Sunday 17 December 2017

شام کا بحران

چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔
شام میں خانہ جنگی شروع ہوئے چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار چکے۔ انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔مگر شام کا داخلی بحران ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔شاید اسے ختم ہونے نہیں دیا جاتا۔ہر دور میں ہر زمانہ میں طاقتور ریاستیں چھوٹی اور مفادات سے جڑی ریاستوں کی جان نہیں چھوڑتیں۔ایسا ہی معاملہ یہاں ہے امریکہ اور روس ہر گز شام سے اپنا اثر رسوخ کم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور اس کے پس پشت ان کے کئی مقاصد ہوں گے۔
شام مغربی ایشیاء کا ایک اسلامی ملک ہے جسے انگلش میں(syria) کہتے ہیں۔جس کے ہمسایہ ممالک میں ترکی، عراق،لبنان،اردن اور اسرائیل ہیں۔1967میں اسرائیل نے شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جو بعد میں کامیابی سے اسرائیل سے منسلک ہو گئے۔شام کی اندرونی خانہ جنگی عرصہ دراز سے جاری ہے جسے ہر گروپ اپنی انا کی جنگ تصور کرتا ہے۔ایک عرصہ قبل بشارالاسد جو شام کے مضبوط صدر ہیں کی طرف سے کچھ پرامن مظاہرین کو کچلنے کے لئے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔جس کے نتیجہ میں شام پچیدہ صورتحال کی طرف رواں ہوا۔پرامن مظاہرین بپھر گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے خطرناک باغیوں نے جنم لے لیا۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور بشارالاسد کی انا اور غلط پالیسیوں کی بدولت انتہا پسند تنظیموں کو بھی متحرک ہونے کا موقع مل گیا اور انتہا پسند تنظیموں نے باغیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جنگ شروع کردی۔ملکی حالات دن بدن بگھڑنے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے شام کے کردش بھی متحرک ہوگئے۔حذب اللہ نے شامی حکومت یعنی بشارالاسد کا ساتھ دیا۔وقت آیا کہ عراق میں موجود داعش نے شام میں بھی پنجے گاڑھنے شروع کردیئے۔کچھ عرصہ بعد انتہا پسند تنظیم داعش نے شام کے علاقہ النصر پر اپنا قلعہ جما لیا۔ملک شام مکمل طور افراتفری کی لپیٹ میں لپٹا قتل و غارت کا منظر پیش کرنے لگا۔باغیوں نے بھی قبضے جمائے، مگر داعش نے سب کو پس پشت ڈال کر اپنا تسلط جمانا شروع کردیا۔ایسے میں ایران اور حذب اللہ بشارالاسد کے بڑے اتحادی رہے۔جبکہ اسرائیل ،امریکہ، اور ترکی باغیوں کو سپورٹ کرنے لگے۔یہاں تک کہ امریکہ نے باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا۔وہی اسلحہ پھر داعش کو بھی فراہم کیا گیا بلکہ امریکہ کی طرف سے داعش کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی۔مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق داعش کی مدد کے لئے سعودی عرب ،کویت اور قطر کی طرف سے بھاری دولت براستہ ترکی داعش تک پہنچائی جاتی رہی۔ ایسے میں مسلمانوں کی فرقہ وارانہ نفرت کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سعودی عرب سمیت دوسرے عرب ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ایران سمیت ان کے قریبی اتحادیوں کی طاقت اور خودمختاری کبھی پنپنے کا نام نہ لے، جبکہ ایران اور اس کے ساتھی یہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلام میں صرف ان کا بول بالا ہو۔مسلمانوں کے مسلکوں کی لڑائی سے امریکہ کو خوب فائدہ ہوا۔اسی بدولت امریکہ نے عربیوں کی سرمایہ کاری سے مسلمانوں کے ہی کچھ علاقوں میں اپنے مفادات کی جنگ لڑی۔داعش سمیت بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔مغربی ایشیائی ممالک کی بربادی اور افراتفری سے ہی اسرائیل کے مفاد بھی منسلک ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ایشیائی بالخصوص مغربی ایشیائی ریاستوں کی موجودہ بحرانی صورتحال میں اسرائیل کا بڑا عمل دخل ہے اور امریکہ سمیت یورپی یونین بھی اسرائیل کو مکمل پنپنے کا محفوظ ماحول فراہم کر رہے ہیں۔تاکہ اسرائیل گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مکمل کر سکے۔دوسرا بڑا فائدہ جو اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ کہ عراق، لیباء، اور شام جیسے مسلم ممالک خام تیل کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں ۔امریکہ اس جنگی بحران کے پس پشت ان ممالک سے تیل نکال رہا ہے۔تمام تنازعہ علاقوں میں امریکہ اپنے تیل نکالنے کے مشن پر گامزن ہے۔گزشتہ کچھ برسوں سے داعش نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں سے خام تیل نکال کر امریکہ کو فروخت کر کے اپنے مالی وسائل نہ صرف پورے کئے بلکہ اپنے آئندہ منصوبوں کے لئے محفوظ بھی کر لئے۔روس بھی ایک مفاد پرست ملک ہے،اور دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عالمی حیثیت کو بحال کرنا چاہتا ہے۔روس نے بھی شام کی بحرانی صورتحال میں عمل دخل کیا روسی فورسز اور حکومت نے بشارالاسد کو سپورٹ کیا اور اسلحہ دیا مالی مدد کی۔بشارالاسد کا پلڑا بھاری کرنے میں روس اور چائنہ کے اسلحے کا بھی بڑا کردار ہے۔گزشتہ روز روسی صدر کی جانب سے شام کی خانہ جنگی کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ شام مکمل طور پر آزاد ہے داعش ختم ہو چکی ہے۔امریکہ کا موئقف ذرا مختلف ہے اور امریکہ ابھی شام میں مزیدعمل دخل چاہتا ہے۔شاید بدلتی صورتحال میں امریکہ مسلم ممالک کو مزید غیر مستحکم کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہنا چاہتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق لاکھوں داعش کے کارندے بھاری اسلحے سمیت شام سے کہیں اور منتقل ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اب ان کا اگلا پڑاؤ کہاں ہے؟ان کے پاس مالی وسائل اور اسلحہ بھی موجود ہے۔یہاں دو پہلو نکل سکتے ہیں۔یا تو امریکہ کچھ دیر بعد پھر انہیں واپس شام کی طرف دھکیل دے گا یا پھر کسی اور اسلامی ریاست کی طرف قافلے رواں ہوں گے۔ایسے میں ایشیائی ممالک کو بلکہ بالخصوص مغربی ایشیائی ممالک کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا کیپیٹل نامزد کرنے کے بعد کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ کسی بھی مسلم ریاست کے حالات بہتر ہوں بلکہ وہ مسلم ریاستوں کو مزید افراتفری کی فضا میں جھونکنا چاہتا ہے۔ایسے میں پاکستان کو بھی چاہئے کہ اپنی اندرونی معاملات جتنی جلد ہو سکے احسن طریقے سے نمٹائے تاکہ کوئی بھی دشمن ہمارے داخلی معاملات کو الجھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔جہاں تک شام و عراق کے جنگی بحران کی بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ سلسلہ کچھ وقت کے دھیما ہوا ہے امریکہ اسے پھر سلگائے گا۔

Sunday 10 December 2017

یہود ونصار کی منظم منصوبہ بندی


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

ایات اور احادیث سے ثابت یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے کہ یہود و نصار کبھی تمہارے دوست نہیں بن سکتے۔برسوں پہلے یاصدیوں پہلے عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔ایک دوسرے کی جانوں کے پیاسے تھے۔مگر جب مذہب اسلام پھیلنے لگا تو یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ یہود ونصار اسلام کے خلاف یکجا ہیں۔دونوں مذہبوں اور ان کے مذہبی سکالروں نے جب اسلام کوپھیلتے دیکھا تو ان میں تشویش کی لہر اٹھی کہ کہیں پوری دنیا میں اسلام نہ پھیل جائے،جب اسلام کو پھیلنے سے نہ روک سکے تو انہوں نے اسلام کے خلاف منظم منصوبہ بندی شروع کردی۔
موجودہ حالات میں مسئلہ فلسطین زیر بحث ہے،یہ بھی یہود و نصار کی منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
ٹرمپ ایک جنونی شخص ہے وہ کوئی بھی فیصلہ سوچے سمجھے بغیر کردیتا ہے۔امریکی لوگ اسے پاگل قرار دیتے ہیں۔اکثریت امریکی ویورپی عوام اس کے مخالف ہے اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔اس کے رویوں اور فیصلوں سے خود امریکی ادارے بھی اکتائے ہوئے ہیں۔عدلیہ بھی اس سے خفا ہے۔امریکہ و یورپ کے لوگ پرامن ہیں اور ٹرمپ کے انتہا پسندانہ رویے کو سخت ناپسند کرتے ہیں،مگر ٹرمپ کے فیصلوں کو چاہ کر بھی روک نہیں سکتے ۔وغیر ہ وغیرہ
یہ سب بظاہر ہے۔ایسا رویہ جان بوجھ کر اختیار کیا جا رہاہے۔امریکی عوام و ادارے منہ کی بجائے ناک یا کان سے کھانہ نہیں کھاتے کہ وہ غلطی سے انتہا پسند شخص کو ملک کا صدر بنوا بیٹھے اور بعد میں ان کو معلوم ہوا کہ کھانہ تو منہ سے کھایا جاتا ہے۔مسٹر ٹرمپ جو بھی کر رہے ہیں یہ سب اپنے ان وعدوں کی تکمیل ہے جو ٹرمپ نے انتخابی کمپین میں کئے تھے،جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے اپنے انتہا پسند اور اسلام دشمن ہونے کا ثبوت دیا تھا۔قارئین امریکی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو باخوبی علم ہوگا امریکی سیاست میں جو بھی ہوتا ہے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتتدار میں لانا اور اس کا متعصب پسند رویہ دکھانا یہ سب امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔اگر خطے کی صورتحال نہ بدلتی تو امریکہ کی منصوبہ بندی بالکل مختلف ہوتی اور ٹرمپ کی بجائے ہیلری صدر ہوتی۔مگر جب امریکہ کو علم ہوا کہ امریکہ کے مقابلے کچھ دوسری طاقتتیں بھی دنیا میں اثر ورسوخ بڑھا رہی تو انہیں اپنے رویے اور منصوبے میں تبدیلی لانا پڑی۔ایک انتہا پسند جوکر نما شخص کو سامنے لا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہا کہ امریکہ سمیت یورپ ہر گز انتہا پسندی کے مخالف ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک انتہا پسند اور من مانی کرنے والا شخص ہے جو اپنی مرضی سے مختلف پالیسیوں پر عمل کروا رہا ہے،جو کہ امریکہ کے لئے رسوائی کا باعث بن رہا ہے۔سی آئی اے اور دوسرے امریکی و اسرائیلی اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت ہی گزشتہ روز یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا،اور امریکی ادارہ یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔بعد میں مختلف یورپی ممالک سے اس کی مذمت بھی کروائی گئی۔ایسا نہیں کہ یہ فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جھٹ پٹ سے دے دیا ہو۔یہ اسرائیل کو 100ویں سالگرہ کا تحفہ ضرور ہو سکتا ہے مگر ایسا تحفہ دینے کی منصوبہ بندی بائیس برس پہلے سے جاری تھی۔گزشتہ برسوں میں شاید ایسی صورتحال یا ایسے مواقع میسر نہیں تھے۔مگر اب کے بار امریکہ کے پاس واضح مواقع موجود تھے ۔موقع محل گردانتے ہوئے انہوں نے اپنا فیصلہ صادر فرمادیا۔مسلمانوں کی موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو مسلمان دفاعی و جنگی صورتحال میں مبتلا ہیں،بٹے ہوئے ہیں۔امریکہ کی اپنے نیٹو اتحادی ترکی سے تعلقات میں بھی گرمجوشی نہیں رہی،پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ اور ڈو مور کے مطالبے نے تعلقات کی نوعیت ہی بدل دی۔واحد ایٹمی قوت پاکستان بھی دفاعی حالت میں ہے،اندرونی معاملات میں الجھا ہوا مشرقی و مغربی سرحدوں پر ستایا ہوا سی پیک کی نگرانی سمیت ہر وقت الرٹ رہنے پر مجبور ہے اوپر سے معیشت کا بھیڑا بھی غرق ہے آئی ایم ایف کے بغیر ہمارا بجٹ نہیں بنتا۔ایسے میں پاکستان سوائے بیانات کے کچھ نہیں کر سکتا۔ایران پرامریکی پابندیاں عائد ہیں اسکے علاوہ امریکی اسپونسرڈ جو سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد بنا ہے اسکا مقصد صرف ایران اور دوسرے مسلم ممالک کو کاؤنٹر کرنا ہے۔سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات اور دوسری عربی ممالک پر بھی امید نہیں رکھی جا سکتی۔اسرائیلی ٹیلی ویژن کے مطابق سعودی عرب اورابودبئی سمیت بہت سے اسلامی ممالک کو پہلے اعتماد میں لیا گیا تھا۔سعودی عرب کے پس پردہ اسرائیل سے تعلقات بھی کسی ڈھکے چھپے نہیں۔ترکی سب سے زیادہ ری ایکٹ کر رہا ہے مگر یہ بھی جان لیجئے کے عرصہ پہلے ترکی نے اسرائیل کوآزاد ریاست تسلیم کر لیا تھا۔باقی لیبیا ،عراق اور شام جیسے ممالک تو حالت جنگ میں ہیں بنگلہ دیش اورملیشیاء وغیرہ انٹرنیشنل معاملات پر کم ہی عمل دخل کرتے ہیں۔امریکہ نے مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لیا انہیں تقسیم کیا اور اب اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ایسی کٹھن مسلمانوں کی صورتحال میں ایسا امریکی فیصلہ آناہی تھا۔کیونکہ امریکی و اسرائیلی ذمہ داران باخوبی علم رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے بیانات آجائیں گے میٹنگز ہو جائیں گی احتجاج کیا جائے گا مگر کوئی بھی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا سکتا۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان حکمران خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120کا جائزہ لیں ،جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ’’اور تم سے ہر گز راضی نہیں ہوں گے یہود ونصاری یہاں تک کہ آپ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی‘‘۔اب مسلمانوں کی عیاشی و لچک دکھانے کا وقت ختم ہو گیا۔اب وقت کچھ کر دکھانے کا ہے،یکجا ہونے کا ہے۔وقت ہے کہ یہود و نصار کے منظم منصوبوں کو سمجھا جائے اور اسلام کا جھنڈا مضبوطی سے تھاما جائے۔ورنہ یوں ہی مسلمان فلسطین ،برما اور کشمیر کی طرح ظلم و بربریت کا نشانہ بنیں گے اور اپنی خودمختاری کو تسلیم کرانے کے لئے برسوں قربان ہوتے رہیں گے۔
کبھی اے نوجواں مسلم ٖ ٖ! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹ ہوا تارا

Sunday 3 December 2017

قاتل معاشرہ


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

معاشرے میں قتل و غارت عام ہوتی جا رہی ہے ،معاشرہ بد عنوانیوں کی لپیٹ میں ایسا لپٹا ہے کہ اپنے سگے اپنا خون بھی زندگی کی کشمکش میں( افراتفری میں) بھروسے کے قابل نہیں رہا ۔آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ،جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ والد نے بیٹیوں کو قتل کر دیا ہے ۔ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں جنہیں دیکھ کر سن کر انسان ایسی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ خونی رشتوں پر بھی اعتبار نہ کیا جائے۔دشمنوں کی طرف سے پھیلائی ہوئی دہشتگردی جتنی مہلک ہے اس سے کہیں زیادہ خطرناک اپنے سگوں کا سگوں کے ہاتھوں قتل ہونا۔ہمارا معاشرہ جس طرف جا رہا اس سے افرتفری کی فزا مزید پھیلے گی اور خدا نہ خواستہ ایسی خطرناک فضا معاشرے ،ملک و قوم سب درہم برہم کردیتی ہے باقی کچھ نہیں بچتا۔
برسوں پہلے، جب ٹیکنالوجی عام نہیں تھی۔گاڑیوں کا شور و دھواں نہیں تھا۔روپے کی اتنی روانی نہیں تھی۔شہروں کی حدودیں بھی اتنی بڑی نہیں تھیں۔دیہات بھی آباد تھے۔البتہ بجلی گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی،اگر تھی بھی تو مخصوص حلقوں تک تھی۔لوگ کنوؤں سے پانی بھر کر پیتے تھے۔آسانیاں نہیں تھیں ہر کام کے لئے بڑی محنت درکار تھی۔روزگار کے لئے خوراک کے لئے اچھی خاصی محنت درکار تھی۔ان سب کے باوجود بھی معاشرہ پر سکون تھا۔لوگ مطمئن تھے،شکر کے کلمات ادا کئے جاتے تھے۔مکان کچے تھے، مسجدیں کچی تھیں۔جدت کے لحاظ سے زمانہ آج سے بہت پیچھے تھا۔سائنسی علوم سے لوگ بہت کم شناسائی رکھتے تھے۔اخلاقی علم سے مالا مال تھے۔آپ ﷺ کی تعلیمات کا گہرہ اثر تھا ان لوگوں پر،آپ کی تعلیمات کو سینے سے لگا کر رکھنے والے لوگ تھے ۔حسن اخلاق ،عزت و احترام اور احساسات جیسی کئی خصوصیات ان میں موجود تھیں۔جو واقعی ان سادہ مگر صاف دل لوگوں نے آپﷺ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے ہی سیکھی ہوں گی۔زمانہ سست تھا،مگر سکون و لطف سے بھرپور۔ایک دوسرے کا احساس اتنا کہ جتنا آج کے خونی رشتے بھی نہ رکھتے ہوں۔اسلحہ عام نہیں تھا شاید اس کی اتنی ضرورت بھی نہ تھی۔خالص و پوتر لوگ، بغض نہ رکھنے والے لوگ تھے۔کوئی بھی گلہ شکوہ ہوتا تو کھل کر بیان کر دیتے دل میں غصہ نہ رکھتے۔شاید اسی لئے برائیاں بہت کم تھیں معاشرہ قاتل نہیں تھا۔چوری چکاری بہت کم تھی۔قتل و غارت جیسی واردات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔اگر کوئی قتل جیسا بڑا سانحہ ہو بھی جاتا تو پورا معاشرہ سوگ میں مبتلا ہو جاتا۔سوگ دور دراز کے علاقوں دیہاتوں کو بھی غمگین کر دیتا۔یہاں تک کہ فضائیں بادل بھی سوگ میں برابر کے شریک ہوتے۔آندھیاں و طوفان برپا ہوجاتے جس سے دور دراز کے لوگ بھی آگاہ ہو جاتے کہ کوئی بڑی انہونی ہوئی ہے۔سوگ میں غمگین یہ لوگ اپنے رب سے رحمت و سلامتی کی دعا کرتے۔ایسی انہونی کبھی کبھار ہوتی اسی لئے لوگ اسے مہینوں تک نہ بھول پاتے اور غمگین رہتے۔آج کا معاشرہ قاتل کہلانے کے لائق ہے کیونکہ روز بروز بڑی بے دردی سے لوگ قتل ہو رہے ہیں مگر کسی کو کوئی احساس نہیں۔روز بروز کی بدعنوانیوں نے ہمارے احساسات کو ختم کر دیا ہے۔احساسات کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے وہ بھی نہیں رہی یہاں دوسروں کے قتل پر افسردہ ہونے کی بجائے لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔
پھر زمانہ بدلتا گیا،وقت گزرا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہروں کی حدود دیہاتوں سے لگنے لگی دن رات محفلیں جمنے لگیں۔ٹیکنالوجی نے زندگی ہی بدل دی،زندگی سہل ہوگئی۔انسان محنت سے عاری ہونے لگا۔ انسان آسانیوں کے اس دور میں غافل ہونے لگا ۔اللہ اور اسکے احکامات کو بھولنے لگا۔دنیا کی رنگینیوں میں رنگنے لگا۔ دنیا کی افراتفری میں اسلحے میں بھی جدت آئی۔اختلافات بڑھنے لگے، قتل و غارت روز کا معمول بن گئی۔معاشرے کا توازن بگھڑ گیا۔باہمی مفادات ختم ہوگئے ،ذاتی مفادات نے ترجیح لے لی۔ظاہری رنگین محفلوں والا پرکشش معاشرہ، انسان کو ذہنی الجھنوں میں پھنسانے لگا۔انسان اتنی چہل پہل افراتفری میں بھی ذاتی مفادات تک،تنہا ہونے لگا۔معاشرہ دن بدن ٹوٹنے لگا۔انسانی سوچیں بڑھنے لگیں۔انسان مالیت پرست ہو گیا۔پریشانیاں بڑھنے لگیں۔معاشرہ بے ہنگم ہو گیا ،لوگ چکرا گئے۔انسانی قدروں کا خاتمہ ہوگیا۔اتنی بڑی فورسز اداروں اور قوانین کے باوجود بھی انسانی درندگی حوس و بد عنوانی بڑھنے لگی۔معاشرے کا بھائی چارہ تو ختم ہوا مگر خونی رشتے بھی مدھم ہوکر ختم ہونے لگے۔نفسیاتی بیماریاں بڑھنے لگیں۔نفسیات پر کنٹرول ختم ہو گیا، انسان کا خود پر قابو ختم ہوگیا۔معاشرہ بظاہر بڑا رنگین ،درحقیقت ایک قاتل و کھوکھلا معاشرہ بن کر رہ گیا۔
یقین مانئے جب سے ہوش سنھبالا ہے حالات دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔بے حسی و بدعنوانیوں کی ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جیسے انسانوں کے معاشرے میں نہیں کسی اور مخلوق کے معاشرہ میں رہ رہے ہیں۔دشمنوں و دہشتگردوں کے ہاتھوں معصوموں ،بوڑھوں اور جوانوں کا شہید ہونا تو معمول ہے۔بھائی ، والد اور چچا کے ہاتھوں بہنوں بیٹیوں کا قتل ہونا بھی معمول بن چکا ہے۔بیٹے کے ہاتھوں باپ و ماں کا قتل ہونا بھی اس قاتل کا معاشرے کا کارنامہ ہے۔مگر گزشتہ روز ایک نئی ہی خبر سننے کو ملی ہے جس نے رشتوں کے کم ہوتے اعتبار کو مکمل ہی ختم کر دیا ہے۔اس سے آگے اب کچھ نہیں یہ انتہا ہے معاشرہ قاتل ہے قاتل ہے۔وہ قاتل معاشرہ جس میں ماں نے اپنے شوہر سے جگھڑے کی بنا پر اپنے ان ننھے منے بچوں کو گلہ کاٹ کر قتل کر دیا جو شاید اس ماں کے قدموں تلے اپنی جنت کے متلاشی ہوں گے، اور پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہیں نہر میں پھینک دیا۔ وہ کمسن بچے جنہوں نے زندگی کے کچھ برس ہی گزارے تھے ۔جنہیں ابھی سکولوں کالجوں میں پڑھنا تھا،جنہوں نے زندگی میں ابھی کسی سے کوئی لڑائی جگھڑا بھی نہیں کیا تھا۔ جنہیں شاید ابھی لفظ موت اور قتل سے واقفیت بھی نہ تھی۔ جنہیں ابھی دنیا کی درندگی کا اندازہ بھی نہ تھا۔ جن کی عمر کھیلنے کی تھی۔ اور ابھی وہ ماں کی ممتا میں خوشیوں کے متلاشی تھے، جس ماں کی گود میں کھیلنا تھا جس کے ہاتھوں سے غذا کے لقمے کھانے تھے انہیں ہاتھوں نے نہ جانے کیسے چھری چلائی ہوگی،اگلے جہاں میں بیٹھے یہ معصوم بچے ضرور افسردہ ہوں گے اور اپنے رب سے گلہ بھی کریں گے۔ اے خدایہ یہ کیا ہوا ماں تو بچوں کے لئے جان قربان کرسکتی ہے ماں کے قدموں تلے تو جنت ہے اے ہمارے رب خداوند ہم اپنی جنت کہاں تلاش کریں ہماری جنت نے تو ہمیں لہولہان کردیا آخر ہمارا کیا قصور تھا ۔اس سے زیادہ بے حسی بدعنوانی کیا ہو سکتی ہے ۔یہ معاشرہ اخلاق احساس سے بہت دور چلا گیا ہے۔ایسے ہی کئی واقعات اور ہیں جو انسانی درندگی کو عیاں کرتے ہیں۔کچھ ہی روز قبل گوجرانوالہ میں ایک باپ نے اپنی دو کمسن بیٹیوں کو زندہ نہر میں پھینک دیا۔ایک دیہاتی عورت نے پیر کے کہنے پر اپنے بیمار بیٹے کا قتل کر دیا۔کیا کیا لکھوں! بے حسی و بدعنوانی کے قصے ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
اس سے بڑی سفاکی کیا بتاؤں آدمی ہی انسانیت کا قاتل نکلا
تڑپا تڑپا کر سسکا سسکا کر مارا جس نے بھائی ہی بہن کا قاتل نکلا
دیس کی مٹی کی وفا کو کیا ہوا اس دیس کی مٹی کا وجود بھی غافل نکلا
اس مٹی کی اور کیا بے وفائی بتاؤں بیٹا ہی باپ کا دشمن عناصر نکلا
زرخیز اس مٹی نے اگایا ہے نفرت کو برابر کہ بھائی ہی بھائی کا قاتل نکلا
اس دیس کی کیا داستان سناؤں ہندل ہائے ماں بیٹے کی اور بیٹا ماں کا قاتل نکلا

Sunday 26 November 2017

پھیلتی افراتفری


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔نا چاہتے ہوئے بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ملک افراتفری کی گرفت میں آگیا۔جس سازش کا خدشہ تھا وہ سچ ثابت ہوا۔پاکستان کو بیرونی معاملات میں الجھانے کے لئے اسے اندرونی افراتفری کی طرف دھکیل دیا گیا۔آج پورا ملک بند ہونے کو ہے، کاروبار، آمدورفت اور دوسرے روزمرہ کے کام ٹھپ ہو رہے ہیں۔شہری علاقوں میں گھروں سے باہر نکلنا محال ہے۔خطرناک نتائج لئے پھیلتی افراتفری ہے کہ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ہر ذی شعور پریشان ہے کہ اکیس کروڑ کے اس ملک کا کیا مستقبل ہے۔معاملات دن بدن سنگین سے سنگین کیوں ہو رہے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دشمن ہمارے ملک میں افرتفری پھیلانے میں بھی سرگرم عمل ہے،ہمارے آپس کے اختلافات دشمنوں کے اس ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ملک میں موجود دشمن دوست پاکستان کے خلاف سازشی منصوبہ بندی میں متحرک ہیں۔وہی پاکستان جو وسط ایشیاء کا نمائندہ ملک بننے جا رہا ہے ،کیا وہ ایسا کر پائے گا؟وہ اپنے اندرونی معاملات سے نمٹنے کی بجائے روز بروز مزید الجھتا جا رہا ہے۔آخر کوئی تو بڑی سازش ہے جو اس وقت متحرک ہے؟، جو پاکستان کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتی۔گزشتہ چند عرصے سے پاکستان کو ہمہ وقت بیرونی و اندرونی معاملات میں الجھایا جا رہا ہے۔ایسے کٹھن حالات میں ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے یکجا ہو کر دشمنی سازشوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کریں۔مگر افسوس کہ ملک میں پھیلتی افراتفری میں جتنا ہاتھ دشمن کا ہے اس کہیں زیادہ قصور ہماری سیاسی جماعتوں اور ہمارے اداروں کا ہے۔ملکی افراتفری میں اضافے کے ذمہ دار ہم عام عوام بھی ہیں جو کبھی ایک نظریے پر متفق نہیں ہو سکے،بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا ہماری قوم کسی ایک کام ایک نظریے کے لئے کبھی یکجا نہیں ہوئی۔ہمیشہ عوام نے ظاہری و وقتی مفاد کو ترجیح دی ہے۔موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو وہ نامعلوم ہے ایسا لگتا ہے کہ ملک بغیر حکومت کے ہی چل رہا ہے۔فیض آباد کے دھرنے کو کچلنے کی جو ناکام کوشش کی گئی اس کے نتائج ملک بھگت رہا ہے اور نہ جانے کتنے دن اس کے نتائج بھگتنا پڑیں۔حکومتی نااہلی کے باعث ہی تو دھرنا شروع ہوا،مگر مذہبی جماعتوں کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک کو افراتفری کی طرف دھکیلیں۔ملک پھیلتی افراتفری کی ریس میں اتنا آگے نکل گیا ہے، لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔کوئی قانون نہیں ۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا مہاورا سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ریاست تو جیسے سرے سے ہی موجود نہیں،جنگل راج ہے۔ریاست کی تذلیل ہو رہی ہے۔ حکومتی کنٹرول کم ہوتا جا رہا ہے۔جو کسی کا دل چاہتا ہے کرتا ہے۔موجودہ پھیلتی افراتفری میں ہم سب قصور وار ہیں عام عوام سے کہیں زیادہ قصور وار حکومتیں ادارے اور دوسری بااثر جماعتیں ہیں۔نااہلی کی انتہا دیکھئے جس کا دل چاہتا ہے وہ اکٹھ کر کے ملک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔یہ جنگل راج ہے جو جتنا طاقتور اتنا ہی با اثر۔آخر کب اس وطن کو سکھ اور چین نصیب ہوگا؟پھیلتی افراتفری کب رکے گی؟کون ملک کا حقیقی لیڈر ہے؟اقتدار کے لالچ سے پاک مفادات سے پاک کون ہے ؟ہے کوئی ایسا لیڈر جو اپنے وزراء کو نوازنے کی بجائے ملک کا سوچے؟ایسا کیوں ہے؟ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں، ہو بھی کیوں۔کیوں کہ لالچ و بے حسی ہے کہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔آج ہم اپنے مفادات کی خاطر دین کا سہارا لینے سے بھی نہیں کتراتے۔ہماری تعلیمات کہاں گئیں؟ہمارے علماء و اساتذہ کے علم میں اتنا بھی اثر نہیں کہ وہ بڑھتی حوس و لالچ کو کم کر سکیں۔اسلام تو مکمل نظام حیات ہے، بلکہ واحد دین ہے جو مکمل ہے۔کیا پھر ہماری تعلیمات میں کوئی کمی کوتاہی ہے؟کیا ہمارے عالم ہی نامکمل علم رکھتے ہیں،یا عمل سے عاری ہیں؟ کچھ تو ایسا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی بے حس ہو چکا ہے ۔ورنہ کوئی ختم نبوت کی شک کو حذف کرنے کی گستاخی نہ کر سکتا۔آپﷺ ہمارے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپﷺ کی ذات پر ہماری جان بھی قربان۔حکومت نے جو غلطی کی ہے وہ حقیقت میں بڑی غلطی ہے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نظام حیات کو درہم برہم کیا جائے۔تحریک لبیک کا وزیر کی نااہلی کا مطالبہ درست ہے مگر ملک میں افراتفری پھیلانے کا منصوبہ غلط ہے۔حکومت نے جلد بازی میں یا اپنے وزیر کو بچانے کے چکر جس افراتفری کو فروغ دیا ہے ملک اس کا متحمل نہیں ۔اس کٹھن وقت میں جب دشمن سے بھی خطرات موجود ہیں حکومت کو دانشوری کا مظاہرہ کرنا چاہئے نہ کہ دشمنی سازش کو ترویج دی جائے۔ویسے کچھ عرصے سے ہماری عدالتیں کافی متحرک ہیں اور ہر معاملے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتی ہیں۔سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کوبھی خود ہی دیکھ لے،اور آئین و قانون میں تبدیلی کے ذمہ داران کو سامنے لانے کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کو بھی پرامن رہنے کی تلقین کرے۔تاکہ پھیلتی افراتفری پر فوری قابو پایا جا سکے۔باقی بات رہی سازش اور قصور کی وہ وقت عیاں کر دے گا کہ کس کا کتنا قصور ہے۔

