Sunday 25 September 2016

اپنا قبلہ درست کریں




چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

اپنا قبلہ درست ہو تو کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔دشمن کی ہر سازش الٹی پڑتی ہے۔سازشی خود گرفت میں آ جاتا ہے۔بظاہر پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کو سازشی کہتے ہیں۔دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کو سازشی کہنے کی بجائے اپنا اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ملکوں نے ماضی میں بھی متعدد نقصانات اٹھائے۔آزادی سے لے کر آج تک دونوں ملک دشمنی کی آگ میں جل رہے ہیں اوران کی آگ میں کشمیر بھی جل رہا ہے۔برطانیہ نے دونوں ممالک کی تقسیم میں نا انصافی کر کے دونوں ملکوں کو نقصان پہنچایا ہے۔بظاہر مسلمان اکثریتی علاقے بھارت کے حوالے کر کے بھارت کو فائدہ اور پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا۔مگر آپ گزشتہ کئی برسوں کی پاک بھارت دشمنی کو دیکھ لیں۔اس غلط تقسیم کی وجہ سے دونوں ملکوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔مسئلہ کشمیر کے معاملے میں صرف بھارت ہی نہیں اقوام متحدہ بھی ہٹ دھرمی دکھاتا رہا اور دکھا رہا ہے۔کشمیر کے معاملے کو کوئی صدق دل سے حل کرنا چاہتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔اگر اقوام متحدہ صدق دل سے کشمیر کا حل چاہے تو حل کروا سکتا ہے بھارت پر ذور ڈال کر اس معاملے کا حل یقینی بنا سکتا ہے۔مگر کبھی ایسا چاہے گا نہیں۔دنیا کی بڑی طاقتوں کو ہر گز منظور نہیں کہ برصغیر میں امن قائم ہو۔بظاہر امن کا نعرہ لگانے والے گورے دل کے کھوٹے ہیں انہیں قوموں کو استعمال کرنے کا فن بخوبی آتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہیں۔اسی لئے یہ معاملات کو لٹکانا چاہتے ہیں سلجھانا نہیں۔یہ کبھی ایک حریف کے کان بھرتے ہیں اور کبھی دوسرے کے۔پاک بھارت آزادی سے لے کر اب تک ایک محدود سیاست کی گرفت میں ہے۔دونوں ملک ایک دوسرے پر برتری لے جانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔یہ سچ ہے کہ اسلحہ خریدنے میں بھی بھارت نے پہل کی۔پاکستان نے وقت کی ضرورت و دفاع کے لئے ہی اسلحہ کی خریدو فروخت کی۔ماضی میں پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر پر جنگیں لڑی گئیں۔دونوں ملکوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔جنگ کی پہل بھی ہمیشہ بھارت کی طرف سے کی گئی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نقصان بھی زیادہ بھارت کو ہی اٹھانا پڑا۔بظاہر کوئی بھی شکست کو تسلیم نہیں کرتا مگر بھارت ہمیشہ شکست سے دو چار رہا۔بھارت کے پاس ہمیشہ سے ہی اسلحہ اور افرادی قوت پاکستان سے زیادہ ہے۔مگر ہمت و جذبہ میں ہمیشہ پاکستان برتر رہا۔دوستو پاکستانی فوج وہ فوج ہے جو دشمن کے ٹینکوں کو اڑانے کے لئے اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھتی ہے۔پاکستان کی فوج دنیا کی افواج میں سے بہادر اور نمبر ون فوج ہے۔اسے دنیا بھی تسلیم کرتی ہے۔بلکہ بڑے ملک کی افواج اپنے کیڈٹس کو جذبہ دلانے کے لئے پاک فوج کے کارنامے سناتی ہیں۔صرف فوج ہی نہیں یہ پوری قوم ہی بہادر اور غیور ہے۔پوری قوم میں ملکی دفاع کی صلاحیت موجود ہے۔یہ قو م اپنی سالمیت بچانے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔گزشتہ کئی دنوں سے بھارتی فوج کی نقل و حرکت کو دیکھا گیا اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ بھارت پاکستان پر اٹیک کرنے کا سوچ رہا ہے۔