے باعث NIRCکورٹ کراچی نے بینک کے جبری ریٹائرمنٹ آپریشن کو12جنوری2018کے روز معطل کر کے17ملازمین کی فوری بحالی کا حکم صادر فرمایا۔مگر اس دن سے لے کر آج تک ملازمین HBLبینک کے دفتروں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔بینک انتظامیہ عدالت کے اس حکم کو ماننے سے انکاری ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">حکومت پاکستان نے بہت سے سرکاری اداروں کو سرمایہ داروں کو بیچنے کے ساتھ نچلے درجے کے ملازمین کے بنیادی حقوق بھی بیچ دیئے۔جن کاادراک عوام کو اب ہورہا ہے اور وقت کے ساتھ ہوتا رہے گا۔ہماری حکومتی ناکامی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ اپنے ریاستی ادارے سرمایہ داروں کے آگے اونے پونے بیچ رہی ہے۔وہی سرمایہ دار ایک طرف عام عوام سے سروسز کی صورت میں اضافی ٹیکسز وصول کررہے ہیں اور دوسری طرف اپنے عام ملازمین کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کرہے ہیں۔یہ صرف حبیب بینک ہی کا معاملہ نہیں بہت سے پرائیویٹ اداروں میں ایسا ہورہا ہے۔ایسے تمام اداروں کا فرازک آڈٹ ہونا چاہئے۔جنہیں حکومت ،وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ایسے میں بے چارے مظلوم و لاچار ملازمین کہاں جائیں؟ کیا کریں؟</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">امید کرتے ہیں کہ جس طرح چیف جسٹس نے اس معاملے پر سوموٹو ایکشن لیا ہے۔وہ جلد ان مجبور ملازمین کو ان کے حقوق دلائیں گے ۔ حکومت کی ناہلی پر اس کی سرزنش اور پرائیوٹ اداروں کو جرمانہ عائد کریں گے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">جس عہد میں لٹ جائے، فقیروں کی کمائی </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-73511502010002675052018-02-11T02:05:00.004-08:002018-02-11T02:05:41.097-08:00نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;"><b><span style="color: #20124d;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، وائس آف سوسائٹی کے سی ای او، اور مکینیکل انجینئر ہیں۔</span></b></span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><span style="color: #20124d;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></span></b></div>
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں۔قوم کے معمار ہوتے ہیں۔کسی بھی قوم میں نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں۔نوجوان ملت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے دوران نوجوان طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میں آپ کی طرح جوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جوش و جذبے نے مجھے بھی جواں کر رکھا ہے،آپ کے ساتھ نے مجھے مضبوط بنا دیا ہے‘‘۔نوجوان دماغی و جسمانی لحاظ سے باقی عمر کے طبقوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ہمت و جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ ان کی خوبی ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔اس قوم کی راہ ترقی میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی، جس کے نوجوان محنتی و ذمہ دار ہوں۔جن قوموں کے نوجوان ان صفات سے عاری یعنی سست وکاہل ہوں گے، وہ قومیں خودبخود بربادی کی طرف رواں ہو جائیں گی۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">دنیا بھر میں نوجوان قومی ریڑھ کی ہڈی تصور کئے جاتے ہیں۔اگر ریڑھ کی ہڈی ہی ناتواں ہو تو پورا شریر ہی کمزور پڑھ جاتا ہے،جسم میں سکت نہیں رہتی۔ راہ راست ہی نوجوانوں کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔دنیا میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں، جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہیں۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے ،جس کی سب سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔محتاط اندازوں کے مطابق 60فیصد پاکستانی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔پاکستانی نوجوانوں میں قابلیت اور ذہانت کی کمی نہیں،اسی لئے بہت سے بین الاقوامی سطحوں پر ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں ،جو نوجوانوں کا خاصہ تصور کی جاتی ہیں۔ان میں ہمت ہے، جذبہ ہے ،یہ قابل ہیں، ذہین ہیں بہادر ہیں، اور محنتی بھی ہیں۔مگر برسوں سے ہمارے آباؤ اجدا دہمیں شعور دینے میں ناکام رہے ہیں۔ہماری ریاست بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔’آئین پاکستان کے آرٹیکل 25Aکے مطابق ریاست ہر شہری کو میٹرک تک مفت تعلیم دلوانے کی پابند ہے‘۔مگر یہاں تو نظام ہی الٹ ہے ،ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی اجارہ داری نے من پسند کے نصاب اور من چاہی فیسوں سے تعلیمی نظام کی کمزوری کو عیاں کر دیا ہے۔غریب کے لئے تعلیم تو جیسے ناممکنات میں سے ہے۔اگر کوئی غریب اس کٹھن مرحلے میں معیاری تعلیم حاصل بھی کرلے تو اس کے سامنے اگلا کٹھن مرحلا نوکری یعنی روزگار حاصل کرنا ہوتا ہے۔اب غریب اس کرپشن و سفارشی کلچر میں کیا کرے؟۔اپنی جائیداد بیچ کر نوکری حاصل کرے ؟یا پھر ڈگری کوآگ لگا کر مزدوری شروع کردے؟۔آج ہمارے ہاں نوجوانوں کو سب سے بڑ ا جو درپیش مسئلہ ہے ،وہ بے روزگاری ہے۔تعلیم و ہنر کا فقدان تو برسوں سے چلا آ رہا ہے اس میں کمی بھی ہورہی ہے۔مگر بے روزگاری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔لاکھوں روپے کے خرچ اور محنت سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوان ادھر ہی کھڑا رہتا ہے، جہاں وہ ڈگری کرنے سے پہلے تھا۔نوجوانوں کی ضروریات اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی ہماری ریاستی ناکامیوں کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ہمارے ہاں ہمیشہ کی طرح سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان نوجوانوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے ،انہیں اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔تعلیم کا چاہے حرج ہو جائے،ان کے جلسوں میں ضرور شامل ہوں۔حکومت اگرنوجوانوں کے لئے کوئی پالیسی بنا تی ہے ،تو اس کی شرائط ہی اتنی کٹھن ہو تی ہیں کے نوجوان اس سے مستفید نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ سیاستدانوں کے لاڈلے اس سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔سیاسی پارٹیوں کی چالاکیاں دیکھئے،اپنی سکیموں کے تحت اپنے پارٹی ورکرز کو پروان چڑھاتے ہیں۔ایسے کٹھن حالات میں مجبور نوجوان برائیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔نام نہاد تنظیموں کے ہتھے چڑھ کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔معاشرہ دن بدن اسی کشمکش میں برائی کی چادر اوڑھتا چلا جا رہا ہے۔بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق ہر چھٹا پاکستانی بے روزگار ہے۔ہمارے بااثر لوگ اور حکمران ہمارے نوجوان اثاثے کو بھی دوسرے ملکی اثاثوں کی طرح بیچ رہے ہیں، برباد کررہے ہیں۔آج ہمارے ہیرے جیسے ڈاکٹرز و انجینئرز باقی قیمتی چیزوں کی طرح ہی دوسرے ملکوں کی زینت بن رہے ہیں۔کیونکہ ہم اپنے رب کی دی ہوئی معدنیات اور نوجوانوں جیسی نعمتوں کو تراشنا نہیں جانتے،انہیں پالش نہیں کر سکتے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">میری اپنے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ ،وہ ان بااختیار حکمرانوں کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ الیکشن میں ووٹ ڈالیں۔ہم مسلمان قوم ہیں ۔ہمیں اسلام کی تاریخ سے سیکھ کر خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔حضرت ابراہیم ؐ نے نوجوانی میں بت توڑ کر اپنے آباؤ اجداد کی غلط روایت کو ختم کیا۔حضرت یوسفؐ نے نوجوانی میں گناہ کی دعوت کو ٹھکرا کر ایمان کے راستے کو ترجیح دی۔طارق بن زیاد، محمد بن قاسم،عبدالرحمن اول، احمد شاہ ابدالی، اور شہاب الدین غوری یہ سب نوجوان ہی تھے،جنہوں نے قرآن و سنت کی بالادستی اور معاشرے کی بحالی و بقاء کے لئے اپنا تن من دھن سب قربان کر دیا۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ہمیں اپنے ملک کی بقاء کے لئے خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔عہد کیجئے کہ خود کا احتساب کرکے معاشرے میں ایک باشعورنوجوان کا اضافہ کریں گے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">قارئین یہ سارا خلاصہ جس تقریب کی گفتگو کا ہے اس کا ذکر بھی بہت ضروری ہے۔راقم نے تقریب میں مبصر اور ممبر کے تور پر شرکت کی۔عابد غوری جن کی جدوجہد نے پاکستان کے چاروں صوبوں اوروفاق کی نوجوان قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔عابد غوری کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور2013کے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے لئے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ باقی جن دوستوں نے شرکت کی ۔ان میں سے :لاہور سے بیرسٹر حارث سوہل نے شرکت کی ،جنہوں نے 21سال کی عمر میں بیرسٹر کی ڈگری حاصل کر کے ریکارڈ قائم کیا۔فصاحت حسن یونائیٹڈ نیشن میں پاکستان کے نوجوانوں کی دو بار نمائندگی کر چکے ہیں۔عابد علی اتوزئی خیبر پختونخوا سے لوکل باڈی الیکشن میں یوتھ کے ناظم منتخب ہوئے۔طلحہ نصیر اور ذیشان ہوتی تھیلیسیمیاء جیسی مہلک بیماری پر فلاحی کام کر رہے ہیں۔شرجیل ملک، عدیل مرتضی ،نوید مشتاق اور شہزاد بھی اپنے اپنے علاقوں میں نوجوانوں کے حوالے سے فلاحی کام کر رہے ہیں۔ایسے بہت سے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان کی فلاح کے لئے کام کر رہے ہیں۔حکومت کو ایسی تنظیموں اور نوجوانوں کی سرپرستی کرنی چاہئے، تاکہ نوجوانوں جیسا قیمتی سرمایہ درست سمت پر چل پڑے ۔طویل نشت تقریب کے اختتام پر عزم کیا گیا کہ ہم سب مل کر ملک کے نوجوانوں میں شعور اجاگر کریں گے۔ہر سطح پر فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود تمام نوجوانوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کو یکجا کر کے ایک نئی ہمت و جزبے کے ساتھ سیاسی و سماجی شعور اجاگر کر کے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔اسی حوالے سے ڈیموکریٹک یوتھ نامی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-14446385865975372052018-02-04T02:00:00.001-08:002018-02-04T02:00:17.946-08:00مسئلہ کشمیر کب حل ہوگا!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے)۔ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span></b><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></b></div>