Sunday 19 November 2017

مشرقی و مغربی سرحد اور اندرونی معاملات


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای
او ہیں۔

ہمہ وقت اندرونی و بیرونی معاملات میں کشیدگی دشمن کی بڑی سازش ہی ہو سکتی ہے،مگر افسوس کہ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اور مختلف ادارے ملک کو افراتفری کی جانب دھکیل کر دشمن کی سازش کو پروان چڑھا رہے ہیں۔جانے انجانے بہت سے لوگ ملک کو افراتفری کی جانب دھکیلنے کا کام سرانجام دے رہے ہیں ان میں سیاسی پارٹیوں کے کارکن حکومتی حامی مذہبی جماعتوں کے کارکن اور بہت سے دانش ور وغیرہ ہیں۔ملک فی الوقت متعدد مسائل کی گرفت میں ہے اور ان میں آدھے سے زائد مسائل ہماری اور حکومت کی نادانیوں کے باعث دشمنوں نے پروان چڑھائے ہیں۔حکومت کو اپنے ہونے کا ثبوت دینا ہوگا،کھوکھلی حکومت سے بہتر ہے کہ فوری اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کروائے جائیں۔لیکن اخلاقی طور پر حکومت کو پورا وقت ملنا چاہئے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کے موجودہ وقت کا انتظار کرنا چاہئے الیکشن کمپین ضرور چلائیں مگر مخالفت میں اتنی شدت نہ ہو کہ ملک افراتفری کی طرف چلا جائے۔حکومت کو اگر مدت پوری کرنی ہے تو تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور ان کے جائز مطالبات پورے کرے۔پاکستان میں موجود ہر ذی شعور انسان کو باخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان بیک وقت متعدد مسائل کی لپیٹ میں ہے۔تاہم سیاسی و عسکری قیادت نے کافی حد تک ان مسائل کو کنٹرول بھی کیا ہے۔خطے کی بدلتی صورتحال نے پاکستان کو ہر وقت محتاط و الرٹ رہنے پر مجبور کردیا ہے۔پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری کے آغاز کے بعد سے بہت سی قوتیں پاکستان پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔کچھ اچھی نظریں یعنی بعض اچھے ممالک سرمایہ کاری و کاروبار کی نیت سے نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔کچھ انتہائی بری نظریں یعنی بعض ممالک کو خطے کی یہ ترقی ہر صورت ہضم نہیں ہو رہی ان کے نزدیک انکی نمبرداری ختم ہوجائے گی وسط ایشیاء مستحکم ہو جائے گا اور چوہدراہٹ والا نظام بھی زوال پذیر ہو جائے گا۔ایسے ممالک میں سپر پاور امریکہ اور ایشیاء میں امریکہ کا دوست بھارت ہر وقت سی پیک کی ناکامی کے لئے متحرک رہتے ہیں،اور بھی بہت سے ممالک ان کے اس مقصد میں حامی ہیں۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت مکمل طور پر ان سازشوں سے آگاہ ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے اپنی پیشہ ورانہ صلاحتیں استعمال کر رہی ہے۔گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان کو تین طرح کے مسائل در پیش ہیں اور اگر اندازہ لگایا جائے تو سوچی سمجھی سازش ہی لگتی ہے۔کچھ دن قبل افغانستان کی طرف سے پاکستان آرمی پر فائرنگ گزشتہ روز ایل او سی پر بھارتی خلاف ورزی بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل اور ملک میں سیاسی و مذہبی انتشار وغیرہ ہمہ وقت ملک کو مختلف مسائل میں دھکیل کر افراتفری کو پروان چڑھانے کے مترادف ہے، اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اس حالت میں دشمن کی ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی غفلت بھی شامل ہے۔ ہماری مشرقی سرحد بھارت سے ملتی ہے۔ بھارت ہمارا ازل سے دشمن ہے، لائن آف کنٹرول پر بھارتی خلاف ورزیاں تو عرصہ دراز سے چلی آرہی ہیں مگر جب سے سی پیک کا آغاز ہوا ہے ان خلاف ورزیوں میں شدت آگئی ہے آئے روز کسی نہ کسی دیہات کی فصلیں تباہ ہو رہی ہے دیہات اجڑ رہے ہیں معصوم لوگ مر رہے ہیں۔بھارتی شر پسندانہ حکمت عملی خطے میں جنگ کے خطرات کو پروان چڑھا رہی ہے۔پاکستان نے ہمیشہ نرم رویہ اختیار کیا بعض اوقات مسائل کے حل کی خاطر بھارتی ہٹ دھرمیوں کو پس پشت ڈال کر مذاکرات کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر بھارت بعض آنے سے قاصر ہے۔موجودہ آرمی چیف کو کریڈٹ دینا بھی ضروری ہے ،چیف صاحب نے جوانوں کو حکم دے رکھا ہے کہ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کی صورت میں بروقت اور موئثر جواب دیا جائے تاکہ دشمن کسی وہم میں مبتلا نہ ہو۔پاکستان کی مشرقی سرحد پر مستقل خطرہ موجود ہے اسی لئے آرمی چیف نے ہر وقت الرٹ رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔بھارت نے رواں سال 1300سے زائد مرتبہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جو کہ انسانی حقوق اور امن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے لئے پاکستان دشمنی میں اپنی حدیں عبور کررہا ہے ،دوسری طرف بھارت کے نئے آقا امریکہ نے اسے حکم دے رکھا ہے کہ سی پیک کو ہر گز کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ہماری مغربی سرحد افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہے،یہ سرحد بھی عرصہ سے مشکلات کی گرفت میں ہے۔افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقوں میں فائرنگ اور ایران کی طرف سے دھمکیاں بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ دونوں ممالک بھارت کے قریبی ہیں اور بھارت ان ممالک میں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے۔پاکستان اپنی اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے سرگرم ہے۔پاک فوج پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے میں مصروف ہے اور امید کرتے ہیں کہ اس کی تکمیل سے دہشتگردی میں کمی آئے گی۔دہشتگردوں کی افغانستان کے راستے پاکستان آمدورفت رک جائے گی۔پاکستان کی عسکری قیادت کو ہمہ وقت مشرقی و مغربی سرحدوں پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے دشمن ہر وقت ہمیں نقصان پہنچانے کے طریقے ڈھونڈتا ہے،ہمیں دشمنوں کی چالوں کو بھانپ کر انکا مقابلہ کرناہے۔بارڈر مینجمنٹ کو جلد از جلد بہتر بنایا جائے۔اندرونی مسائل سب سے زیادہ گھمبیر ہیں اور انہیں حل کئے بغیر بیرونی مسائل مزید الجھ سکتے ہیں۔حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،بلوچستان سمیت تمام مسائل کو بھانپ کر انکا مقابلہ کرنا ہوگا۔تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ ذاتی مخالفت کو ذاتی ہی رکھا جائے ، ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو انتشار کر طرف مت دھکیلیں۔باہمی طور پر مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں،ذمہ داران اور فہم پرست سیاستدان ہونے کا ثبوت دیں۔افراتفری کو فروغ نہ دیں بلکہ دانش مندانہ طریقے سے اپنا اپنا منشور تیار کرکے الیکشن کی تیاری کریں ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر سیاست کریں۔ایسا نہ ہو کہ آپ کے ذاتی مفادات کی خاطر ملک انتشار کی طرف چلا جائے اور یہ روایت مشہور ہو جائے کہ سیاست دان ملکی معاملات چلانے کے قابل نہیں۔

Sunday 5 November 2017

پاکستان مخالف بھارتی مہم

چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔
یوں توکئی سالوں ہی سے دشمن ملک بھارت پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے، کوئی بھی مخالفت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ تعلقات میں بہتری کی کوششیں کیں۔مگر مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی بھارتی پاکستان مخالفت میں شدت آگئی۔مودی انتہا پسند بھارتی تنظیم اشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کا سرگرم رکن اور مسلم کش ایجنڈا ہندو تواء کا پیرو کار ہے۔مودی نے اپنی تنظیم سے پاکستان کی تباہی جیسے ناپاک وعدے کر رکھے ہیں،مودی نے انتہا پسند بھارتی قوم سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ کشمیر سمیت بہت سے پاکستانی علاقوں کو بھارت میں ضم کرے گا۔مودی اور اسکی حکومت اپنے ناپاک عزائم کے لئے سر گرم عمل ہے۔اپنے مقصد کو پس پردہ چلانا بھارتی وطیرہ ہوتا تھا مگر اب کے بار مودی سرکار سرعام اپنے عزائم کا تذکرہ کرتی ہے۔مختلف فورمز پر مودی نے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی اور پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔مودی بذات خود بڑے فخر سے یہ بھی بتا چکا ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے میں ان کی تنظیم اور انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔پس پردہ جڑیں کاٹنا تو بھارت کا معمول کا کام تھا مگر اب کے بار تو کھلم کھلا پاکستان کی تباہی کی باتیں کی جاتی ہیں۔اسکی بڑی وجہ خطے کی بدلتی صورتحال ہے۔بڑی وجہ امریکہ بھارت تعلقات میں بہتری اور پاک امریکہ تعلقات میں کمی و کشیدگی بھی ہے۔پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور جو خطے کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔بھارت تو ازل سے ہی اس منصوبے کا مخالف ہے ،امریکہ کو بھی یہ گوارا نہیں اسے لئے اس منصوبے نے امریکہ بھارت کو مزید نزدیک و یکجا کر دیا۔خطے میں سیاسی صورتحال بدل چکی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔چائنہ روس اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک حامی بنتے جا رہے ہیں جبکہ امریکہ کو یہ بہت ناگوار گزر رہا ہے کہ یہ خطہ انکی مداخلت سے پاک ہو اور چین و روس اس کے مقابلے مضبوط ہو جائیں۔اسی لئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت پر امریکہ نے انحصار شروع کردیا، بھارت کو اپنے اسلحے سے لاد کر خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا تاکہ کوئی اس خطے میں امریکہ کے مقابلے کھڑا نہ ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک اب پاکستان کی حیثیت بدل چکی ہے اور امریکہ دن بدن پاکستان کو پریشرائز کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے،بھارت کو بھی عزائم مقاصد کی تکمیل کے لئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے بلکہ مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔بھارت اس وقت اپنے اثر و رسوخ کی بلندی پر ہے اور نمبرداری کے نشے میں دھت ہے مگر اسے امریکی چالبازیوں کا قطعی علم نہیں شاید اسے پاکستانی دشمنی میں ہر علم سے لاعلم رہنا ہی بہتر لگتا ہے۔مگر بھارت کو جان لینا چاہئے کہ ایک دن امریکی گود میں کھیلتے کھیلتے وہ خود تباہ ہو جائے گا چائنہ اتنا مضبوط ملک ہے کہ بھارت اس کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتا ، یوں سمجھ لیجئے کہ ظاہری نمبرداری کے چکر میں بھارت تو ایک دن ٹکڑوں میں بھٹ کے رہے گا۔بھارت اس وقت امریکی ملی بھگت اور پاکستان سے مخالفت و دشمنی کی بدولت سی پیک کو ناکام بنانے کی کاوشیں کر رہا ہے چاہے اسکی راہ میں اسکے اپنے مفادات بھی قربان ہو جائیں اسے کوئی سروکار نہیں۔اس ملی بھگت میں کچھ اسلامی ممالک بھی شریک ہیں جن میں افغانستان اور دبئی کا نام قابل ذکر ہے۔بلوچستان میں بھارت عرصہ دراز سے براستہ افغانستان تخریب کاریوں میں ملوث ہے مگر سی پیک کے آغاز کے بعد بھارت نے گلگت بلتستان میں بھی تخریب کاریاں شروع کر رکھی ہیں، کچھ نام نہاد لوگ صحافی و ورکرز کی صورت میں بھارتی ایجنڈے کو گلگت بلتستان میں پروان چڑھا ر ہے ہیں۔پہلے تو بھارت نے کبھی خاطر خواہ اعتراض نہیں اٹھایا تھا مگر سی پیک کی تعمیر سے بھارتی حکومت نے کشمیر کے ساتھ گلگت کو بھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا ہے۔اسی طرح بلوچستان میں بھی مختلف لوگ بھارتی ایجنڈے کو پرموٹ کر رہے ہیں۔پاک آرمی کی کاوشوں کی بدولت کچھ بہتری آئی مگر اب بھی لوگ موجود ہیں جو پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں،چاہے انکی تعداد بہت کم ہے مگر ان سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔کچھ عرصہ قبل بھارت نے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں بلوچستان آزادی کے نام سے پاکستان مخالف مہم چلائی۔گزشتہ روز بھی اسی طرح کی مہم لندن میں بھی چلائی گئی۔ابھی جنیوا کی مہم کا چرچا ختم ہوا ہی تھا کہ بھارت نے پاکستانی مخالفت میں لندن کی مختلف سڑکوں اورگاڑیوں پر آزاد بلوچستان کے اسٹیکرز لگوائے دیئے۔پاکستان نے اپنے دوست ملک برطانیہ سے سخت احتجاج کیا کہ برطانیہ ایسی مہم کی ہر گز اجازت نہ دے یہ پاکستان کی سلامتی و خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے دنیا بھر میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے ،نام نہاد بلوچ تنظیمیں بھارتی مقاصد کا حصہ بن رہی ہیں۔پاکستانی حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں یہ ہماری سلامتی کا معاملہ ہے اور کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری سلامتی پر سوال اٹھائے۔تمام سیاسی پارٹیوں اور تمام اداروں کو متحد ہونا ہوگا۔دشمن ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کے در پے ہے اور ہم اپنی سیاسی لڑائیوں میں لگے ہوئے ہیں ہر طرف صرف اقتدار کا لالچ نظر آ رہا ہے سیاسی دنگل عروج پر ہے اداروں کے درمیان غلط فہمیاں ہیں کہ بڑھتی جا رہی ہیں۔یہ ہو کیا رہا ہے؟ وقت کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا دشمن کی چالوں کو بھانپنا ہوگا۔یکجا ہو کر اندرونی معاملات کو حل کرنا ہوگا پھر ہی ہماری مضبوطی سے دشمن خود تار تار ہوگا۔پاکستانی حکومت کو اپنی اعلی و اچھی سفارتکاری کی بدولت دنیا کو بتانا ہوگا کہ بھارت کتنا مکار ہے اور بلوچستان پاکستان ہے اس کی اکثریت پاکستان سے دل وجان سے پیار کرتی ہے چند نام نہاد بھارت نواز لوگوں کے کہنے پر بلوچستان کو بھارت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسا سوچنا بھی جرم ہے۔دنیا کو بھارتی مکاری کے خلاف ایکشن لینا چاہئے اور کسی ملک کی سلامتی کے خلاف سازش کے جرم میں سزا بھی ملنی چاہئے