بھارتی میڈیا پر بھی جنگی جنون تاری ہے۔مگر پاکستانی فضائیہ کی مشقوں کو دیکھ کر سارا جنون ممنوع ہوگیا۔شاید بھارتی بنیا جانتا ہے کہ جنگ میں نقصان بھارت کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ سب بھارتی دکھاوہ ہے پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر کمزور کرنے کی سازش ہے۔اڑی سیکٹر حملہ اور پھر پاکستان کو اقوام متحدہ میں دہشتگرد قرار دینا یہ سب بھارت افغان کی پلاننگ کا حصہ تھا۔جو مودی اور اشرف غنی کی ملاقات میں ہوئی۔یہ بھی سچ ہے کہ بھارتی واویلے کی وجہ سے پاکستان کی آواز مدھم ضرور ہوئی لیکن ختم نہیں ہوسکی۔وزیر اعظم نواز شریف نے صحیح معنوں میں جو کشمیر کی آواز اٹھائی بہت سے دلوں پر گہرا اثر کر گئی اور سفارتی سطح پر بھی پاکستان کی جیت ہوئی۔بھارت کی نسبت پاکستان کا قبلہ ہمیشہ ہی درست رہا۔بھارت شروع ہی سے مکاریوں اور چالاکیوں کی کوشش میں رہا۔بھارت نے پاکستان کو بین الاقومی سطح پر تنہا کرنے کی بھی کوششیں کیں۔پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کی کوششیں بھی کیں۔مگر ہمیشہ ناکام رہا۔یہ بھی درست ہے پاکستان اندرونی مسائل سے دو چار ہے۔پاکستان کو فی الفور اپنا اندرونی قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔دوستو بھارت جو پاکستان کو تنہا کرنے کی باتیں کر رہا ہے وہ خود تنہا ہوتا جا رہا ہے اور ایسا صرف ہمارے بیرونی قبلے کے درست ہونے کی وجہ سے ہے۔یعنی بہترین خارجہ پالیسی۔ہماری خارجہ پالیسی میں دوغلا پن نہیں بڑی کلیئر ہے ہماری خاجہ پالیسی۔اسی وجہ سے آج بھارت کے بڑے اتحادی ملک کی فوج پاکستان میں دوستی کے نام سے جنگی مشقیں کر رہی ہے۔آج چین ہمہ وقت ہمارے ساتھ کھڑا ہے ترکی ہمارے سانس کے ساتھ سانس بھرتا ہے۔برطانوی کمانڈر انچیف ہمارے آرمی سربراہ کی تعریفوں پر الفاظ برسا رہا ہے۔نیو یارک ٹائم بھارتی جارہیت کو بیان کر رہا ہے۔یہ سب ہماری بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے ممکن ہوا ۔ہمیں خود پر انحصار کرنا آگیا۔ہمیں پتہ چل گیا کہ ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہے۔اگر ہمارا قبلہ درست سے درست ہوتا گیا اور خود پر انحصار بڑھ گیا تو ایک دن دنیا ہماری تعریفوں میں پل باندھا کرے گی۔بھارتی قوم کے لئے مفید مشورہ مکاری چلاکی چھوڑ دیں دوسروں پر بلا وجہ تنقید اور ظلم کرنا چھوڑ دیں۔اپنا قبلہ درست کریں خود پر انحصار کریں مودی جیسے انتہا پسندوں کو آخری صفوں میں دھکیل دیں اقلیتوں کے ساتھ انصاف کریں۔بے جا غیر ملکی مداخلت پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیں۔غاصبانہ قبضوں کو چھوڑ دیں۔اگر ایسا کرنے میں ناکام رہے تو ایک دن باکل تنہا ہو جاؤ گے۔آج امریکہ تمہارے ساتھ ہے تو وہ بھی اپنے مفاد کے بعد تمہیں چھوڑ دے گا تمہارے وطن کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔مودی اسکی پہل ہے۔پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ اپنے اندرونی معاملات کو نمٹانے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کو آپس کی ذاتی دشمنیوں کو ختم کرنا ہوگا ۔حکومت اور اداروں کے درمیان اعتماد کو قائم کرنا ہوگا۔آرمی اور حکومت کو ایک پیج پر کھڑا ہونا ہوگا۔سب صوبوں میں توازن رکھنا ہوگا ۔اپنے ملکی غداروں کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔اندرونی معاملات کو سمجھنا ہوگا۔سمجھنا ہوگا کہ کوئی خود کش بمبار کیوں بنتا ہے۔کوئی بندوق کیوں اٹھاتا ہے اپنوں کے خلاف۔