Tuesday 15 March 2016

Kisano K Sath Dhoka Dahi By Zulqarnain Hundal





کسانوں کے ساتھ دھوکہ دہی۔۔۔۔ تحریر: چوہدری ذوالقرنین ہندل،گوجرانوالہ

کسانوں کے ساتھ ہمیشہ سے دھوکا ۔فراڈ کیا جا رہا ہے۔ پوری دنیا کے کسان بے بس بالخصوص پاکستان کے ۔’کسان ‘جو کہ کسی دور میں ایک شان سمجھاجاتا تھا۔کسان ایک فخریہ لفظ تھا۔کسان لوگ خود پر بہت فخر محسوس کرتے تھے کسان علاقے کے معزز و قابل احترام لوگ سمجھے جاتے تھے۔ زمینداری اور کاشت کاری پیشہ میں لوگ دلچسپی رکھتے تھے۔اور کسان اپنے علاقہ میں دوسرے لوگوں کی مدد کیاکرتے تھے۔کسانوں کا ایک دور ایسا بھی تھا کہ کسان ضرورت مندوں کو سال بھر کا اناج مفت میں خوشی خوشی دیا کرتے تھے اور ایسے میں بھی کسان گھرانے ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے تھے یہ بات بھی سچ ہے کہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ موجودہ حالات کسانوں کے لئے بہت ہی کٹھن اور تکلیف دہ ثابت ہو رہے ہیں کسان چاہے آج بھی قابل احترام لوگ سمجھے جاتے ہیں مگر کسان دن بدن پستے جا رہے ہیں حالات کچھ ایسے ہیں کہ جو لوگ دوسروں کے کھانے کے لئے اناج اگاتے ہیں اب وہ خود کے گھروں میں بہت مشکل سے دو وقت چولہا جلا سکتے ہیں اور دوسری ضروریات زندگی پوری کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی کاشت کاری پیشہ جو لوگوں کی شان و شوکت کو ظاہر کرتا تھا آج یہی پیشہ وبال جان ثابت ہو رہا ہے۔
چھوٹے کاشتکار اور زرعی اراضی ٹھیکوں پر لے کر کاشت کاری کرنے والے تو قرض کے بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں سارا دن کھیتوں میں محنت کے باوجود بھی ضروریات زندگی پوری کرنا ناممکن سا ہو گیا ہے ایسے میں غریب اور محنت کش لوگوں کی خود کشیوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں چھوٹے کسان بے چاریے بن کر رہ گئے ہیں وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم اچھی صحت اچھی غزا اچھے کپڑے کوئی بھی ضروریات کو اچھی طرح مہیا نہیں کر سکتے۔
چھوٹے کسانوں کی بہت بڑی تعداد کاشت کاری چھوڑ کر دوسرے کاموں کی طرف جا رہی ہے اور ماں جیسی زمینوں کو بیچ کر شہروں میں صنعت سے وابستہ ہو رہے ہیں کاشت کاری میں عدم دلچسپی ملک و قوم کے لئے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے اور ہوگا ہمارے وطن کی اکثریت کاشت کاری و زراعت سے منسلک ہے اور اگر کاشت کار دب جائے تو باقی شعبوں میں بھی ہلچل مچ جاتی ہے کسی بھی وطن بلکہ ہمارے وطن کی مضبوطی میں زراعت کا بھی بہت زیادہ عمل دخل ہے ایسے میں مجھے اپنے وطن کی حکومت اور محکمہ زراعت ہمیشہ کی طرح گہری نیند میں نظر آئے ہیں اگر کسانوں نے کبھی شور ڈال کر انہیں بیدار کرنا چاہا تو کسان تنظیم کے سربراہان کو بھی وہی نیند کی دوا کھلا پلا کر اپنا حامی بنا لیتے ہیں ۔قارئین غور فرمائیے گا یہ کہنا بجا ہوگا کہ عرصہ دراز سے کسانوں کے ساتھ دھوکا اور فراڈ کیا جاتا رہا جھوٹے دعوے اور فرضی امداد دی جاتی رہی۔گزشتہ چار سالوں سے کسان بے چارے کبھی سیلاب کی لپیٹ میں آتے رہے اور کبھی فصلوں کے کم داموں کی وجہ سے تنگ نظر آئے۔ اس عرصہ میں ایسا بھی ہوتا رہا کہ کسانوں نے جو کھادوں۔دواؤں اور پانی کے اخراجات فصلوں پر لگائے فصلیں کاشت کے بعد ان اخراجات کی رقم بھی پوری نہیں کر پائیں۔اور کسان قرض کے ملبے تلے دب کر رہ گیا۔گزشتہ سال ۴۱۰۲میں حکومت کی طرف سیلاب سے متاثرہ زمین داروں کو امداد کا اعلان کیا گیا جو کہ اعلان ہی بن کر رہ گیا فوٹو سیشن کے لیئے حکومت اور انکے نمائندوں نے چند لوگوں کو امدادی چیک دیئے اور پھر پردہ سے غائب یعنی کے جو رقم امداد کے لیئے مختص کی گئی ان میں سے تنکہ فوٹوسیشن کے لیئے لوگوں کو دیا اور باقی کی رقم کرپشن کی نظر بڑے زمینداراور حکومتی نمائندے خوب امدادی پیسہ کھاتے رہے۔ایسا ہی کچھ ۵۱۰۲نومبر میں ہوا۔بلدیاتی انتخابات کی آمد تھی۔حکومت بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے خو فزدہ تھی۔ اور ایوزیشن جماعتوں نے بھی کسانوں کو اچھا لاہوا تھا۔ ایسے میں ایک تیر سے دو شاکار کھیلنے کے لیئے وزیرا عظم پاکستان نے کسان پیکج کا اعلان کیا۔ جس کے تحت چھوٹے کسانوں کو فوری ۰۰۰۵فی ایکڑ امداد سولر ٹیوب ویل اور زراعت کے لیئے آسان شرائط پر قر ضوں اور کھادوں دواؤں کے ریٹ پر کمی کسانوں کے زرعی بینک کے قرضوں پر ۲فیصد رعائیت اور بہت سی سہولتوں کا اعلان کیا گیا۔ پہلے تو کسان چیخا کہ یہ کیا مزاق۔ ہمیں آٹے میں تنکہ برابر مدد دی جارہی ہے یہ ہمارے اور زراعت کے ساتھ مزاق ہے اس اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتیں بھی کسانوں کا ساتھ چھوڑ گیءں اور بلدیاتی انتخابات کے باعث کسان پیکج کی مخالفت کرنے لگیں۔ یعنی کے اپنے اپنے مفاد کسان تھوڑا دھیما پڑ گیا اور سوچا خیر کچھ نہ آنے سے کچھ آجائے بہتر ہے۔ کچھ تو فرق پڑے گا۔بلدیاتی انتخابات سے کچھ پہلے ہی چند علاقوں میں فوری ۰۰۰۵پر ایکڑ کے چیک تقسیم کیئے گئے ۔ اور الیکشنز کے دوران اور تھوڑا عرصہ تک امدادکے چیک مختلف علاقوں میں تقسیم کئے گئے۔ جو نہی الیکشنز گزرے امدادی چیک روک دیئے گے۔اور ابھی تک باقی کسانوں کو رقم فراہم نہیں کی گئی۔ ان کو آج َؔ 249کل کے دلاسے دیئے جارہے ہیں۔اور اسکے علاوہ دوسری شرائط بھی پوری نہیں کی جا رہیں۔نہ قرضوں پر کمی نہ آسان شرائط پر قر ضے کچھ بھی نہیں سب دھوکا دہی ۔یہاں سے سوال اٹھتا ہے کہ جو بڑی رقم کسانوں کے لئے یا کسان پیکج کے لئے مختص کی گئی تھی کیا وہ حکومتی نمائندوں میں بانٹی گئی؟ ایم این ایز۔ایم پی ایز کو تقسیم کی گئی؟یا پھر میٹرو ٹرین کی نظر ہو گئی؟کہاں گئی وہ رقم جو کسانوں کے لئے مختص تھی؟میرے چھوٹے سے گاؤں اور اس جیسے سینکڑوں دیہات اور قصبوں کے لوگ منتظر ہیں کہ کب انہیں کسان پیکج کے تحت امدادی رقم فراہم کی جائے مگر وہ معصوم اور سیدھے سادھے لوگ نہیں جانتے کے اب فوٹو سیشن ہو گیا ہے بس یہ منصوبہ فوٹو سیشن کے وقت کچھ چیک تقسیم کئیے جانے کا منصوبہ تھا۔ان کے حق میں آنے والی رقم کرپشن کی نظر ہو گئی ہے۔ کسان پیکج کے بعد مہینے گزر گئے ہیں

