Sunday 26 November 2017

پھیلتی افراتفری


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔نا چاہتے ہوئے بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ملک افراتفری کی گرفت میں آگیا۔جس سازش کا خدشہ تھا وہ سچ ثابت ہوا۔پاکستان کو بیرونی معاملات میں الجھانے کے لئے اسے اندرونی افراتفری کی طرف دھکیل دیا گیا۔آج پورا ملک بند ہونے کو ہے، کاروبار، آمدورفت اور دوسرے روزمرہ کے کام ٹھپ ہو رہے ہیں۔شہری علاقوں میں گھروں سے باہر نکلنا محال ہے۔خطرناک نتائج لئے پھیلتی افراتفری ہے کہ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ہر ذی شعور پریشان ہے کہ اکیس کروڑ کے اس ملک کا کیا مستقبل ہے۔معاملات دن بدن سنگین سے سنگین کیوں ہو رہے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دشمن ہمارے ملک میں افرتفری پھیلانے میں بھی سرگرم عمل ہے،ہمارے آپس کے اختلافات دشمنوں کے اس ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ملک میں موجود دشمن دوست پاکستان کے خلاف سازشی منصوبہ بندی میں متحرک ہیں۔وہی پاکستان جو وسط ایشیاء کا نمائندہ ملک بننے جا رہا ہے ،کیا وہ ایسا کر پائے گا؟وہ اپنے اندرونی معاملات سے نمٹنے کی بجائے روز بروز مزید الجھتا جا رہا ہے۔آخر کوئی تو بڑی سازش ہے جو اس وقت متحرک ہے؟، جو پاکستان کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتی۔گزشتہ چند عرصے سے پاکستان کو ہمہ وقت بیرونی و اندرونی معاملات میں الجھایا جا رہا ہے۔ایسے کٹھن حالات میں ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے یکجا ہو کر دشمنی سازشوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کریں۔مگر افسوس کہ ملک میں پھیلتی افراتفری میں جتنا ہاتھ دشمن کا ہے اس کہیں زیادہ قصور ہماری سیاسی جماعتوں اور ہمارے اداروں کا ہے۔ملکی افراتفری میں اضافے کے ذمہ دار ہم عام عوام بھی ہیں جو کبھی ایک نظریے پر متفق نہیں ہو سکے،بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا ہماری قوم کسی ایک کام ایک نظریے کے لئے کبھی یکجا نہیں ہوئی۔ہمیشہ عوام نے ظاہری و وقتی مفاد کو ترجیح دی ہے۔موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو وہ نامعلوم ہے ایسا لگتا ہے کہ ملک بغیر حکومت کے ہی چل رہا ہے۔فیض آباد کے دھرنے کو کچلنے کی جو ناکام کوشش کی گئی اس کے نتائج ملک بھگت رہا ہے اور نہ جانے کتنے دن اس کے نتائج بھگتنا پڑیں۔حکومتی نااہلی کے باعث ہی تو دھرنا شروع ہوا،مگر مذہبی جماعتوں کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک کو افراتفری کی طرف دھکیلیں۔ملک پھیلتی افراتفری کی ریس میں اتنا آگے نکل گیا ہے، لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔کوئی قانون نہیں ۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا مہاورا سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ریاست تو جیسے سرے سے ہی موجود نہیں،جنگل راج ہے۔ریاست کی تذلیل ہو رہی ہے۔ حکومتی کنٹرول کم ہوتا جا رہا ہے۔جو کسی کا دل چاہتا ہے کرتا ہے۔موجودہ پھیلتی افراتفری میں ہم سب قصور وار ہیں عام عوام سے کہیں زیادہ قصور وار حکومتیں ادارے اور دوسری بااثر جماعتیں ہیں۔نااہلی کی انتہا دیکھئے جس کا دل چاہتا ہے وہ اکٹھ کر کے ملک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔یہ جنگل راج ہے جو جتنا طاقتور اتنا ہی با اثر۔آخر کب اس وطن کو سکھ اور چین نصیب ہوگا؟پھیلتی افراتفری کب رکے گی؟کون ملک کا حقیقی لیڈر ہے؟اقتدار کے لالچ سے پاک مفادات سے پاک کون ہے ؟ہے کوئی ایسا لیڈر جو اپنے وزراء کو نوازنے کی بجائے ملک کا سوچے؟ایسا کیوں ہے؟ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں، ہو بھی کیوں۔کیوں کہ لالچ و بے حسی ہے کہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔آج ہم اپنے مفادات کی خاطر دین کا سہارا لینے سے بھی نہیں کتراتے۔ہماری تعلیمات کہاں گئیں؟ہمارے علماء و اساتذہ کے علم میں اتنا بھی اثر نہیں کہ وہ بڑھتی حوس و لالچ کو کم کر سکیں۔اسلام تو مکمل نظام حیات ہے، بلکہ واحد دین ہے جو مکمل ہے۔کیا پھر ہماری تعلیمات میں کوئی کمی کوتاہی ہے؟کیا ہمارے عالم ہی نامکمل علم رکھتے ہیں،یا عمل سے عاری ہیں؟ کچھ تو ایسا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی بے حس ہو چکا ہے ۔ورنہ کوئی ختم نبوت کی شک کو حذف کرنے کی گستاخی نہ کر سکتا۔آپﷺ ہمارے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپﷺ کی ذات پر ہماری جان بھی قربان۔حکومت نے جو غلطی کی ہے وہ حقیقت میں بڑی غلطی ہے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نظام حیات کو درہم برہم کیا جائے۔تحریک لبیک کا وزیر کی نااہلی کا مطالبہ درست ہے مگر ملک میں افراتفری پھیلانے کا منصوبہ غلط ہے۔حکومت نے جلد بازی میں یا اپنے وزیر کو بچانے کے چکر جس افراتفری کو فروغ دیا ہے ملک اس کا متحمل نہیں ۔اس کٹھن وقت میں جب دشمن سے بھی خطرات موجود ہیں حکومت کو دانشوری کا مظاہرہ کرنا چاہئے نہ کہ دشمنی سازش کو ترویج دی جائے۔ویسے کچھ عرصے سے ہماری عدالتیں کافی متحرک ہیں اور ہر معاملے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتی ہیں۔سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کوبھی خود ہی دیکھ لے،اور آئین و قانون میں تبدیلی کے ذمہ داران کو سامنے لانے کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کو بھی پرامن رہنے کی تلقین کرے۔تاکہ پھیلتی افراتفری پر فوری قابو پایا جا سکے۔باقی بات رہی سازش اور قصور کی وہ وقت عیاں کر دے گا کہ کس کا کتنا قصور ہے۔