ہمیں بلوچستان پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ہمیں آزاد کشمیر اور گلگت میں خوشیوں کو بکھیرنا ہو گا۔ہمیں مقبوضہ کشمیر کی ہمیشہ کے لئے آواز بننا ہوگا۔پورے وطن میں امن و خوشحالی کو پھیلانا ہوگا۔انصاف کو یقینی بنانا ہوگا۔کرپشن و دہشگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔قانون پر عملدرآمد کرنا اور کروانا ہوگا۔میڈیا کو مثبت پیغام پھیلانا ہوگا۔اپنا تن من مضبوط کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے من کو اتنا مضبوط کرنا ہوگا کہ دشمن کا ہر وار الٹا پڑے۔ہمیں پوری قوم کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ کوئی بھی کسی دشمن کے بہکاوے میں نا آسکے۔ہمیں اسلام کو پاکستان کو اور انسانیت کو ایسی لڑی میں پرونا ہوگا جسے دشمن کی بڑی سے بڑی سازش و سرمایہ کاری بھی نہ توڑ سکے۔

Sunday 18 September 2016

کشمیریوں کی آواز بنیں


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ
پھرسے ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم مظلوم کشمیریوں کی آواز بنیں۔ثابت کریں کے ہم انسان ہیں مسلمان ہیں اور پاکستان ہیں۔ہمارے پاس دل ہے وہ دل جو انسانوں کے لئے درد رکھتا ہے جو ظلم کو دیکھ کر دھڑک اٹھتا ہے اور مظلوموں کے غم کا احساس دلاتا ہے۔احساس دلاتا ہے کہ ہم انسان ہیں سب سے بڑھ کر مسلمان ہیں اللہ رب العزت کی پیدا کردہ مخلوق ہیں نبی آخر الزمانﷺ کی امت ہیں۔احساس دلاتا ہے ہم بے حس قوم نہیں کہ اپنے ہی بھائیوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہیں۔بلکہ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دنیا کو بار بار بتائیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون۔مجبور کر دیں اس دنیا کی طاقتوں کو کہ وہ حق کا ساتھ دیں۔ہمیں پوری تگ و دو سے کشمیر کی جدوجہد کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیر حسین وادیوں قدرتی خوبصورتی کی حامل ریاست۔بچپن سے ہی کشمیر کی خوبصورتی کے بارے میں سن رکھا ہے۔مگر کوئی خود جا کر اس حسین وادی کشمیر کو دیکھے تو وہ ضرور جانے کہ جو سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔ایسا خوبصورت علاقہ کے دیکھنے والا بیان کرتے تھک جائے۔مگر افسوس جس بچپن سے کشمیر کی خوبصورتی کے بارے میں سنتے آ رہے ہیں اسی بچپن سے اس خوبصورت وادی کے خوبصورت لوگوں پر ہوتے ظلم و ستم کی داستانیں بھی سنتے آ رہے ہیں۔خوبصورتی کے لحاظ سے دیکھیں تو کشمیر جیسا خوبصورت علاقہ کوئی بھی نہیں۔اگر ظلم و ستم کے پہلو سے دیکھیں تو یقین مانئے کشمیریوں جیسا مظلوم اور بے بس بھی کوئی نہیں۔مگر اے میرے اللہ یہ کوئی توازن نہیں کہ خوبصورت پہاڑ دریا جھیلیں عنایت کر کے خوبصورت لوگوں کو ظالم و جابر کی گرفت میں رہنے دیا جائے۔اے دنیا و جہاں کے پالنے والے ان مظلوم کشمیریوں پر اپنا خاص کرم کر کہ یہ ہمیشہ کے لئے ظالم و جابر بھارتیوں کے قبضے سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جائیں۔آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔حسین وادیوں میں حسین لوگ اپنی سریلی آوازوں میں قدرت کے حسین مناظر کو بیان کرنے والے گیت گا سکیں۔اپنے غم اپنی خوشیاں بانٹ سکیں۔ اپنے مذہب اپنی روایات کو یاد کر سکیں اور اس پر بہتر انداز سے عمل پیرا ہو سکیں۔تیری بڑائی کی حمد و ثناء کر سکیں۔قدرت کی اس حسین عنایت کو سراہ سکیں۔اپنے مذہب و روایات کے رنگوں میں رنگ سکیں۔کہہ سکیں کہ ہمارا پیارا وطن امن و سلامتی کا گہوارہ وطن خوبصورتی سے بھرا ہوا وطن قدرت کا عطا کردہ حسین و سرسبز و شاداب یہ وطن۔