Sunday 25 December 2016

قائد کی ولادت کا دن اور ہم


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

قائداعظم پورا نام محمد علی جناح 25 دسمبر1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔والد کا نام پونجا جناح چمڑے کے بڑے تاجر۔محمد علی جناح بچپن سے ہی اعلی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ابتدائی تعلیم کراچی سے اور برطانیہ سے بائیس سال کی عمر میں بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس لوٹے۔وکالت میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔کانگرس سے سیاست کا آغاز کیا بعد ازاں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ہندؤں سے بدزن ہوکر آپ نے مسلمانوں کو حقوق دلانے کا بیڑا اٹھایا ۔چودہ نکات بھی اسی ضمن میں پیش کئے۔مشکل حالات میں ہندوستان میں مسلمانوں کی وکالت مدبرانہ انداز میں کی اور برصغیر میں مسلمانوں کے عظیم لیڈر قرار پائے۔لیڈرانہ صلاحیتوں اور انتھک محنت کی بدولت محمد علی جناح انگریزوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے۔آخر کار آپکی محنتوں اور کاوشوں کی بدولت 14اگست1947کو ایک اسلامی ملک پاکستان قیام میں آیا۔آپ پاکستان کے سب سے پہلے گورنر جنرل تھے۔ابتدائی مراحل میں آپ نے پاکستانیوں کو متحد کیا۔آپ کے پختہ ایمان اور یقین کی بدولت پاکستان دن رات ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔اسی دوران آپ ٹی بی کے عارضے میں مبتلا تھے مگر آپ نے بیماری کی تاب نہ لاتے ہوئے اسے پوشیدہ رکھا اور ملکی خدمت میں گامزن رہے۔کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد آ پ وفات پا گئے۔آپ نے پاکستانیوں کو ہمیشہ ایمان اتحاد اور تنظیم کا درس دیا۔آپ کے جانے کے بعد آپکے افکار کو کوئی سمجھ نہ سکا۔آپ کے بعد پاکستان کو کوئی عظیم لیڈر نہ مل سکا۔وطن آہستہ آہستہ ترقی کی پٹڑیوں سے نیچے اترتا گیا۔بے ایمان حکمرانوں اور جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ نے ملکی اتحاد کو نیست و نابود کر دیا۔بد عنوانیوں نے ملک میں جڑیں مضبوط کر لیں انہی بدعنوانیوں کے باعث لوگوں کے ایمان کمزور ہونے لگے۔ملک اور ملکی اداروں میں کرپشن نے زور پکڑ لیا۔لفظ تنظیم کا مفہوم بھی پاکستانیوں کو بھولنے لگا۔ملک سے ہی ملکی دشمن پیدا ہوتے رہے۔سیاستدانوں کی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا۔سیاست دانوں اور جاگیر داروں کی چالبا زیوں اور مفادات کے برعکس دہشتگردی نے زور پکڑا۔وطن خون کی ندی بن گیا۔اسی بہادر اور غیور قوم میں غربت کے مارے اور حکومت کے ستائے لوگ ملکی غدار بنے۔وطن پاکستان جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اسی ملک میں نظریہ پاکستان اور اسلام کو رسوا کیا گیا۔ملک ایسا کھنڈر بنا کے لوگ ایک دوسرے سے ڈرنے لگے۔مسلمانوں سے مسجدوں کو نقصان پہنچنے لگا اور طالب علموں سے مدرسوں کو ۔اساتذہ ملکی غداروں کے حامی نکلنے لگے۔صحافی و سیاست دان ملکی غداری میں نمایاں۔سیاست دانوں کی بدعنوانیوں نے ملک کو کرپشن کا گڑھ بنا دیا۔آہ ۔افسوس۔اے قائد میں کیا لکھوں؟اپنے وطن کی غداریوں کو لکھوں؟یا بے ایمانیوں کو لکھوں؟جھوٹے اور وقتی ولولوں کو لکھوں؟یا لفظی جھوٹ لکھوں؟قائد ہمارے ولولے صرف وقتی ہوتے ہیں۔ہم وقتی شرمندہ ہوتے ہیں۔آج آپ کی ولادت کا دن بھی گزر گیا بڑے وقتی جذبے ظاہر کئے یہ بھی کہا گیا قائد ہم اپنی کرتوتوں سے شرمندہ ہیں ۔مگر پھر جذبوں میں بھی جھوٹ قائد درحقیقت ہم شرمندہ نہیں بلکہ بے ہس بلکہ بے شرم ہیں۔بے شرم لفظ ہماری درست ترجمانی کرتا ہے۔قائد ہم تو وہ قوم بن چکے ہیں جو اپنے محسن کی زندگی اسکے ایمان اور خلوص پر شک کرتے ہیں اور کبھی کبھار جھوٹا بھی قرار دیتے ہیں۔ہم سرکشی کی راہ پر چلنے والے وہ پتلے ہیں جنہیں درست غلط سے سرو کار نہیں بس پیچھے چلنے کے عادی ہیں چاہے کوئی کنویں میں دھکیل دے۔ہماری صلاحتیں زنگ آلود ہو چکی ہیں۔اے قائد ہم تیرے ایمان اتحاد اور تنظیم پر کیا عمل کریں ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو بھول بیٹھے ہیں۔افسوس اے قائد آج تیرے پاکستانیوں نے تیری ولادت کے دن بڑے پروگرام منعقد کئے بڑی ڈاکومنٹریز چلائی گئیں مگر تیری سچائی تیرے پختہ ایمان تیرے یقین اور تیرے افکار و نظریات کو نہ سمجھا۔ادھر تیرے ولولوں کی لفظی قدریں کیں ادھر تیرے وطن کو تار تار کیا۔اے قائد کیا یہ تیرا پاکستان ہے؟ہر گز نہیں۔یہ فرقہ واریت یہ کرپشن یہ دہشتگردی یہ بے انصافی یہ دہرا معیاریہ قانون کی دھجیاں یہ پلی بارگین یہ کرسی کا لالچ یہ پانامہ یہ ہٹ دھرمی یہ قبضہ مافیا اور وغیرہ وغیرہ کیا یہ سب قائد کا نظریہ ہے نہیں ہر گز نہیں یہ تو کرسیوں پر بیٹھے ان فرنگی غلاموں کے دہرے معیار ہیں انکے ہوس سے لبریز قوانین ہیں۔بلکہ افسوس سے ان فرنگی غلاموں کے غلام ہم سب عوام ۔ہمیں خود کو قائد سے منصوب نہیں کرنا چاہیے۔قائد کی روح کو ٹھیس پہنچے گی۔قائد ہم شرمندہ نہیں بے شرم ہیں۔
اے قائد تجھے ٹھیس تو پہنچی ہوگی
ولادت پہ تیری تیرے نظریات کو کر گئے رسوا
کیا یاد تو فقط چند رسمی لفظوں میں یاد کیا
تیرے اپنوں نے تیرا درس بھلا دیا
اے قائد تجھے ٹھیس تو پہنچی ہوگی
چھپا کر اپنی علالت جس قوم کے لئے کام کیا
اسی کے لوگوں نے تیرے افکار کو تار تار کیا
میرے رہبر قائد تجھے ٹھیس تو پہنچی ہوگی