<b><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /></b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">سبزے اور پھولوں سے لہلہاتی حسین و جمیل وادی ،پہاڑوں کی خوبصورتی میں لپٹی پرکشش جھیلیں، موسموں کے دلکش نظارے اور پھلوں سی مزید نعمتیں اس وادی کو جنت کہنے پر مجبور کرتی ہیں۔افسوس کے اس حسین و جمیل وادی میں رہنے والے خوبصورت اور بہادر باشندے برسوں سے قید کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔یہ نڈر و غیور قوم یہ سوال ضرور دل میں رکھتے ہوں گے کہ’ آخر مسئلہ کشمیر کب حل ہوگا‘؟۔ پھر خود ہی اس کے جواب میں جذبہ آزادی سے سرشار یہ لوگ کہتے ہوں گے کہ’ آخر کب تک‘؟۔ اللہ کے کرم سے ایک نہ ایک دن تو ہمیں آزادی ضرور نصیب ہوگی۔انشاء اللہ!</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">کشمیری برسوں سے آزادی کے حصول کے لئے لڑ رہے ہیں۔مگر ان کے ولولے میں کبھی کمی نہیں آئی۔بہت ثابت قدم قوم ہے۔کشمیری ایسے پھولوں کی مانند ہیں، جنہیں ان کے اپنے ہی آنگن میں مسل اور مسخ دیا جاتا ہے۔مگر وہ پھر اگلی صبح نئی امید اور مہک کے ساتھ پنپتے ہیں۔برسوں سے قابض بھارتی فوج نے ظلم و ستم کی ایسی داستانیں قائم کیں ہیں ،جنہیں بیاں کرنا بھی مشکل ہے۔انسانیت کا درد رکھنے والا کشمیریوں پر ہوتے ظلم کی داستان سن کر تھر تھر کانپے اور بھارت کے لئے بددعا کرے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ امریکہ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق 45فیصد کشمیری ڈپریشن جیسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔میرے نزدیک تو 90فیصد کشمیری نفسیاتی مریض ہوں گے۔جب آپ اسی خوف میں ہوں کہ آپ کے آنگن کے پھول اور کلیاں مسل دیئے جائیں گے ۔ ہستا بستا گھرانہ اجڑ جائے گا۔آپ آنکھوں کی بنائی سے محروم ہو جائیں گے۔ اپنوں کو بھارتی ظلم کا نشانہ بنتے دیکھ کر کچھ نہ کر پائیں گے۔پریشانیوں کا دھڑکا تو لگا ہی رہے گا۔تو کیسے نفسیاتی بیماریاں کم ہوں گی۔ بلکہ پورا معاشرہ ہی اس وہم میں مریض بنتا جائے گا کہ ،آخر کب تک اس کی نسلیں درندگی کا نشانہ بنتی رہیں گی؟</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بھارت کشمیر کو ہر حال میں ہضم کرنا چاہتا ہے۔پاکستان اپنے مسائل میں ہی الجھا رہتا ہے۔مسلم دنیا خو دالجھی ہوئی ہے۔چین جیسا فریق ویسے ہی خاموش تماشائی ہے۔اقوام متحدہ ،انسانیت کی نام نہاد تنظیمیں اور دنیا کے پاس تو ویسے کشمیر کے لئے وقت نہیں ۔مسئلہ کشمیر بھی دنیا کے ایسے حل طلب مسئلوں میں سے ہے۔ جسے شاید دنیا کی طاقتیں حل کرنا ہی نہیں چاہتیں اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کرتی ہیں۔بلکہ اسے مزید اجھایا جاتا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">کشمیر ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے۔ جس نے لاکھوں کشمیریوں کی جانوں کا نذرانہ لیا ہے، مگر اب بھی جوں کا توں ہے۔یہ مسئلہ انسویں صدی کا ہے۔یہ تاثر بھی غلط دیا جاتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے تحریکیں قیام پاکستان کے بعد شروع ہوئیں۔تاریخ گواہ ہے کہ 1832میں جب کشمیری مسلمانوں کو بھی باغی قرار دے کر مسلمانوں کی کھالیں اتاری گئیں اور انہیں سرعام لٹکایا گیا تو منظم طریقے سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوگئیں۔مارچ 1846میں انگریزوں نے کشمیر کو 75لاکھ کے عوض سکھ راجہ کو فروخت کیا تو آزادی کی باقاعدہ تحریکیں شروع ہوگئیں۔کشمیریوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لئے مسلمانوں کی شہادتیں معمول بننے لگیں۔ پھر1931میں قرآن پاک کی توہین کے خلاف تحریک چلائی گئی تو اسے کچلنے کے لئے بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔جس سے مسلمان آزادی کے لئے مزید متحرک ہوگئے۔اگست1931میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی قیادت میں یوم کشمیربھی منایا گیا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 1946میں کشمیر میں مسلم کانفرنس میں شرکت کی اور کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔جولائی1947کو مسلم کانفرنس میں’ قرار داد الحاق پاکستان‘ منظور ہوئی۔مگر بھارت کی چالاکیوں سے تنگ آکر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔راشٹر سوائم سیونک سنگھ نامی ہندو انتہا پسند تنظیم نے راجہ کو قائل کر کے جھوٹا الحاق کروایا۔ایسے میں مسلمان مجاہدین نے جدوجہد جاری رکھی اور 15ماہ کی جدوجہد کے بعد کشمیر کا کچھ علاقہ آزاد کروا لیا۔ جسے اب آزاد کشمیر کہتے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نہرو کو جب کشمیر ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگا تو جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ سے مدد کے لئے بھاگا۔اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور مسئلہ کشمیر کو رائے شماری کے زریعے حل کروانے کی قرار داد منظور کی۔بھارت نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کیا ۔مگر بھارت آج تک اپنے اس وعدے سے مکر رہا ہے۔ہوا کچھ یوں کے بھارت نے ہیلے بہانے شروع کردیے۔ رائے شماری کی بجائے معصوم و نہتے کشمیریوں کو شہید کیا جانے لگا۔آزادی کشمیر کی تحریک کچلنے کے لئے 6لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگئی اور ظلم و تشدد کرنے لگی۔مسلمانوں کی نشل کشی کی پوری کوشش کی گئی۔یہاں تک کے ہندو بستیاں آباد کی جانے لگیں۔صوبے کا درجہ دیا گیا اور نام نہاد حکومتیں بننے لگیں۔پاکستان نے کشمیر کے لئے دنیا بھر میں اپنی آواز اٹھائی۔مگر مکاربھارت نے پاکستان کو پہلے دو لخط کر کے کمزور کیا اور اب بلوچستان میں اپنی کاروائیاں کر رہا ہے۔بھارت نے پاکستان کا پانی ہڑپ کرنے کے لئے کشمیر پر قبضہ کیا ۔پھر کشمیر سے نظر ہٹانے کے لئے پاکستان کو بیک وقت متعدد محاذوں پر الجھا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ RSS باقاعدہ راء کی ٹریننگ کے ساتھ اسرائیلی اسلحے سے لیس کشمیر کے علاقوں میں فیڈ کی جا رہی ہے، تا کہ ظلم و بربریت کے زریعے مسلمانوں کو نسل کشی پر مجبور کیا جائے۔ایسے میں نام نہاد انسانیت پسند تنظمیں کچھ نہیں کریں گی بلکہ مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق ہی بھارت کوباز رکھنے کے لئے کچھ کر سکتا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ مسئلہ کشمیر کب حل ہوگا۔مگر یہ ایک بڑا سوال ضرور بن چکا ہے کہ، یہ سنگین ترین مسئلہ کب حل ہوگا؟۔کب برصغیر کے لوگ بالخصوص مسلمان سکون کا سانس لیں گے؟۔دنیا کی طاقتوں سے کسی قسم کی کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی ۔کیونکہ یہ مسئلہ انگیزوں کا اپنا تخلیق کردہ ہے۔انگریز کبھی بھی نہیں چاہتے کے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔بلکہ برصغیر میں خانہ جنگی کے لئے وہ مزید اس مسئلے کو الجھائیں گے۔تاکہ اس خطے کے مسلمان مستحکم نہ ہو سکیں۔اس مسئلے کے پیچھے ضرور بہت سے بین الاقوامی سطح کے مفاد ات جڑے ہوئے ہوں گے۔جو وقت عیاں کرتا جائے گا۔ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔یہ ضرور بدلتا ہے اور اللہ نے چاہا تو ایک دن کشمیریوں کی جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔وقت کشمیر کے لئے سازگار ہوگا۔کشمیر کی آزادی بھارت کی ناکامی ہوگی ۔بھارت اپنے ہی کھودے گڑھوں میں گر جائے گا۔جو کسی کو زبردستی محکوم بنانے کی کوشش کرتا ہے ،وہ خود تباہ ہوجاتا ہے۔کشمیر کی آزادی بھارت میں موجود بہت سی مظلوم اقلیتوں کو بھی جذبہ جدوجہد فراہم کرے گی۔یہ اقلیتیں بھارت سے آزادی حاصل کر کے آزاد حیثیت اختیار کریں گی۔پھر بھارت بکھرنے کی راہ پر گامزن ہوگا۔مگر وقت سنھلنے کا موقع نہیں دیتا۔یہ بکھرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ مٹ جائے گا۔یہ وہ وقت ہوگا جب اسلام اس خطے میں مضبوط ہو گا اور مزید پھیلے گا۔کشمیری اسے آغاز فراہم کریں گے۔اللہ نے جب چاہا تب ہی کشمیر آزاد ہوگا۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">اورجنت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-64264028439118370052018-01-28T02:52:00.003-08:002018-01-28T02:52:24.779-08:00امت مسلمہ کے ذاتی مسائل<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;"><b>چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ، مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</b></span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ہر کوئی جانتا ہے کہ مسلم دنیا ہمہ وقت متعدد مسائل کا شکار ہے۔دشمنان اسلام کی طرف سے تخلیق کردہ مسائل سے تو ہر کوئی باخوبی علم رکھتا ہے ۔مگر ہم اپنے پاؤں پر ماری جانے والی اپنی کلہاڑیوں کو پہچاننے سے کتراتے ہیں۔دین اسلام کے دشمن تو اول روز سے ہی نت نئی سازشوں اور پرپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔ماضی کے ادوار سے بھی اس بات کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ہمیں حضور اکرمﷺ کے دور سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔آپ ﷺ نے راہزنوں اور لٹیروں کو کیسے مہذب قوم بنایا۔آپﷺ کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔آج ہم آپﷺ کی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا نہیں اسی بدولت دشمنوں کی سازشوں میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔آپﷺ کے دور اور صحابہ اکرم رضی اللہ کے ادوار میں مسلمان مٹھی بھر تھے ۔مگر ان کے حوصلے اور ایمان پختہ تھے ۔اللہ نے اس وقت کے حقیقی مسلمانوں کو مدد فراہم کی اور یوں اسلام دنیا میں پھیلتا گیا۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">آج مسلمان دنیا کی کل آبادی کا 25فیصد حصہ ہیں۔دنیا میں دوسری بڑی مذہبی آبادی ہیں۔مگر مسائل کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہیں۔موجودہ دور میں دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی زد میں آنے والوں میں 76فیصد مسلمان ہیں۔دنیا کے مسلح تنازعات میں سے 60فیصد تنازعات کی زد میں مسلمان ہیں۔دنیا میں موجودمہاجرین کی بات کی جائے تو 67فیصد مسلمان مہاجرین ہیں۔جن میں سے متعدد دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔جیسے روہنگیا مسلمان،فلسطینی مسلمان اور کشمیری مسلمان وغیرہ۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">مانتے ہیں کہ ایسے حالات کے پس پردہ یہود و نصاری کی صدیوں پرانی منظم منصوبہ بندی ہے۔مگر ماضی میں بھی تو مسلمانوں نے ایسی سازشوں کا سامنا کیا اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور ایمان والوں اور بے دینوں میں فرق واضح کر دیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہمارے جذبات ختم ہو رہے ہیں۔ ہمارا ایمان کمزور ہے ۔جس سے بے دین فائدہ اٹھا رہے ہیں۔آج اپنی اس حالت کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">پختہ ایمان اور عمل صالح کا فقدان۔ موجودہ دور میں ہم عمل و کردار سے تو کوسوں دور ہیں۔ہمارے کردار میں میں مسلمانوں کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ہمارے ایمان کی بات کی جائے تو وہ بھی کمزور ہو چکا ہے ۔ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان تو رکھتے ہیں۔ مگر ہم قران اور حدیث کی رہنمائی حاصل کرنے کی بجائے اپنے ہی تجربات و خیالات کی من مانی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم زوال کا شکار ہو رہے ہیں۔ جب ہمارے ایمان ہی پختہ نہیں ہوں گے اور ہم خود اپنی بھلائی کا نہیں سوچیں گے۔ایسے میں اللہ ہماری رہنمائی کیسے کرے گا؟