کشمیر پر دن بدن بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم سے ساری دنیا واقف ہے مگر افسوس کہ دنیا آنکھیں تو کھول لیتی ہے مگر ساتھ ہی زبان کو تالا لگا لیتی ہے۔دنیا یعنی عالمی طاقتیں عرصہ دراز سے کشمیر پر بھارتی مظالم سے واقف ہیں مگر بھارت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتیں نہ ہی بھارت پر کوئی پابندی عائد کی جاتی ہے۔برصغیر میں تقسیم کو کئی سال گزر گئے مگر اس تقسیم میں نا انصافی کی وجہ سے ریاستوں کو آزادانہ حیثیت دینے کے معاملات ابھی بھی لٹکے ہوئے ہیں۔شاید عالمی طاقتیں بر صغیر کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں۔اس عالمی سازش میں بھارت اور پاکستان تو جل ہی رہا ہے مگر کشمیریوں کا معاملہ لٹکا کر انکی زندگیاں اجیرن اور عزاب بنانا انتہائی افسوس ناک ہے۔پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور کر رہا ہے۔دوسری طرف بھارت شروع ہی سے کشمیر پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اور اسی تگ و دو میں رہتا ہے کہ بزور بندوق کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا جائے۔غیور کشمیری غلامی کو بہت بڑا عذاب سمجھتے ہیں اور کبھی غلامی کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔بھارتی ظلم کے خلاف ہمیشہ سے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔بھارتی خود بھی جانتے ہیں کے وہ کسی صورت بھی کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کم نہیں کر سکتے مگر پھر بھی وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے۔پاکستان نے ماضی میں بھی عالمی طاقتوں پر زور ڈالا کہ کشمیر پر بھارتی ظلم ختم کرایا جائے اور کشمیریوں کو آزادی دلائی جائے۔اب کے بار پھر سے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے اکہترویں اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔عید الفطر سے لے کر عیدالاضحی تک بھارت نے کشمیریوں پر ظلم جاری رکھا بلکہ ابھی بھی جاری ہے۔جس میں سینکڑوں کشمیری شہید ہوئے متعدد پیلٹ گنوں کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوئے۔ایسے میں پاکستان نے بھارت کے ظلم کو دنیا کے سامنے عیاں کیا۔بھارت نے کشمیر میں زندگی کے تمام معاملات پر پابندی عائد کر دی۔یہاں تک کے نماز عید پر پابندی عائد کردی۔ایسے میں بھارتی وزیراعظم کو علم تھا کہ دنیا انکا اصل چہرہ بھی دیکھ چکی ہے۔ اسی ڈر سے مودی نے خود اقوام متحدہ کے اجلاس میں جانے کی بجائے ششمہ سوراج کو بھیجا۔مودی نے ششمہ کے ساتھ افغانی صدر اشرف غنی کو بھی بھارتی ساتھ دینے کا ٹاسک سونپا ہے۔ذرائع کے مطابق ششمہ اور اشرف غنی کو ہٹ دھرمی دکھانے اور الٹا پاکستان کو دہشتگردوں کا پشت پناہ ثابت کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے اربوں کی سرمایہ کاری افغانستان اور اس کے قریبی ممالک میں کر رہا ہے۔ہمیں مودی کی جگہ ششمہ سوراج کا اقوام متحدہ کے اجلاس میں جانے کو اپنی کامیابی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ میاں نواز شریف کو مودی اور غنی کی ملی بھگت کو سمجھ کر دلیرانہ طریقے سے بھارتی ہٹ دھرمیوں سے اقوام متحدہ میں پردہ اٹھانا چاہئے۔انکی سازش کو مد نظر رکھ کر لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔میاں صاحب کو ہر صورت کشمیریوں کی جدوجہد کو اقوام متحدہ کے سامنے اجاگر کرنا ہے۔میاں صاحب کے پاس موقع ہے کہ وہ بہتر حکمت عملی دکھا کر اپنے سیاسی مخالفین کا نعرہ مودی کا یار غلط ثابت کر دیں۔ 