Sunday 19 November 2017

مشرقی و مغربی سرحد اور اندرونی معاملات


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای
او ہیں۔

ہمہ وقت اندرونی و بیرونی معاملات میں کشیدگی دشمن کی بڑی سازش ہی ہو سکتی ہے،مگر افسوس کہ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اور مختلف ادارے ملک کو افراتفری کی جانب دھکیل کر دشمن کی سازش کو پروان چڑھا رہے ہیں۔جانے انجانے بہت سے لوگ ملک کو افراتفری کی جانب دھکیلنے کا کام سرانجام دے رہے ہیں ان میں سیاسی پارٹیوں کے کارکن حکومتی حامی مذہبی جماعتوں کے کارکن اور بہت سے دانش ور وغیرہ ہیں۔ملک فی الوقت متعدد مسائل کی گرفت میں ہے اور ان میں آدھے سے زائد مسائل ہماری اور حکومت کی نادانیوں کے باعث دشمنوں نے پروان چڑھائے ہیں۔حکومت کو اپنے ہونے کا ثبوت دینا ہوگا،کھوکھلی حکومت سے بہتر ہے کہ فوری اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کروائے جائیں۔لیکن اخلاقی طور پر حکومت کو پورا وقت ملنا چاہئے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کے موجودہ وقت کا انتظار کرنا چاہئے الیکشن کمپین ضرور چلائیں مگر مخالفت میں اتنی شدت نہ ہو کہ ملک افراتفری کی طرف چلا جائے۔حکومت کو اگر مدت پوری کرنی ہے تو تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور ان کے جائز مطالبات پورے کرے۔پاکستان میں موجود ہر ذی شعور انسان کو باخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان بیک وقت متعدد مسائل کی لپیٹ میں ہے۔تاہم سیاسی و عسکری قیادت نے کافی حد تک ان مسائل کو کنٹرول بھی کیا ہے۔خطے کی بدلتی صورتحال نے پاکستان کو ہر وقت محتاط و الرٹ رہنے پر مجبور کردیا ہے۔پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری کے آغاز کے بعد سے بہت سی قوتیں پاکستان پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔کچھ اچھی نظریں یعنی بعض اچھے ممالک سرمایہ کاری و کاروبار کی نیت سے نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔کچھ انتہائی بری نظریں یعنی بعض ممالک کو خطے کی یہ ترقی ہر صورت ہضم نہیں ہو رہی ان کے نزدیک انکی نمبرداری ختم ہوجائے گی وسط ایشیاء مستحکم ہو جائے گا اور چوہدراہٹ والا نظام بھی زوال پذیر ہو جائے گا۔ایسے ممالک میں سپر پاور امریکہ اور ایشیاء میں امریکہ کا دوست بھارت ہر وقت سی پیک کی ناکامی کے لئے متحرک رہتے ہیں،اور بھی بہت سے ممالک ان کے اس مقصد میں حامی ہیں۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت مکمل طور پر ان سازشوں سے آگاہ ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے اپنی پیشہ ورانہ صلاحتیں استعمال کر رہی ہے۔گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان کو تین طرح کے مسائل در پیش ہیں اور اگر اندازہ لگایا جائے تو سوچی سمجھی سازش ہی لگتی ہے۔کچھ دن قبل افغانستان کی طرف سے پاکستان آرمی پر فائرنگ گزشتہ روز ایل او سی پر بھارتی خلاف ورزی بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل اور ملک میں سیاسی و مذہبی انتشار وغیرہ ہمہ وقت ملک کو مختلف مسائل میں دھکیل کر افراتفری کو پروان چڑھانے کے مترادف ہے، اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اس حالت میں دشمن کی ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی غفلت بھی شامل ہے۔ ہماری مشرقی سرحد بھارت سے ملتی ہے۔ بھارت ہمارا ازل سے دشمن ہے، لائن آف کنٹرول پر بھارتی خلاف ورزیاں تو عرصہ دراز سے چلی آرہی ہیں مگر جب سے سی پیک کا آغاز ہوا ہے ان خلاف ورزیوں میں شدت آگئی ہے آئے روز کسی نہ کسی دیہات کی فصلیں تباہ ہو رہی ہے دیہات اجڑ رہے ہیں معصوم لوگ مر رہے ہیں۔بھارتی شر پسندانہ حکمت عملی خطے میں جنگ کے خطرات کو پروان چڑھا رہی ہے۔پاکستان نے ہمیشہ نرم رویہ اختیار کیا بعض اوقات مسائل کے حل کی خاطر بھارتی ہٹ دھرمیوں کو پس پشت ڈال کر مذاکرات کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر بھارت بعض آنے سے قاصر ہے۔موجودہ آرمی چیف کو کریڈٹ دینا بھی ضروری ہے ،چیف صاحب نے جوانوں کو حکم دے رکھا ہے کہ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کی صورت میں بروقت اور موئثر جواب دیا جائے تاکہ دشمن کسی وہم میں مبتلا نہ ہو۔پاکستان کی مشرقی سرحد پر مستقل خطرہ موجود ہے اسی لئے آرمی چیف نے ہر وقت الرٹ رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔بھارت نے رواں سال 1300سے زائد مرتبہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جو کہ انسانی حقوق اور امن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے لئے پاکستان دشمنی میں اپنی حدیں عبور کررہا ہے ،دوسری طرف بھارت کے نئے آقا امریکہ نے اسے حکم دے رکھا ہے کہ سی پیک کو ہر گز کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ہماری مغربی سرحد افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہے،یہ سرحد بھی عرصہ سے مشکلات کی گرفت میں ہے۔افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقوں میں فائرنگ اور ایران کی طرف سے دھمکیاں بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ دونوں ممالک بھارت کے قریبی ہیں اور بھارت ان ممالک میں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے۔پاکستان اپنی اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے سرگرم ہے۔پاک فوج پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے میں مصروف ہے اور امید کرتے ہیں کہ اس کی تکمیل سے دہشتگردی میں کمی آئے گی۔دہشتگردوں کی افغانستان کے راستے پاکستان آمدورفت رک جائے گی۔پاکستان کی عسکری قیادت کو ہمہ وقت مشرقی و مغربی سرحدوں پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے دشمن ہر وقت ہمیں نقصان پہنچانے کے طریقے ڈھونڈتا ہے،ہمیں دشمنوں کی چالوں کو بھانپ کر انکا مقابلہ کرناہے۔بارڈر مینجمنٹ کو جلد از جلد بہتر بنایا جائے۔اندرونی مسائل سب سے زیادہ گھمبیر ہیں اور انہیں حل کئے بغیر بیرونی مسائل مزید الجھ سکتے ہیں۔حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،بلوچستان سمیت تمام مسائل کو بھانپ کر انکا مقابلہ کرنا ہوگا۔تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ ذاتی مخالفت کو ذاتی ہی رکھا جائے ، ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو انتشار کر طرف مت دھکیلیں۔باہمی طور پر مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں،ذمہ داران اور فہم پرست سیاستدان ہونے کا ثبوت دیں۔افراتفری کو فروغ نہ دیں بلکہ دانش مندانہ طریقے سے اپنا اپنا منشور تیار کرکے الیکشن کی تیاری کریں ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر سیاست کریں۔ایسا نہ ہو کہ آپ کے ذاتی مفادات کی خاطر ملک انتشار کی طرف چلا جائے اور یہ روایت مشہور ہو جائے کہ سیاست دان ملکی معاملات چلانے کے قابل نہیں۔