</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">دنیا سے محبت اور موت کا ڈر۔ہم سب وھن کی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔یعنی ہمیں دنیا اور دنیا داری سے اتنی محبت ہو چکی ہے کہ موت ہمیں یاد ہی نہیں اور موت سے آنکھیں چراتے ہیں۔ہم دنیا کی اس بناوٹی محبت میں اللہ کی محبت سے دور ہوچکے ہیں ۔اس دنیا اور زندگی کی محبت نے ہمیں دنیا وی طاقتوں کے تابع کردیا ہے ۔ آج ہم دنیا کی چاہت و لذت میں جانے انجانے میں بے دینوں کی پیروی کرتے ہیں۔ </span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">اتفاق و اتحاق کا فقدان ۔ہمارے ذاتی مفادات اور خواہشات نے ہمارے اتحاد و اتفاق کی دھجیاں اڑا دیں۔ہم اپنے مفادات کی دوڑ میں اپنے بھائی چارے کو روندھتے چلے گئے ۔ اب بھی ایسی دوڑ اور راستے پر گامزن ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کبھی مسلم دنیا کا معنی خیز اتحاد معرض وجود میں نہیں آیا ۔ کفار اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">تعلیم کا فقدان ۔ہم نے قرآن کی پہلی صورت و آیت ’اقراء‘ کو بھلا دیا ہے ۔تعلیم کے میدان میں بھی ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔جبکہ قرآن میں علم کو بڑی فوقیت دی گئی۔دشمن نے علم کے میدان میں سبقت کی وجہ سے ہمارے معاملات پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔آج ہمارے زرائع ابلاغ پر دشمنوں کا قبضہ ہے اور اپنے اس قبضے کی بدولت وہ مسلمانوں کو اخلاقی لحاظ سے کمزور کر رہے ہیں۔میڈیا کے زریعے مسلم دنیا میں انتشار پھیلا رہے رہے ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">عیش و عشرت اور کاہلی۔عیاشی، سستی اور کاہلی نے تو جیسے ہمارے زوال پر مہر لگادی ہو۔ہماری عیاشی و کاہلی نے معاشرے کو کھوکھلا کرکے ہمیں اخلاقی و معاشی پسماندگی کی طرف دھکیل دیا۔عیش و عشرت میں دین سے ایسے دور ہوئے کہ بربادی نے ہمیں سنبھلنے کا موقع بھی نہ دیا ۔عیش و عشرت میں ہم نے اللہ کی طرف مسلمانوں کو ملنے والے انعام (زرعی و معدنی وسائل )کا بھی غلط استعمال شروع کردیا۔ہمارے معدنی و زرعی وسائل بھی دشمنوں کے ہاتھ اونے پونے فروخت ہو رہے اور خاتمے کی طرف رواں دواں ہیں۔آپﷺ کی حیات مبارکہ سے دیکھا جائے تو آپﷺ نہ صرف اپنے کام خود کرتے بلکہ دوسروں کے کام میں بھی ہاتھ بٹاتے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">کرپشن و بددیانتی اور احساس کمتری۔کرپشن اور بددیانتی نے ہمیں احساس کمتری کا شکار کردیا ۔کرپشن کے گرم بازار کی گرماہٹ نے ہمارے ایمان کی کمزوری کو عیاں کردیا ہے۔ہماری بدیانتی کو استعمال کرتے ہوئے بے دین لوگوں نے ہمیں اپنے تابع کرنے کے لئے ہمیں سود پر قرض کے کھیل میں دھکیل دیا اور سود کے حرام مال نے ہمارے خون میں تبدیلیاں شروع کردیں۔ اس تبدیلی نے ہماری خودمختاری کو ختم کر کے ہمیں تابع رہنے کی عادت ڈال دی۔یوں ہم احساس کمتری کے سفر پر گامزن ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">تفرقہ بازی۔ہم رنگ و نسل اور فرقوں و مسلکوں کی تفریق میں ایسا گھرے ہیں کہ ایک لڑی میں پرونا تو ہمیں آتا ہی نا ہو۔ہم خود ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر انتشار کو فروغ دے رہے ہیں۔ دشمن ہمارے انتشار کو پروان چڑھا کر ہمیں کھوکھلا کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔آج ہم اتنے شدت پسند ہو چکے ہیں کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے جاری کردیتے ہیں ۔معاملات کو سلجھانے کی بجھائے مزیدالجھاتے ہیں۔یوں ہمارے انتشار کا سفر جاری ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">اصلاح کا فقدان۔اصلاح کی بات کی جائے تو ہم اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں کو اصلاح کے مشورے دیتے ہیں۔دوسروں کو برا کہنا اور خود غلطی پر غلطی کرتے جان ہمارا معمول بن چکا ہے۔اگر کوئی اصلاح کا مشورہ دے تو اس پر عمل کرنے کی بجائے ہم الٹا اس پر تنقید کرتے ہیں۔خود احتسابی تو جیسے ہمارے پاس سے بھی نہ گزری ہو۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">انصاف کا فقدان اور ظلم کا بول بالا۔ظلم و زیادتی اور نانصافی ایک اہم ترین فیکٹر ہے۔حضرت علی رضی اللہ کا قول ہے کہ’’معاشرے کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتے‘‘۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ہم اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں تو مسلمانوں کا ایک اہم اصول انصاف تھا۔اسلام نے ہمیشہ سے ظلم و زیادتی کو ختم کرنے اور انصاف کو رائج کرنے کی کوشش کی۔اسی انصاف کی بدولت مسلمانوں نے دنیا پر حکومتیں قائم کیں اور کامیابی سے چلائیں۔مسلمانوں نے ہمیشہ سے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا اور ان کے ساتھ صلح و انصاف کے ساتھ رہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جس حکومت میں انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں ان کا خاتمہ ہی ان کا مقدر ٹھہرا۔انصاف کا دامن چھوڑنے پر مسلمانوں کی حکومتیں بھی ختم ہوئیں ۔جیسے مغلیہ سلطنت۔ہمارے ہاں بے جانانصافی نے ہمارے معاشرے اور نظریے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بہت سے ایسے مزید فیکٹربھی ہیں جو ہماری بربادی کا سبب ہیں۔بے دین طاقتوں کی سازشوں کا عمل دخل بھی اس وقت کامیاب ہوتا ہے۔ جب ہم کمزور اور کھوکھلے ہوں۔ہمیں اپنے ذاتی مسائل کو سمجھنا ہوگا۔ہم دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ تب ہی کر سکیں گے۔جب ہم اسلام کے جھنڈے کو مضبوطی سے تھام کر ایمان، اتحاد اور تنظیم کو فروغ دیں گے۔جب انصاف کا بول بالا ہوگا۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-3831394077651222582018-01-21T00:38:00.001-08:002018-01-21T00:38:09.676-08:00قانونی گرفت یا غنڈہ گردی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span></b><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">دنیا بھر میں غنڈہ گردی کوایک بڑی بد عنوانی و جرم تصور کیا جاتاہے۔غنڈہ گردی کرنے والوں کو غنڈہ گرد کہا جاتا ہے۔دراصل غنڈہ گرد اپنے مفادات کے لئے سرعام مار پیٹ کرتے ہیں۔لوگ ان کے ناموں سے تھر تھر کانپتے ہیں۔روپے پیسے کے عوض غنڈہ گرد خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔بلکہ بہت سے قانون دان ، سیاستدان اور قانون پر عملدرآمد کروانے والے خود ان کے محافظ ہوتے ہیں۔کسی بھی ملک کے اندرونی انتشار و قتل وغارت میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔پولیس اور دوسرے سیکورٹی ادارے اسے کاؤنٹر کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔جدید نظریے اور نئے واقعات کے پیش نظر غنڈہ گردوں میں صرف سول غنڈہ گرد ہی نہیں بلکہ سیاسی غنڈہ گرد قانونی غنڈہ گرد اور قوانین پر عملدرآمد کروانے والے غنڈے بھی موجود ہیں۔مختلف ترقی پذیر ممالک میں غنڈہ گردوں کی یہ ساری اقسام موجود ہیں۔پاکستان بھی ایسے ممالک میں سے ایک ہے جہاں قانون پر عملدرآمد کروانے والے ادارے ،لوگوں کو پرسکون ماحول فراہم کرنے اور جرائم کی روک تھام کے لئے تعینات کردہ سرکاری ملازمین بھی غنڈہ گردی کرتے ہیں اور یہی غنڈہ گرد سیاسی غنڈہ گردوں اور دہشتگردوں کو محفوظ ماحول و راستہ فراہم کرنے کے لئے قانونی گرفت کو پس پست ڈال کر غنڈہ گردی کی گرفت کو پروان چڑھاتے ہیں اور دن دیہاڑے قانونی گرفت کی آڑ میں جعلی مقابلوں میں عام عوام اور معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں ۔قانونی گرفت کی آڑ میں کھیلی جانے والی غنڈہ گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔تھانوں کچہریوں میں بھی لوگ اس غنڈہ گردی سے متاثر ہوتے ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">نئے سال کا آغاز پاکستان کے لئے انتہائی اذیت ناک رہا۔نئی نوید کی بجائے پرانے جرائم اور مجرم کھل کر سامنے آنے لگے۔گڈ گورنس کے نعرے لگانے والی حکومتیں اور ادارے اور ان کی قانونی و ریاستی معاملات پر گرفت سب عیاں ہو گئے۔سال نو کے ابتدائی ہفتے میں افراتفری ، بے بسی،لاقانونیت،بدعنوانی اور جبر سب سامنے آگئے۔ ہمیشہ کی طرح امن و امان کو شکست دے کر جرائم نے غلبہ حاصل کیا۔قانون و قوانین کی تو دھجیاں اڑتی نظر آئیں۔بد عنوانیوں کی لہروں کی راہ میں نہ کوئی قانون غالب آیا نہ ہی کوئی قانونی ادارہ نہ ہی کوئی پارلیمنٹ نہ ہی کوئی جمہوریت،سب کی گورنس عیاں ہو گئی۔گزشتہ کچھ واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ وقت ضرور بدلا ہے مگر ظالم و مظلوم ہمیشہ ویسے ہی رہتے ہیں۔ظالم آج بھی اتنا بھیانک و جابر ہے اور مظلوم آج بھی معصوم و لاچار ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے منتخب نام نہاد جمہوری نمائندوں نے انسانیت کی اڑھتی دھجیوں پر مذمت ضرور کی مگراس نظام کو بدلنے کے لئے برسوں سے کچھ نہیں کیا جہاں قانون و قانونی گرفت کی بجائے جاگیرداروں نمبرداروں اور امراء کے اصول و حکم اور انہیں کی گرفت ہے۔آخر کوئی اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں مارے گا اور وہ بھی جاگیردار سیاستدان ہر گز نہیں وہ بھاؤلا تو نہیں نا۔جمہوریت کے دعویدار، سیاست و جمہوریت نام کی دکانداری کرتے ہیں اور باری باری اسے چمکاتے ہیں اور یوں ازلوں سے ان کے مفادات کا بازار گرم ہے۔یاد رکھئے!’جب تک مفادات کا بیوپار سرگرم ہے تب تک ملک و ملکی خودمختاری کا ہی سودہ ہوگا‘۔ایسے میں ملک افراتفری کا شکار ہوگا جو ملک کو دھیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردے گی۔گزشتہ چند روز سے قانون ،معاشرے یہاں تک کہ انسانیت کی جو دھجیاں اڑ رہی ہیں انہیں شاید سمیٹنا مشکل ہوجائے۔زینب قتل کیس ،اسماء قتل کیس اور ایسے ہی دیگر کئی جنسی درندگیوں کے اذیت ناک کیسز ہمارے معاشرے اور انسانیت کے خاتمے کی علامت ہیں۔یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں انسان نما حیوان آباد کار ہیں۔ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جو صرف حیوان ہی کر سکتے تھے مگر ہمارے باسیوں نے انہیں انجام دے کر حیوانوں کی ایک نئی قسم متعارف کروائی ہے جو دیکھنے میں تو انسانوں سی شکل و شباہت رکھتے ہیں مگر حقیقت میں حیوان ہیں کیونکہ انہیں نہ کسی رشتے کی پہچان ہے اور نہ ہی کسی رشتے دار کی نہ ہی کسی خون کی پہچان ہے۔یہ حیوان ہیں اور قانون سے بالاتر ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ہر شخص خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔جس کا جو جی چاہتا ہے کرتا ہے۔ اچھے برے کی کوئی تمیز نہیں۔نہ کوئی قانون نظر آتا ہے نہ ہی کوئی قانون دان اور نہ ہی کوئی قانون پر عملدرآمد کروانے والا۔کوئی کسی قسم کی قانونی و ریاستی گرفت نہیں رہی سب اپنی ہی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔قانون بنانے والے یعنی منتخب نمائندے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔قانون کو صرف اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ذاتی مفادات کی بنا پر پارلیمنٹ پر لعنت بھی بھیجتے ہیں اور عدلیہ و قانونی اداروں پر جملے کستے ہیں۔