Friday 18 January 2019

مہنگائی کا طوفان اور منی بجٹ

چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔


ایک طرح سے تو موجودہ حکومت بھی پرانی روایتی حکومتوں جیسی ہی نکلی۔انہی کی طرح الیکشن سے قبل بڑے دعوے،عقل مندانہ ترکیبیں اور حقائق پر مبنی دلیلیں، معیشت میں بہتری کے منتر،عوام کو ریلیف جیسے خواب، اور قسمتیں بدلنے کے کرتب دکھائے جاتے رہے۔عوام نے ان کی باتوں پر بھروسا کرتے ہوئے انہیں موقع فراہم کیا۔ الیکشن سے قبل ،عوام کے نزدیک اس حکومت میں کچھ نئی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔یہ جماعت جس میں چاہے پرانے ہی سوار شامل ہیں،عوام کے لئے حقیقی تبدیلی کے دعویدار لگ رہے تھے۔تاہم حکومت میں آتے ہی جادوئی ترکیبیں جیسے رک سی گئی ہوں۔جیسے کسی نے حکومت کو نظر لگا دی ہو۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ ،ایک جماعت کا ہر رہنما ہی اپنی ترکیبیں بھولنے لگے۔لگتا ہے کہ، روایتی جماعتوں نے اس جماعت کو بھی روایتی بنانے کے لئے کوئی جادوئی علم کروایا ہے۔وگرنہ الیکشن سے قبل تو اس حکومت کی تبدیلیاں بظاہر تھیں۔مانتے ہیں کہ ،حکومت کا نشہ ایسا ہے کہ باقی نشوں پر حاوی آجائے۔لیکن نئے پاکستان والے تو اس میں مبتلا ہی نہیں ہوسکتے۔ مگر پھر بھی روایتی انداز کیوں؟
خیر عوام تو آج بھی امیدیں لگائے بیٹھی ہے کہ، اس دن کا سورج کب طلوع ہوگا۔جب سب نیا نیا سا لگے گا۔جہاں امیر و غریب، گورے و کالے، اور پنجابی و بلوچی میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔جہاں تعلیمی نصاب ایک ہوگا۔جہاں غربت کی بدولت کوئی علاج سے محروم نہیں رہے گا۔جہاں نوکریاں ہوں گی، روزگار ہوگا۔جہاں ریاست عوام کی رکھوالی ہوگی۔جہاں عوام کو مہنگائی کی بجائے ریلیف ملے گا۔آہ !نہ جانے یہ تبدیلی کب نمودار ہوگی۔
ابھی تک کے وقت میں حکومت اپنے کسی بھی دعوے پر پورا نہیں اتری۔حکومت نے کرپشن پر قابو پانے کا جو شور مچا رکھا ہے اس میں کامیابی اس دن ہوگی۔جب کرپشن سے لوٹا ہوا روپیہ قومی خزانے میں جمع ہوگا۔تب حکومت کو عوام پر مہنگائی جیسے بم گرانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔بات معیشت کی ہو تو حالات آپ کے سامنے ہیں۔ڈالر روپے کے برعکس اونچی اڑان اڑ رہا ہے۔بجلی وگیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔روزمرہ کی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔انسانی علاج کے لئے استعمال ہونے والی دوا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔بڑی انڈسٹریوں میں ’ڈاؤن سائیزنگ ‘شروع ہوچکی ہے۔زراعت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ایسے میں تاجر مافیا دیگر چیزوں میں مصنوعی قلت پیدا کر کے منگائی کا طوفان برپا کر رہا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی بے روزگار ہو رہا ہے۔بے روزگاری کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اس سب میں حکومت کا کردار کیا ہے؟ شاید حکومت ابھی ریاستی معاملات کو سیکھ رہی ہے۔حالات ایسے ہی رہے تو آنے والے وقت میں جو ’ڈاؤن سائیزنگ‘ کا سلسلہ شروع ہوا ہے، لاکھوں گھروں کو بے روزگار کر کے ہی دم لے گا۔بے روزگاری غربت و مہنگائی کو جنم دے گی ۔ غربت و مہنگائی لوگوں کی بے بسی کا باعث بن کر معاشرے کو تباہی کے دیہانے پر لا کھڑا کرے گی۔افراتفری میں اضافہ ہوگا۔
حکومت مسلسل معیشت کو قابو پانے میں ناکام ہو رہی ہے۔نہ ہی مراد سعید کی اربوں کی رقم والی تقریر کسی کام آ رہی ہے نہ ہی جناب اسد عمر صاحب کی حکمت و دانائی۔حکومت 23جنوری کو تیسرا منی بجٹ پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔گزشتہ سال ستمبر میں جو بجٹ پیش کیا گیا ، اس میں 183ارب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے تھے ۔اندازے کے مطابق جنوری میں پیش کئے جانے والے منی بجٹ میں 200ارب کے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے۔ کہنے کو تو منی بجٹ میں آسانیاں ہوں گی۔یہاں سوال یہ ہے کہ، چند ماہ بعد ہی بجٹ میں نظر ثانی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
معروف اکانومسٹ جناب اسد عمر صاحب کی انجینئرنگ کی بدولت جو مہنگائی کا طوفان برپا ہے، اس کی زد میں شامل ہر کلاس و طبقہ ہے۔بقول وزیر خزانہ ٹیکس صرف امیروں پر اثر انداز ہوں گے۔جناب کاروباری رجحان میں جو کمی واقع ہوگی، اس کے اثرات کی بدولت غریب بے روزگار ہوگا۔
یہ بھی تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ نت نئے ٹیکسز آئی ایم ایف کی شرائط ہیں ،یا پھر فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی ناکامی کا سبب ہیں۔اگر یہی ٹیکسز رفتا رفتا پوری منصوبہ بندی کے تحت لگائے جاتے تو مہنگائی پر بھی کنٹرول رہتا اور بے روزگاری سے بھی بچت ہوتی۔جناب اپنی منصوبہ بندیوں پر نظر ثانی کریں ،فوری ٹیکسوں کا بوجھ مجبور و بے روزگار عوام پر نہ ڈالیں۔اپنی الیکشن سے قبل والی منطقوں کو آزمائیں اور عوام کو ہلکہ پھلکا ریلیف بھی فراہم کریں۔غریب عوام کی نہ ہی معیشت لفظ سے کوئی شناسائی ہے نہ ہی قرض سے۔انہیں صرف اپنے خاندان اور اپنی اولاد کا پیٹ پالنا ہے،جس میں ٹیکس کی بدولت انہیں دقت پیش آرہی ہے۔صاحب!ہر کام جنون سے ہی نہیں ہوتا ۔کچھ کام سکون سے بھی ہوتے ہیں۔ہمارے وزیر خزانہ آج تک یہ نہیں طے کر پائے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا بھی ہے یا نہیں۔
آج کوئی بیان کل کوئی۔اپنی ہی باتوں سے پھر جاتے ہیں۔باتیں غریبوں کو ریلیف دینے کی کرتے ہیں اور مشاورت مالدار طبقے سے ۔آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔ہر بات میں تضاد۔ایسے تبدیلی نہیں آتی۔ہر گز نہیں!