Sunday 22 October 2017

محکمہ صحت پنجاب


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

تندرست و توانا شریر و جسم ہی توانا ذہن کو تعمیر کرتا ہے اور ذہن ایک مثبت سوچ کو جنم دیتا ہے ،تعلیم اس مثبت سوچ کو وہ راہ دکھاتی ہے جو قوم و وطن کو بہتری کی راہ پر گامزن کرے۔افسوس کہ ہمارا معاشرہ تو تعلیم اور صحت دونوں میں بہتری نہ ہونے کی بدولت نفسیاتی بیماری و کشمکش میں مبتلا ہے۔یہی کشمکش ہماری قوم کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے۔
تندرستی ہزار نعمت ہے! اس فقرے کا اندازہ ان لوگوں کو ہے جن کے گھر کی خوشیوں کو کسی مہلک بیماری نے گھیر لیا ہے اور ان کا اپنا پیارا کوئی مریض ہے۔بے بسی کا یہ عالم دیکھئے کہ کوئی بڑا طاقتور شخص بھی ہسپتال کی ہوا کھانے کے بعد اس نتیجے کو پہنچتا ہے کہ یا اللہ ہسپتال کا منہ تو کسی دشمن کہ بھی نہ دکھانا۔مرنا تو سب نے ہی ہے مگر پاکستان میں ہسپتالوں کی دیواروں سے لپٹے مریض اور فرشوں پر تڑپتے لوگ دیکھ کر تو اچھا خاصا تندرست شخص بھی بے چینی و مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یقین سے ہر شخص یہی دعا کرتا ہے یا اللہ ہمیں اس دنیا سے چلتے پھرتے ہی اٹھانا اور ہسپتالوں کے اس چکر سے بچانا۔ہسپتال بھی ایک قسم کا بوجھ ہے جسے اٹھانا کسی کی بھی خواہش نہیں ہر فرد اس سے میلوں دور رہنا چاہتا ہے۔اچھے ممالک میں اتنی دیر تک کوئی مریض ڈسچارج نہیں کیا جاتا جب تک وہ مکمل صحت یاب نہ ہوجائے۔ایسے ممالک میں لوگوں کی صحت کے شعبے سے منسلک پریشانیاں بہت کم ہوں گی۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر روز ہر ہزار میں سے ساڑھے سات فیصد لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔کچھ کا وقت بیت چکا ہوتا ہے باقی مہلک بیماریوں اور روزمرہ کے حادثات کی نظر ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں ناقص غزا اور ملاوٹ نے لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے،جس کے باعث ہمارے ہسپتال کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں اور یہاں تک کہ ایمرجنسی کی صورتحال میں بھی بہت سی جانیں صرف اسی لئے گنوا دی جاتی ہیں کہ قریب کوئی ہسپتال نہیں ملا ،ملا تو ہسپتال میں مریض کے لئے جگہ نہ ملی۔پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جس کی آبادی گیارہ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔پنجاب زراعت و صنعت کے وسائل سے مالا مال ہے۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ پنجاب ترقی یافتہ ہے اور باقی صوبے ترقی پذیر ہیں۔اس میں ضرور پنجاب حکومت کا بھی کردار شامل رہا ہوگا۔بات محکمہ صحت کی ہو تو اس میں بھی پنجاب حکومت سر فہرست دکھائی دیتی ہے یہاں تک دوسرے صوبوں کی مدد کو بھی پہنچتی ہے۔ایسے ہی اپنے صوبے میں بھی محکمہ صحت کی بہتری کے دعوے بھی اپنے اپنے دور میں حکومتیں کرتی رہیں۔یہ دعوے تو ہمیشہ ہر دور میں ہنگامی صورتحالوں میں عیاں ہوتے رہے مگر دیکھنے والا میڈیا معاملے کو ہمیشہ سے ہی ذرا دیر سے بھانپتا ہے۔قارئین آپ کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ کسی نہ کسی سرکاری ہسپتال سے واسطہ تو پڑا ہوگا، اور آپ کو باخوبی علم ہوگا کہ محکمہ صحت کیسے مسائل سے دو چار ہے اور گورنس کے دعوے کتنے جھوٹے ہیں۔یقین کیجئے جتنی مرتبہ بھی کسی مریض کی عیادت کے لئے کسی سرکاری ہسپتال میں گیا وہاں کا عالم اور لوگوں کی بے بسی دیکھ کر دل ہی دل میں حکومتی ذمہ داران کوبرا جانا۔یاد رکھئے کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں بنیادی چیزیں صحت و تعلیم ہوتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ دنیا ان پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔ایسے اداروں کو تحویل میں رکھ کر ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، تا کہ عوام ان سہولتوں سے محروم نہ ہو اور ملکی ترقی کی رفتار جاری رہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں بلکہ ان دو محکموں کو ہی زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے، افسوس کہ گزشتہ روز لاہور گنگا رام ہسپتال کے باہر راہداری پر مجبور عورت نے بچے کو جنم دے دیا۔تفصیلات کے مطابق خاتون کو رات کے وقت ہسپتال لایا گیا مگر رات کو بیڈ نہ مل سکا صبح ہو گئی اور خاتون کی حالت بگھڑ گئی اس نے ایم ایس کے دفتر کے سامنے بچے کو جنم دے دیا۔ایک ہفتہ یہلے ایسا واقعہ رائیونڈ میں پیش آیا۔ایسے کئی واقعات اور بھی ہوں گے جو ہم سب اور میڈیا کی نظر میں نہیں آئے۔وزیر اعلی نے سخت ایکشن لیا مگر اب کیا حاصل کیا فائدہ محکمہ صحت کی اصلیت تو عیاں ہو چکی دنیا بھر میں پاکستان کی سبکی ہوئی،یہ نامی کلامی ایکشن ہونی کو واپس لا سکتے ہیں ؟وہ جن کے عزیز تڑپ تڑپ کر مرگئے ان کے دلوں میں پیدا محرومیاں کون ختم کرے گا؟ ۔کوئی نہیں کیونکہ سب اقتتدار کے لالچی ہیں ان کے نزدیک انسانیت کی کوئی قدر نہیں ۔ان کے اپنے تو برطانیہ میں کسی نامور ہسپتال و ڈاکٹر سے علاج کروا لیں گے مگر غریب یونہی گزشتہ برسوں کی طرح ہسپتالوں کی دیواروں سے چمٹے مرتے رہیں گے۔جناب اعلی فقط ایک ایکشن سے کیا حاصل؟ یہاں تو پورا کا پورا محکمہ ہی توجہ طلب ہے۔پنجاب میں ہسپتالوں کی کمی ایک المیہ بن چکا ہے ،جسے ہماری حکومتیں برسوں سے نظر انداز کرتی آرہی ہیں۔ جس کی بدولت پرائیویٹ مافیا سرگرم عمل ہے اور کسی غریب کے لئے علاج کروانا یونہی ہے جیسے جائیدادیں بیچ کر زندگی کے چند سانس خریدنا۔ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی مریض بروقت بیڈ نہ ملنے یعنی ہسپتال میں جگہ نہ ملنے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے،اور اس کے پیارے اپنی اس بے بسی کو دیکھ کر خود مریض بن جاتے ہیں اور برسوں خود کو اور پاکستان کو کوستے رہتے ہیں۔ہمارے اکثر سرکاری ہسپتالوں کا تو کوئی معیار ہی نہیں مگر جن چند ہسپتالوں کا معیار بہتر ہے وہاں علاج کے لئے مہینوں کا وقت ملتا ہے اکثر بے چارے لوگ تو مقررہ وقت سے پہلے ہی کسی پرائیویٹ ڈاکٹر کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی گنوا بیٹھتے ہیں اور اکثر مریض تو علاج کے مقررہ وقت سے پہلے ہی ایسی سیرئیس حالت بیماری میں پہنچ جاتے ہیں جن کا بچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ایسے حالات میں لوگ کریں تو کیا کریں ،جائیں تو کہاں جائیں؟ذرا سوچئے!

Sunday 15 October 2017

ڈو مور

چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

ڈو مور کے مطالبات چاہے پاکستان کے اندر سے ہوں یا باہر سے،مطالبات نے افراتفری میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور دشمن افرتفری کی اس فضا میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے در پے ہے۔تمام اداروں کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے ، اپنے بیانات سے ملک میں افراتفری کو فروغ دینے سے گریز کرنا چاہئے۔
پاکستان کے لئے ڈو مور ایک جانا پہچانا لفظ ہے۔ڈو مور کے اردو معنی ہیں،مزید کریں۔دراصل ڈو مور لفظ نے پاکستان میں خاصی شہرت حاصل کرلی ہے،ڈو مور ایک مطالبہ ہے جو برسوں سے امریکہ پاکستان سے کرتا آ رہا ہے۔اس امریکی مطالبے سے جہاں پاکستانی عوام اکتا گئی ہے ،وہیں لفظ ڈو مور بھی نو مور کہنے پر مجبور ہے۔مگر سپر پاور امریکہ اور ٹرمپ حکومت کی سمجھ سے سب کچھ بالاتر ہے۔اسکے پیچھے کچھ پہلو ہو سکتے ہیں،ٹرمپ کے خوشامدی ٹولے،ٹرمپ پسند ممالک کی چہہ مگوئیاں اور ٹرمپ کے پاس ناقص علم اور نامکمل و حقیقت کے برعکس معلومات وغیرہ۔یہ پہلو تو واقعی سچ ہے کہ پاکستان حکومت کا امریکی بہکاوے میں بار بار آنا یا پھر پابندیوں سے بچنے کی مجبوری۔جو بھی ہو امریکی چالاکیاں سر فہرست ہیں۔ورنہ پاکستان نے جتنا ڈومور پر عمل کیا ہے شاید ہی کوئی اور ملک کر پائے۔ڈو مور کی اہمیت کا اندازہ لگائیے کہ امریکی صدر ڈومور کو اپنے بیانات کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔کرم ایجنسی سے پاک فوج کے آپریشن سے بازیاب ہونے والے کینڈین جوڑے پر واشنگٹن میں امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی حکام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امن کے لئے پاکستان نے ہمارے ڈومور مطالبے کو تسلیم کرلیا۔ٹرمپ کے نزدیک پاک امریکہ تعلقات کا اصل آغاز اب شروع ہوا ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ پاکستان کے مفاد میں رہے۔دوسری طرف ترجمان دفتر خارجہ پاکستان زکریا نفیس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان نے مل جل کر مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کا اعادہ کر لیا ہے۔گزشتہ روز خواجہ آصف نے بھی کہا کہ امریکہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرے ہم آپریشن کریں گے۔مانتے ہیں کہ پاکستان کی ہمیشہ خارجہ پالیسی یہی رہی کہ تمام ممالک سے بہتر تعلقات استوار کئے جائیں۔مانتے ہیں امریکہ سپر پاور ہے،پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتا ہے۔تعلقات ضرور قائم کئے جائیں اصولوں کی بنیاد پر برابری کی بنیاد پر اور اپنی خودمختاری و سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے۔گزارش ہے کہ امریکہ سے تعلقات کی مجبوری میں ملکی خودمختاری و سلامتی پر کوئی حرف نہیں آنا چاہئے۔بات رہی ٹرمپ کی کہ امریکی تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں۔بالکل غلط! یہ تو پاکستان ہی جانتا ہے کہ ان تعلقات کی مد میں پاکستان کو خسارہ ہی خسارہ ہوا۔ضرورت کے وقت ہمیشہ امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور جب کبھی پاکستان کو امریکہ کی ضرورت پڑی تو امریکہ نے ہمیشہ دھوکا دیا بلکہ بعض موقعوں پر پاکستانی مخالفین کی حمایت بھی کی۔پاکستان امریکی ڈو مور کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے ستر ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں گنوا بیٹھا ہے۔معیشت کا بیڑا غرق کیا۔مگر امریکہ بجائے شاباشی کے آج بھی پاکستان کے کردار پر شک کرتا ہے۔شک کی بنا پر امریکہ نے بدستور پاکستان کے ساتھ دھمکیوں اور ڈو مور کا مطالبہ قائم رکھا ہوا ہے۔اگر پاکستان امریکہ کے آگے جھک کر تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے تو یہ ہماری خودمختاری و سلامتی کے منافی ہے،اور ہمارا مذہب بھی ایسے تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔پاکستانی حکومت کو اپنے خدشات بارے امریکی حکومت کو آگاہ کرنا چاہئے تاکہ امریکہ اپنی دھمکیوں سے باز آجائے اور مساوی تعلقات کو فروغ دے۔اگر آج ہماری قوم اور حکومتوں نے ڈومور کے معاملے کو سنجیدگی سے نہ سمجھا تو صدیوں تک ہماری نسلیں ڈومور کے مطالبے ہی پوری کرتی رہیں گیں چاہے مطالبہ امریکہ کی طرف سے ہو چین کی طرف سے ہو یا کسی اور بڑی پاور کی طرف سے۔قارئین ویسے تو پاکستان میں عسکری قیادت کی طرف سے جمہوری حکومتوں کو ڈو مور کے مطالبے کی روایت بھی عرصہ سے چل رہی ہے۔مگر گزشتہ روز سے معیشت کی بات زیر بحث ہے جس پر آرمی کے ڈو مور کے مطالبے کو حکومت نے رد کیا اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔عسکری ترجمان نے حکومتی ترجمان کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ فوج اپنے مؤقف پر قائم ہے۔مختلف زرائع کے مطابق حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔فل حال دونوں سے ہی گزارش ہے کہ بیان بازی سے گریز کریں اور مل جل کر خدشات دور کریں،حکومت اور عسکری قیادت دونوں ہی ملک کے لئے اہم ترین ہیں ایک لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں اور دوسروں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔افراتفری کو فروغ دینے کی بجائے تحمل سے کام لینا چاہئے تاکہ دشمن کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ پہنچے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن رہے ۔

Sunday 24 September 2017

امن دشمن انسان نما شیطان



چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکنیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