جس پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر کے منتخب ہوتے ہیں پھر اس پر ہی لعنت بھیجتے ہیں۔خود ہی عدلیہ کو بحال کرواتے ہیں اور اپنے برعکس فیصلہ آنے پر عدلیہ کو جھوٹے و مکار جیسے لقب سے نوازتے ہیں۔قانون دان یعنی وکلاء قانون کی دھجیاں اڑانے سے باز نہیں آتے۔پاکستان کے دفاعی ادارے آرمی کو بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے والے جرنیل بھی قانون کو ماننے کی بجائے اپنی من مانی کرتے ہیں۔پولیس والے خود کو غنڈہ سمجھتے ہیں اورقانون پر عمل کروانے کی بجائے قانون کو پامال کرتے ہوئے جعلی مقابلے کرتے ہیں۔گزشتہ چند روز سے کراچی کے امن و امان کی صورتحال کھل کر سامنے آگئی ہے پہلے تو بغیر وردی یعنی سول غنڈے،بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز موجود تھے مگر اب کے بار تو سرکاری غنڈے بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں سندھ پولیس و سیکورٹی اداروں کی طرف سے متعدد معصوموں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔نقیب ہو یا مقصود یا کوئی اور تمام واقعات ہمارے اداروں کے منہ پر طمانچے ہیں وہی ادارے جو عوام کی بھلائی و فلاح کے لئے بنائے گئے وہی عوام پر قابض بن بیٹھے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔یہ کیسا ملک ہے جہاں ریاستی ملازم خود کو مالک سمجھتے ہیں اور عوام کو غلام۔کسی قانون کی کوئی گرفت نہیں گرفت ہے تو غنڈہ گردوں کی ،گرفت ہے تو سیاستدانوں، جاگیرداروں ،بزنس ٹائیکونوں،امراء اور بڑے افسروں کی ۔یہ سب قانون سے بالاتر ہیں ان کے لئے کوئی قانون نہیں اور نہ ہی کوئی قانونی پاسداری اور یہ سب قانونی گرفت کی آڑ میں غنڈہ گردی کے کھیل رچاتے ہیں۔عام معصوم لوگوں کو جعلی مقابلوں میں مارنا ان کا معمول ہے اور یہ برسوں سے ہوتا آ رہا ہے اور یہ تب تک ہوتا رہے گا، جب تک قانون کے رکھوالے بھی قانون کی پاسداری نہیں کرتے اور قانونی گرفت کی آڑ میں اذیت ناک جعلی پولیس مقابلوں کے کھیل کو ترک نہیں کرتے ۔اگر عوام کے جان ومال کا تحفظ ہی نہیں تو پھر کیا فائدہ ملک کا۔قائد کے بنائے ملک کو انصاف و قانون کے راہ پر چلانا ہے نہ کے قانون کی آڑ میں چھپے مفادات کے متلاشیوں کی راہ میں جو دشمن کے ایجنڈے کو فروغ دیں اور دشمن کو فائدہ پہنچائیں۔میں چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں کہ وہ ایسے واقعات پر از خود نوٹسز لے رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حکومت و دوسرے ادارے بھی اپنے ہونے کا ثبوت دیں گے۔اپنے کام کو قانون و آئین کے مطابق سرانجام دیں گے۔جب تمام ادارے اپنے اختیارات کا درست استعمال کریں گے تو انتشار و افراتفری کو شکست کا سامنا ہوگا اورجلد پاکستان اپنے اندرونی معاملات کو نمٹا لے گا۔نئے سال میں نئے عزم و نیک خیالات کو جنم دیجئے ۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-12346055451830661042018-01-14T02:33:00.004-08:002018-01-14T02:33:47.106-08:00بھارتی خواب کی اصل تعبیر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<b><span style="color: #0c343d;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مکنیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span></span></b><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بھارتی خواب ،وہ خواب جو گاندھی اورنہرو سمیت بہت سے بھارتی رہنماؤں کا رچایا ہوا تھا۔نمبرداری کا خواب،خطے میں سب سے بڑی طاقت بننے اور ان کو اپنے تابع کرنے کا خواب۔ہندو مذہب اور ذہنیت کو دوسری قوموں پر مسلط کرنے کا خواب۔ایسے اور بہت سے خواب جو ہندو برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔اپنے خواب کی تکمیل کے لئے جوہری ہتھیاروں سے لیکرتھرمونیوکلیئر سٹی کی تعمیر تک ،خلائی سیاروں کا خلا میں بھیجنا اور انہیں خواب کی تکمیل کے لئے جنگی مقاصد کے لئے استعمال کرنا، ان گنت سرمایہ کاری اور بے جاجنگی جنون ،خطے میں جاسوسی نیٹ ورکس کا پھیلاؤ اور طرح طرح کی سازشیں اورمنصوبے اور بہت کچھ ۔درحقیقت خواب صرف حکمرانی اور نمبرداری کا نہیں بلکہ بات توحقیقت میں مذہبی نوعیت کی ہے۔درحقیقت ہندؤں پر ہزاروں سال مسلمان حکمرانی نے ایسے نقش و نگار چھوڑے ہیں کہ ہندو اسے ابھی تک بھلا ہی نہیں پائے اور ایک بڑی سلطنت پر حکمرانی کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ بدلے کی نیت سے خود پر حکمرانی کرنے والوں پر مکمل حکمرانی کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔انتہا پسند اور پست ذہن ہندو حکمران آج بھی مسلمان حکمرانوں کو یاد کر کے ،مسلمانوں پر حکمرانی کرنے کے خواب سجھائے بیٹھے ہیں۔مگر ان بھیانک خوابوں کی تعبیر شاید انہیں معلوم نہیں،جو ہندؤں اور بھارت کو کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔کشمیر تو ہاتھ سے جائے گا ہی ساتھ میں ملک بھی جاتا رہے گا۔جنگی جنون اور سازشی سوچ بھارت کو ختم کر کے ہی دم لے گی۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بھارت جنوبی ایشیاء کا ایک طاقتور ملک ہے۔آبادی کے لحاظ سے دنیا میں دوسرا اور رقبے کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک ہے۔اس کی آبادی 1.2بلین سے زیادہ ہے۔اسے دنیا میںآبادی کے لحاظ سب سے بڑا جمہوری ملک تصور کیا جاتا ہے۔اس کے ہمسائیہ ممالک میں پاکستان، چائنہ، نیپال، مالدیپ، بھوٹان، میانمار، بنگلہ دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیاء ہیں۔اکثریت آبادی ہندو مذہب سے وابسطہ ہے۔یہ ملک29کے قریب ریاستوں پر منسلک ہے۔جن میں سے کچھ کے نام پنجاب، راجستھان، تامل نڈو، بہار ،گجرات اور ہریانہ ہیں۔جموں کشمیر جو کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے۔بھارت نے زبردستی اسے بھی اپنی ریاست یعنی صوبے کا درجہ دے رکھا ہے۔ اسی تحت وہاں ہندو بستیاں آباد کی جا رہی ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">گزشتہ روز بھارتی آرمی چیف بپن راوت کا بیان سامنے آیا کہ،پاکستان پر کسی وقت بھی حملہ کر سکتے ہیں ،حملہ کرتے وقت یہ نہیں سوچیں گے کہ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے پاکستان کی جوہری طاقت ایک فسانہ ہے۔پاکستان دہشت گردوں کو استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح کچل دیتا ہے۔کشمیریوں کی تحریک کو کچل دیں گے اور پاکستان کو تکلیف کا احساس دلاناہماری پالیسی ہے۔ایسا بیان کوئی پہلی دفع نہیں بھارت کے کئی رہنما ایسے بیانات دیتے رہے ہیں۔جب بھی کوئی نیا خواب و سپنا ان کو تنگ کرے تو بیانات سے خود کو خوش کر لیتے ہیں۔حقیقت میں تو بھارت علم رکھتا ہے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ان کے ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ بھارت سے زیادہ ایکٹو ہیں ۔بھارت کو سپنوں کی سپر پاور کا درجہ ضرور دینا چاہئے۔کیوں کہ خوابوں ا ور سپنوں میں ان سے سرجیکل سٹرائیک بھی ہو جاتے ہیں۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بھارت جو خواب برسوں سے سجھائے بیٹھا ہے اس کی تکمیل کے لئے بھارت نے کچھ کامیابیاں بھی حاصل کیں جن میں 1971میں پاکستان کو دو لخت کر کے بنگلہ دیش کا قیام اور اپنے قریبی چھوٹے ممالک پر اپنا اثر رسوخ بڑھانا (یعنی بنگلہ دیش، میانمار، نیپال اور بھوٹان وغیرہ)۔اس سے ہٹ کر مسلمان ملک افغانستان پر اپنا واضح اثر ورسوخ قائم کرنا ،چاہے اس میں امریکہ کی مدد حاصل رہی، بھی ایک کامیابی ہے۔بہت سے مسلم ممالک کو اپنے تعلقات کے کھیل میں استعمال کرنا ۔اپنے ہم خیال ملک اسرئیل سے تعلقات کی آڑ میں اسلحے کی خریدو فروخت۔سفارتی سطح پر مزید کامیابیاں ۔سی پیک کے آغاز سے اس کی مخالفت میں امریکہ سے تعلقات میں تیزی اور پاکستان پر امریکہ کی طرف سے دباؤ وغیرہ۔ان سب کامیابیوں کے حصول کے لئے بھارت نے اپنے اندرونی معاملات کو نظر انداز کیا ،جس کے نقصان یعنی سائیڈ ایفیکٹس بھی ہیں جو بھارت میں مذہبی لڑائیوں کا باعث بن رہی ہیں اور یہی لڑائیاں آزادی کی لڑائیاں ثابت ہوں گی۔جس کی بدولت 21فیصد غیر مسلم اور 30فیصد کے قریب دلت اور دوسری ہندو ذاتیں آزادی کی تحریکیں چلائیں گی جو خونی تحریکیں ثابت ہوں گی یہی سے بھارت کی تاریخ الٹنا شروع ہو جائے گی۔بھارت کے خواب کی تکمیل کی راہ میں دو ممالک حائل ہیں پاکستان اور چین، بھارت چین کو الجھانے کی بھی جسارت نہیں رکھتا مگر پاکستان کو مسلسل بہت سے محاذوں پر الجھا رہا ہے۔ایسے میں پاکستان کی ثابت قدمی ہی پاکستان کی جیت ہے۔پاکستان اپنا صرف دفاع کرلے اور اپنے اندرونی معاملات کو احسن طریقے سے نمٹا لے تو2025ً کا پاکستان ایک بڑا معاشی ملک ہوگا۔سی پیک کی تکمیل چائنہ کی معیشت کو مزید مستحکم کر کے معاشی تور پر امریکہ سے کہیں زیادہ آگے لے جائے گی۔موجودہ رپورٹ کے مطابق چائنہ کے دنیا میں شیئرز 15.5فیصداور امریکہ کے23فیصد ہیں جو سی پیک کی تکمیل کے بعد یقیناًبدل جائیں گے چائنہ کے 20فیصد ہو جائیں گے جبکہ امریکہ کے شیئرز مسلسل کم ہو رہے ہیں جو 2030میں 15فیصد رہ جائیں گے۔اس تبدیلی کے بعد امریکی اتحادی امریکہ سے بدذن ہو جائیں گے اور چائنہ اس امریکی خلاکو پر کرے گا۔سب سے زیادہ مفاد چائنہ کا ہے مگر پاکستان بھی جانے انجانے اس کے ثمر سے ضرور مستفید ہوگا۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">بھارتی نمبرداری و حکمرانی کے خواب کی تعبیر کیا ہوگی؟بھارت کا یہ خواب اسے کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔بھارت آج جو بہت زیادہ اچھل کود کر رہا ہے یہی اچھل کود اور سازشی سیاست اسے ایک دن ذلیل و رسوا کر دے گی۔کشمیر تو ہاتھ سے جائے گا ہی اس کے ساتھ ساتھ پنجاب بہار آسام اور بہت سی ریاستیں بھارت کے ہاتھ سے جاتی رہیں گی۔بھارتی خواب اسے تو نیست و نابود کروائے گا ہی مگر ساتھ ساتھ اس کے دشمن ملک چائنہ اور پاکستان 2040کے سپر پاور اور منی سپر پاور ہوں گے۔بھارتی ساتھی امریکہ بھی رسوا ہوگا ،مگر بھارت کے اندرونی اختلافات اور انتشار بڑھتا چلا جائے گا۔سازشی و انتہا پسند ہندو قوم خود اپنے ہاتھوں سے بھارت کی تاریخ بدل دے گی اور بھارت ٹوٹ کر چھوٹی ریاستوں میں بھٹ جائے گا ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ بھارت کا نام بھی ختم ہو جائے گا تب نہ کوئی ہندو ہوگا اور نہ ہی کوئی ہندوستان۔یہ سب تو ہونا ہی تھا مگر مودی کی چلاکیاں اور چستیاں اسے بہت تیزی سے انجام دیں گی۔اندازہ لگا لیجئے کہ جس بھارت نے 2060میں نقشے سے ختم ہونا تھا مودی سرکار اسے چند برس پہلے ہی خاتمے کی طرف گھسیٹ رہی ہے۔بھارتی انا انتہا پسندی اور بدلے کی نیت سے جو خواب دیکھ رہا ہے اس کا انجام بھیانک ہی ہو سکتا ہے ۔یہ ساری دنیا دیکھے گیٖ!</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-73171176181719405712017-12-17T01:19:00.003-08:002017-12-17T01:19:28.984-08:00شام کا بحران<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<b><span style="color: #20124d;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span></span></b><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">شام میں خانہ جنگی شروع ہوئے چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار چکے۔ انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔مگر شام کا داخلی بحران ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔شاید اسے ختم ہونے نہیں دیا جاتا۔ہر دور میں ہر زمانہ میں طاقتور ریاستیں چھوٹی اور مفادات سے جڑی ریاستوں کی جان نہیں چھوڑتیں۔ایسا ہی معاملہ یہاں ہے امریکہ اور روس ہر گز شام سے اپنا اثر رسوخ کم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور اس کے پس پشت ان کے کئی مقاصد ہوں گے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">شام مغربی ایشیاء کا ایک اسلامی ملک ہے جسے انگلش میں(syria) کہتے ہیں۔جس کے ہمسایہ ممالک میں ترکی، عراق،لبنان،اردن اور اسرائیل ہیں۔1967میں اسرائیل نے شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جو بعد میں کامیابی سے اسرائیل سے منسلک ہو گئے۔شام کی اندرونی خانہ جنگی عرصہ دراز سے جاری ہے جسے ہر گروپ اپنی انا کی جنگ تصور کرتا ہے۔ایک عرصہ قبل بشارالاسد جو شام کے مضبوط صدر ہیں کی طرف سے کچھ پرامن مظاہرین کو کچلنے کے لئے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔جس کے نتیجہ میں شام پچیدہ صورتحال کی طرف رواں ہوا۔پرامن مظاہرین بپھر گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے خطرناک باغیوں نے جنم لے لیا۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور بشارالاسد کی انا اور غلط پالیسیوں کی بدولت انتہا پسند تنظیموں کو بھی متحرک ہونے کا موقع مل گیا اور انتہا پسند تنظیموں نے باغیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جنگ شروع کردی۔ملکی حالات دن بدن بگھڑنے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے شام کے کردش بھی متحرک ہوگئے۔حذب اللہ نے شامی حکومت یعنی بشارالاسد کا ساتھ دیا۔وقت آیا کہ عراق میں موجود داعش نے شام میں بھی پنجے گاڑھنے شروع کردیئے۔کچھ عرصہ بعد انتہا پسند تنظیم داعش نے شام کے علاقہ النصر پر اپنا قلعہ جما لیا۔ملک شام مکمل طور افراتفری کی لپیٹ میں لپٹا قتل و غارت کا منظر پیش کرنے لگا۔باغیوں نے بھی قبضے جمائے، مگر داعش نے سب کو پس پشت ڈال کر اپنا تسلط جمانا شروع کردیا۔ایسے میں ایران اور حذب اللہ بشارالاسد کے بڑے اتحادی رہے۔جبکہ اسرائیل ،امریکہ، اور ترکی باغیوں کو سپورٹ کرنے لگے۔یہاں تک کہ امریکہ نے باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا۔وہی اسلحہ پھر داعش کو بھی فراہم کیا گیا بلکہ امریکہ کی طرف سے داعش کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی۔مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق داعش کی مدد کے لئے سعودی عرب ،کویت اور قطر کی طرف سے بھاری دولت براستہ ترکی داعش تک پہنچائی جاتی رہی۔ ایسے میں مسلمانوں کی فرقہ وارانہ نفرت کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سعودی عرب سمیت دوسرے عرب ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ایران سمیت ان کے قریبی اتحادیوں کی طاقت اور خودمختاری کبھی پنپنے کا نام نہ لے، جبکہ ایران اور اس کے ساتھی یہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلام میں صرف ان کا بول بالا ہو۔مسلمانوں کے مسلکوں کی لڑائی سے امریکہ کو خوب فائدہ ہوا۔اسی بدولت امریکہ نے عربیوں کی سرمایہ کاری سے مسلمانوں کے ہی کچھ علاقوں میں اپنے مفادات کی جنگ لڑی۔داعش سمیت بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔مغربی ایشیائی ممالک کی بربادی اور افراتفری سے ہی اسرائیل کے مفاد بھی منسلک ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ایشیائی بالخصوص مغربی ایشیائی ریاستوں کی موجودہ بحرانی صورتحال میں اسرائیل کا بڑا عمل دخل ہے اور امریکہ سمیت یورپی یونین بھی اسرائیل کو مکمل پنپنے کا محفوظ ماحول فراہم کر رہے ہیں۔تاکہ اسرائیل گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مکمل کر سکے۔دوسرا بڑا فائدہ جو اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ کہ عراق، لیباء، اور شام جیسے مسلم ممالک خام تیل کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں ۔امریکہ اس جنگی بحران کے پس پشت ان ممالک سے تیل نکال رہا ہے۔تمام تنازعہ علاقوں میں امریکہ اپنے تیل نکالنے کے مشن پر گامزن ہے۔گزشتہ کچھ برسوں سے داعش نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں سے خام تیل نکال کر امریکہ کو فروخت کر کے اپنے مالی وسائل نہ صرف پورے کئے بلکہ اپنے آئندہ منصوبوں کے لئے محفوظ بھی کر لئے۔روس بھی ایک مفاد پرست ملک ہے،اور دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عالمی حیثیت کو بحال کرنا چاہتا ہے۔روس نے بھی شام کی بحرانی صورتحال میں عمل دخل کیا روسی فورسز اور حکومت نے بشارالاسد کو سپورٹ کیا اور اسلحہ دیا مالی مدد کی۔بشارالاسد کا پلڑا بھاری کرنے میں روس اور چائنہ کے اسلحے کا بھی بڑا کردار ہے۔گزشتہ روز روسی صدر کی جانب سے شام کی خانہ جنگی کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ شام مکمل طور پر آزاد ہے داعش ختم ہو چکی ہے۔امریکہ کا موئقف ذرا مختلف ہے اور امریکہ ابھی شام میں مزیدعمل دخل چاہتا ہے۔شاید بدلتی صورتحال میں امریکہ مسلم ممالک کو مزید غیر مستحکم کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہنا چاہتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق لاکھوں داعش کے کارندے بھاری اسلحے سمیت شام سے کہیں اور منتقل ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اب ان کا اگلا پڑاؤ کہاں ہے؟ان کے پاس مالی وسائل اور اسلحہ بھی موجود ہے۔یہاں دو پہلو نکل سکتے ہیں۔یا تو امریکہ کچھ دیر بعد پھر انہیں واپس شام کی طرف دھکیل دے گا یا پھر کسی اور اسلامی ریاست کی طرف قافلے رواں ہوں گے۔ایسے میں ایشیائی ممالک کو بلکہ بالخصوص مغربی ایشیائی ممالک کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا کیپیٹل نامزد کرنے کے بعد کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ کسی بھی مسلم ریاست کے حالات بہتر ہوں بلکہ وہ مسلم ریاستوں کو مزید افراتفری کی فضا میں جھونکنا چاہتا ہے۔ایسے میں پاکستان کو بھی چاہئے کہ اپنی اندرونی معاملات جتنی جلد ہو سکے احسن طریقے سے نمٹائے تاکہ کوئی بھی دشمن ہمارے داخلی معاملات کو الجھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔جہاں تک شام و عراق کے جنگی بحران کی بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ سلسلہ کچھ وقت کے دھیما ہوا ہے امریکہ اسے پھر سلگائے گا۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-60069150997971300172017-12-10T01:42:00.002-08:002017-12-10T01:42:24.039-08:00یہود ونصار کی منظم منصوبہ بندی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><b><span style="color: #20124d;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span></span></b><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><span style="color: #20124d;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></span></b></div>
<b><span style="color: #20124d;"><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /></span></b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ایات اور احادیث سے ثابت یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے کہ یہود و نصار کبھی تمہارے دوست نہیں بن سکتے۔برسوں پہلے یاصدیوں پہلے عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔ایک دوسرے کی جانوں کے پیاسے تھے۔مگر جب مذہب اسلام پھیلنے لگا تو یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ یہود ونصار اسلام کے خلاف یکجا ہیں۔دونوں مذہبوں اور ان کے مذہبی سکالروں نے جب اسلام کوپھیلتے دیکھا تو ان میں تشویش کی لہر اٹھی کہ کہیں پوری دنیا میں اسلام نہ پھیل جائے،جب اسلام کو پھیلنے سے نہ روک سکے تو انہوں نے اسلام کے خلاف منظم منصوبہ بندی شروع کردی۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">موجودہ حالات میں مسئلہ فلسطین زیر بحث ہے،یہ بھی یہود و نصار کی منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">ٹرمپ ایک جنونی شخص ہے وہ کوئی بھی فیصلہ سوچے سمجھے بغیر کردیتا ہے۔امریکی لوگ اسے پاگل قرار دیتے ہیں۔اکثریت امریکی ویورپی عوام اس کے مخالف ہے اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔اس کے رویوں اور فیصلوں سے خود امریکی ادارے بھی اکتائے ہوئے ہیں۔عدلیہ بھی اس سے خفا ہے۔امریکہ و یورپ کے لوگ پرامن ہیں اور ٹرمپ کے انتہا پسندانہ رویے کو سخت ناپسند کرتے ہیں،مگر ٹرمپ کے فیصلوں کو چاہ کر بھی روک نہیں سکتے ۔وغیر ہ وغیرہ</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">یہ سب بظاہر ہے۔ایسا رویہ جان بوجھ کر اختیار کیا جا رہاہے۔امریکی عوام و ادارے منہ کی بجائے ناک یا کان سے کھانہ نہیں کھاتے کہ وہ غلطی سے انتہا پسند شخص کو ملک کا صدر بنوا بیٹھے اور بعد میں ان کو معلوم ہوا کہ کھانہ تو منہ سے کھایا جاتا ہے۔مسٹر ٹرمپ جو بھی کر رہے ہیں یہ سب اپنے ان وعدوں کی تکمیل ہے جو ٹرمپ نے انتخابی کمپین میں کئے تھے،جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے اپنے انتہا پسند اور اسلام دشمن ہونے کا ثبوت دیا تھا۔قارئین امریکی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو باخوبی علم ہوگا امریکی سیاست میں جو بھی ہوتا ہے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتتدار میں لانا اور اس کا متعصب پسند رویہ دکھانا یہ سب امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔اگر خطے کی صورتحال نہ بدلتی تو امریکہ کی منصوبہ بندی بالکل مختلف ہوتی اور ٹرمپ کی بجائے ہیلری صدر ہوتی۔مگر جب امریکہ کو علم ہوا کہ امریکہ کے مقابلے کچھ دوسری طاقتتیں بھی دنیا میں اثر ورسوخ بڑھا رہی تو انہیں اپنے رویے اور منصوبے میں تبدیلی لانا پڑی۔ایک انتہا پسند جوکر نما شخص کو سامنے لا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہا کہ امریکہ سمیت یورپ ہر گز انتہا پسندی کے مخالف ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک انتہا پسند اور من مانی کرنے والا شخص ہے جو اپنی مرضی سے مختلف پالیسیوں پر عمل کروا رہا ہے،جو کہ امریکہ کے لئے رسوائی کا باعث بن رہا ہے۔سی آئی اے اور دوسرے امریکی و اسرائیلی اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت ہی گزشتہ روز یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا،اور امریکی ادارہ یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔بعد میں مختلف یورپی ممالک سے اس کی مذمت بھی کروائی گئی۔ایسا نہیں کہ یہ فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جھٹ پٹ سے دے دیا ہو۔یہ اسرائیل کو 100ویں سالگرہ کا تحفہ ضرور ہو سکتا ہے مگر ایسا تحفہ دینے کی منصوبہ بندی بائیس برس پہلے سے جاری تھی۔گزشتہ برسوں میں شاید ایسی صورتحال یا ایسے مواقع میسر نہیں تھے۔مگر اب کے بار امریکہ کے پاس واضح مواقع موجود تھے ۔