Sunday 11 December 2016

سرکار دو جہاں ﷺ


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

آپﷺ کی تاریخ ولادت کے متعلق مختلف روایات میں کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔مگر زیادہ علماء اکرام کے نزدیک 12 ربیع الاول کو آپﷺ کی ولادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔آپﷺ کی پیدائش سے مشرق و مغرب منور ہو گئے۔آپﷺ کا نام محمدﷺ رکھا گیا۔محمدﷺ کا سادہ سا ترجمہ۔جس کی تعریف کے بعد پھر تعریف کی جاتی ہو۔اس سے واضح ہے کہ آپﷺ وہ ذات ہیں جن کی تعریف کا سلسلہ جاری ہے اورہمیشہ جاری رہے گا۔یہ حقیقت ہے کہ جتنا دنیا بھر میں آپﷺ کی شان کے بارے میں لکھا گیا اتنا اور کسی کے بارے میں کبھی لکھا نہیں جا سکتا یہاں تک کہ غیر مسلم بھی آپﷺ کی تعریفوں میں متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں۔پیدائش کے بعد آپﷺ کی پرورش حضرت حلیمہ سعدیہ نے کی۔چار سال کی عمر میں آﷺ کو آپ کی حقیقی والدہ حضرت آمنہ کے سپرد کیا گیا۔ابھی آپﷺ چھ برس کے ہوئے تھے کہ حضرت آمنہ انتقال کر گئیں۔اس کے بعد آپﷺ کی پرورش آپﷺ کے دادا حضرت ابومطلب نے کی۔آپﷺ کے دادا آپﷺ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔آپﷺ کی عمر آٹھ سال ہوئی تو آپﷺ کے دادا بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔دادا کی وفات کے بعد آپﷺ کو آپکے چچا حضرت ابوطالب نے اپنی کفالت میں لیا۔آپﷺ نے بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا کے تجارتی قافلے کے ساتھ ملک شام کا سفر کیا۔اسی سفر کے دوران بحیرہ نامی عیسائی راہب نے آپﷺ کو دیکھا اور کہا آپﷺ سید المرسلینﷺ ہیں۔آپﷺ نے بھی باقی انبیاء کی طرح بکریاں چرائیں۔مکہ میں آپﷺ کو صادق  و امین کے لقب سے لوگ جانتے تھے۔پچیس برس کی عمر میں آپﷺ کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی۔جب آپﷺ چالیس برس کے ہوئے ایک دن غار حرا میں عبادت میں مصروف تھے۔جبرائیل علیہ اسلام حاضر ہوئے اور کہا۔(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو قلم کے زریعے علم سکھایا۔)یوں آپﷺ پر وحی کا آغاز ہوا۔آپﷺ نے اس کے بعد احکام الہی کی تبلیغ کا آغار کیا۔آپﷺ نے شروع شروع میں بڑی تکلیفیں برداشت کیں مگر صبر کا دامن نہیں چھوڑا یوں آپﷺ کی تبلیغ سے لوگ جوق در جوق اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے گئے۔آپﷺ کے مخالفین بھی آپﷺ کی سچائی کو مانتے تھے۔وحی کے نزول سے پہلے بھی آپﷺ مکہ کے صادق اور امین شخص مانے جاتے تھے۔لوگ آپﷺ کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے۔آپﷺ سے فیصلے کرواتے یعنی انصاف کرواتے۔اللہ تعالی نے بچپن سے ہی آپﷺ کو رسالت کی خصوصیات عطا کیں۔آپﷺ دنیا کے آخری نبی ہیں۔آپﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپﷺ کی امت آخری امت ہے۔اب قیامت تک امت محمدی ہی رہے گی۔آپﷺ پوری دنیا کے رسولﷺ ہیں۔تمام قوموں کے نبی۔