Wednesday 14 November 2018

پریشان حال چھوٹے کسان

ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔


’روٹی بندہ کھا جاندی اے‘ پنجابی کا یہ مشہور فقرہ آپ کو سچ نظر آئے گا۔ اگر آپ بے چارے چھوٹے کسانوں کی حالت زار کا اندازہ لگائیں گے۔گزشتہ ادوار میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو ۔مگر موجودہ دور میں آئے روز کوئی نہ کوئی کسان روزی روٹی کی نظر ہورہا ہے۔چاہے ہماری طرف ہو یا بارڈر کے دوسری طرف ہو۔تقسیم کے بعد سے دونوں ملکوں کے چھوٹے کسان مایوسیوں کی نظر ہوتے چلے آرہے ہیں۔ہر گزرتا دن ان محنتی اور جفاکش کسانوں کے لئے نئی پریشانیاں لاتا ہے۔زندگی ہل چلاتے گزر جاتی ہے ۔مگر قرض کا بوجھ ہے کہ کم نہیں ہوتا۔کتنے دکھ و تکلیف کی بات ہے کہ، وہ کسان جو لوگوں کے لئے خوراک و اجناس کاشت کرتے ہیں ۔وہ خود اپنے خاندان کی اچھی کفالت نہیں کر سکتے۔ان کی اچھی پرورش نہیں کرسکتے۔نہ ہی معیاری تعلیم دلا سکتے ہیں۔نہ ہی بہتر طبی سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں۔روٹی جس کے بغیر انسانی زندگی نہ ممکن ہے۔اس کی کاشت کرنے والا آج سماج میں سب سے زیادہ بدحال ہے۔اس کے برعکس کپڑا اور مکان بنانے والا سماج میں بڑی کاروباری شخصیت تصور ہوتاہے۔شاید زمانے کی رفتار نے کسان کی اہمیت و قدر کو بھی کھو دیا ہے۔
پاکستان کا زیادہ تر رقبہ زرعی و دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ شعبہ زراعت سے وابسطہ ہیں۔لیکن بدلتی صورتحال اور ضروریات کی بدولت لوگ اس شعبے کو ترک کر کے دیگر شعبوں سے منسلک ہو رہے ہو۔ اس بدلتی صورتحال کی وجہ سے پاکستان زرعی لحاظ سے اپنے ہم پلہ زرعی ملکوں سے زراعت کے شعبے میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔شاید یہ فرق آئندہ کئی برسوں میں بڑھتا چلا جائے۔
پاکستان میں زیر کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے۔ایسے کسانوں کی اکثریت ہے، جن کے پاس چند کنالوں سے لے کر بیس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔یہی کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان حال و بدحال بھی ہیں۔زمانے کی اس تیزی نے ان کسانوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ان کی کاشت کردہ اجناس سے حاصل شدہ معاوضہ ان کی روز مرہ کی ضرورتوں کی نسبت بہت کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔آئے روز ان کی ضرورتیں ان کے روزگار کو دھکیلتے ہوئے برق رفتار ی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔قرضوں کے بوجھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
بعض کسانوں کے حالات ایسے ہیں کہ برسوں سے ان پر قرضوں کا بوجھ چلا آرہا ہے۔ان کے باپ دادا بھی اسی قرض کے بوجھ کو کم کرتے کرتے ،اپنی زندگی تمام کر گئے۔کچھ کو اپنی گزشتہ نسلوں سے قرض زدہ وراثتی زمینیں ملی ہیں ۔جن کے بدلے وہ اپنے بزرگوں کو بد دعائیں تو نہ دیتے ہوں، لیکن کوستے ضرور ہوں گے۔بعض مفکرین کے نزدیک شعبہ زراعت سے وابسطہ یہ متوسط طبقہ شروع ہی سے پریشان حال چلا آرہا ہے۔ہر حکومت کی ترجیحات میں شہراور شہری مسائل ہی شامل رہے ہیں۔بعض کے نزدیک نہ صرف حکومت بلکہ نام نہاد تنظیموں اور حتی کہ میڈیا کی ترجیحات میں بھی شہری مسائل اور ان کا حل ہی رہاہے۔
کم علم ہونے کی بدولت یہ متوسط طبقہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے میں بھی ناکام رہا ہے۔دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کی ترجیحات میں بھی شہر اور شہری آبادی شامل رہی ہے۔سیاسی پارٹیوں اور حکومت کو تو صرف اپنی شہرت اور ووٹ حاصل کرنے سے غرض ہوتی ہے۔انہیں اس بات سے ہر گز کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو یا پھر پھلے ، پھولے۔اقتدار کا لالچ ہمیشہ سے زرعی علاقوں کو نظر انداز کرتا چلا آیا ہے۔
واقعی اس میں کسانوں کی اپنی کم علمی اور بڑی غلطیاں بھی شامل ہیں۔کسی بھی حکومت نے اس متوسط طبقے کی خود مختاری کے لئے صدق دل سے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔قرضوں کی نت نئی اسکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں۔جس کے جال میں پھنس کر چھوٹا کسان اپنی زندگی زہنی اذیتیوں کی نظر کر دیتا ہے۔کروڑوں اربوں کی سبسڈیاں نہ جانے کہاں چلی جاتی ہیں۔کبھی کسی چھوٹے کسان کو براہ راست کسی سبسڈی کا فائدہ نہیں پہنچا ۔بلکہ اس کے برعکس بڑے ذخیرہ اندوز اور بڑے جاگیردار ہی اس سے مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں۔اس جاگیردارانہ نظام میں ڈھنڈیاں مارنے کا سلسلہ بھی کافی پراناہے۔ڈھنڈیاں مارنے میں محکمہ زراعت ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔
اس کرپٹ نظام میں چھوٹے کسان کا ہمیشہ بھرکس ہی نکلتا رہا۔جو آج بھی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے۔کھادوں دواؤں کے بڑھتے ریٹ، چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اکساتے ہیں۔ڈیزل کے بڑھتے ریٹ، کسانوں کو خود پر چھڑک کرآگ کی نظر ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔زرعی آلات کی قیمتیں اور ان کے معیار، کسانوں کو ٹریکٹر کے نیچے دب کر کٹھن حالات سے چھٹکارے کی نشاندہی کرتے ہیں۔آخر میں فصلوں کے نامناسب ریٹ ،کسان کو ایسی فصل کے ساتھ ہی دفن ہونے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔جس سے کسان کے خون پسینے کا ازالہ نہ ہو ۔جس سے وہ اپنی اولاد کی پرورش نہ کر سکیں۔کسان تو آئے روز ویسے ہی مرتا ہے۔لیکن ’مڈل مین‘ مراد کاروباری اشرافیہ کے روپ میں ڈیلرز وغیرہ نے تو کسانوں کو جیسے راکھ کرنے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے، کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔یہ وہ متحرک گروہ ہے، جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹس کو کنٹرول کرتا ہے۔ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسان انہیں اپنی فصل اونے پونے بیچ جائے ۔ذخیرہ اندوزی ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔
ہمیشہ ہی سے حکومت اور اس کا چہیتا محکمہ زراعت اس سارے معاملے میں غفلت کی نیند ہی سویا رہا ۔من مانیاں اس محکمے کا جیسے فرض ہو۔زمانہ ادھر سے ادھر ہو گیا ہے۔دنیا میں جدت آگئی ہے۔زراعت کے شعبے میں بڑی ترقیاں ہو ئیں۔لیکن مجال ہے کہ، ہمارا محکمہ زراعت کبھی اپنی شاہانہ سستی کم کرنے لئے ٹس سے مس بھی ہوا ہو۔
کم آگاہی اور جدید مشینیری کی کمی، کی وجہ سے ہمارے کسان آج بھی وہی چاول کی فصل ، وہی گندم کی فصل اور دیگر اجناس اگا رہے ہیں، جو برسوں پہلے ان کے آباؤ اجداد لگایا کرتے تھے۔اور وہی پیداواری اوسط نکل رہی ہے، جو آج سے کوئی دس برس قبل ہوا کرتی تھی۔وہی پرانی چند ٹریکٹرز کمپنیاں آج بھی راج کر رہی ہیں جو برسوں پہلے تھیں۔کسان وہی پرانی طرز کی مشینری خریدنے پر مجبور ہیں جو دنیا نے برسوں پہلے استعمال کرنا بھی چھوڑ دی تھیں۔وہی لاعلم کسان جنہیں صرف یہی علم ہے، کہ لال رنگ کی دوا ڈالنی ہے اور سفید رنگ کی کھاد۔انہیں کچھ علم نہیں کے کوئی زمین کا چیک اپ بھی ہوتا ہے ،جس سے زمین کی زرخیزی کے بارے علم ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر رپورٹ کے مطابق انہیں کیمکلز یعنی دوائیں ڈالنا ہوں گی۔لیکن ہمارا لاڈلہ محکمہ زراعت اور ہماری مفاد پرست حکومتوں کے نزدیک شاید اس بارے آگاہی و کام کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئی ہو۔ کیونکہ بڑے جاگیردار اور اشرافیہ توآج بھی جدید طریقہ کاشت کاری سے مستفید ہو رہے ہیں۔معاملہ تو صرف ان کسانوں کا ہے ۔جن کے ووٹ خریدے جا سکتے ہیں، گلی نالیوں اور چھوٹے موٹے لالچ کے برعکس۔
آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ اس محکمے کا کردار کیا ہے؟ کون یہ طے کرے گا کہ اکثریت میں موجود چھوٹے بدحال و پریشان کسانوں کے لئے کچھ کرنا ہے؟کب وہ وقت آئے گا جب محکموں پر لاڈلوں کی چھاپ ختم ہو گی؟کب یہ محکمہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوگا؟چھوٹے کسانوں کے زخموں پر کون مرہم رکھے گا؟آخر کب تک یونہی سبسڈی کے نام پر کرپشن کے مینار کھڑے ہوتے رہیں گے؟آخر کب تک ہماری معشیت اور زراعت مفادات کی نظر ہوتی رہے گی؟۔
موجودہ حکومت پر عوام کو اعتماد ہے۔حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سنگین مسئلے پر کام سے لگایا جا سکتا ہے جسے گزشتہ حکومتیں مسئلہ ہی تصور نہیں کرتی تھیں۔مراد آبی مسئلہ جس کے ضمن میں حکومت ڈیم فنڈ اکٹھا کر رہی ہے۔حکومت نے جلد از جلد نئے ڈیمز تعمیر کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔جو زراعت کی مضبوطی کے لئے مفید ترین ثابت ہوگا۔ مہنگائی کے اس دور میں گندم کی بوائی سے پہلے کھادوں ،دواؤں اور ڈیزل کے بڑھتے ریٹ چھوٹے کسانوں پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہیں۔حکومت کو کسانوں کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے انہیں سہولتیں مہیا کرنی چاہئیں۔کسانوں کو آپ سے بڑی امیدیں وابسطہ ہیں۔امید کرتے ہیں کہ، موجودہ حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔وگرنہ ،رفتہ رفتہ شعبہ زراعت سے لوگوں کا دل اٹھتا چلا جائے گا۔جس کے نتیجہ میں زراعت کی تنزلی اور ہماری معیشت کی کمزوری بڑھتی چلی جائے گی۔۔۔ذرا سوچئے!
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی 
اس کھیت کے ہر گوشہ گندم کو جلا دو