Sunday 5 November 2017

پاکستان مخالف بھارتی مہم

چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔
یوں توکئی سالوں ہی سے دشمن ملک بھارت پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے، کوئی بھی مخالفت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ تعلقات میں بہتری کی کوششیں کیں۔مگر مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی بھارتی پاکستان مخالفت میں شدت آگئی۔مودی انتہا پسند بھارتی تنظیم اشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کا سرگرم رکن اور مسلم کش ایجنڈا ہندو تواء کا پیرو کار ہے۔مودی نے اپنی تنظیم سے پاکستان کی تباہی جیسے ناپاک وعدے کر رکھے ہیں،مودی نے انتہا پسند بھارتی قوم سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ کشمیر سمیت بہت سے پاکستانی علاقوں کو بھارت میں ضم کرے گا۔مودی اور اسکی حکومت اپنے ناپاک عزائم کے لئے سر گرم عمل ہے۔اپنے مقصد کو پس پردہ چلانا بھارتی وطیرہ ہوتا تھا مگر اب کے بار مودی سرکار سرعام اپنے عزائم کا تذکرہ کرتی ہے۔مختلف فورمز پر مودی نے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی اور پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔مودی بذات خود بڑے فخر سے یہ بھی بتا چکا ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے میں ان کی تنظیم اور انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔پس پردہ جڑیں کاٹنا تو بھارت کا معمول کا کام تھا مگر اب کے بار تو کھلم کھلا پاکستان کی تباہی کی باتیں کی جاتی ہیں۔اسکی بڑی وجہ خطے کی بدلتی صورتحال ہے۔بڑی وجہ امریکہ بھارت تعلقات میں بہتری اور پاک امریکہ تعلقات میں کمی و کشیدگی بھی ہے۔پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور جو خطے کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔بھارت تو ازل سے ہی اس منصوبے کا مخالف ہے ،امریکہ کو بھی یہ گوارا نہیں اسے لئے اس منصوبے نے امریکہ بھارت کو مزید نزدیک و یکجا کر دیا۔خطے میں سیاسی صورتحال بدل چکی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔چائنہ روس اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک حامی بنتے جا رہے ہیں جبکہ امریکہ کو یہ بہت ناگوار گزر رہا ہے کہ یہ خطہ انکی مداخلت سے پاک ہو اور چین و روس اس کے مقابلے مضبوط ہو جائیں۔اسی لئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت پر امریکہ نے انحصار شروع کردیا، بھارت کو اپنے اسلحے سے لاد کر خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا تاکہ کوئی اس خطے میں امریکہ کے مقابلے کھڑا نہ ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک اب پاکستان کی حیثیت بدل چکی ہے اور امریکہ دن بدن پاکستان کو پریشرائز کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے،بھارت کو بھی عزائم مقاصد کی تکمیل کے لئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے بلکہ مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔بھارت اس وقت اپنے اثر و رسوخ کی بلندی پر ہے اور نمبرداری کے نشے میں دھت ہے مگر اسے امریکی چالبازیوں کا قطعی علم نہیں شاید اسے پاکستانی دشمنی میں ہر علم سے لاعلم رہنا ہی بہتر لگتا ہے۔