موقع محل گردانتے ہوئے انہوں نے اپنا فیصلہ صادر فرمادیا۔مسلمانوں کی موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو مسلمان دفاعی و جنگی صورتحال میں مبتلا ہیں،بٹے ہوئے ہیں۔امریکہ کی اپنے نیٹو اتحادی ترکی سے تعلقات میں بھی گرمجوشی نہیں رہی،پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ اور ڈو مور کے مطالبے نے تعلقات کی نوعیت ہی بدل دی۔واحد ایٹمی قوت پاکستان بھی دفاعی حالت میں ہے،اندرونی معاملات میں الجھا ہوا مشرقی و مغربی سرحدوں پر ستایا ہوا سی پیک کی نگرانی سمیت ہر وقت الرٹ رہنے پر مجبور ہے اوپر سے معیشت کا بھیڑا بھی غرق ہے آئی ایم ایف کے بغیر ہمارا بجٹ نہیں بنتا۔ایسے میں پاکستان سوائے بیانات کے کچھ نہیں کر سکتا۔ایران پرامریکی پابندیاں عائد ہیں اسکے علاوہ امریکی اسپونسرڈ جو سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد بنا ہے اسکا مقصد صرف ایران اور دوسرے مسلم ممالک کو کاؤنٹر کرنا ہے۔سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات اور دوسری عربی ممالک پر بھی امید نہیں رکھی جا سکتی۔اسرائیلی ٹیلی ویژن کے مطابق سعودی عرب اورابودبئی سمیت بہت سے اسلامی ممالک کو پہلے اعتماد میں لیا گیا تھا۔سعودی عرب کے پس پردہ اسرائیل سے تعلقات بھی کسی ڈھکے چھپے نہیں۔ترکی سب سے زیادہ ری ایکٹ کر رہا ہے مگر یہ بھی جان لیجئے کے عرصہ پہلے ترکی نے اسرائیل کوآزاد ریاست تسلیم کر لیا تھا۔باقی لیبیا ،عراق اور شام جیسے ممالک تو حالت جنگ میں ہیں بنگلہ دیش اورملیشیاء وغیرہ انٹرنیشنل معاملات پر کم ہی عمل دخل کرتے ہیں۔امریکہ نے مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لیا انہیں تقسیم کیا اور اب اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ایسی کٹھن مسلمانوں کی صورتحال میں ایسا امریکی فیصلہ آناہی تھا۔کیونکہ امریکی و اسرائیلی ذمہ داران باخوبی علم رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے بیانات آجائیں گے میٹنگز ہو جائیں گی احتجاج کیا جائے گا مگر کوئی بھی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا سکتا۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان حکمران خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120کا جائزہ لیں ،جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ’’اور تم سے ہر گز راضی نہیں ہوں گے یہود ونصاری یہاں تک کہ آپ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی‘‘۔اب مسلمانوں کی عیاشی و لچک دکھانے کا وقت ختم ہو گیا۔اب وقت کچھ کر دکھانے کا ہے،یکجا ہونے کا ہے۔وقت ہے کہ یہود و نصار کے منظم منصوبوں کو سمجھا جائے اور اسلام کا جھنڈا مضبوطی سے تھاما جائے۔ورنہ یوں ہی مسلمان فلسطین ،برما اور کشمیر کی طرح ظلم و بربریت کا نشانہ بنیں گے اور اپنی خودمختاری کو تسلیم کرانے کے لئے برسوں قربان ہوتے رہیں گے۔</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">کبھی اے نوجواں مسلم ٖ ٖ! تدبر بھی کیا تو نے</span><br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹ ہوا تارا</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-68735755437096663802017-12-03T01:23:00.004-08:002017-12-03T01:23:57.367-08:00قاتل معاشرہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div name="str" style="direction: rtl; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;">
<br /><b><span style="color: #351c75;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
</span></b><br />معاشرے میں قتل و غارت عام ہوتی جا رہی ہے ،معاشرہ بد عنوانیوں کی لپیٹ میں ایسا لپٹا ہے کہ اپنے سگے اپنا خون بھی زندگی کی کشمکش میں( افراتفری میں) بھروسے کے قابل نہیں رہا ۔آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ،جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ والد نے بیٹیوں کو قتل کر دیا ہے ۔ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں جنہیں دیکھ کر سن کر انسان ایسی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ خونی رشتوں پر بھی اعتبار نہ کیا جائے۔دشمنوں کی طرف سے پھیلائی ہوئی دہشتگردی جتنی مہلک ہے اس سے کہیں زیادہ خطرناک اپنے سگوں کا سگوں کے ہاتھوں قتل ہونا۔ہمارا معاشرہ جس طرف جا رہا اس سے افرتفری کی فزا مزید پھیلے گی اور خدا نہ خواستہ ایسی خطرناک فضا معاشرے ،ملک و قوم سب درہم برہم کردیتی ہے باقی کچھ نہیں بچتا۔<br />برسوں پہلے، جب ٹیکنالوجی عام نہیں تھی۔گاڑیوں کا شور و دھواں نہیں تھا۔روپے کی اتنی روانی نہیں تھی۔شہروں کی حدودیں بھی اتنی بڑی نہیں تھیں۔دیہات بھی آباد تھے۔البتہ بجلی گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی،اگر تھی بھی تو مخصوص حلقوں تک تھی۔لوگ کنوؤں سے پانی بھر کر پیتے تھے۔آسانیاں نہیں تھیں ہر کام کے لئے بڑی محنت درکار تھی۔روزگار کے لئے خوراک کے لئے اچھی خاصی محنت درکار تھی۔ان سب کے باوجود بھی معاشرہ پر سکون تھا۔لوگ مطمئن تھے،شکر کے کلمات ادا کئے جاتے تھے۔مکان کچے تھے، مسجدیں کچی تھیں۔جدت کے لحاظ سے زمانہ آج سے بہت پیچھے تھا۔سائنسی علوم سے لوگ بہت کم شناسائی رکھتے تھے۔اخلاقی علم سے مالا مال تھے۔آپ ﷺ کی تعلیمات کا گہرہ اثر تھا ان لوگوں پر،آپ کی تعلیمات کو سینے سے لگا کر رکھنے والے لوگ تھے ۔حسن اخلاق ،عزت و احترام اور احساسات جیسی کئی خصوصیات ان میں موجود تھیں۔جو واقعی ان سادہ مگر صاف دل لوگوں نے آپﷺ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے ہی سیکھی ہوں گی۔زمانہ سست تھا،مگر سکون و لطف سے بھرپور۔ایک دوسرے کا احساس اتنا کہ جتنا آج کے خونی رشتے بھی نہ رکھتے ہوں۔اسلحہ عام نہیں تھا شاید اس کی اتنی ضرورت بھی نہ تھی۔خالص و پوتر لوگ، بغض نہ رکھنے والے لوگ تھے۔کوئی بھی گلہ شکوہ ہوتا تو کھل کر بیان کر دیتے دل میں غصہ نہ رکھتے۔شاید اسی لئے برائیاں بہت کم تھیں معاشرہ قاتل نہیں تھا۔چوری چکاری بہت کم تھی۔قتل و غارت جیسی واردات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔اگر کوئی قتل جیسا بڑا سانحہ ہو بھی جاتا تو پورا معاشرہ سوگ میں مبتلا ہو جاتا۔سوگ دور دراز کے علاقوں دیہاتوں کو بھی غمگین کر دیتا۔یہاں تک کہ فضائیں بادل بھی سوگ میں برابر کے شریک ہوتے۔آندھیاں و طوفان برپا ہوجاتے جس سے دور دراز کے لوگ بھی آگاہ ہو جاتے کہ کوئی بڑی انہونی ہوئی ہے۔سوگ میں غمگین یہ لوگ اپنے رب سے رحمت و سلامتی کی دعا کرتے۔ایسی انہونی کبھی کبھار ہوتی اسی لئے لوگ اسے مہینوں تک نہ بھول پاتے اور غمگین رہتے۔آج کا معاشرہ قاتل کہلانے کے لائق ہے کیونکہ روز بروز بڑی بے دردی سے لوگ قتل ہو رہے ہیں مگر کسی کو کوئی احساس نہیں۔روز بروز کی بدعنوانیوں نے ہمارے احساسات کو ختم کر دیا ہے۔احساسات کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے وہ بھی نہیں رہی یہاں دوسروں کے قتل پر افسردہ ہونے کی بجائے لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔<br />پھر زمانہ بدلتا گیا،وقت گزرا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہروں کی حدود دیہاتوں سے لگنے لگی دن رات محفلیں جمنے لگیں۔ٹیکنالوجی نے زندگی ہی بدل دی،زندگی سہل ہوگئی۔انسان محنت سے عاری ہونے لگا۔ انسان آسانیوں کے اس دور میں غافل ہونے لگا ۔اللہ اور اسکے احکامات کو بھولنے لگا۔دنیا کی رنگینیوں میں رنگنے لگا۔ دنیا کی افراتفری میں اسلحے میں بھی جدت آئی۔اختلافات بڑھنے لگے، قتل و غارت روز کا معمول بن گئی۔معاشرے کا توازن بگھڑ گیا۔باہمی مفادات ختم ہوگئے ،ذاتی مفادات نے ترجیح لے لی۔ظاہری رنگین محفلوں والا پرکشش معاشرہ، انسان کو ذہنی الجھنوں میں پھنسانے لگا۔انسان اتنی چہل پہل افراتفری میں بھی ذاتی مفادات تک،تنہا ہونے لگا۔معاشرہ دن بدن ٹوٹنے لگا۔انسانی سوچیں بڑھنے لگیں۔انسان مالیت پرست ہو گیا۔پریشانیاں بڑھنے لگیں۔معاشرہ بے ہنگم ہو گیا ،لوگ چکرا گئے۔انسانی قدروں کا خاتمہ ہوگیا۔اتنی بڑی فورسز اداروں اور قوانین کے باوجود بھی انسانی درندگی حوس و بد عنوانی بڑھنے لگی۔معاشرے کا بھائی چارہ تو ختم ہوا مگر خونی رشتے بھی مدھم ہوکر ختم ہونے لگے۔نفسیاتی بیماریاں بڑھنے لگیں۔نفسیات پر کنٹرول ختم ہو گیا، انسان کا خود پر قابو ختم ہوگیا۔معاشرہ بظاہر بڑا رنگین ،درحقیقت ایک قاتل و کھوکھلا معاشرہ بن کر رہ گیا۔<br />یقین مانئے جب سے ہوش سنھبالا ہے حالات دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔بے حسی و بدعنوانیوں کی ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جیسے انسانوں کے معاشرے میں نہیں کسی اور مخلوق کے معاشرہ میں رہ رہے ہیں۔دشمنوں و دہشتگردوں کے ہاتھوں معصوموں ،بوڑھوں اور جوانوں کا شہید ہونا تو معمول ہے۔بھائی ، والد اور چچا کے ہاتھوں بہنوں بیٹیوں کا قتل ہونا بھی معمول بن چکا ہے۔بیٹے کے ہاتھوں باپ و ماں کا قتل ہونا بھی اس قاتل کا معاشرے کا کارنامہ ہے۔مگر گزشتہ روز ایک نئی ہی خبر سننے کو ملی ہے جس نے رشتوں کے کم ہوتے اعتبار کو مکمل ہی ختم کر دیا ہے۔اس سے آگے اب کچھ نہیں یہ انتہا ہے معاشرہ قاتل ہے قاتل ہے۔وہ قاتل معاشرہ جس میں ماں نے اپنے شوہر سے جگھڑے کی بنا پر اپنے ان ننھے منے بچوں کو گلہ کاٹ کر قتل کر دیا جو شاید اس ماں کے قدموں تلے اپنی جنت کے متلاشی ہوں گے، اور پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہیں نہر میں پھینک دیا۔ وہ کمسن بچے جنہوں نے زندگی کے کچھ برس ہی گزارے تھے ۔جنہیں ابھی سکولوں کالجوں میں پڑھنا تھا،جنہوں نے زندگی میں ابھی کسی سے کوئی لڑائی جگھڑا بھی نہیں کیا تھا۔ جنہیں شاید ابھی لفظ موت اور قتل سے واقفیت بھی نہ تھی۔ جنہیں ابھی دنیا کی درندگی کا اندازہ بھی نہ تھا۔ جن کی عمر کھیلنے کی تھی۔ اور ابھی وہ ماں کی ممتا میں خوشیوں کے متلاشی تھے، جس ماں کی گود میں کھیلنا تھا جس کے ہاتھوں سے غذا کے لقمے کھانے تھے انہیں ہاتھوں نے نہ جانے کیسے چھری چلائی ہوگی،اگلے جہاں میں بیٹھے یہ معصوم بچے ضرور افسردہ ہوں گے اور اپنے رب سے گلہ بھی کریں گے۔ اے خدایہ یہ کیا ہوا ماں تو بچوں کے لئے جان قربان کرسکتی ہے ماں کے قدموں تلے تو جنت ہے اے ہمارے رب خداوند ہم اپنی جنت کہاں تلاش کریں ہماری جنت نے تو ہمیں لہولہان کردیا آخر ہمارا کیا قصور تھا ۔اس سے زیادہ بے حسی بدعنوانی کیا ہو سکتی ہے ۔یہ معاشرہ اخلاق احساس سے بہت دور چلا گیا ہے۔ایسے ہی کئی واقعات اور ہیں جو انسانی درندگی کو عیاں کرتے ہیں۔کچھ ہی روز قبل گوجرانوالہ میں ایک باپ نے اپنی دو کمسن بیٹیوں کو زندہ نہر میں پھینک دیا۔ایک دیہاتی عورت نے پیر کے کہنے پر اپنے بیمار بیٹے کا قتل کر دیا۔کیا کیا لکھوں! بے حسی و بدعنوانی کے قصے ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔<br /><b>اس سے بڑی سفاکی کیا بتاؤں آدمی ہی انسانیت کا قاتل نکلا<br />تڑپا تڑپا کر سسکا سسکا کر مارا جس نے بھائی ہی بہن کا قاتل نکلا<br />دیس کی مٹی کی وفا کو کیا ہوا اس دیس کی مٹی کا وجود بھی غافل نکلا<br />اس مٹی کی اور کیا بے وفائی بتاؤں بیٹا ہی باپ کا دشمن عناصر نکلا<br />زرخیز اس مٹی نے اگایا ہے نفرت کو برابر کہ بھائی ہی بھائی کا قاتل نکلا<br />اس دیس کی کیا داستان سناؤں ہندل ہائے ماں بیٹے کی اور بیٹا ماں کا قاتل نکلا</b></div>