Sunday 21 October 2018

سنگین افغان صورتحال


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

افغانستان پہاڑوں سے گھرا ہوا خشکی کا خطہ ہے۔جو ایشیاء کے جنوب۔وسط میں واقع ہے۔جس کی 99فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔جس کے ہمسایہ ممالک میں پاکستان،ایران، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان اور چائنہ شامل ہیں۔
یوں تو صدیوں سے ہی جنگوں اور لڑائیوں کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔افغانستان بھی ایسا ملک ہے، جو موجودہ جدید دور میں بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔گزشتہ چالیس برس کی طویل خانہ جنگی نے افغانستان کی زمین کو سرخ کر دیا ہے۔خطے میں دہشت طاری ہے۔ان گنت جانوں کا نقصان، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اس جنگی صورتحال کا آغاز 1978میں ہوا۔جب کیمیونسٹ حامی گروپ کی بغاوت سامنے آئی۔تاہم اس سے پہلے بھی افغانوں میں قبیلوں کی لڑائیاں ،برسوں سے لڑی در لڑی چلتی آرہی تھیں۔انہیں بغاوتوں اور لڑائیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے1979کو سویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجی مداخلت شروع کردی۔خانہ جنگی دن بدن بڑھتی چلی گئی۔افغان گروپ متحرک ہوکر روسیوں اور اتحادیوں کے خلاف لڑنے لگے۔تاہم اس افغانی لڑائی میں افغانیوں کو امریکہ ،پاکستان، اور سعودیہ کی مدد حاصل تھی۔امریکی جدید اسلحے کی بدولت افغانی دوبارہ اپنے علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے لگے۔جہاں افغانستان کی تاریخ خون سے رنگی جا رہی تھی، وہیں سویت یونین بھی اپنی بدترین شکست کی طرف گامزن تھی۔اس خونی جنگ میں لاکھوں افغانیوں نے پاکستان ہجرت کی۔ایک لمبی خونی جنگ کے بعد روسیوں اور اتحادیوں کو ہار تسلیم کرنا پڑی ،اور سویت یونین نے 1989میں افغانستان سے اپنی فوجوں کو نکال لیا۔
تاہم بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی۔امریکہ جس نے سویت یونین کو شکست دینے کے لئے افغانیوں کی مدد کی ،انہیں استعمال کیا ،افغانستان کو اپنے اسلحے سے لیس کر کے بے یارو مددگار چھوڑ گیا۔افغانستان میں مختلف گروہ اپنی بالادستی کے لئے آپس میں لڑنے لگے۔آپسی جنگوں کے بعد افغان طالبان کی حکومت سامنے آئی ۔جس میں شریعت کا قانون نافذ کیا گیا۔پاکستان افغان طالبان کا حامی تھا۔مگر امریکہ و دیگر اس حکومت سے خائف تھے۔پھر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نائن الیون کا واقع رونما ہوتا ہے۔جسے القاعدہ کے ذمہ ڈالا جاتا ہے۔امریکہ دنیا بھر کی ہمدردیاں سمیٹتا ہے۔مسلمان دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہونے لگتے ہیں۔امریکہ اپنی ہمدردیوں کی بدولت نیٹو اتحاد کے زریعے 2001کو افغانستان میں اپنی فوجیں اتاردیتا ہے۔مکمل کنٹرول حاصل کرتا ہے۔طالبان اور اتحادیوں کی حکومت کا خاتمہ کرتا ہے۔طالبان اور اتحادی دوبارہ جنگی محاذوں پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔امریکہ حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرتا ہے۔پاکستان بھی امریکی نان نیٹو اتحادی کی صورت میں امریکہ کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتا ہے۔پاکستانی چیف ایگزیکٹیو مشرف امریکیوں کو افغانستان میں سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے ہر ممکن راستہ فراہم کرتا ہے۔بہت سے افغانی گروہ پاکستان مخالف ہو جاتے ہیں۔جس کی بدولت پاکستان میں بھی دہشتگردی کی گونج سنائی دیتی ہے۔امریکہ اسی دہشتگردی کی آڑ میں پاکستان میں ڈراؤن اٹیک کی صورت میں مداخلت کرتا ہے۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتا ہے۔اسی دوران اسامہ بن لادن کی موت کا ڈرامہ بھی رچایا جاتا ہے۔