موجودہ دور میں دنیا میں موجود تمام بڑی ریاستی طاقتیں میرے نزدیک امن دشمن ہیں۔شاید گزشتہ صدیوں میں کچھ اور نظام رائج ہو اور امن کے فروغ کے لئے کوششیں کی جاتی ہوں۔ اگر گزشتہ دور میں امن کو ترجیح دی جاتی تھی تو یہ دور تو پھر بالکل الٹ چل رہا ہے۔ہر انا پرست او ر اپنے مذہب سے بالاتر شخص بھی امن دشمن ہے۔
امن ہر ریاست کی ضرورت ہے۔ امن کو عظیم نعمت کہنا بجا ہوگا۔امن لفظ کا واسطہ آزادی سے ہے۔امن کسی بھی ریاست کے لئے مکمل آزادی مذہبی و ثقافتی آزادی ہے۔امن کسی بھی ریاست کا مکمل پر سکون ہونا کسی بھی قسم کی اندرونی و بیرونی جنگ سے پاک ہونا ہے۔ہر قسم کی الجھن سے آزاد ہونا ۔اپنے مذہب اپنی ریاست اور اسکے قوانین میں مگن رہنا،زندگی سے مطمئن ہونا سب امن کی علامات ہیں۔
دنیا میں امن بھی زیر گردش رہا ہے، امن کی فضا بھی گلوبل ونڈز کی طرح ہی ثابت ہوئی ہے،کبھی اس پار تو کبھی اس پار یعنی امن کبھی کسی مخصوص ریاست کے گرد نہیں رہا۔شاید انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ساتھ بڑا خطا کار بھی ہے جسکی بدولت امن انسانوں سے جلد روٹھ جاتا ہے اور کبھی کسی ریاست کو مستقل طور پر نصیب ہی نہیں ہوا۔یہ بھی درست ہوگا کہ ہر دور میں کچھ حاسد و شیطانیت پسند ریاستیں لوگ اور انکے پیرو کار بھی موجود ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ اپنی لپیٹ میں باقی ریاستوں و لوگوں کو بھی لے لیتے ہیں۔پھر رموٹ کنٹرول سے امن کی تاریخ ساز دھجیاں اڑاتے ہیں۔ایسی ریاستیں ایسے لوگ مذہب سے بالاتر ہوتے ہیں اور ہر دور میں مذہب کا لبادہ اوڑھے فرعونیت کو فروغ دیتے ہیں،انہیں وقت کا فرعون کہنا بجا ہوگا۔میں کوئی عالم نہیں ،عام انسان ہوں۔درد دل رکھتا ہوں، اور دنیا میں امن کا خواہاں ہوں۔دنیا کے فرعونوں کی نشاندہی کرنا میرے بس کی بات نہیں،میں زندگی کا تجزیہ اپنے خیالات کے مطابق کر رہا ہوں ۔متفق ہونا نہ ہونا ضروری نہیں۔امن تمہید باندھنے کا مقصد ہے کہ موجودہ دور میں عالمی امن کو لاحق خطرات پر بات کی جا سکے۔یقین کیجئے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتا ،دیکھتا اور پڑھتا آیا ہوں کہ عالمی امن خطرات سے دو چار ہے،اور واقعی ایسا ہی ہے عالمی سطح پر دیکھ لیں فلسطین ، برما اور کشمیر جیسی کئی ریاستیں ہیں جہاں دنیا کے نمبر دار براہ راست انسانیت کی دجھیاں بکھیرنے میں ملوث ہیں۔امن و انسانیت کا معیار اتنا پست ہوگیا ہے کہ گلی محلوں تک اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔افراتفری کا غلبہ ہے، ہر طرف ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے چکر میں انسانیت کی حدوں کو پھلانگ کر امن کی دجھیاں بکھیری جاتی ہیں۔یقین کیجئے یہ سب وقت کے فرعونوں کی بدولت ہے،ورنہ انسانیت کا احساس کسی براعظم ، ملک یہاں تک کہ شخص کے دل سے نہیں نکل سکتا ہے ۔کونسی ریاستیں شیطانیت کی پیرو کار ہیں اور کیسے پیروکار بنیں؟تمام ریاستیں جنہوں نے اپنی برتری و نمبرداری کے چکر میں انسانوں کو قتل کروایا اور اپنے پراپیگنڈے سے دوسری چھوٹی ریاستوں میں افراتفری پھیلا کر ان کے امن و آزادی کو داؤ پر لگایا۔شروع ہی سے امن تباہی کا باعث ایسی ریاستیں ایسے لوگ اور نظریات بنے ہیں جنہوں نے لوگوں پر زبردستی حکمرانی اور ظلم کئے ہیں اور اپنی برتری اور بڑائی کے لئے شیطان کی بغل میں بیٹھ کر انسانیت کی دجھیاں بکھیریں ہیں۔عرصہ دراز سے دنیا میں یہی چلتا آرہا ہے۔درست ہے کہ اللہ رب العزت خطا کاروں کی رسیاں دراز کر دیتا ہے اور ایک دن وہ اپنی خطاؤں کے بوجھ تلے ہی دب کر مر جاتے ہیں۔قارئین موجودہ دور کی سب بڑی ریاستی طاقت امریکہ ہے جو ٹیکنالوجی میں بھی بہت آگے ہے۔ذرا غور کیجئے کہ امریکہ نے امن کا نام استعمال کر کے کتنے لوگوں کا امن تباہ کر رکھا ہے۔امریکہ کی مکاری و عیاری کسی چھپی نہیں۔امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ آرڈر کے زریعے دنیا میں ٹیکنالوجی عام کر کے دنیا کی توجہ اپنے نظریات کی طرف مبذول کروائی اور افراتفری کی فضا کو عام کیا۔اپنے شیطانیت پسندانہ عزائم کو دنیا بھر میں پھیلایا۔لوگوں کے نظریات پر گرفت حاصل کی۔آزادی و امن کا نعرہ لگا کر درحقیقت اپنا پیروکار بنایا اور متعصب پسند خیالات کو ترویج دی۔دنیا کے وسائل پر قبضہ کیا اور ان کو قرضوں کی لپیٹ میں لیا۔پنجابی میں کہتے ہیں کانا کیا۔امریکہ نے بہت سی ریاستوں کو لالچ میں کانا کر کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔میڈیا پر تسلط جما کر اخلاق و عزت کا خاتمہ کیا، انا و میں کو ترجیح دی۔ان سب کی بدولت معاشرے کا توازن بگھاڑا اور افراتفری کو فروغ دیا کہ لوگ بھلائی کے بارے میں سوچ نہ سکیں۔اخلاقی باتیں تو ہوں مگر کوئی عمل نہ کر سکے۔انفرادی طور پر ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی کا مارا ہو، ڈپریشن سوسائٹی کی جڑوں میں سرائیت کر جائے،زندگی برق رفتار ہوجائے اور کسی کو موقع ہی نہ ملے کہ وہ چند لمحات نکال کر معاشرے کی تشکیل کے بارے سوچ سکے ،ہر شخص اپنی میں کا مارا ٹیکنالوجی کی قید میں زندگی بسر کر جائے۔خود ہی سوچئے انسان نما امن دشمن کون ہیں؟، اورانکے مقاصد کیا ، ؟کیا یہ شیطان کے پیرو کار نہیں؟یہ تمام بڑی سپر پاورز امریکہ، روس، چائنہ جرمنی برطانیہ، اور بھارت سب امن دشمن ہیں ان سب کی بس یہی کاوش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے اپنے خطے میں موجود ریاستوں پر اپنا تسلط جمایا جائے،چاہے اس کی مد میں انسانیت کی دجھیاں ہی کیوں نہ بکھیرنی پڑیں۔ان سب کے طریقہ واردات ذرا مختلف ہیں،مقصد و ارادے ایک ہیں۔ان طاقتوں سے امن کی امید اور ان کے منہ سے امن کے نعرے بے سود ہیں ،جو خود امن و انسانیت کے دشمن ہوں۔انہیں بس یہی کہنا بجا ہوگا امن دشمن انسان نما شیطان!

Sunday 17 September 2017

پا ک بھارت آبی تنازعہ

چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینئر ہیں اور وائس آف سوسائٹی کے
سی ای او ہیں۔
دنیا میں شروع ہی سے یہی اصول چل رہا ہے کہ دریا چاہے کسی بھی ریاست سے نکلتا ہو مگر وہ جہاں سے بھی گزرے گا اس کے باسیوں کا دریا کے پانی پر پورا حق ہوگا،اور اگر کوئی قدرت کے اس گزرتے پانی کو کسی ریاست کے استعمال کے لئے روکے تو وہ جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔
میرے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعہ کھڑا کرنے کا منصوبہ تقسیم ہند کے دور کا ہے،البتہ اس پر عمل درآمد تب سامنے آیا جب بھارت نے مسلمان اکثریت والی ریاست کشمیر پر اپنا تسلط جما لیا۔ یہ ہند وائسرائے اور ہندو لیڈروں کا باہمی منصوبہ تھا۔تقسیم کے وقت کی جانے والی ناانصافی آج پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔کشمیر کے قریبی چند مسلم علاقے جن کو تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ بننا تھا جان بوجھ کر بھارت کو دیئے گئے تاکہ بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ جما سکے۔درحقیقت بھارت کے کشمیر پر قبضے سے ہی آبی تنازعہ شروع ہوگیا تھا۔قارئین پاکستان کو سیراب کرنے والے دریا بھارتی زیر اثر کشمیر سے ہی نکلتے ہیں۔کچھ برس گزرنے کے بعد جب بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو پاکستانی حکومت و ماہرین کو یہ ادراک ہوا کہ پاکستان تو ایک بڑے آبی مسئلے کا شکار ہے۔اس کے بعد بھارت کا پانی کو روکنا کا معمول بن گیا،جو اب تک جاری ہے صرف پانی کے روکنے کی مقدار میں کمی بیشی ہوتی ہے۔سندھ طاس معاہدے سے پہلے پاکستان میں لوگوں کے دلوں میں جنگ کے وسوسوں نے جنم لیا،ہر با شعور پاکستانی یہی سوچتا تھا کہ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے لئے ایک بڑی جنگ ہوگی،خدا نخواستہ اگر پاکستان پانی سے محروم ہوگیا تو ہمارے سرسبز میدان تو بنجر ہوجائیں گے قحط سالی ہمیں جکڑ لے گی،ہم سب چٹیل میدانوں میں افلاس کے مارے بادہ نشینوں کی طرح خوراک کی آس لگائے مارے مارے میلوں پیدل گھومتے نظر آئیں گے۔ایسے بے شمار وسوسے تھے جو پریشانی میں اضافہ کرتے تھے۔چناچہ پاکستان کی کاوشوں اور واویلے کے بعد 1960میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا جو اس وقت کے موجودہ ہمارے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم نہرو کے زیر نگرانی طے ہوا ۔یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی بدولت طے ہوا جس کی ضمانت پر دونوں ملک معاہدے کے لئے رضا مند ہوئے۔اس معاہدے کا فائدہ بھی بھارت کو پہنچا،کیوں کہ معاہدے کے تحت دو پاکستانی دریا راوی اور ستلج بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔باقی تین دریا سندھ چناب اور جہلم پاکستان کے حصہ میں آئے۔ورلڈ بینک نے معاہدے کے تحت پاکستان کو ڈیم بنانے کے لئے کچھ رقم فراہم کی جس کی بدولت پاکستان نے منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے۔چند برس گزرے بھارت نے اپنے کئے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنا شروع کردی پاکستانی حصے کے دریاؤں کا پانی روکنے کے لئے ان پر ڈیم بنانا شروع کر دیئے۔1984میں دریائے جہلم پر وولر بیراج اور1990میں چناب پر بگلیہار ڈیم اور اسکے علاوہ چھوٹے بڑے درجنوں منصوبے مکمل کر کے پاکستان کو پانی جیسی عظیم نعمت سے محروم کرنا چاہا۔ہمارے گزشتہ وقت کے منصوبہ سازوں نے غفلت برتی اور بھارتی ڈیم مکمل ہونے کے بعد ان کے ڈیزائنز کو عالمی عدالت میں چیلنج کیا۔پاکستان کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ اب تو ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور خلاف ورزیوں سے باز نہ آیا اور پاکستانی حصے کے دریاؤں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کا منصوبہ تیار کرلیا۔بس اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دریاؤں کا رخ تبدیل کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ایسے بے دھڑک منصوبوں کی بدولت ہی مودی سرکار پاکستان کو بنجر کرنے کی بڑھکیں مارتی ہے۔تاہم خوش آئیند بات یہ ہے کہ ہمارے آبی ماہرین نے گزشتہ غلطیوں سے سیکھا اوربھارت کے جانب سے کشن گنگا اور راتلے ڈیم کی تعمیر کی شروعات سے پہلے ہی ان ڈیزائنز پر عالمی بینک میں اعتراضات اٹھادیئے۔جس کی بدولت گزشتہ دو روز عالمی بینک کے ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں آبی کانفرنس ہوئی جو بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ٹھہری۔عالمی بینک نے حکم دیا تھا کو دونوں فریقین مل بیٹھ کر معاملات طے کریں،اگر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو ثالثی کورٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اب عالمی بینک کا حق بنتا ہے کہ وہ ثالثی کورٹ تشکیل دے۔سوچنے کی بات ہے کہ بھارت مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل کیوں چاہے گا جو اس کے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔پاکستانی قیادت کو بھارت سے کوئی امید وابستہ نہیں رکھنی چاہئے، بلکہ اپنی اعلی و تیز سفارتکاری کی بدولت دنیا کے سامنے بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں اور تعصب پسندی کو بے نقاب کرنا چاہئے۔تاکہ عالمی طاقتیں بھارت پر دباؤ ڈال سکیں۔پاکستان کو عالمی بینک کو اپنے آبی مسئلے کی نوعیت بارے تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہئے اور ثالثی کورٹ کی تشکیل کے لئے رضا مند کرنا چاہئے تاکہ پانی جیسی عظیم نعمت کے اس سنگین مسئلے کو حل کیا جا سکے۔اب اپنی حکومتوں کی ناکامی کا اندازہ لگائے کہ کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی پر اربوں خرچ ہوگئے مگر آج تک اس پر کام شروع نہیں ہوسکا۔بھارت ہے کہ دھڑا دھڑ ڈیم بنائی جا رہا ہے۔ہماری حکومت اور ذمہ داران کو جلد از جلد پانی کے اس سنگین مسئلے کو بھانپنا ہوگا اور بھارت نواز سازشوں کو بے نقاب کرکے کالا باغ سمیت مزید ڈیموں کی تعمیر کو ممکن بنانا ہوگا۔ورنہ بھارت کی ہٹ دھرمی تو برسوں سے قائم ہے۔میرے نزدیک موئثر اور فوری حل یہ ہی ہے کہ پاکستان جلد از جلد زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کر کے اپنے دریائی پانی کو محفوظ بنائے تاکہ پاکستان آئندہ برسوں قحط سالی کا شکار نہ ہو اور زراعت سے حاصل ہونے والی بھاری معیشت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔ذرا سوچئے!

Sunday 10 September 2017

ہماری خارجہ پالیسی


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ


کسی بھی ملک کے بیرونی و بین الاقوامی معاملات و تعلقات کے لئے خارجہ پالیسی انتہائی اہم و اہمیت کی حامل ہے۔خارجہ پالیسی دراصل اپنے ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی ہے۔دنیا میں کامیابی کے حصول کے لئے کسی بھی ملک کو ایک جامع اور مثبت خارجہ پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے۔دنیا میں کامیاب سپر پاورز کی کامیابی کے پیچھے انکی بہترین اور مفصل خارجہ پالیسی کا بڑا کردار ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے ہماری خارجہ پالیسی زیر بحث ہے،ہمارے تجزیہ کار اور ماہرین خارجہ پالیسی پر نقطۂ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔ماہرین کے نزدیک بدلتی صورتحال کے تناظر میں ملک پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں بھی بدلاؤ لانا چاہئے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک اپنی ناکام خارجہ پالیسی کی بدولت دنیا میں تنہائی کا شکار ہو جائے۔حکومت کے سیاسی مخالفین کے نزدیک ناکام خارجہ پالیسی کی بدولت حکومت نے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔گزشتہ چار برس وزارت خارجہ اور خارجہ پالیسی کا تعین نہ ہونا حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔قارئین ہمارا ہمسائیہ اور دشمن ملک بھارت جو ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کا ناپاک عزم کرچکا ہے،اپنی مفصل و چالاک خارجہ پالیسی کی بدولت وہ ایسا کرنے میں کافی حد تک کامیاب ٹھہرا ہے۔مودی سرکار کی چاک و چوبند خارجہ پالیسی نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی،یہ تو صرف اللہ رب العزت کی عنایت ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت کی وجہ سے کوئی بھی ملک ہم سے من و عن منہ نہیں پھیر سکتا۔بڑے افسوس کے ساتھ ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ہم مذہب ہمسائیہ ممالک بھی ہمارے مؤقف کے حامی نہیں۔دوسری طرف چوکنا دشمن بھارت جس کے اندر عرصہ دراز سے آزادی کی بغاوتیں موجود ہیں ،وہی ملک ہمیں تنہائی کا شکار کرنے کی طرف گامزن ہے۔میں مانتا ہوں بھارت ایک بڑی طاقت ہے،اسکی آبادی ہم سے زیادہ ہے ،افواج و اسلحے میں ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔مگر اس کے مسائل بھی ہم سے زیادہ ہیں ،اسے اپنی سلامتی برقرار رکھنے کے لئے ہم سے کہیں زیادہ مشکلات درکار ہیں مگر وہ اپنی کاوشوں میں مگن ہے۔الحمد للہ ہمارے اندرونی معاملات کافی حد تک بہتر ہو گئے ہیں اور بہتری کی طرف گامزن ہیں،بلوچستان کے حالات قدرے بہتر اور تسلی بخش ہیں۔مگر بھارت کے صوبہ پنجاب و بنگال سمیت بہت سے صوبوں میں آزادی کی بغاوتیں دن بدن بڑ رہی ہیں۔اتنے کٹھن اندرونی حالات کے باوجود بھارتی وزارت خارجہ و مودی سرکار نے عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف اپنی سفارت کاری پر زور دیا اور دنیا کی بڑی طاقتوں پر پریشر ڈالا کہ وہ پاکستان کو دہشتگردی کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔مگر ہماری حکومت ہے کہ چار برس خواب عشق و غفلت میں سوئی رہی اور جب سے نواز شریف نااہل ہوا ہے نااہلی کا رونا ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا ،کہیں ماتم اور کہیں جشن کا سماں ہے۔ملکی بہتری و عزت کی کوئی پرواہ نہیں۔قارئین یہ ہماری ناکام خارجہ پالیسی ہی ہے کہ امریکہ جو ہمیں کچھ عرصہ پہلے اپنا سب سے بڑا نان نیٹو اتحادی کہتا نہیں تھکتا تھا وہی آج ہمیں محض اس لئے دہشتگردوں کا حامی قرار دے رہا کہ اس کا نیا پیار نیا دوست بھارت خوش ہو سکے۔انتہائی دکھ و افسوس کا عالم تھا کہ گزشتہ دن ہمارے اکلوتے دوست ملک چین نے بھی ہمیں ڈو مور کا مطالبہ کر دیا، اور یقین جانئے یہ صرف ہماری ناکام خارجہ پالیسی کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔بھارتی سفارتکاری کا جادو ہی ہے کہ چین اپنے دوست ملک کے خلاف بولا اپنے دشمن کے کہنے پر، تاہم چینی حکومت کو چینی ماہرین نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔بلاشبہ مودی سرکار نے اپنی توسیع پسند اور چالاک پالیسیوں کی بدولت اپنے مفادات کے قریب پہنچنے کی پوری کوشش کی ہے۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستانی حکومت و ذمہ داران کب خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں؟اور کب اپنی عزت و آبرو اور مفادات کو مد نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں وضع کرتے ہیں۔گزشتہ روز وزیر خارجہ خواجہ آصف کا دورہ چین بہت خوش آئند اور معنی خیز ہے،جس میں چین نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی اور پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کاوشوں اور قربانیوں کو سراہا اور دنیا پر بھی ذور ڈالا کہ وہ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے اور دہشتگردی کی روک تھام کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔چینی وزیر خارجہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک چین دوستی برقرار رہے گی اور چین اپنے دوست ملک کی ہمیشہ ہمایت کرے گا۔اس اہم میٹینگ سے برکس سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا خاتمہ تو ہوگیا ،مگر پاکستان کو مستقبل میں چاک و چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،پاکستان اپنی نئی وضع کردہ خارجہ پالیسی پر کتنا کاربند رہتا ہے؟وزرات خارجہ کی طرف سے چین کے بعد ایران ،ترکی اور روس وغیرہ کے دوروں کا بھی زکر کیا گیا،جوکہ خوش آئند ہے۔اگر ایسا پہلے ہوجاتا تو آج پاکستان کو دنیا کی طرف سے ایسے ریمارکس سننے کو نہ ملتے،خیر دیر آئے درست آئے۔موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ایران جو کہ ہمارا ہم مذہب ہمسائیہ بھی ہے اس کو افغانستان کے معاملے پر اپنا حامی بنانا بہت ضروری ہے،جو اس وقت افغان معاملہ میں بھارت کا حامی ہے۔اہم بات پاکستان کو روس سے تعلقات بڑھانے کے ساتھ ساتھ امریکہ سے بھی تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔جیسے بھارت نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دی مگر روس سے اپنے تعلقات کو کم نہیں ہونے دیا ،اور پاکستان نے امریکہ سے تو تعلقات کم کرلئے مگر روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت نہیں دی۔یہ سب ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے جسے مستقبل میں مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔روس کو ہم پر زیادہ اعتبار نہیں ہمیں اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا ،پاکستان کے لئے بیک وقت روس کو اپنا گرویدہ بنانا اور امریکہ سے بھی تعلقات کو بہتر کرنا مستقبل کا بڑا چیلنج ہوگا۔یہی وہ طریقہ ہے کہ پاکستان سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر خطے میں معاشی طاقت بن سکتا ہے۔

Sunday 27 August 2017

مردم شماری کے نتائج اور وسائل کی منصفانہ تقسیم


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ

بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے مردم شماری کروانے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔مبارک ہو حکومت کو بھی جس نے 19برس بعد ملک میں چھٹی مردم شماری کامیابی سے کروائی۔مردم شماری میں شامل تین لاکھ سرکاری اور دو لاکھ فوجی جوان بھی کامیابی کے اس عمل میں مبارکباد کے مستحق ہیں۔جی ہاں! قارئین آخر یہ عمل 19برس بعد پایہ تکمیل کو پہنچ ہی گیا ۔ملک کی چھٹی مردم شماری کے تحت نتائج سامنے آچکے ہیں۔جس کے نتیجہ کے مطابق 1998سے2017تک2.4فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ موجودہ ملکی آبادی20کروڑ77لاکھ74ہزار520افراد پر مشتمل ہے۔بروز جمعہ ادارہ شماریات نے اعداد و شمار مشترکہ مفاداتی کونسل کو پیش کئے۔اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کی آبادی11کروڑ،سندھ کی 4کروڑ78لاکھ،خیبرپی کے کی3کروڑ5لاکھ،بلوچستان کی1کروڑ23لاکھ،فاٹاپچاس لاکھ، اور اسلام آباد کی بیس لاکھ ہے۔جبکہ اعداد و شمار میں کشمیر و گلگت بلتستان کو شامل نہیں کیا گیا۔19سال میں ملکی آبادی میں57فیصد اضافہ ہوا۔جن میں مرد10کروڑ64لاکھ اور خواتین10کروڑ13لاکھ ہیں۔مردوں کی تعداد خواتین سے51لاکھ زیادہ ہے۔قارئین حکومتی مخالفین اور عوام کے نزدیک پاکستان میں موجودہ آبادی مردم شماری کے نتائج کے برعکس ہے۔یعنی موجودہ ملکی آبادی نتائج سے زیادہ ہے۔اختلافات کئے جا سکتے ہیں،مگر ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے اندازے غلط بھی ہو سکتے ہیں۔تاہم 19برس بعد ملک میں مردم شماری ہوئی ہے،گزشتہ19برس سے ملک کو اندازوں کی بدولت ہی چلایا گیا۔اب جب مردم شماری کے نتائج سامنے آ ہی چکے ہیں تو ہم سب کو تسلیم کرنا چاہئے اور اس حکومتی کاوش کو سراہنا چاہئے۔صرف مردم شماری کروانا ہی حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس کے نتائج کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینا اور علاقہ و وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی حکومتی ذمہ داری میں شامل ہے۔آبادی کی تعداد تو سامنے آ چکی ہے ،اب بہت سے اہم کام حکومت کے ذمہ ہیں۔جلد ہی باقی معلومات یعنی شرح خواندگی و ناخواندگی، گھروں کی معلومات اور ملازمت پیشہ و بے روزگار وغیرہ بھی سامنے آ جائیں گی۔صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی جائیں اور طے کیا جائے کہ کس صوبے کا قومی اسمبلی میں کیا تناسب ہونا چاہئے۔خواتین و مخصوص نشستوں کی نئے سرے سے تعداد اور صوبوں میں انکی تعداد وغیرہ۔آبادی کے لحاظ سے ،ضلعوں ،شہروں ، تحصیلوں اور حتی کہ قصبوں و یونین کونسلوں تک نئی حلقہ و حدود بندیوں کے بعد سب سے اہم و ضروری کام ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حلقہ و حدود بندیاں اعداد و شمار کے مطابق کی جائیں۔وسائل کی تقسیم پاکستان میں شروع سے ہی بڑا ایشو رہا ہے مختلف چھوٹے صوبوں و علاقوں کا کہنا ہے کہ انہیں انکے حصہ و تناسب کے لحاظ سے وسائل نہیں دیے جاتے۔حکومتی نمائندے بھی صرف اپنے حلقہ جات تک ہی وسائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں،مخالفین کے حلقوں کو شروع سے ہی نظر انداز کرنے کی روایت ہے۔امید کرتے ہیں ایسی روایات کو ترک کیا جائے گا اور آبادی کے لحاظ سے وسائل کی تقسیم کی جائے گی نہ کی پسند یدگی کی بنا پر۔حکومتی مخالفین کو بھی اپنے مفادات کی خاطر بے بنیاد الزامات اور صوبوں میں محرومیت پیدا کرنے کی روایت کو ترک کرنا چاہئے، اور حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ جلد از جلد نئی حلقہ بندیوں اور و سائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔کسی بھی ملک کی ترقی و بقاء ،بھاگ دوڑ ، انصاف و مساوات میں مردم شماری بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔افسوس کہ پاکستان میں گزشتہ کئی برس حکومتی اندازوں و من مانیوں نے انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں اور جانے و انجانے میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے کرپشن کو پروان چڑھایا۔ترقی یافتہ ملکوں کی لسٹ دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایسے ممالک ہر پانچ یا دس سال بعد مردم شماری کرواتے ہیں تاکہ انہیں انکی اصل آبادی و مسائل کی تشخیص ہوتی رہے۔پاکستانی آئین کے مطابق بھی ہر دس سال بعد مردم شماری کروانا لازمی ہے،بلکہ مقررہ وقت پر موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔افسوس کے اقتدار کے لالچ میں چور ہماری حکومتیں نانصافی کی مرتکب ٹھہریں۔ملکی اعداد و شمار سے متعدد محکموں کا تعین و بہتری کی جاسکتی ہے۔جس میں صحت، لاء اینڈ آرڈر،اکنامک گروتھ،نقل و حمل،اناج اور، تعلیم وغیرہ۔شہروں و دیہاتوں کی تعمیر و ترقی بھی ان کی آبادی کے حساب سے ہی ممکن ہے۔پاکستان تو ایسا ملک ہے جہاں قدرتی و غذائی وسائل کی بھرمار ہے۔چند ایسے ترقی یافتہ ملک بھی ہیں جن کے ہاں قدرتی وسائل کی کمی ہے۔مگر انہوں نے بروقت مردم شماری کی بدولت اپنے اعداد و شمار سے اپنی خامیوں و ضرورتوں کی تشخیص کی اور پھر وسائل کی منصفانہ تقسیم نے ان کو ترقی یاقتہ ممالک کی فہرست میں شامل کروا دیا۔محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے،مگر اکثریت بے روزگار ہے۔میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ اندازوں کے مطابق وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔تقریبا ہر سال پندرہ ہزار سے زائد نوجوان ملازمت سے محروم رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے بے روزگاری کے ستائے نوجوان معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔ہمارے ملک میں غیر منصفانہ تقسیم و کرپشن نے ملکی کاروبار و روزگار کا توازن درہم برہم کر دیا ہے۔وقت آگیا ہے کہ حکومتیں و پالیسی میکرز نئے اعدادو شمار کے ساتھ ہی اپنی پرانی غلطیوں و کوتاہیوں کا ازالہ کرلیں۔حکومتوں و پالیسی میکرز کو اپنی پالیسیاں ملکی مسائل و اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر بنانا ہوں گی، اور ایسی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئے کہ ملک سے ہر قسم کی بد عنوانی و غربت کا خاتمہ ہو جائے معاشرے میں توازن قائم ہو امیر امیر تر غریب غریب تر والا نظریہ بدل جائے، اور ہر پاکستانی اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرے۔