آپﷺنے لوگوں کو جینا سکھایا تہذیب سکھائی اسلام جیسا بہترین دین دیا اور قرآن جیسی اعلی کتاب دی۔قرآن اللہ تعالی کی طرف سے بھیجی گئی آخری کتاب ہے۔وہ کتاب جس میں سابق آسمانی کتابوں کا بھی ذکر ہے۔آپﷺ سرکار دوجہاں ہیں۔آپﷺ اللہ کے محبوب اور آخری نبی ہیں۔اس کے باوجود بھی آپﷺ نے اتنی سادہ زندگی بسر کی جو ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔آپﷺ کی حیات مبارکہ کا ہر عمل ہمارے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔آپﷺ قیامت کے روز اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔قارئین میں نہ تو کوئی بڑا اسکالر ہوں نہ ہی کوئی عالم اور نہ ہی کوئی بڑا رائیٹر میری اتنی اوقات کہاں کے آﷺ کی صفات بیان کر سکوں آپﷺ تو سردار دو عالم ہیں۔لیکن پھر بھی مجھ جیسا کوئی کم ظرف بھی آپﷺ کی حیات طیبہ پر روشنی ڈالے تو کئی کتابوں کا مجموعہ اکٹھا ہو جائے۔خیر اخبار میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے تھوڑا سا لکھا غلطی کوتاہی کو در گزر کیجئے گا۔قارئین ربیع الاول کا مہینہ ہے دنیا بھر میں آپﷺ کی ولادت کی خوشی منائی جا رہی ہے۔لوگ عقیدت میں گلیاں سجا رہے ہیں نیاز بانٹ رہے ہیں محفلیں منعقد کی جا رہی ہیں۔ہر طرف جشن کا سماں ہے اور ایسا سماں ہر سال ہوتا ہے ایسی خوشیاں ایسا سماں تا قیامت رہے گا۔کوئی اولی و اعلی ہمارا نبی پڑھ رہا ہے کوئی تیراکھاواں میں تیرے گیت گاواں جیسی نعتیں پڑھ رہا ہے۔ہر طرف رسولﷺ کی عقیدت میں خوشیاں منائی جارہی ہیں۔یہاں اہل اسلام سے گزارش ہے کہ اس بابرکت ربیع الاول میں ہم سب آپﷺ کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے کا عہد کریں۔قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کا عہد کریں۔اللہ کے رسول سے حقیقی محبت کا اظہار کریں۔نوافل ادا کریں۔اپنی غلطیوں کی معافی مانگیں۔ہمیشہ کے لئے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرنے کا عہد کریں۔بددیانتی بے ایمانی جھوٹ اور دوسرے برے کاموں کو ترک کرنے کا عہد کریں۔نماز پڑھنے کا عہد کریں زکواۃ دینے کا عہد کریں روزے رکھنے کا عہد کریں۔قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا عہد کریں۔دینی و سیاسی انتشار کو ترک کرنے کا عہد کریں۔انصاف و عدل کو یقینی بنانے کا عہد کریں۔کرپشن کے خاتمے کا عہد کریں۔چوری ڈکیٹی و قتل و غارت کو ترک کرنے کا عہد کریں۔نیز تمام برے افعال کو ترک کرنے کا عہد کریں۔تمام اچھے کام کرنے کا وعدہ کریں۔اپنی زندگی کو اتباع رسول ﷺکے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔افسوس کہ ہمارے سب جذبے وقتی ثابت ہوتے ہیں۔ہر سال ہم محرم رمضان اور ربیع الاول جیسے بابرکت مہینوں میں بڑے جذبا تی ہو جاتے ہیں۔مگر ان کے گزرتے ہی سب جوش سب ولولے مانند پڑ جاتے ہیں اور پھر وہی گناہوں کوتاہیوں والی زندگی۔یا اللہ ہدایت عطا کر۔حقیقی عاشق رسول اور رسول کے احکامات پر عمل کرنے والے امتی بنا دے۔