امریکہ کو اس جنگ سے پہلے اور درمیان میں بہت سے زرائع نے خبر دار کیا تھا کہ، افغانستان میں مداخلت سے باز رہو۔افغانستان میں فتح حاصل کرنا جتنا آسان ہے، فتح برقرار رکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔بہت سے زرائع نے مذاکرات کے زریعے معاملے کو حل کرنے کی بھی تجویز دی۔پاکستان بھی مذاکرات کا حامی ہے۔تاہم امریکہ اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا۔امریکہ طاقت کے نشے میں وہ احداف حاصل کرنا چاہتا تھا ،جو وہ ظاہر نہیں کرتا ۔وقت گزرتا گیا ۔امریکہ اپنے اصل احداف جن کی بدولت افغانستان پر قابض تھا نہ حاصل کر سکا۔درحقیت امریکہ براسطہ افغانستان خطے کو کنٹرول نہ کرسکا۔نہ ہی پاکستان پر نہ ہی ایران پر اس طرح سے اثر انداز ہو سکا ،جو اس کے اصل احداف میں شامل تھا۔امریکہ کو اس جنگ میں پسپائی نظر آرہی ہے۔اوپر سے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور شراکت داریوں نے امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے۔امریکہ اس طرح سے ابھرتی ہوئی طاقتوں کو کاؤنٹر نہیں کر پا رہا، جس طرح اس کی چاہ ہے۔امریکہ اپنے حصے میں آنے والی شکست سے خائف ہے۔اور چاہتاہے کہ، سویت یونین کی طرح اسے نقصان نہ اٹھانا پڑے۔کسی درمیانے طریقے سے نکل جائے۔بالادستی اور عزت بھی قائم رہے۔درحقیت دنیا کو مختلف محاذوں پر الجھانے والا امریکہ خود اس خطے میں الجھن کا شکار بن گیا ہے۔یہی وجہ ہے گزشتہ سالوں سے طرح طرح کے تجربات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔کبھی پاکستان کو اپنا بڑا اتحادی گردانتے ہوئے تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔کبھی پاکستان کو ڈو مور کا حکم دیتا ہے۔کبھی پاکستان کو سنگین دھمکیاں دیتا ہے۔کبھی پابندیاں عائد کرتا ہے۔کبھی افغانستان میں بم باری کرتا ہے۔کبھی مذکرات کو ترجیح دیتا ہے۔کبھی بھارت کو افغانستان میں سرگرمیاں تیز کرنے کی تنبیہ کرتا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔گزشتہ امریکی ردو بدل سے صاف ظاہر ہوتا ہے ۔امریکہ بھی اب کے بار بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔افغانستان سے انخلاء چاہتا ہے ،مگر اپنی انا پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔امریکہ جیسی سپر پاور کے طرف سے مذاکرات کے اشارے افغان امن کے لئے نہایت ضروری ہیں۔امید کرتے ہیں کہ ان مذکرات کی بدولت افغانستان میں امن و امان کی صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہوگی۔گزشتہ روز افغان طالبان کی طرف سے گورنر ہاؤس میں منعقدہ اجلاس کے بعد امریکی کمانڈر اور گورنرز پر جو حملہ کیا گیا ،نہایت تشویش ناک ہے۔جب مذاکرات کی راہ نکل رہی ہو۔ ایسے میں جان لیوا حملے مذکرات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اور معاملات مزید بگھڑ سکتے ہیں۔دونوں گروہوں کو صبر سے کام لینا چاہئے۔تاہم امریکہ سے کوئی زیادہ امیدیں وابسطہ نہیں رکھنی چاہئیں۔امریکہ ماضی میں بھی سویت یونین کے خلاف جنگ کے بعد افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چلا گیا تھا۔جس کا خمیازہ پاکستان اور افغانستان کو بھگتنا پڑا۔اب کے بار بھی امریکہ اسی موقعے کی تلاش میں ہے۔امریکہ اب کی بار پھر افغانیوں کو یوں ہی چھوڑ کر چلا گیا ، تو یہ پھر گروہوں میں بھٹ کر خانہ جنگی کو فروغ دیں گے۔جس سے افغانستان کے حالات مزید سنگین تر سنگین ہو جائیں گے۔جس سے نبردآزما ہونے کے لئے پاکستان کو زہنی لحاظ سے تیار رہنا چاہئے۔جتنا جلد ہوسکے بارڈر مینجمنٹ کو مکمل کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ، پاکستان امریکہ اور اتحادیوں کو امن امان کی صورتحال بہتر ہونے تک، انخلاء نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔امریکہ کو پاکستان سے ایسی امیدیں وابسطہ نہیں رکھنی چاہئیں، جس پر ان کا اختیار ہی نہیں۔امریکہ مسلسل پاکستان کو الجھانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔جہاں تک ہوسکے گا، پاکستان امن کے فروغ کے لئے اپنی کاوشیں جاری رکھے گا۔کیوں کہ خطے کا امن ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔پاکستان کو اپنا مؤقف قائم رکھنا چاہئے۔اور کسی بہلاوے کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔یہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔

Sunday 14 October 2018

قابل تعریف اقدامات ،مگر نامناسب منصوبہ بندی

چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے جب سے حکومت سنبھالی ہے، لگاتار مشکلات کا شکار ہے۔الیکشن سے قبل برسر اقتدار جماعت کی طرف سے بلند و بانگ دعوے کئے گئے تھے۔شاید ایسے دعوؤں کو فی الفور عملی جامہ پہنچانا، صرف مشکل ہی نہیں ہے۔بلکہ ناممکن کے قریب ترین ہے۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ، مناسب منصوبہ بندی کے تحت، حکومت عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرسکتی ہے۔برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں حکومت مشکلات سے دو چار ہے۔ وہیں اس میں حکومت کی اپنی ناتجربہ کاری اور گزشتہ حکومتوں کی نامناسب منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔موجودہ حکومت کی ایمانداری پر عوام کو ابھی شک نہیں کرنا چاہئے۔انہیں مناسب منصوبہ بندی کا وقت دینا چاہئے۔برسراقتدار حکومت لگاتر اچھے اقدامات اٹھا رہی ہے۔جو واقعی قابل تعریف ہیں۔جیسے کلین اینڈ گرین پاکستان،تجاوزات کا خاتمہ، ہاؤسنگ سکیم ،ٹریفک قوانین کی پابندی اور احتساب وغیرہ۔ تاہم سارے اقدامات نامناسب منصوبہ بندی اور جلد سازی کی نظر ہورہے ہیں۔
گزشتہ روز سے یہ خبر سر گرم عمل ہے ،کہ 20اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون قابل استعمال نہیں رہیں گے۔موبائل صارفین کو 8484نمبر کی طرف سے پیغامات وصول ہو رہے ہیں ،کہ20اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون بند کر دیئے جائیں گے۔تفصیلات جاننے کے لئے 8484پر اپنا IMEIنمبر بھیجیں۔تاہم مختلف موبائل فونز کی طرف سے نمبر بھیجنے پر کوئی خاطر خواہ تفصیلات موصول نہیں ہوتیں۔جواب موصول ہوتا ہے کہ ،کوئی تفصیل موجود نہیں براہ کرم دوبارہ کوشش کیجئے۔یقین مانئے حاکم وقت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے یہ نہایت ہی اچھا اور قابل تعریف اقدام ہے۔تاہم اس اقدام کے پیچھے مناسب منصوبہ سازی نظر نہیں آتی۔یہ اقدام بھی دوسرے اقدامات کی طرح جلد بازی کا شاخسانہ نظر آرہا ہے۔لوگوں کو موبائل فون بند کرنے کے پیغامات تو بھیج دیئے گئے ہیں۔مگر چند چیزیں مد نظر نہیں رکھی گئیں۔آیا حکومت یا متعلقہ ادارے کو، لوگوں میں پی ٹی اے،آئی ایم ای آئی نمبر وغیرہ بارے آگاہی نہیں دینی چاہئے؟کیا متعلقہ ادارے کو پہلے ایسے زرائع کو کنٹرول نہیں کرنا چاہئے جہاں سے پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل آتے ہیں؟ہونا تو یہ چاہئے تھا حکومت ایسے موبائل فونوں کے امپورٹ پر پابندی لگاتی۔لوگوں میں موبائل فونوں کی خریداری بارے آگاہی پھیلاتی۔پہلے سے موجود لوگوں کے پاس موبائل فونوں کو رجسٹرڈ ہونے کا موقع فراہم کرتی۔یقین سے یہ موقع فراہم کیا جا رہا ہے ۔مگر عوام اس سے بے خبر کیوں ہے؟۔کیا کوئی آگاہی اشتہار جاری نہیں کرنا چاہئے؟۔فقط چند ویب سائٹس پر معلومات سے عام لوگوں تک خبر نہیں پہنچ پاتی۔ایسی معلومات کوسماجی ویب سائٹس اور ٹیلی ویژن پر عام کرنا چاہئے۔پھر جا کر کہیں موبائل فونوں کی بندش کا عندیہ دیا جانا چاہئے تھا۔حکومت اپنے ہر آغاز ہی کو اختتام گردانتی ہے۔حکومت کی طرف سے جلد بازی میں کئے گئے یک طرفہ اقدامات، جس میں عوام کو ہر صورت نقصان ہی پہنچے ،یا پریشانی کا سبب بنے۔ کسی صورت قابل قبول نہیں۔موبائل فونوں کی بندش کے فوری اقتدامات پر حکومت کو نظر ثانی کرنا ہوگی۔اور ایسا کرنے سے پہلے آگاہی پھیلانا ہوگی۔حکومت کو زمینی حقائق و مسائل اور عوام کی بھلائی کو مد نظر رکھ کر پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔حکومت کا کام عوام کو سہولیات میسر کرنا ہوتا ہے ۔نہ کہ اپنے جارحانہ فیصلے ان پر مصلت کرنا۔ہر کام کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے ۔پہلے آگاہی دی جاتی ہے۔پھر اس پر عملدرآمد کر وایا جاتا ہے۔
حکومت نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کر کے بڑے بڑے برجوں کو الٹ دیا ہے۔عوام حکومت کے اس اقدام سے کافی خوش بھی ہے۔واقعی حکومت کا یہ اقدام بھی قابل تعریف ہے۔مگر اس اقدام کی گہرائی میں بھی جایا جائے تو علم ہوتا ہے کہ مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔بظاہر یہ منصوبہ بہت اچھا ہے اور واقعی اس کے نتائج پاکستان کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔مگر دیکھا جائے تو تجاوزات کے خلاف آپریشن کسی ترتیب کے تحت نہیں کیا جا رہا۔کسی روز دائیں جانب دو کلومیٹر جا کر کوئی عمارت گرا دی جاتی ہے تو کسی روز بائیں جانب۔اس غیر ترتیب شدہ آپریشن میں جہاں مال داروں کو وقت مل رہا ہے۔ وہیں غریبوں کے سر پر کم وقت کی تلوار لٹک رہی ہے۔اگر آپریشن کسی ترتیب کے تحت کیا جائے تو غریب لوگوں کو اپنی باری کا اندازہ ہو جائے اور اپنے مقررہ وقت سے پہلے وہ اپنا بندوبست کر لیں۔ایسے میں عوام کو بھی وقت مل جا ئے گا اور حکومت کا بھی وقت بچ جائے گا۔
اسی طرح پچاس لاکھ گھروں کی اسکیم میں بھی نامناسب منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔وزیر اعظم کچھ کہتے ہیں اور تفصیلات کچھ نظر آتی ہیں۔تاہم اس حکومتی جلد سازی و فیصلے پر بعد میں بھی ردو بدل ہو سکتا ہے۔
حکومت کی نامناسب منصوبہ بندی کے تحت آج عوام سو پیاز اور سو جوتے بھی کھا رہی ہے۔یعنی ٹیکسوں کی بھرمار نے مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔غربت کی ماری عوام مہنگائی کے اس طوفان میں مزید پس رہی ہے۔حکومت ایک طرف عوام پر مہنگائی کا طوفان مصلت کر کے دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرض مانگ رہی ہے۔اگر قرض ہی مانگنا تھا تو عوام کو پھر ریلیف کیوں نہیں دیا؟ مانتے ہیں کہ اس میں گزشتہ حکومتوں کا پورا پورا قصور شامل ہے۔مگر یاد رکھئے! کہ عوام کو نہ ہی دیا ہوا ریلیف بھولتا ہے اور نہ ہی مہنگائی۔
حکومتی وزراء کی طرف سی پیک جیسے منصوبے پر نامناسب بیان بازی نے ،اس مفید منصوبے کو متاثر کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ دوبارہ اسے سبوتاز کرنے کی تگ و دو کرہا ہے۔آئی ایم ایف ہم سے سی پیک کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔چائنہ ہم سے کترانہ شروع ہوگیا ہے۔خطے میں ہمارا مذاق بن رہا ہے۔حکومت کی یونہی ڈگمگاتی پالیسیاں اور منصوبہ بندی ہر گز وطن کے مفاد میں نہیں۔
اسی طرح ٹریفک قوانین پر پابندی جو کہ نہایت ہی قابل تعریف اقدام ہے۔صرف اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر مذاق بنا، کیوں کہ قوانین پر عملدرآمد سے پہلے ان کے بارے آگاہی نہیں دی گئی۔
حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے سارے اقدامات قابل تعریف ہیں۔اور واقعی خالص عوام کی بھلائی کے لئے ہیں۔مگر حکومت اپنے ہر عمل میں جلد بازی کا شکار ہو رہی ہے۔منصوبہ بندی کا فقدان حکومت کے لئے تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج حکومت کا ہر منصوبہ مذاق بن رہا ہے اور عوام مایوس نظر آرہی ہے۔حکومت کو ایک بات زہن نشین کرنی چاہئے کہ وہ ایک سال یا دو سال کے لئے منتخب نہیں ہوئے ۔بلکہ عوام کی طرف پانچ سال کے لئے منتخب کیے گئے ہیں۔اگر حکومت کا رویہ یونہی غیر سنجیدہ رہا۔ تو وہ دن دور نہیں جب انکا نام بھی گزشتہ روایتی حکومتوں کے ساتھ موجود ہوگا۔
حکومت پاکستان کو مناسب و دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔جس میں دانائی نظر آئے۔جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو۔جس سے عوام کو بھی ریلیف ملے۔تنقیدی تبصروں سے نکل کر مناسب منصوبہ بندی کے تحت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