1998 میں میاں صاحب نے عوام سے رجوع کر کے جو عزت پائی ویسی عزت دوبارہ حاصل کرنے کا وقت ہے۔اگر گزشتہ کی طرح تمام عالمی دباؤ کو پرے رکھ کر میاں صاحب کشمیر کی جدوجہد آزادی اور بھارتی ہٹ دھرمیوں سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے تو عوام کی نظروں میں بھی سرخرو ہو جائیں گے۔میاں صاحب کی سیاست کا نازک موڑ ہے۔اپنی ساکھ ختم بھی کر سکتے ہیں اور اپنی عزت بحال بھی کرسکتے ہیں۔مخالف جماعتوں کو بھی مخالفت پرے رکھ کر حکومت کا کشمیر کے معاملے پر ساتھ دینا چاہئے بلکہ بہتر مشوروں سے بھی نوازنا چاہئے۔بطور پاکستانی مسلمان اور انسان ہم سب کو کشمیر کی آواز بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر پلیٹ فارم پر چاہے اخبار و پرنٹ میڈیا چاہے ٹی وی چینل و آن لائن میڈیا چاہے سوشل میڈیا ان سب کے ذریعے ہر فرد کو مظلوم کشمیریوں کی آواز پوری دنیا تک پہنچانی چاہئے۔کشمیریوں کی جدوجہد اور بھارتی ظلم کو اجاگر کرنے کا دوبارہ وقت آگیا ہے۔اگر ہم اس بار کشمیریوں کی جدوجہد کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بھارت اور اسکے ہامیوں کو انکی ہٹ دھرمیوں اور چالاکیوں کا بہترین جواب مل جائے گا اور اگر ہم پورے ولولے سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر آزاد ہو جائے گا۔پاکستان اور پاکستانیوں کو بہتر حکمت عملی سے کشمیر کی آواز کو اونچا کرنا ہے اگر پاکستان کشمیر کی جدوجہد اور بھارتی ہٹ دھرمی کو دنیا کے سامنے لے آئے اور دنیا کو یقین دلائے کے کشمیری ظالم و جابر کی قید میں ہیں تو یہ پاکستان کی فتح اور بھارت کی شکست ہوگی۔آخر میں سب سے گزارش ہے کہ صدق دل سے کشمیریوں کی آواز بنیں اللہ اجر عطا کرے گا۔

Sunday 11 September 2016

قربانی پر اپنی انا کو قربان کر دیں


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

اناومیں۔ہمارے اندر رچ بس چکی ہے۔جو ہم ظاہری دکھاوے والی قربانی کرتے ہیں اس سے زیادہ ہمیں صدق دل سے اپنی انا و میں کو قربان کرنے کی ضرورت ہے۔اس عید پر اپنی اناو میں کو قربان کرکے دیکھیں کتنا سکون ملے گا تسکین ہو گی۔اتنی تسکین کبھی بھی ظاہری و نمائشی قربانی سے نہیں پہنچے گی۔ انا و میں کو ایک طرف رکھ کر خالص اللہ کی رضا کی خاطر قربانی کر کے محسوس کیجئے کہ کتنا سکون ملتا ہے کیسی راحت اور کیسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ ذوالحج کا چاند نکلتے ہی مسلمانوں میں بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ہر کوئی اپنی مصروفیات میں مصروف نظر آتا ہے۔کوئی حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے مصروف اور کوئی قربانی کی تلاش میں مصروف کوئی گھر کے سازو سامان کی خرید میں مصروف اور کوئی شاپنگ یعنی نئے کپڑوں نئے جوتوں وغیرہ کی خرید میں مصروف۔سب کی بھاگ دوڑ لگی ہوتی ہے۔سب بہتر سے بہتر بننے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔قارئین آپ سب جانتے ہیں کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی سنت ہے۔اللہ تعالی کے محبوب پیغمبر نے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے اکلوتے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو بھی قربان گاہ لے گئے۔آنکھوں پر پٹی باندھے اپنے پیارے اسماعیل کی گردن پر چھری چلانے لگے مگر چھری حضرت اسماعیل کی گردن پر نہ چل سکی کیوں کہ اللہ رب العزت کا چھری کو چلنے کاحکم نہیں تھا۔اللہ کے نزدیک تقوی افضل ہے۔