Sunday 4 December 2016

قرض مافیا



چوہدری ذوالقرنین ہندل۔ گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی


دنیا بھر میں قرض مافیا نے اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔قرض مافیا نے ایسا نظام ایسے قوانین قرض بنا کر رائج کیے ہیں کہ غریب و مفلس اور سیدھے سادھے انسان کے لئے اس کی زد سے بچنا بڑا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔قرض میں ظاہری فائدہ لوگوں کو متوجہ کر کے اس مافیا کے رائج قوانین کی زد میں لاتا ہے۔درحقیقت یہ ایک بڑا نقصان ہے۔اسلام میں بھی سود پر قرض سے منع فرمایا گیا ہے۔اسلامی سکالرز اس پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔قرض مافیا کی پالیسیاں درحقیقت سود پر منحصر ہوتی ہیں۔کرپشن ایک بنیادی مسئلہ ہے۔جیسے دوسری بدعنوانیاں کرپشن کے باعث جنم لیتی ہیں ایسے ہی کرپشن کی وجہ سے قرض مافیا یعنی سود پر قرض دینے و لینے والوں نے بازار گرم کر رکھا ہے۔کرپشن سے کسی ملک و معاشرے میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس کے باعث غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔غربت کی فضا میں منافع خور بنیے غریبوں کو انکی زمین و جائیداد کے کاغذات کے برعکس سود پر قرض دیتے ہیں۔جو قرض سود کی شکل میں ہر سال بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ غریب کی جائیداد بھی ایک دن اسی قرض کی تحویل میں آجاتی ہے۔برصغیر ہندوستان میں تقسیم سے پہلے یہ کام ہندو بنیے کرتے تھے ۔کیونکہ اسلام میں سود حرام ہے جسکی وجہ سے مسلمان ایسے کام پر لعنت بھیجتے تھے۔زمانہ گزرا تاریخ بدلی اور روایات تبدیل ہوگئیں رسم و رواج بدل گئے۔لوگ پڑھ لکھ گئے شعور آگیا۔مگر پڑھنے کے بعد بھی لوگ ان فرسودہ نظام و روائج سے پیجھے نہ ہٹ سکے بلکہ وقت نے ان پڑھے لکھے لوگوں کو اس سازشی اور ذاتی مفادات والے نظام کے پیروکار بنا دیا۔موجودہ دور میں ہم سمجھتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر ہم آزاد ہوگئے ہیں۔مگر افسوس کہ کل تک جن کاموں کو ہم گناہ کبیرا سمجھتے تھے آج انہی کو کرتے ہمیں جھجھک بھی محسوس نہیں ہوتی۔در حقیقت ہم بنے بنائے رستوں پر چلنے کے عادی ہوچکے ہیں۔خود اپنے راستے بنانا نہیں جانتے۔یہ ہماری بھول ہے کہ ہم موجودہ دور میں مکمل آزاد ہیں۔درحقیقت ایک مکمل سازش کے تحت ہمیں غلام بنایا جا رہا ہے۔ہم اب پہلے کی نسبت زیادہ سازشوں کے تابع ہیں ۔ہم فالو کرتے۔کسی نہ کسی طرح ہم سازش کی تحویل میں ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی سود جیسے ممنوع کاموں پر عمل پیرا ہیں۔خیر چھوڑئیے اس پر پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ابھی قرض ماقیا کے بارے میں سنئے۔قرض مافیا ایک مکمل ٹیم ہوتی ہے۔اس میں قرض لینے اور دینے والے بااثر لوگ موجود ہوتے ہیں۔یہ بااثر لوگ کسی نہ کسی طرح اس کھیل اس نظام اور اس بزنس سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔قرض بھی غریب کو غریب تر اور امیر کو مزید امیر کرنے والا سودا ہوتا ہے۔