Sunday 20 August 2017

محمود اچکزئی کا بیان اور شک و شبہات


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ


پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے گزشتہ روز بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں دشمنی کی اصل وجہ کشمیر ہے اور دونوں ملکوں کو کشمیر آزاد کر دینا چاہئے۔پوچھا گیا کہ بھارت اپنے زیر اثر کشمیر کا حصہ آزاد کرنے کے لئے رضا مند ہو جائے گا؟تو اچکزئی نے جواب دیا کہ بھارت بے شک رضا مند نہ ہو مگر ہمیں کشمیر آزاد کر دینا چاہئے،ہم تو بچ جائیں گے۔ان کے بقول اگر دنیا کو باور کرانا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کو کشمیر کو آزاد کرنے میں پہل کرنا ہوگی۔مزید کہا کہ پاکستان کو بھارت ،افغانستان ، اور ایران کے ساتھ امن قائم کرنا چاہئے،تب ہی سی پیک مکمل ہوگا۔بقول اچکزئی پاکستان اگر اخلاص یعنی صدق دل سے کام کرے تو افغانستان کے ساٹھ فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔محمود اچکزئی نے مزید کہا کہ خفیہ ایجنسیاں انتخابات میں مداخلت بند کریں۔بڑے دکھ و افسوس کے ساتھ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے جو پاکستان کا کھاتے ہیں ،پاکستان سے کماتے ہیں ،مگر ان کے دل دشمنوں کے لئے دھڑکتے ہیں۔کہیں نہ کہیں ان کے دلوں میں ملک کے لئے غلط اور دشمنوں کے لئے اچھا تاثر موجود ہے۔یہ روپے کی لالچ یا ذہنی فطور و غداری میں سے ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ایسے غداروں کی تعداد میں اضافے کا سبب ہماری لاپرواہ اور مفاد پرست حکومتیں اور بکاؤ میڈیا ہے، اور یہ غداری کا گوشہ کوئی یک دم نہیں آیا بلکہ افسوس کے ساتھ اسے ہمارے اپنے ملک میں عرصہ دراز سے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بظاہر ذہنی آزاد لوگ بھی ایسے لوگوں ایسے نظریات کی لپیٹ میں آ رہے ہیں جسے ہماری حکومت و میڈیا نے بھی جانے انجانے تھپکی دے رکھی ہے۔ان نظریات کو پھیلانے کے لئے دشمن ہر سال بھاری مالیت میں فنڈز جاری کرتے ہیں۔اچکزئی کے بیان کی بات کی جائے تو بظاہر اچکزئی پاکستان کو امن کا درس پڑھا رہے ہیں،جیسے معلم شاگرد کو درس دے۔مگر درحقیقت وہ ملکی وقار و سلامتی پر حملے کر کے اسے تار تار کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔اللہ بہتر جانے اچکزئی کے مقاصد کیا ہیں؟مگر بتاتا چلوں کہ موصوف پہلے بھی بے دھڑک ملکی سلامتی کو پس پردہ ڈال کر زبان درازی کرتے رہے۔خیبر پختونخوا کے کچھ علاقہ جات کو افغان سے منسلک علاقے قرار دینا بھی انہی کی زبان سے سرزد ہوا۔تب بھی مذمتی کالم لکھا تھا،اور اب بھی کہتا ہوں کہ اچکزئی کے گزشتہ روز کے بیان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔اس کی تحقیقات ہونی چاہئے آخر اس شخص کی زبان ہی کیوں لڑ کھڑاتی ہے ۔؟سوچنے کی بات ہے کیوں کوئی اچکزئی ، کوئی الطاف، اور کوئی دوسرے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں،اور ان کے خلاف ایکشن بھی نہیں لیا جاتا۔بڑی وجہ بے بس مفاد پرست اور لاپرواہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں ہیں۔ایجنسیوں کا سیاست میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کرنا بھی اس کمزوری کی وجہ ہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس خود مختار حکومت نہیں ہوتی ایسے میں انہیں اپنے ساتھ ملک دشمن لوگوں کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی فکر کے اپنے مفادات کے برعکس ملکی سلامتی کے خلاف سازش کرنے والوں کے حمایتی بن جاتے ہیں۔اچکزئی بھی موجودہ حکومت مسلم لیگ ن کا اتحادی ہے اور موصوف کا بھائی گورنر بلوچستان بھی ہے۔یعنی حکومتی بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ ملک کے خلاف زہر افشانی کرنے والے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔کیا یہ سراسر غداری نہیں؟غدار کا حمایتی کیا ہوا؟ کیاغداروں کے خلاف ایکشن ضروری نہیں؟اچکزئی کے گزشتہ بیان کا ذرا جائزہ لیں،کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے ریر اثر کشمیر کو آزاد کر دینا چاہئے۔بہت خوب جناب اچکزئی! تا کہ بھارت اس علاقہ پر بھی قبضہ کر کے مسلمان کشمیریوں کو درند گی و ظلم کا نشانہ بنا سکے۔موصوف یہ بھی جان لینا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے دو نہیں تین فریق ہیں ۔چائنہ کے قریبی کشمیر کے کچھ قصبے چائنہ کے زیر اثر ہیں۔شاید اچکزئی نے نقشہ نہیں دیکھا، کہ آزاد کشمیر آزاد ہو کر اپنی آزادی و خود مختاری کو قائم رکھ سکے گا۔نہیں۔اگر پاکستان آزاد کر دے تو آزاد کشمیر مشکلات کی گرفت میں جکڑ جائے گا۔چائنہ اور انڈیا مداخلت شروع ہو جائے گی اور دونوں ہی غیر مسلم ریاستیں ہیں۔پاکستان ہی تو درحقیقت وطن ہے بلکہ آس و امید ہے کشمیر کی کشمیر میں موجود مسلمانوں کی۔عرصہ دراز سے کشمیری بھارت کے ظلم و ستم کو برداشت کر رہے ہیں قربانیاں دے رہے ہیں صرف اس لئے کہ پاکستان ہی ان کا وطن ہے اور پاکستان ہی وہ وطن ہے جس میں ان کے آزاد مسلمان بہن بھائی آباد ہیں۔یہ کہنا درست ہے کہ اچکزئی کہ اس بیان نے کشمیریوں کے ستر سالہ جذبے کو ٹھیس پہنچائی ہے۔اچکزئی کے اس بیان نے پاکستان میں موجود لوگوں کے دلوں میں شک و شبہات کو مزید ہوا دی ہے۔طرح طرح کے سوالات گردش کرنے لگے ہیں۔کیا اچکزئی پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے؟ کیا اچکزئی ملک دشمنی میں ملوث ہے؟کیا اچکزئی افغانستان کی بھارت نواز زبان استعمال کر رہا ہے؟۔کیا بھارت پاکستان کے خلاف ایسے بیانات کو استعمال کر سکتا ہے۔؟حکومت کی ایسے بیانات پر خاموشی بے حسی کی علامت ہے یا مفاد پرستی کی؟اچکزئی نے کشمیریوں و پاکستانیوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچائی ہے اسے فوری سب سے معافی مانگنی چاہئے۔اگر ایسا نہیں تو پاکستان چھوڑ کر بھارت نواز افغانستان منتقل ہو جانا چاہئے۔دو ہی پہلو نکلتے ہیں کہ یا تو اچکزئی نفسیاتی بیماری کا شکار ہے یا پھر بھارتی کارندہ ہے دونوں صورت میں مینٹل ہسپتال ہی اس کا اصل مقام ہے۔مسلم لیگ ن جس کے دور میں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا گیا اسی حکومت کا اتحادی اچکزئی ایسے بیانات میں ملوث رہا اور حکومت خاموش رہی۔یہ مسلم لیگ ن کی سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہوگا۔ اگر مسلم لیگ ن نے بروقت کوئی ایکشن نہ لیا تو آئندہ الیکشنز میں اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔موجودہ حکومت سے اچکزئی کے بیان پر بس یہی مطالبہ ہے۔
سلطان جی کچھ تو یہاں کیجئے
غداروں کو بھی کوئی سزا دیچئے

Sunday 30 July 2017

عدالتی فیصلہ،ردعمل اور سوالات


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ

جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ روز جمعہ کو پانامہ لیکس کے کیس پر عدالتی فیصلہ سامنے آیا ۔بلاشبہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اس فیصلہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔مخالفین نے مٹھائیاں بانٹیں، ڈھول بجائے، اور بھنگڑے ڈال کر خوشی کا اظہار کیا۔بعض نے نوافل ادا کئے۔بالخصوص پی ٹی آئی کے کارکن زیادہ پرجوش نظر آئے۔فیصلے سے لے کر اب تک خوشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔عدالت عظمی کا یہ فیصلہ جہاں مخالفین کے لئے خوشیوں کا باعث بنا وہیں حامیوں کی لئے مایوسی کی وجہ بنا۔واضح کرتا چلوں عدالت نے نواز شریف کی نا اہلی کے ساتھ ساتھ نواز شریف ،اسحق ڈار ،مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز کے کیسز نیب کو ریفر کردیئے۔عدالت عظمی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے اور پاکستانی عوام اللہ کی عدالت کے بعد اس عدالت کو تسلیم کرتی ہے اسی بنا پر عدالتی فیصلے کو نا ماننے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہم من و عن عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔میڈیا کانفرنسز میں مسلم لیگ نواز کی طرف سے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا،تاہم مسلم لیگ ن سمیت نواز شریف کو بھی یہ فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔اسی طرح عوام کا بھی ردعمل بھی مختلف رہا۔کسی نے تحفظات کا اظہار کیا ،کسی نے تاریخی فیصلہ قرار دیا۔غور طلب بات یہ ہے کہ ماہر قانون و قانون دانوں کا رد عمل بھی ایک جیسا نہیں اکثر قانون دانوں نے فیصلے پر سوالات اٹھائے اور تحفظات کا اظہار کیا۔بعض قانون دانوں نے تکنیکی بنیادوں پر تنقید کی بعض نے تائید کی اور تاریخی فیصلہ قرار دیا۔سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو جہالت کو غلبہ حاصل رہا کافی گرما گرمی نظر آئی۔جاہل لوگوں نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خوب گالم گلوچ سے کام لیا،انتہا پسندی سر فہرست رہی جو کہ ہماری حقیقی روایت اور ساکھ کے منافی ہے۔سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے تحمل سے کام لیا کریں گالم گلوچ سے خود کو اور اپنی برائی کو عیاں نہ کیا کریں۔گزشتہ روز مسلم لیگ ن کا پارلیمانی اجلاس ہوا۔جس کے اختتام پر نواز شریف نے شہباز شریف کو بقیہ مدت کے لئے اور خاقان عباسی کو انٹرم ٹائم کے لئے وزیر اعظم نامزد کیا جس پر پوری پارٹی نے اتفاق رائے کا اظہار کیا۔تاہم مخالفین و ماہرین کی طرف سے تنقید سامنے آئی ماہرین کا کہنا ہے کہ نااہل شخص کی طرف سے وزیراعظم نامزد کیا جانا مذحقہ خیز ہے۔یہ تھی مختصر سٹوری ،اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔قارئین عدالت عظمی نے نواز شریف کو پانامہ کے معاملات پر نہیں بلکہ اثاثے چھپانے یعنی اقامہ کے معاملات پر نااہل کیا۔یعنی آئین کے آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت نااہل قرار دیا۔سوال یہ ہے کہ مدعی کی طرف سے کیس کرپشن کا دائر کیا گیا یا نااہلی کا؟اس پر مختلف قانون دان بھی تحفظات کا شکار ہیں،جو عدلیہ کی ساکھ کے لئے ٹھیک نہیں۔آزاد عدلیہ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے، اور آزاد عدلیہ سے انصاف پر مبنی فیصلے کی توقع کرنی چاہئے البتہ اگر بدقسمتی سے فیصلہ اس کے برعکس نظر آئے تو اس سے آزاد عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔آخر عدالت نے کرپشن پر نااہل کیوں نہیں کیا؟ کیا کرپشن ثابت نہیں ہوئی؟ان کے جوابات عدالت ہی دے سکتی ہے جو فیصلے کے بعد سے زیر گردش ہیں۔بڑی بات! جسٹس کھوسہ کا ایک عدالتی ریمارک سامنے آیا تھا جسے بعد میں حذف کر دیا گیا ۔’اگر 62,63 کا اطلاق کیا جائے تو سراج الحق کے علاوہ کوئی پارلیمنٹ میں صادق و امین نہیں بچے گا‘۔ البتہ نواز شریف 62آرٹیکل کے تحت ناہل ہوا۔کیا 62,63کی آڑ میں باقی اسمبلی ممبران کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا؟اگر نہیں تو کیوں؟ بالخصوص یہ سوال جسٹس کھوسہ کے لئے۔ماہرین کے مطابق بھٹو کے فیصلے کی طرح یہ فیصلہ بھی سوالات کا شکار ہے اور کبھی بھی اس فیصلے کو تاریخ میں نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جائے گا۔کیوں کہ کوئی بھی پارٹی نہیں چاہے گی کہ 62,63کے تحت انکے رہنما تاحیات نااہل قرار پائیں۔کیا عمران خان،آصف زرداری،پرویز مشرف،شیخ رشید،خورشید شاہ،جہانگیر ترین اور علیم خان وغیرہ اسے نظیر کے طور پر پیش کریں گے ؟کیا اسکا اطلاق اپنے اوپر چاہیں گے ؟ہر گز نہیں،کیوں کہ یہ خود بھی اس کی زد میں آکر نااہل ہو جائیں گے۔اسی لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ خوشیاں منانے سے پہلے فیصلے کو نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے (کاش ایسا ہو جائے)اور اب پاکستان کرپشن سے پاک ہوجائے گایہ ان کی خواہش ضرور ہے حقیقت میں تو ابھی بہت سے کام ہونا باقی ہیں۔نواز شریف کے بہت سے کیسز ماضی میں زیر التواء تھے جس طرح اب مشرف کا بغاوت کا مقدمہ زیر التواء ہے۔ماضی میں بھی ایسے کئی زیر التواء کیسز عدلیہ کے کردار پر سوال اٹھاتے رہے اور اب بھی بھی ایسا ہی ہے۔بلا امتیاز اور حقیقی احتساب نہ جانے کب شروع ہوگا؟کب تک ٹارگٹڈ احتساب جاری رہے گا؟آخر کرپشن کو جڑ سے کیوں نہیں اکھاڑا جاتا؟بلاتفریق سب کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟آخرکیوں؟کیا کچھ طاقتیں ہمارے اوپر حاوی ہیں؟کیا مفادات کے لئے کچھ کا احتساب اور کچھ کو بری ذمہ کردیا جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں ہے کیسے ہے وجوہات کیا ہیں؟کیوں کوئی منتخب وزیراعظم اپنی مدت نہیں کر پاتا؟ اگر کرپشن اس کی وجہ ہے تو ہم کیسے لوگ ہیں کہ ہم سے کرپٹ لیڈر ہی منتخب ہوتا ہے؟غلطی عوام کی ہے یا سازشی قوتیں طاقتور اور با اثر ہیں؟آخر اسٹیبلشمنٹ کہتے کسے ہیں؟ اس کا کیا کردار ہے؟ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے کوئی جوابات نہیں،عوام چاہتے ہوئے بھی ان کے جوابات حاصل نہی کر پاتی کیوں افراتفری کے اس کھیل میں عوامی توجہ و خیالات کو فوری ٹریپ کیا جاتا ہے۔اب وقت بدل رہا ہے سازشی بھی وقت کی رفتار سے چلنا سیکھ رہے ہیں اور ہم عوام ہیں کہ سیاست و اندرونی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں ۔ہمیں بھی بدلنا ہوگا اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کے لئے بدلنا ہوگا۔ہم کیسے بے وقوف ہیں کہ صرف ایک دو شخص کے احتساب پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اور باقی کرپٹ عناصر کو سلگتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر وہی سلگتی چنگاری ہمیں بار بار اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔آئیے ایک عہد کریں کے سب کرپٹ و بد اخلاق لوگوں کا احتساب کریں ،آواز اٹھائیں ایسی نہ ختم ہونے والے آواز جو پارلیمنٹ کے ایوانوں سے ہوتی ہوئی فوج کے ہیڈکوارٹرز سے گزر کر سیدھا انصاف کے کٹہروں میں جا گونجے۔واضح کرتا چلوں کہ کسی ادارے و پارٹی میں اچھے و برے لوگ دونوں ہوتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ چند برے لوگ ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں ہمیں انکا استحصال کرنا ہوگا۔ہمیں ایک آواز ہونا ہوگا۔کیا سب کے احتساب کا مطالبہ درست نہیں؟ اگر ہے تو چلو یکجا ہوجاؤ اور آواز و صدا بلند کرو ہر فورم پر، کہ ہمیں سب کا احتساب چاہئے۔میڈیا جس پر بہت سے الزامات ہیں ،اس کے پاس بھی موقع ہے کہ احتساب کے اس موسم میں’سب کے احتساب‘ کا مطالبہ اٹھا کر ملک و قوم کے وفادار ثابت ہو جائیں۔ 