اللہ تعالی نے اس چھری کے نیچے آسمانی دنھبے کو رکھ دیا یوں اسی واقعے پر قربانی کی روایت چلی آرہی ہے۔مسلمان ہر سال اللہ تعالی کی رضا کی خاطر جانور قربان کرتے ہیں۔موجودہ دور میں دنیا بھر میں لاکھوں جانور قربان ہوتے ہیں۔لوگ بڑھ چڑھ کر بڑے جوش و خروش سے جانوروں کو خریدتے ہیں۔مویشی منڈیوں میں ہر طرف رش ہی رش ہوتا ہے۔ہر جانور اپنی ہی خوبصورتی میں نظر آتا ہے مالکان ان کی زیب و آرائش پر خصوصی توجہ دیتے ہیں فن سکھاتے ہیں۔لوگ خصوصی بچے جانوروں کے فن اور خوبصورتی کو دیکھ کر سراہتے ہیں اور اپنے والدین سے اپنا من پسند جانور خریدنے پر ذور ڈالتے ہیں۔جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں جو عام آدمی کی دسترس سے بالکل باہر۔واقعی غریب اس عید پر ایک عدد مرغ ہی ذبح کریں گے۔یہ بڑھتی ہوئی قیمتیں امیروں کے لئے تفریح اور غریبوں کے لئے ناسور بن کر رہ گئی ہیں۔میرا آج کا عنوان قربانی پر اپنی انا کو قربان کر دیں۔جی دوستو یقین مانو واقعی انا و میں کو قربان کرنے کی اشد ضرورت ہے نہیں تو معاشرہ برباد ہو جائے گا۔ہمارے وطن اور معاشرے میں انا و میں کی بھینٹ سینکڑوں لوگ چڑھ رہے ہیں۔ہمارے وطن میں دو گز زمیں پر قتل گاڑی سٹینڈ کی پرچی پر قتل اور متعد واقعات پر جان کا خاتمہ۔معاشرے کو انا و میں کے خاتمے کی اشد ضرورت ہے۔یہاں ہر کوئی اپنی انا و میں ہی میں پھنے خاں بنا پھرتا ہے اور دوسروں کو حقیر جانتا ہے۔لفظ میں اور انا ہر شخص میں رچ بس چکا ہے چاہے وہ چھوٹا ہے بڑا ہے بوڑھا ہے غریب ہے امیر ہے سیاستدان ہے حکمران ہے مذہبی اسکالر ہے صحافی ہے پولیس آفیسر ہے حتی کہ ہر کسی میں مالک ہو یا ملازم کوئی شرط نہیں میں و انا سب میں موجود ہے۔یہ میں و انا تو عرصہ سے ہی چلی آرہی ہے۔مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے میں و انا پر قتل و غارت جیسے بیانک واقعات میرے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑ رہے تھے سوچا تھا کبھی موقع ملا تو ضرور لکھوں گا۔کل سوسائٹی میں بچوں کو قربانی کے بکروں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو انکی طرف متوجہ ہو گیا اچانک بچے کھیلتے کھیلتے اس بحث میں لگ گئے کہ میرا بکرا بڑا ہے نہیں میرا۔میرا بکرا زیادہ خوبصورت ہے نہیں میرا۔چھوٹے چھوٹے قریب پانچویں جماعت کے طالب علم اچانک بحث بحث میں اوقات اور ذات پر آن پہنچے۔تمہاری اتنی اوقات نہیں کے تم اچھا بکرا خرید سکو۔میں بڑا حیران ہوا کہ چھوٹے چھوٹے ننے منے بچے اور اتنی زیادہ اکڑ اور انا ۔بیٹھے بٹھائے مجھے میرا عنوان مل گیا۔قربانی کا موسم ہے سوچا قربانی سے ہی منصوب کر دوں۔دوستو سچے دل سے سوچئے گا کہ ہماری قربانی اللہ کے نزدیک قابل قبول ہے یا نہیں۔یہ اللہ رب العزت پر ہے کہ وہ ہماری قربانی قبول کرے یا نا کرے مگر ہم بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے ناقابل قبول بنانے کے لئے۔قربانی کا اصل مقصد اللہ تعالی کی رضا اور تقوی ہے۔مگر ہم لوگ دکھاوے کے لئے اپنی انا کو اونچا کرنے کے لئے قربانی خریدتے ہیں۔کبھی دل سے اللہ کی رضا اور سنت ابراہیم کے لئے نہیں سوچا۔بس یہ سوچتے ہیں شیخ صاحب نے اونٹ لیا ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں فلاں نے دس لاکھ کا جانور خریدا ہم اس سے کم تو نہیں۔قربانی کو بھی انا اور دکھاوے کے کھیل میں نمائش بنا کر رکھ دیا ہے۔اللہ نے غریبوں سے ہمدردی کے لئے قربانی جیسا فریضہ انجام دینے پر نیکیاں رکھی ہیں نا کہ ظاہری نمائش اور انا بڑھانے کے لئے۔لاکھوں کے جانور خرید کر بھی اللہ کی رضا نہ حاصل کر سکو تو اس قربانی کا کوئی فائدہ نہیں۔