رقم چند لوگوں کو تقسیم کرنے کے بعد باقی کی ہڑپ ۔کھادوں دواؤں کے ریٹ وہی اور معیار صفر۔کسان اپنی رقم کھادوں دواؤں کی نظر کرتے ہیں۔ اور قرضوں پر کھادیں دوائیں حاصل کرتے ہیں ۔مگر ان میں بھی دو نمبری ہے۔ اول تو دام مہنگے ہیں ان کے ۔دوم معیار بھی کم تر۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہاں ہے محکمہ زراعت جو کھادوں دواؤں کے معیار چیک کرتا ہے ۔اور کسانوں کو بہتر کاشتکاری کے بارے آگاہ کرتا ہے۔انکی کارکردگی بھی صفر صرف اورصرف سفارشی لوگ ملازم بھرتی ہیں ۔ اور حکومت کے ساتھ مل کر کسانوں کے ساتھ دھوکا دہی کی جا رہی ہے ۔
آخر کب اس وطن میں کوئی کسانوں کا ہمدرد لیڈر انکے حق کی خاطر دھوکے بازوں سے لڑے گا۔کسانوں کے ساتھ متعدد ایسی ناانصافیاں ہو رہی ہیں اور کی جا تی رہیں جو میں پھر کبھی بیان کروں گا۔ کرپٹ اور دھوکا بازوں کے لئے آپﷺ کی حدیث مبارکہ

’’جو ہم کو فریب دے وہ ہم میں س نہیں‘‘(مسلم)
قرآن کی روشنی میں
’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘(البقرہ۔۰۱)
آخر میں اقبال کا شعر
جس کھیت سے نہ ہو میسر دہقاں کو روزی
اس  کھیت ک ہر گوشہ گندم کو جلا دو

No comments:

Post a Comment