Sunday 16 July 2017

پاکستانی احتساب


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ

پاکستان میں حقیقی معنوں میں کبھی احتساب ہی نہیں ہوا اگر ایسا ہوتا تو پاکستانی سیاست سے کرپٹ عناصر کا صفایا ہوجاتا۔پاکستانی احتساب بااثر لوگ صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ایسا عرصہ دراز سے چل رہا ہے،پاکستانی حکومتیں ہمیشہ ان باثر لوگوں کے زیر اثر رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کی قدر و قیمت ویسے ہی قائم دائم رہتی ہے اگر اللہ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے ایک دفع بھی ساری سیاسی جماعتوں کا حقیقی احتساب ہوجائے تو دوبارہ کوئی بدعنوانی پنپنے کا نام ہی نہ لے، اور لفظ احتساب کو عوام بھول جائے۔احتساب کے معنی ہیں جانچ پڑتال یعنی محاسبہ کرنا نفس عارف کا تفصیل تعینات سے ،ڈھونڈنا ان میں حقائق کو،پھر روک ٹوک وغیرہ۔اس سے مراد خلاف حکومت یا مخرب اخلاق اظہار خیال پر سیاسی پابندی ہے۔یہ قدیم یونانی طریقہ ہے جو رد و بدل کے بعد چل رہا ہے۔باقی دنیا سے بڑھ کر پاکستان میں لفظ احتساب زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔ہمیشہ عوام میں وہی چیز مقبول ہوتی ہے جسے وہ چاہے یعنی عوام عرصہ دراز سے حقیقی احتساب چاہتی ہے۔مگر افسوس کہ عوام کو احتساب کی تعریف و مفہوم معلوم ہی نہیں اسی لئے ہر دفع انہیں بے وقوف بنایا جاتا ہے۔قارئین آپ کو واضح بتاتا چلوں کہ جو عرصہ دراز سے پاکستان میں احتساب کی روایت پھل پھول رہی ہے وہ صرف موسمی ہے۔یعنی موسمی احتسابی روایت کے پس پردہ کچھ عناصر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔پاکستانی تاریخ سے باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیسے احتساب صرف مفادات کے برعکس اور ٹارگٹڈ طور پر کیا گیا۔اگر ایک بار بھی حقیقی احتساب ہوجاتا تو دوبارہ بار بار احتساب کی نوبت ہی نہ آتی۔یوں کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان میں ہونے والے احتسابوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔آپ سوچتے ہوں گے کہ میں کیسی فضول باتیں کر رہا ہوں ،مگر افسوس کہ یہی حقیقت ہے۔پاکستان میں متعدد بار احتساب کا رونا رویا گیا اور متعدد بار احتساب ہوا بھی مگر صرف وقتی و ٹارگٹڈ طور پر۔ایسے احتسابات کے بعد بھی پاکستان وہی پرانے طرز پر چل رہا ہے ،کرپشن بڑھ رہی ہے نانصافی قائم ہے۔بدلا ہے تو صرف اور صرف مفادات حاصل کرنے کا طریقہ بدلا ہے۔مفادات کی خاطر ایسے نت نئے قوانین و طریقے رائج کئے گئے کہ ملک کی دھجیاں اڑتی رہیں۔ملکی خود مختاری و سلامتی کو پس پردہ ڈال کر حکومتوں و اداروں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ملک ایک بار پھر احتساب کی فضا سے لبالب ہے۔ملکی سیاست کے سب سے بااثر اور وزیراعظم احتساب کی فضا کے زیر گردش ہیں۔عوام کے مطابق ملک میں بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔جلد حکومت کا تختہ الٹ کر اگلے الکشنز میں پی ٹی آئی بر سر اقتدار آنے والی ہے جو ملک کے قرض ختم کردے گی اور ملکی خودمختاری کو بحال و مستحکم کرے گی۔مگر میرے ملک کی بھلی عوام ہر بار کی طرح پھر بھول میں ہے نہیں جانتے کہ پس پردہ طاقتیں کیا چاہتی ہیں اور ملک کس طرف جا رہا ہے یقینی طور پر افراتفری کا غلبہ قائم کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کو روکا جا سکے۔چند سالوں سے ملکی سیاست پر نظر جمائے ہوئے ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستان پر حکومتوں سے زیادہ اداروں کا کنٹرول ہے۔میرے مطابق ملکی حکومتیں اسٹبلشمنٹ کے زیر اثر ہوتی ہیں چاہے وہ ملکی ہو یا انٹرنیشنل میرے خیال سے(آپ کی رائے مختلف بھی ہوسکتی ہے) بلکہ مختلف تجزیہ کاروں کا بھی یہی نظریہ ہے مگر کہنے سے ڈرتے ہیں کہ جو اسٹبلشمنٹ و ایجنسیوں کے زیر سایہ رہا اسے حکومت عطا کر دی گئی اس کے بعد جس نے ان باثر لوگوں کے مفادات کو یاد رکھا اس نے اپنی مدت پوری کی اور جس نے انکے مفادات کو پس پردہ ڈال کر ملکی مفادات کو ترجیح دی اس کو حکومت سے محروم ہونا پڑا۔ہم لوگوں کا بھی عالم دیکھئے کہ ہم جانتے ہوئے بھی ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں کہ انہوں نے کرپشن کرنی ہے۔کرپٹ لوگوں کو ایوانوں تک ہم خود پہنچاتے ہیں۔یہی ہمارا المیہ ہے۔شاید کچھ عناصر عین وقت ہمارے ذہن کو کنٹرول کر کے ہم سے یہ سب کرواتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس بار تو ہم پہلے سے زیادہ بالغ ہوگئے ہیں اور بہتری کی سمجھ رکھتے ہیں ہم آزاد ہیں اور بہتر فیصلہ لے سکتے ہیں ۔مگر ہم اپنی آزادی میں بھی غلطی پر ہوتے ہیں ہمیں ٹریپ کیا جاتا ہے مختلف طریقوں سے ہمارے زہنوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے،اور ہم نا چاہتے ہوئے بھی ہمیشہ کی طرح اپنی غلامی کا سودہ کر لیتے ہیں شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔آخر ایسا کیوں ہے؟ سب سے بڑی وجہ ہماری خودمختاری،یعنی عرصہ دراز سے ہماری خودمختاری کا سودہ ہمارے آباؤ اجداد نے جانے انجانے میں کیا تھا اور آج ہمارے پاس کوئی بہتر رستہ ہی نہیں۔خیر یہ بااثر عناصر کی برسوں پہلے پلاننگ ، ہمارے لیڈران کے لالچ اور ہمارے بزرگوں کی ناسمجھی کا نتیجہ ہے۔ہم بھی موجودہ دور میں سمجھداری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں ،کیوں بحثیت قوم ہم کبھی ایک پلیٹ فارم پر متفق ہی نہیں ہوئے؟۔یا پھر مختلف عناصر ہمیں اصل نظریات سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔خیر کچھ تو ہے جس کی بدولت ہم نا چاہتے ہوئے بھی خودمختاری کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ خودمختاری میں ہی بہتری و سلامتی ہے۔قارئین جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان بہتری کی طرف گامزن ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملکی ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اگر یونہی حکومت و اپوزیشن میں تصادم چلتا رہا تو ملک افراتفری کی زد میں آجائے گا جس سے پاکستان میں ترقی کی راہیں بند ہوں گی۔بات احتساب کی ہے تو احتساب بھی ضروری ہے مگر سب کا۔ملکی ترقی کو پس پردہ صرف ایک صورت میں ڈالا جا سکتا ہے اگر امید ہو کہ احتساب سب کا ہوگا اور ایسا احتساب ہوگا جس سے تمام کرپٹ اور سازشی بچ نہ پائیں گے۔اگر ٹارگٹڈ اور مفاداتی احتساب ہی ہونا ہے تو کیا فائدہ کیا حاصل؟میری عوام سے گزارش ہے کہ احتساب سب کا،مکمل احتساب کی آواز اٹھائیں تاکہ ملک ایک نئے سرے سے جدوجہد شروع کرے ،جیسے چائنہ نے کی۔مفاد پرست اور زیر اثر لوگوں کا خاتمہ ہو۔کیوں نہ ہم اپنی پسند اپنی پارٹی اور پسندیدہ شخصیت کو پس پردہ ڈال ایک آواز ہو کر سب کے احتساب کا مطالبہ کریں اور ایک ہی نعرہ لگائیں احتساب سب کا۔یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم نئے سرے سے ملکی خود مختاری کو اولین ترجیحات میں شامل کر سکیں گے۔ورنہ یہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر ملکی نقصان و غلامی کو فروغ دیتے رہیں گے۔آخر میں’کوڑے کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر مٹھی بھر کوڑا اچھالنے سے صفائی نہیں ہوجاتی‘بلکہ پورا کا پورا کوڑا ڈمپ کرنا پڑتا ہے۔پاکستانی احتساب بھی کوڑا اچھالنے کے مترادف ہے۔حقیقی و مکمل احتساب کی ضرورت ہے، ورنہ یہ لوگ حکومت حاصل کرنے کے لئے بلی چوہا ہی بنتے رہیں گے۔مگر پاکستان کا کیا بنے گا؟سوچنا ہوگا!

Sunday 9 July 2017

قومی سلامتی اور سازشی عناصر


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ

پاکستانی سلامتی کو جتنا خطرہ بیرونی سازشوں سے ہے ان سے کہیں زیادہ خطرات اندرونی سازشوں سے ہیں،جن میں مختلف این جی اوز مختلف تنظیمیں اور مختلف گروہ سرگرم ہیں۔افسوس ہم بے چارے سادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پڑھ لکھ کر آزاد ہوگئے ہیں مگر بہت سے عناصر انٹرنیٹ،سوشل میڈیا کے زریعے ہمیں استعمال کر رہے جن میں دین کے نام پر آزادی کے نام پر اور بہت سے طریقوں سے عوام کو ٹریپ کیا جا رہا ہے۔اور ہم بے چارے لوگ ہیں کہ ہمیں ملکی سلامتی پس پردہ ڈال کر ان سازشوں کے بنائے ہوئے کھیل پر ناچنا پڑتا ہے۔حقیقت میں ہم اصلاحی کام کررہے ہوتے ہیں مگر بعض اوقات جزباتی طور پر ملکی سلامتی اور خودمختاری کی دجھیاں ہم سے جانے انجانے اڑ ہی جاتی ہیں۔خیر اس میں عوام کا کوئی زیادہ قصور نہیں ہوتا بلکہ سازشی گروپ اور ان کے کنٹرول پینل اتنے مضبوط اور جامع ہوتے ہیں کہ ہر کوئی ان کی گرفت میں آجائے۔حکومت پاکستان کو اس کی اصلاح کے لئے مزید کام کرنا ہوگا اورایسے عناصر کو بے نقاب کرنے کیلئے کوششیں کرنی ہوں گی۔ملکی سلامتی عرصہ دراز سے زیر بحث ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی عسکری و سول قیادت نے ملکی سلامتی کو سب سے زیادہ مقدم جانا ،ملکی بقاء کی خاطر مشکل حالات میں طرح طرح کی سازشوں کا مقابلہ کیا۔بعض غلطیاں بھی سر زد ہوئیں، بعض اوقات سازشی عناصر کوغلبہ حاصل رہا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سازشی عناصر کی تشخیص نہ ہونا۔جیسے مرض کی تشخیص ہوجائے تو علاج کرنا آسان ہوتا ہے اسی طرح ملکی سلامتی کے خلاف ہونے والی سازشوں کی تشخیض بہت ہی ضروری اور اہم ہے اس ضمن میں حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئے جس میں مختلف ڈیپارٹمنٹ کے فلاسفر موجود ہوں جو ہر وقت ملک میں ہونے والی سازشوں کو بھانپیں اور متعلقہ اداروں کو ان کے بارے آگاہ کریں۔ملک پاکستان کی سلامتی سے جڑے چند ممالک قابل زکر ہیں۔بھارت، افغانستان،ایران،چین،امریکہ اور روس وغیرہ۔موجودہ صورتحال سے باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روس اور چائنہ پاکستان کے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔اور ہمسایہ ممالک بھارت ایران اور افغانستان سے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔امریکہ جو کہ ایشیاء میں اثر رسوخ کے لئے پاکستان کا استعمال کرتا رہا اس کے نا روا رویے اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو بھانپتے ہوئے پاکستان کا جھکاؤ چائنہ کی طرف بڑھ گیا ہے اور امریکہ سے تعلقات کافی حد تک کم ہوچکے ہیں۔مختلف مفکرین و تجزیہ کاروں کے مطابق چائنہ پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتا ہے اور روس امریکہ کی جگہ پاکستان کا استعمال چاہتا ہے ۔چائنہ پاکستان کا خیر خواہ اس لئے ہے کہ دونوں کا بڑا دشمن بھارت ہے اور اس کے علاوہ چائنہ براستہ پاکستان وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی چاہتا ہے سی پیک اسی ضمن میں جاری ہے۔دوسری طرف امریکہ بھارت کا بڑا حامی ہے اور بیک وطن بھارت اور پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے سازشوں کی دنیا کا بادشاہ ملک ہے امریکہ۔جبکہ بھارت تو پاکستان کا ازل سے ہی دشمن ہے اس کی بڑی وجہ کشمیر ہے۔افسوس ناک امر ہے کہ ایران و افغانستان مسلمان ممالک ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اسکی بڑی وجہ شاید بھارت اور اسکی خفیہ ایجنسی را ہے۔بھارت ایران میں چار بہار بندرگاہ کے لئے خطیر رقم خرچ کر رہا ہے تاکہ وہ ایران کی حمایت حاصل کرکے پاکستان کو خطے میں تنہا کرسکے۔ایران اور افغانستان پاکستان کے ہمسایہ ملک ہیں اسی لئے سازشی و مکار بھارت نے ان پر اپنا اثر ورسوخ بڑھا لیا ہے تاکہ پاکستان کی سلامتی کو ٹھیس پہنچا سکے اس کی مثالیں بھی سامنے آچکی ہیں۔جیسے کلبھوشن یادیو۔پاکستان اور چین کے مفادات ایک دوسرے سے منسلک ہیں باقی تمام ملک صرف سازشی عناصر کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں جن کے ماسٹر مائینڈ خود امریکہ و بھارت ہیں۔پاکستان کو اب امریکہ نواز پالیسیوں سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنی خودمختاری کو سر فہرست لانا ہوگا تاکہ ہماری سلامتی کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔پاکستان کو بیک وقت افغانستان پر اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی ضرورت ہے اوراس میں چین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور مسئلہ کشمیر کو مزید اجاگر کرنا ہوگا ۔گزشتہ دن وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سول و عسکری قیادت نے شرکت کی۔جس میں ملکی سلامتی امن اور کشمیر سمیت کلبھوشن کیس پر تبادلہ خیال ہوا۔ اجلاس میں اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ سازشی ملک بھارت کو دنیا میں بے نقاب کریں گے ۔ملکی قیادت نے فیصلہ کیا کہ بھارت کی ہر سازش کا بروقت اور موئثر جواب دیا جائے گا۔میں سلامتی کمیٹی کی ان کاوششوں کو سراہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ سول قیادت سفارتی سطح پر سازشی عناصر کو لگام ڈالے گی۔ امید کرتا ہوں کہ اندرونی سازشوں کی تشخیص کے لئے بھی کوئی موئثر اقدام کیا جائے گا۔متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کو اپنی خودمختاری عزیز ہونی چاہئے پاکستان خودمختار اور ثابت قدم ہوجائے تو بھارت تو خود ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا جس میں متعدد علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔موجودہ صورتحال پاکستان کے سامنے ہے اب پاکستان کو بھانپنا ہوگا کہ ان کے لئے غلط و درست کیا ہے اور یہ کام جتنا جلد ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے۔