ظاہری متوجہ کا حامل یہ سود پر قرض غریب کو بڑا حسین دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں اسکی تباہی کا سبب ہوتا ہے۔پاکستانی نظام میں بھی یہ قرض و سود سسٹم اپنی جڑیں گاڑھے ہوئے ہے۔بلکہ کئی سالوں سے اس کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔امیر کا جس کام میں فائدہ ہو اس کام کو پاکستان میں بڑی تقویت ملتی ہے۔اسی وجہ سے سود و قرض پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے اور باقی ماندہ کو بھی چت کرنے کی تگ و دو میں ہے۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود بھی سود سے بچاؤ کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں کر سکا۔دراصل اس قرض و سود میں حکومت کے رہنماؤں اور وزراء کا کسی نہ کسی طرح مفاد موجود ہے۔پاکستان میں وزراء سیاستدان امراء جاگیردار بزنس مین اور بیوروکریٹس سب قرض مافیا ٹیم کا حصہ ہیں۔سیاستدان و بیوروکریٹس بزنس مینز و امراء کو حکومتی خزانے سے قرض دلواتے ہیں اور پھر وہی قرض معاف کرواتے ہیں اور اسی طرح اپنا حصہ تقسیم کر کے مفاد میں۔اپنے مفادات میں ملکی نقصان کی بھی پروا نہیں کرتے۔انہی قرض مافیا کے حکومت پر قابض ہونے کی وجہ سے ہی ملک بیرونی قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔یہ لوگ ملکی دولت سے خود قرض لے کر معاف کروا لیتے ہیں۔اور دوسری طرف غریب کو با مشکل قرض مل بھی جائے تو قرض کی واپسی میں تاخیر پر انکی جائیداد ضبط کر لی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں پارلیمانی کمیٹی نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے قرض معاف کروانے والوں کی تفصیل مانگی تو بنک نمائندے نے اسے قانون کے برعکس قرار دے کر تفصیل دینے سے انکار کر دیا۔یقین سے کہتا ہوں کہ اس تفصیل میں بڑے جاگیرداروں بڑے بزنس کے ٹائیکونوں بڑے سیاستدانوں اور بااثر لوگوں کے نام موجود ہوں گے۔جسکی وجہ سے یہ تفصیل پیش نہیں کی جا رہی۔اور یہ قرض مافیا کا پاکستان میں متحرک ہونے کا ثبوت ہے۔اور بااثر لوگوں کے ملوث ہونے کی نشانی ہے۔پاکستان میں سب قوانین سب ادارے غریبوں کے لئے ہوتے ہیں امیر پر اسکی پاسداری لازم نہیں ہوتی۔لیکن قرض معافی جیسے قوانین اور امدادی رقمیں صرف امیروں کے لئے ۔پاکستان میں جو دہرا معیار چلتا آرہا ہے وہ ہر گزرتے دن تقویت پکڑ رہا ہے۔جو ملکی ساکھ و سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ 2015 میں270 ارب روپے کے قرض معاف کروائے گئے۔ایک بڑی رقم ہے۔جس دور میں ملک کے ہر فرد پر لاکھ سے زائد کا قرض موحود ہو اس دور میں اربوں کے قرض معاف کرنا اور پھر انکی تفصیلات بھی نہ دکھانا ایک مجرمانہ عمل ہے۔ماضی کی طرح عوام کو بے وقوف بنانے کی بجائے بتایا جائے کہ اربوں کا قرض کیوں اور کن کو معاف کیا جاتا ہے۔کیا یہ غریبوں کے لئے سبسڈی ہے؟یا پھر بدعنوانیوں کا کالا چٹھا ہے جسے دکھانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ملک کے ہر ادارے کا احتساب ہی ملک کو بہتری پر گامزن کر سکتا ہے۔یہ وقت کی ضرورت ہے۔ قرض مافیا کی تفصیلات عوام تک بھی پہنچنی چاہئے اور انکا احتساب بھی ہونا چاہئے۔یہی وقت کی پکار ہے۔احتساب۔