مگر بھارت کو جان لینا چاہئے کہ ایک دن امریکی گود میں کھیلتے کھیلتے وہ خود تباہ ہو جائے گا چائنہ اتنا مضبوط ملک ہے کہ بھارت اس کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتا ، یوں سمجھ لیجئے کہ ظاہری نمبرداری کے چکر میں بھارت تو ایک دن ٹکڑوں میں بھٹ کے رہے گا۔بھارت اس وقت امریکی ملی بھگت اور پاکستان سے مخالفت و دشمنی کی بدولت سی پیک کو ناکام بنانے کی کاوشیں کر رہا ہے چاہے اسکی راہ میں اسکے اپنے مفادات بھی قربان ہو جائیں اسے کوئی سروکار نہیں۔اس ملی بھگت میں کچھ اسلامی ممالک بھی شریک ہیں جن میں افغانستان اور دبئی کا نام قابل ذکر ہے۔بلوچستان میں بھارت عرصہ دراز سے براستہ افغانستان تخریب کاریوں میں ملوث ہے مگر سی پیک کے آغاز کے بعد بھارت نے گلگت بلتستان میں بھی تخریب کاریاں شروع کر رکھی ہیں، کچھ نام نہاد لوگ صحافی و ورکرز کی صورت میں بھارتی ایجنڈے کو گلگت بلتستان میں پروان چڑھا ر ہے ہیں۔پہلے تو بھارت نے کبھی خاطر خواہ اعتراض نہیں اٹھایا تھا مگر سی پیک کی تعمیر سے بھارتی حکومت نے کشمیر کے ساتھ گلگت کو بھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا ہے۔اسی طرح بلوچستان میں بھی مختلف لوگ بھارتی ایجنڈے کو پرموٹ کر رہے ہیں۔پاک آرمی کی کاوشوں کی بدولت کچھ بہتری آئی مگر اب بھی لوگ موجود ہیں جو پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں،چاہے انکی تعداد بہت کم ہے مگر ان سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔کچھ عرصہ قبل بھارت نے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں بلوچستان آزادی کے نام سے پاکستان مخالف مہم چلائی۔گزشتہ روز بھی اسی طرح کی مہم لندن میں بھی چلائی گئی۔ابھی جنیوا کی مہم کا چرچا ختم ہوا ہی تھا کہ بھارت نے پاکستانی مخالفت میں لندن کی مختلف سڑکوں اورگاڑیوں پر آزاد بلوچستان کے اسٹیکرز لگوائے دیئے۔پاکستان نے اپنے دوست ملک برطانیہ سے سخت احتجاج کیا کہ برطانیہ ایسی مہم کی ہر گز اجازت نہ دے یہ پاکستان کی سلامتی و خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے دنیا بھر میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے ،نام نہاد بلوچ تنظیمیں بھارتی مقاصد کا حصہ بن رہی ہیں۔پاکستانی حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں یہ ہماری سلامتی کا معاملہ ہے اور کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری سلامتی پر سوال اٹھائے۔تمام سیاسی پارٹیوں اور تمام اداروں کو متحد ہونا ہوگا۔دشمن ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کے در پے ہے اور ہم اپنی سیاسی لڑائیوں میں لگے ہوئے ہیں ہر طرف صرف اقتدار کا لالچ نظر آ رہا ہے سیاسی دنگل عروج پر ہے اداروں کے درمیان غلط فہمیاں ہیں کہ بڑھتی جا رہی ہیں۔یہ ہو کیا رہا ہے؟ وقت کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا دشمن کی چالوں کو بھانپنا ہوگا۔یکجا ہو کر اندرونی معاملات کو حل کرنا ہوگا پھر ہی ہماری مضبوطی سے دشمن خود تار تار ہوگا۔پاکستانی حکومت کو اپنی اعلی و اچھی سفارتکاری کی بدولت دنیا کو بتانا ہوگا کہ بھارت کتنا مکار ہے اور بلوچستان پاکستان ہے اس کی اکثریت پاکستان سے دل وجان سے پیار کرتی ہے چند نام نہاد بھارت نواز لوگوں کے کہنے پر بلوچستان کو بھارت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسا سوچنا بھی جرم ہے۔دنیا کو بھارتی مکاری کے خلاف ایکشن لینا چاہئے اور کسی ملک کی سلامتی کے خلاف سازش کے جرم میں سزا بھی ملنی چاہئے