<div>
<br /></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-75446889968324830072017-11-26T01:24:00.004-08:002017-11-26T01:24:41.254-08:00پھیلتی افراتفری<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<br style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><b><span style="color: #20124d;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span></span></b><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">نا چاہتے ہوئے بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ملک افراتفری کی گرفت میں آگیا۔جس سازش کا خدشہ تھا وہ سچ ثابت ہوا۔پاکستان کو بیرونی معاملات میں الجھانے کے لئے اسے اندرونی افراتفری کی طرف دھکیل دیا گیا۔آج پورا ملک بند ہونے کو ہے، کاروبار، آمدورفت اور دوسرے روزمرہ کے کام ٹھپ ہو رہے ہیں۔شہری علاقوں میں گھروں سے باہر نکلنا محال ہے۔خطرناک نتائج لئے پھیلتی افراتفری ہے کہ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ہر ذی شعور پریشان ہے کہ اکیس کروڑ کے اس ملک کا کیا مستقبل ہے۔معاملات دن بدن سنگین سے سنگین کیوں ہو رہے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دشمن ہمارے ملک میں افرتفری پھیلانے میں بھی سرگرم عمل ہے،ہمارے آپس کے اختلافات دشمنوں کے اس ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ملک میں موجود دشمن دوست پاکستان کے خلاف سازشی منصوبہ بندی میں متحرک ہیں۔وہی پاکستان جو وسط ایشیاء کا نمائندہ ملک بننے جا رہا ہے ،کیا وہ ایسا کر پائے گا؟وہ اپنے اندرونی معاملات سے نمٹنے کی بجائے روز بروز مزید الجھتا جا رہا ہے۔آخر کوئی تو بڑی سازش ہے جو اس وقت متحرک ہے؟، جو پاکستان کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتی۔گزشتہ چند عرصے سے پاکستان کو ہمہ وقت بیرونی و اندرونی معاملات میں الجھایا جا رہا ہے۔ایسے کٹھن حالات میں ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے یکجا ہو کر دشمنی سازشوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کریں۔مگر افسوس کہ ملک میں پھیلتی افراتفری میں جتنا ہاتھ دشمن کا ہے اس کہیں زیادہ قصور ہماری سیاسی جماعتوں اور ہمارے اداروں کا ہے۔ملکی افراتفری میں اضافے کے ذمہ دار ہم عام عوام بھی ہیں جو کبھی ایک نظریے پر متفق نہیں ہو سکے،بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا ہماری قوم کسی ایک کام ایک نظریے کے لئے کبھی یکجا نہیں ہوئی۔ہمیشہ عوام نے ظاہری و وقتی مفاد کو ترجیح دی ہے۔موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو وہ نامعلوم ہے ایسا لگتا ہے کہ ملک بغیر حکومت کے ہی چل رہا ہے۔فیض آباد کے دھرنے کو کچلنے کی جو ناکام کوشش کی گئی اس کے نتائج ملک بھگت رہا ہے اور نہ جانے کتنے دن اس کے نتائج بھگتنا پڑیں۔حکومتی نااہلی کے باعث ہی تو دھرنا شروع ہوا،مگر مذہبی جماعتوں کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک کو افراتفری کی طرف دھکیلیں۔ملک پھیلتی افراتفری کی ریس میں اتنا آگے نکل گیا ہے، لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔کوئی قانون نہیں ۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا مہاورا سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ریاست تو جیسے سرے سے ہی موجود نہیں،جنگل راج ہے۔ریاست کی تذلیل ہو رہی ہے۔ حکومتی کنٹرول کم ہوتا جا رہا ہے۔جو کسی کا دل چاہتا ہے کرتا ہے۔موجودہ پھیلتی افراتفری میں ہم سب قصور وار ہیں عام عوام سے کہیں زیادہ قصور وار حکومتیں ادارے اور دوسری بااثر جماعتیں ہیں۔نااہلی کی انتہا دیکھئے جس کا دل چاہتا ہے وہ اکٹھ کر کے ملک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔یہ جنگل راج ہے جو جتنا طاقتور اتنا ہی با اثر۔آخر کب اس وطن کو سکھ اور چین نصیب ہوگا؟پھیلتی افراتفری کب رکے گی؟کون ملک کا حقیقی لیڈر ہے؟اقتدار کے لالچ سے پاک مفادات سے پاک کون ہے ؟ہے کوئی ایسا لیڈر جو اپنے وزراء کو نوازنے کی بجائے ملک کا سوچے؟ایسا کیوں ہے؟ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں، ہو بھی کیوں۔کیوں کہ لالچ و بے حسی ہے کہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔آج ہم اپنے مفادات کی خاطر دین کا سہارا لینے سے بھی نہیں کتراتے۔ہماری تعلیمات کہاں گئیں؟ہمارے علماء و اساتذہ کے علم میں اتنا بھی اثر نہیں کہ وہ بڑھتی حوس و لالچ کو کم کر سکیں۔اسلام تو مکمل نظام حیات ہے، بلکہ واحد دین ہے جو مکمل ہے۔کیا پھر ہماری تعلیمات میں کوئی کمی کوتاہی ہے؟کیا ہمارے عالم ہی نامکمل علم رکھتے ہیں،یا عمل سے عاری ہیں؟ کچھ تو ایسا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی بے حس ہو چکا ہے ۔ورنہ کوئی ختم نبوت کی شک کو حذف کرنے کی گستاخی نہ کر سکتا۔آپﷺ ہمارے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپﷺ کی ذات پر ہماری جان بھی قربان۔حکومت نے جو غلطی کی ہے وہ حقیقت میں بڑی غلطی ہے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نظام حیات کو درہم برہم کیا جائے۔تحریک لبیک کا وزیر کی نااہلی کا مطالبہ درست ہے مگر ملک میں افراتفری پھیلانے کا منصوبہ غلط ہے۔حکومت نے جلد بازی میں یا اپنے وزیر کو بچانے کے چکر جس افراتفری کو فروغ دیا ہے ملک اس کا متحمل نہیں ۔اس کٹھن وقت میں جب دشمن سے بھی خطرات موجود ہیں حکومت کو دانشوری کا مظاہرہ کرنا چاہئے نہ کہ دشمنی سازش کو ترویج دی جائے۔ویسے کچھ عرصے سے ہماری عدالتیں کافی متحرک ہیں اور ہر معاملے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتی ہیں۔سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کوبھی خود ہی دیکھ لے،اور آئین و قانون میں تبدیلی کے ذمہ داران کو سامنے لانے کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کو بھی پرامن رہنے کی تلقین کرے۔تاکہ پھیلتی افراتفری پر فوری قابو پایا جا سکے۔باقی بات رہی سازش اور قصور کی وہ وقت عیاں کر دے گا کہ کس کا کتنا قصور ہے۔</span></div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-83945236406817928332017-11-19T00:31:00.001-08:002017-11-19T00:31:11.267-08:00مشرقی و مغربی سرحد اور اندرونی معاملات<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 class="title" style="background-color: white; border-bottom-color: rgb(62, 175, 0); border-bottom-style: solid; border-image: initial; border-left-color: initial; border-left-style: initial; border-right-color: initial; border-right-style: initial; border-top-color: initial; border-top-style: initial; border-width: 0px 0px 2px; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Oswald, sans-serif; font-size: 24px; line-height: 36px; margin: 0px 0px 10px; padding: 0px; text-align: right; vertical-align: baseline;">
<br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;"><span style="color: #20124d;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
او ہیں۔</span></span><br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; text-align: start;" /><span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px; font-weight: normal; text-align: start;">ہمہ وقت اندرونی و بیرونی معاملات میں کشیدگی دشمن کی بڑی سازش ہی ہو سکتی ہے،مگر افسوس کہ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اور مختلف ادارے ملک کو افراتفری کی جانب دھکیل کر دشمن کی سازش کو پروان چڑھا رہے ہیں۔جانے انجانے بہت سے لوگ ملک کو افراتفری کی جانب دھکیلنے کا کام سرانجام دے رہے ہیں ان میں سیاسی پارٹیوں کے کارکن حکومتی حامی مذہبی جماعتوں کے کارکن اور بہت سے دانش ور وغیرہ ہیں۔ملک فی الوقت متعدد مسائل کی گرفت میں ہے اور ان میں آدھے سے زائد مسائل ہماری اور حکومت کی نادانیوں کے باعث دشمنوں نے پروان چڑھائے ہیں۔حکومت کو اپنے ہونے کا ثبوت دینا ہوگا،کھوکھلی حکومت سے بہتر ہے کہ فوری اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کروائے جائیں۔لیکن اخلاقی طور پر حکومت کو پورا وقت ملنا چاہئے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کے موجودہ وقت کا انتظار کرنا چاہئے الیکشن کمپین ضرور چلائیں مگر مخالفت میں اتنی شدت نہ ہو کہ ملک افراتفری کی طرف چلا جائے۔حکومت کو اگر مدت پوری کرنی ہے تو تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور ان کے جائز مطالبات پورے کرے۔پاکستان میں موجود ہر ذی شعور انسان کو باخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان بیک وقت متعدد مسائل کی لپیٹ میں ہے۔تاہم سیاسی و عسکری قیادت نے کافی حد تک ان مسائل کو کنٹرول بھی کیا ہے۔خطے کی بدلتی صورتحال نے پاکستان کو ہر وقت محتاط و الرٹ رہنے پر مجبور کردیا ہے۔پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری کے آغاز کے بعد سے بہت سی قوتیں پاکستان پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔کچھ اچھی نظریں یعنی بعض اچھے ممالک سرمایہ کاری و کاروبار کی نیت سے نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔کچھ انتہائی بری نظریں یعنی بعض ممالک کو خطے کی یہ ترقی ہر صورت ہضم نہیں ہو رہی ان کے نزدیک انکی نمبرداری ختم ہوجائے گی وسط ایشیاء مستحکم ہو جائے گا اور چوہدراہٹ والا نظام بھی زوال پذیر ہو جائے گا۔ایسے ممالک میں سپر پاور امریکہ اور ایشیاء میں امریکہ کا دوست بھارت ہر وقت سی پیک کی ناکامی کے لئے متحرک رہتے ہیں،اور بھی بہت سے ممالک ان کے اس مقصد میں حامی ہیں۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت مکمل طور پر ان سازشوں سے آگاہ ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے اپنی پیشہ ورانہ صلاحتیں استعمال کر رہی ہے۔گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان کو تین طرح کے مسائل در پیش ہیں اور اگر اندازہ لگایا جائے تو سوچی سمجھی سازش ہی لگتی ہے۔کچھ دن قبل افغانستان کی طرف سے پاکستان آرمی پر فائرنگ گزشتہ روز ایل او سی پر بھارتی خلاف ورزی بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل اور ملک میں سیاسی و مذہبی انتشار وغیرہ ہمہ وقت ملک کو مختلف مسائل میں دھکیل کر افراتفری کو پروان چڑھانے کے مترادف ہے، اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اس حالت میں دشمن کی ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی غفلت بھی شامل ہے۔ ہماری مشرقی سرحد بھارت سے ملتی ہے۔ بھارت ہمارا ازل سے دشمن ہے، لائن آف کنٹرول پر بھارتی خلاف ورزیاں تو عرصہ دراز سے چلی آرہی ہیں مگر جب سے سی پیک کا آغاز ہوا ہے ان خلاف ورزیوں میں شدت آگئی ہے آئے روز کسی نہ کسی دیہات کی فصلیں تباہ ہو رہی ہے دیہات اجڑ رہے ہیں معصوم لوگ مر رہے ہیں۔بھارتی شر پسندانہ حکمت عملی خطے میں جنگ کے خطرات کو پروان چڑھا رہی ہے۔