Tuesday 9 October 2018

احتساب یا سیاسی انتقام

پاکستان 
 میں لفظ’ احتساب‘ مشکوک نظروں او ر غلط نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔احتساب کو مشکوک بلندیوں تک پہنچانے میں گزشتہ سیاسی پارٹیوں اور آمروں کا خاصہ کردار رہا ہے۔گزشتہ ادوار میں احتساب کو ذاتی و سیاسی مفادات و انتقام کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔
پاکستانی عوام برسوں سے حقیقی احتساب کی راہ تک رہی ہے۔ہمارے آباؤ اجداد بھی اس کی گونج سننے کو بے تاب تھے۔یہی وجہ ہے لفظ احتساب کی مقبولیت آج بھی قائم ہے۔احتساب کے معنی ’جانچ پڑتال‘ کے ہیں۔یعنی محاسبہ کرنا نفس عارف کا تفصیل تعینات سے،ڈھونڈنا ان میں حقائق کو، اور پھر روک تھام وغیرہ۔
ہمارے ہاں درمیانہ طبقہ احتساب کا خاصہ متلاشی رہا ہے۔کیونکہ اس طبقے کو ہر دور میں یہی ابہام رہا ہے، کہ ان کے جائز حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔دوسری طرف امراء و جاگیرداروں میں اسے مزاح کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔کیونکہ انہیں یقین ہے کہ، یہ ممکن ہی نہیں کہ احتساب ہوسکے۔بروقت مناسب احتساب قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ ،یورپ، اور چائنہ وغیرہ ہم سے بہت آگے ہیں۔بروقت احتساب نے قوموں کو بام عروج تک پہنچایا ہے۔واقعی اس میں ان کی محنت ہی شامل ہے۔
ہمارے ہاں جیسی محنت و کارکردگی دیگر شعبوں میں ہے ،ویسی ہی احتساب کے عمل میں۔بلکہ ہمارے ہاں حکومتیں اور ادارے احتساب کو اپنے ذاتی مفاد و مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔گزشتہ کئی عرصوں سے ہمارے ہاں احتساب مسلسل ذاتی مفادات کی غرض سے جاری ہے۔کبھی پیپلز پارٹی، تو کبھی مسلم لیگ، ایک دوسرے کو فرضی احتساب میں دھکیلتے آئے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ ،ہمارے ہاں بار بار وہی چہرے سامنے آرہے؟کیا وجہ ہے کہ بار بار احتساب کی ضرورت پڑتی ہے؟وجہ یہی ہے کہ احتسابی عمل کی کبھی تکمیل ہی نہیں ہوئی۔جس کی بدولت ان کو بار بار کرپشن کا موقع ملتا ہے۔بار بار وہی پرانے چہرے سامنے آرہے ہیں۔ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں احتساب کی بازگشت صرف اور صرف سیاسی انتقام کی صورت میں ہی سنائی دی۔سیاسی انتقام کی صورت میں صرف ہدف و نشانہ بنا کر ہی احتساب ہوتا ہے۔سیاسی پارٹیوں میں انتقامی احتساب برسوں سے چل رہا ہے۔کبھی اس کی باری تو کبھی اس کی۔اور یہ انتقامی احتساب ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمارے ملک پر عسکری آمر بھی قابض رہے ۔سنا ہے کہ آمریت بہت مضبوط ہوتی ہے۔مگر افسوس کہ گزشتہ ادوار کے آمر بھی فقط حدفی احتساب کو ہی فروغ دیتے رہے۔احتساب پر مفادات اور اقتدار کو ترجیح دیتے رہے۔بروقت اور شفاف احتساب کی تکمیل میں گزشتہ آمر و منتخب حکومتیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔احتساب کے ڈر سے پارٹی مفادات بدلتے بھی دیکھے گئے۔احتساب کے خوف سے پارٹیاں بدلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔نا مکمل احتساب کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ، بہت سے کرپٹ سیاستدان احتساب سے بچنے کے لئے سیاسی پارٹیاں بدل لیتے۔ اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ،جو احتساب کی صدا بلند کرتی۔مگر افسوس کہ، احتساب کی صدا لگانے والوں کو اپنی پارٹی یا گروہ میں کبھی کوئی بدعنوان و کرپٹ نظر نہیں آیا۔گزشتہ چند سالوں سے تبدیلی کی صورت میں احتساب کی باز گشت پھر سنائی دے رہی ہے۔جس کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے۔عمران خان نے ہمیشہ ہر فورم پر کرپشن کے خاتمے پر زور دیا۔یہی وجہ ہے عوام نے انہیں آج ایوانوں میں پہنچایا ہے۔عوام آج احتساب کے مطالبے پر عملدرآمد چاہتی ہے۔ مانتے ہیں کہ، عمران خان بھی اپنے اس وعدے پر قائم ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف آج دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہیں۔شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں بلا کر، آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں گرفتار کیا گیا ۔اس میں کوئی مزائقہ نہیں۔نیب ایک آزاد و خودمختار ادارہ ہے۔ اسی لئے اسپیکر قومی اسمبلی کو بتائے بغیر گرفتار کیا گیا۔مگر سوال یہ ہے کہ نیب کی گزشتہ کارکردگی کیا ہے؟ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ، ضمنی انتخابات سے پہلے ہی کیوں گرفتار کیا گیا؟ کیا یہ گرفتاری انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوگی؟کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ انتخابات میں ہارنے کے خوف سے گرفتاری عمل میں لائی گئی ہو؟ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں۔ موجودہ حکومت صدق دل سے احتساب کا عمل چاہتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ، احتساب صرف ایک پارٹی تک ہی محدود کیوں؟کیا دیگر پارٹیوں میں موجود وزراء اور منتخب نمائندے بھی نیب و دیگر کیسوں میں ملوث نہیں؟نیب کی لسٹ میں موجود ، زلفی بخاری، علیم خان،پرویز خٹک ، پرویز الہی اور دیگر نمائندوں کو کیوں نہیں بلایا جا رہا؟ کیا نیب کے پاس ان کے لئے وقت نہیں؟ عوام ایسا احتساب ہر گز نہیں چاہتی ،جس میں ایک ہی جماعت کو نشانہ بنایا جائے۔ سب کا احتساب چاہتی ہے ،نہ کہ صرف حدفی احتساب۔عوام ہر گز یہ نہیں چاہتی کے پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ضرور ڈالا جائے۔مگر عوام کو بتایا جائے نیب والے کب آصف زرداری اور شجاعب حسین کو بلا رہے ہیں؟ کب بیرون ملک موجود پرویز مشرف کا احتساب ہوگا؟عوام تو چاہتی ہے کہ، جلد از جلد ملک کو نقصان پہنچانے والے سلاخوں کے پیچھے ہوں۔ چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں۔اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اسے انتقامی سیاست سمجھا جائے ؟روایتی سیاست کو ہر گز احتساب کا رنگ نہ دیں ۔احتساب کے لئے کچھ نیا کرنا پڑے گا ۔اپنی صفوں سے بھی صفایا کرنا پڑے گا۔پشاور میٹرو جس کی لاگت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔کیا اس منصوبے کا فرانزک آڈٹ ضروری نہیں؟ احتساب کی جیسی فضا آج چل رہی ہے۔ایسی ہی فضا گزشتہ ادوار میں بھی چلتی رہی ہے۔گزشتہ منتخب حکومتوں اور آمروں نے اداروں کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کیا ہوتا۔تو آج ہمارے اداروں پر سوالیہ نشان نہ ہوتا۔ویسی ہی غلطی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔موجودہ حکومت کی طرف سے احتساب کی فضا صرف سیاسی حدف حاصل کرنے کا شاخسانہ نظر آرہی ہے۔وریراعظم صاحب اگر واقعی احتساب چاہتے ہیں، تو پارٹیوں کی تفریق کئے بغیر ہر رنگ کی پارٹی کے شخص کو جو مطلوب ہو، کٹہرے میں لایا جائے۔چاہے اپنی ہی پارٹی کا کیوں نہ ہو۔ ابھی عوام موجودہ حکومت پر اعتماد کرتی ہے، اور امید کرتی ہے کہ یہ گزشتہ ادوار کی طرح لوگوں کو حدف بنا کر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کریں گے۔بلکہ صدق دل سے سیاسی انتقام، پارٹی، اور ذاتی مفادات کو پرے رکھ کر احتساب کے عمل کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔اگر موجودہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو اس میں او ر جنرل مشرف کے دور میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ بہت سے شکوک و شبہات جنم لیں گے۔اگر حالات ایسے ہی رہے تو حکومت سے عوام کا اعتماد جلد اٹھ جائے گا۔
۔