افسوس کہ ہمارے ہاں اس مقدس قربانی جیسے فریضے میں بھی ظاہری انا اور دکھاوہ ہر سال سر فہرست ہوتا ہے۔حج میں بھی اکثر لوگ انا و دکھاوے کو سرفہرست رکھتے ہیں۔جس کی مثال سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور سیلفیاں ہیں۔انا پرستی کی ایک اور مثال سنو بھائی ہم قربانی تو کرلیتے ہیں مگر گوشت غریبوں کی بجائے اپنے حریفوں اور رشتہ داروں ہمساؤں کو بھیجتے ہیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ اونٹ کا کیسا ذائقہ ہے حتی کے انہوں نے بھی قربانی کی ہوتی ہے۔اگر کوئی غریبوں میں تقسیم کر بھی دے تو اچھا گوشت علیحدہ اور ہڈیاں غریبوں میں تقسیم۔قربانی کر کے اپنے ہی فریج و فریزر بھرنا ایسا ہی ہے جیسے بازار سے گوشت خرید کر لائے چاہے وہ کھوتے کا ہے یا کسی بھی جانور کا۔دوستو بات انا کی ہے۔انا ومیں ہمارے معاشرے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس کو کبھی دوبارہ تفصیل سے ضرور لکھوں گا۔مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ روشنی ڈالیں کیا آپس میں ہی بار بار گوشت بانٹنا جائز ہے؟سب دوستوں سے گزارش ہے کہ اگر اللہ نے عطا کیا ہے تو اپنی انا اور دکھاوے کو پرے رکھ کر حقیقی قربانی کے جذبے سے گوشت غرباء میں تقسیم کریں اور عید کے موقع پر ہو سکے تو کسی کی مالی امداد بھی کر دیں۔کھالیں بھی حقیقی حقدار اداروں کے پاس پہنچنی چاہیے۔ملک کے حکومتی اداروں اور تمام سیاسی اداروں سے گزارش ہے کہ خدارا اس عید پر اپنی انا و میں کو قربان کردیں تاکہ ملک پاکستان بھی اس انا و میں کی لڑائی سے باہر آئے اور ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔جو سچے دل سے اپنی انا ومیں کو قربان کرنے کی کوشش کرے گا اللہ اسے شاید قربانی سے بھی زیادہ اجر عطا کر دے۔یہ بھی ایک بڑی قربانی ہوگی۔قادری صاحب کے امن کے حق میں بیان پر بڑی خوشی محسوس ہوئی کسی کے گھر کا محاسبہ درست نہیں۔آخر میں سب دوستوں کو دلی عید مبارک۔خوش و آباد رہیں۔

Sunday 4 September 2016

سیاسی کھیل


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ

کھیل بہت سے ہیں کچھ میدان میں کھیلے جانے والے اور کچھ سیاست کے میدان میں کھیلے جانے والے۔میں آج سیاسی کھیلوں کے بارے میں اپنی رائے لکھ رہا ہوں۔میرا خیال ہے بہت سے لوگ سیاسی کھیلوں کے بارے میں جانتے ہیں۔سیاسی کھیلوں کی بھی متعدد اقسام ہیں۔کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لئے اپنے اسٹیٹس کے لئے اپنے مقام کے لئے کھیلتے ہیں۔اور کچھ اپنے ملک کے مفادات ملک کے اسٹیٹس اور ملک کے مقام کے لئے کھیلتے ہیں۔موجودہ دور میں بلکہ ماضی میں بھی اپنے مفادات کے لئے ہی زیادہ کھلاڑی کھیلتے۔زمین پر جب سے انسان نے قدم رکھے ہیں تب سے ہی سیاسی چالبازیاں بھی شروع کر رکھی ہیں۔بعض اوقات چالباز خود اپنی ہی چال کی گرفت میں جکڑا جاتا ہے اور بعض اوقات بازی لے جاتا ہے۔کھیل کے دو ہی پہلو ہوتے ہیں۔ہار یا جیت۔مگر سیاسی کھیل میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ ہارنے والا کبھی اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا۔اور بعض اوقات اپنی شکست کو چھپانے یا بدلہ لینے کے لئے کسی بھی حد تک پہنچ جاتا ہے اور یہی حال جیت حاصل کرنے والوں کا بھی ان کی جیت میں کوئی بھی رکاوٹ ہو وہ اسے عبور کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔یوں تو سیاسی کھیل ہر سطح پر کھیلا جاتا ہے۔نچلی درمیانی اور اوپر والی۔