پاکستان نے ہمیشہ نرم رویہ اختیار کیا بعض اوقات مسائل کے حل کی خاطر بھارتی ہٹ دھرمیوں کو پس پشت ڈال کر مذاکرات کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر بھارت بعض آنے سے قاصر ہے۔موجودہ آرمی چیف کو کریڈٹ دینا بھی ضروری ہے ،چیف صاحب نے جوانوں کو حکم دے رکھا ہے کہ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کی صورت میں بروقت اور موئثر جواب دیا جائے تاکہ دشمن کسی وہم میں مبتلا نہ ہو۔پاکستان کی مشرقی سرحد پر مستقل خطرہ موجود ہے اسی لئے آرمی چیف نے ہر وقت الرٹ رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔بھارت نے رواں سال 1300سے زائد مرتبہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جو کہ انسانی حقوق اور امن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے لئے پاکستان دشمنی میں اپنی حدیں عبور کررہا ہے ،دوسری طرف بھارت کے نئے آقا امریکہ نے اسے حکم دے رکھا ہے کہ سی پیک کو ہر گز کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ہماری مغربی سرحد افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہے،یہ سرحد بھی عرصہ سے مشکلات کی گرفت میں ہے۔افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقوں میں فائرنگ اور ایران کی طرف سے دھمکیاں بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ دونوں ممالک بھارت کے قریبی ہیں اور بھارت ان ممالک میں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے۔پاکستان اپنی اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے سرگرم ہے۔پاک فوج پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے میں مصروف ہے اور امید کرتے ہیں کہ اس کی تکمیل سے دہشتگردی میں کمی آئے گی۔دہشتگردوں کی افغانستان کے راستے پاکستان آمدورفت رک جائے گی۔پاکستان کی عسکری قیادت کو ہمہ وقت مشرقی و مغربی سرحدوں پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے دشمن ہر وقت ہمیں نقصان پہنچانے کے طریقے ڈھونڈتا ہے،ہمیں دشمنوں کی چالوں کو بھانپ کر انکا مقابلہ کرناہے۔بارڈر مینجمنٹ کو جلد از جلد بہتر بنایا جائے۔اندرونی مسائل سب سے زیادہ گھمبیر ہیں اور انہیں حل کئے بغیر بیرونی مسائل مزید الجھ سکتے ہیں۔حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،بلوچستان سمیت تمام مسائل کو بھانپ کر انکا مقابلہ کرنا ہوگا۔تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ ذاتی مخالفت کو ذاتی ہی رکھا جائے ، ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو انتشار کر طرف مت دھکیلیں۔باہمی طور پر مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں،ذمہ داران اور فہم پرست سیاستدان ہونے کا ثبوت دیں۔افراتفری کو فروغ نہ دیں بلکہ دانش مندانہ طریقے سے اپنا اپنا منشور تیار کرکے الیکشن کی تیاری کریں ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر سیاست کریں۔ایسا نہ ہو کہ آپ کے ذاتی مفادات کی خاطر ملک انتشار کی طرف چلا جائے اور یہ روایت مشہور ہو جائے کہ سیاست دان ملکی معاملات چلانے کے قابل نہیں۔</span></h2>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6796654112085948022.post-70420579160991805512017-11-05T03:47:00.001-08:002017-11-05T03:47:21.494-08:00پاکستان مخالف بھارتی مہم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="200" data-original-width="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhE4EDSAaVlFGXcUy1o7vkcz32EZH4rEqZYQ3N6O8WglVFBr565UfH6GAu2SxvFlEDjRpwKHU97NtvSKxLcM2DJHzTvRqWSzbCd0N6BQkdawNn10rMUhC4tA9CCGJ2sZ-vuZWRhhJVqNgUv/s1600/Zulqarnain+Hundal+Logo.jpg" /></a></div>
<div dir="ltr" style="background-color: white;">
<b style="font-family: arial, sans-serif; font-size: 12.8px;"><span style="color: #660000;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔</span></span></b><br style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;" /><span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;">یوں تو</span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq;"><span style="font-size: 18px;">کئی سالوں ہی سے دشمن ملک بھارت پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے، کوئی بھی مخالفت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ تعلقات میں بہتری کی کوششیں کیں۔مگر مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی بھارتی پاکستان مخالفت میں شدت آگئی۔مودی انتہا پسند بھارتی تنظیم اشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کا سرگرم رکن اور مسلم کش ایجنڈا ہندو تواء کا پیرو کار ہے۔مودی نے اپنی تنظیم سے پاکستان کی تباہی جیسے ناپاک وعدے کر رکھے ہیں،مودی نے انتہا پسند بھارتی قوم سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ کشمیر سمیت بہت سے پاکستانی علاقوں کو بھارت میں ضم کرے گا۔مودی اور اسکی حکومت اپنے ناپاک عزائم کے لئے سر گرم عمل ہے۔اپنے مقصد کو پس پردہ چلانا بھارتی وطیرہ ہوتا تھا مگر اب کے بار مودی سرکار سرعام اپنے عزائم کا تذکرہ کرتی ہے۔مختلف فورمز پر مودی نے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی اور پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔مودی بذات خود بڑے فخر سے یہ بھی بتا چکا ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے میں ان کی تنظیم اور انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔پس پردہ جڑیں کاٹنا تو بھارت کا معمول کا کام تھا مگر اب کے بار تو کھلم کھلا پاکستان کی تباہی کی باتیں کی جاتی ہیں۔اسکی بڑی وجہ خطے کی بدلتی صورتحال ہے۔بڑی وجہ امریکہ بھارت تعلقات میں بہتری اور پاک امریکہ تعلقات میں کمی و کشیدگی بھی ہے۔پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور جو خطے کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔بھارت تو ازل سے ہی اس منصوبے کا مخالف ہے ،امریکہ کو بھی یہ گوارا نہیں اسے لئے اس منصوبے نے امریکہ بھارت کو مزید نزدیک و یکجا کر دیا۔خطے میں سیاسی صورتحال بدل چکی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔چائنہ روس اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک حامی بنتے جا رہے ہیں جبکہ امریکہ کو یہ بہت ناگوار گزر رہا ہے کہ یہ خطہ انکی مداخلت سے پاک ہو اور چین و روس اس کے مقابلے مضبوط ہو جائیں۔اسی لئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت پر امریکہ نے انحصار شروع کردیا، بھارت کو اپنے اسلحے سے لاد کر خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا تاکہ کوئی اس خطے میں امریکہ کے مقابلے کھڑا نہ ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک اب پاکستان کی حیثیت بدل چکی ہے اور امریکہ دن بدن پاکستان کو پریشرائز کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے،بھارت کو بھی عزائم مقاصد کی تکمیل کے لئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے بلکہ مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔بھارت اس وقت اپنے اثر و رسوخ کی بلندی پر ہے اور نمبرداری کے نشے میں دھت ہے مگر اسے امریکی چالبازیوں کا قطعی علم نہیں شاید اسے پاکستانی دشمنی میں ہر علم سے لاعلم رہنا ہی بہتر لگتا ہے۔مگر بھارت کو جان لینا چاہئے کہ ایک دن امریکی گود میں کھیلتے کھیلتے وہ خود تباہ ہو جائے گا چائنہ اتنا مضبوط ملک ہے کہ بھارت اس کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتا ، یوں سمجھ لیجئے کہ ظاہری نمبرداری کے چکر میں بھارت تو ایک دن ٹکڑوں میں بھٹ کے رہے گا۔بھارت اس وقت امریکی ملی بھگت اور پاکستان سے مخالفت و دشمنی کی بدولت سی پیک کو ناکام بنانے کی کاوشیں کر رہا ہے چاہے اسکی راہ میں اسکے اپنے مفادات بھی قربان ہو جائیں اسے کوئی سروکار نہیں۔اس ملی بھگت میں کچھ اسلامی ممالک بھی شریک ہیں جن میں افغانستان اور دبئی کا نام قابل ذکر ہے۔بلوچستان میں بھارت عرصہ دراز سے براستہ افغانستان تخریب کاریوں میں ملوث ہے مگر سی پیک کے آغاز کے بعد بھارت نے گلگت بلتستان میں بھی تخریب کاریاں شروع کر رکھی ہیں، کچھ نام نہاد لوگ صحافی و ورکرز کی صورت میں بھارتی ایجنڈے کو گلگت بلتستان میں پروان چڑھا ر ہے ہیں۔پہلے تو بھارت نے کبھی خاطر خواہ اعتراض نہیں اٹھایا تھا مگر سی پیک کی تعمیر سے بھارتی حکومت نے کشمیر کے ساتھ گلگت کو بھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا ہے۔اسی طرح بلوچستان میں بھی مختلف لوگ بھارتی ایجنڈے کو پرموٹ کر رہے ہیں۔پاک آرمی کی کاوشوں کی بدولت کچھ بہتری آئی مگر اب بھی لوگ موجود ہیں جو پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں،چاہے انکی تعداد بہت کم ہے مگر ان سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔کچھ عرصہ قبل بھارت نے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں بلوچستان آزادی کے نام سے پاکستان مخالف مہم چلائی۔گزشتہ روز بھی اسی طرح کی مہم لندن میں بھی چلائی گئی۔ابھی جنیوا کی مہم کا چرچا ختم ہوا ہی تھا کہ بھارت نے پاکستانی مخالفت میں لندن کی مختلف سڑکوں اورگاڑیوں پر آزاد بلوچستان کے اسٹیکرز لگوائے دیئے۔پاکستان نے اپنے دوست ملک برطانیہ سے سخت احتجاج کیا کہ برطانیہ ایسی مہم کی ہر گز اجازت نہ دے یہ پاکستان کی سلامتی و خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے دنیا بھر میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے ،نام نہاد بلوچ تنظیمیں بھارتی مقاصد کا حصہ بن رہی ہیں۔پاکستانی حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں یہ ہماری سلامتی کا معاملہ ہے اور کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری سلامتی پر سوال اٹھائے۔تمام سیاسی پارٹیوں اور تمام اداروں کو متحد ہونا ہوگا۔دشمن ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کے در پے ہے اور ہم اپنی سیاسی لڑائیوں میں لگے ہوئے ہیں ہر طرف صرف اقتدار کا لالچ نظر آ رہا ہے سیاسی دنگل عروج پر ہے اداروں کے درمیان غلط فہمیاں ہیں کہ بڑھتی جا رہی ہیں۔یہ ہو کیا رہا ہے؟ وقت کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا دشمن کی چالوں کو بھانپنا ہوگا۔یکجا ہو کر اندرونی معاملات کو حل کرنا ہوگا پھر ہی ہماری مضبوطی سے دشمن خود تار تار ہوگا۔پاکستانی حکومت کو اپنی اعلی و اچھی سفارتکاری کی بدولت دنیا کو بتانا ہوگا کہ بھارت کتنا مکار ہے اور بلوچستان پاکستان ہے اس کی اکثریت پاکستان سے دل وجان سے پیار کرتی ہے چند نام نہاد بھارت نواز لوگوں کے کہنے پر بلوچستان کو بھارت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسا سوچنا بھی جرم ہے۔دنیا کو بھارتی مکاری کے خلاف ایکشن لینا چاہئے اور کسی ملک کی سلامتی کے خلاف سازش کے جرم میں سزا بھی ملنی چاہئے</span></span></div>
<div>
<span style="color: black; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18px;"><br /></span></div>
</div>
Anonymoushttp://www.blogger.com/profile/06052672497932853283noreply@blogger.com0