مگر یہ کھیل نچلی اور درمیانی سطح پر نچلا یعنی چھوٹا اور درمیانہ ہی ہوتا ہے۔یوں کہیے کہ نچلی سطح اور درمیانی سطح پر زیادہ گھناؤنا نہیں ہوتا۔مگر نچلی سطح کے کھلاڑیوں کی مکاری پکڑی جائے تو انجام بہت برا ہوتا ہے۔نچلی سطح میں غریب اور درمیانی سطح میں مجھ جیسے درمیانے لوگ ہوتے ہیں۔اور اب بات کرتے ہیں اوپر والی سطح کی جو صدیوں سے ہی بہت شاطر ہے۔اس سطح کے کھلاڑی بہت منجھے ہوئے سیاسی چالباز ہوتے ہیں۔جن کے لئے شکست جیت اور کھیل میں خرابہ زیادہ پچھتاوے کا باعث نہیں بنتا کیوں کہ انہیں اگلی باری کی امید ہوتی ہے کہ جیت انہی کی ہوگی۔اس سطح کے کھلاڑی کسی بھی قسم کے بدعنوانی کے کھیل میں پکڑے جائیں تو انجام تک نہیں پہنچتے۔یہ ہر میدان میں ہر رنگ میں دوبارہ اٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مگر درمیانے اور نچلے طبقے کے کھلاڑی ایک دو کھیل کے بعد ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔اب اس اوپر والی سطح سے بھی اگلی سطح کے کھیل اور کھلاڑی بھی ہوتے ہیں۔یہ وہ کھلاڑی ہوتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر کھیل کھیلتے ہیں۔یہ ملکی کھیل ہوتے ہیں۔اس کھیل کا بھی انجام ہوتا ہے۔ہار کی صورت میں بڑا ملکی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اوپر والی سطح پر ملکوں کو نقصان پہنچتا ہے کسی بھی اوپر والی سطح کے کھلاڑی کو کبھی نقصان نہیں پہنچا۔شاید ماضی میں ایسا ہوتا ہوکہ نقصان پہنچا ہو۔سرمایہ کار اور انٹیلی جینس ادارے انکے سپانسرز ہوتے ہیں۔ بیوروکریٹس تجزیہ کار اور بڑے صحافی انکے کوچ ہوتے ہیں۔یوں یہ سپانسرز اور کوچ بھی سطح کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔کھیل پر کچھ زیادہ ہی لکھ ڈالا اب اصل بات پر آتا ہوں۔دوستو پاکستان ان سب کھیلوں کی آڑ میں ہے چھوٹے و بڑے۔بین الاقوامی کھیل ملکی کھیل صوبائی کھیل اور اسی طرح ڈویژنل ضلعی سٹی اور یونین کونسل کی حد تک۔سب کھیل ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔بین الاقوامی طاقتیں پاکستان میں عدم استحکام پھیلا کر پاکستان کی غم خوار بن کر پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی ہیں۔جن میں امریکہ اور روس قابل زکر ہیں باقی چین کی نیت کو میں ابھی سمجھ نہیں پایا۔بھارت جو خود کو ایشیاء کا بادشاہ سمجھتا ہے۔اس کی اس خواہش میں چین اور پاکستان کھٹکتے ہیں۔چین میں بھارت مداخلت نہیں کر سکتا اور پاکستان میں غداری و بدامنی پھیلانے کے لئے اربوں کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔روپ کے عوض بھارت نے ہمارے کئی آس پاس کے ہمسائیوں کو خرید رکھا ہے۔اب ملکی سیاسی کھیل وزیر اعظم کی کرسی اور وفاق کی تمام کرسیوں کا کھیل ہے۔اس کھیل کے لئے کوئی بھی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ملکی ترجیحات کی تمام ٹیمیں صرف باتیں ہی کرتی ہیں لیکن حقیقت میں سب کے لئے اپنی ترجیحات اور اپنے مفاد ہی اہم ہیں۔یہ کھیل دن بدن گھناؤنا ہوتا جا رہا ہے۔ملک عین وقت بین الاقوامی سازشوں کی زد میں ہے اور یہاں وفاق کو اپنی برتری کی اور اپوزیشنز کو اپنی برتری کی پڑی ہوئی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ کون کتنا بڑا اور بہتر ہے وہ الگ بات ہے کہ ہم لوگ میسنے ہو گئے ہیں۔اسی طرح صوبوں ڈویژنوں سٹی اور یونین لیول تک کھیل کھیلا جا رہا ہے ذاتی مفاد اور ذاتی برتری کا۔ہاں کھیل ضرور کھیلیں مگر صاف ستھرا اصولوں والا۔آپ سب جانتے ہیں کہ ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔اور کھلاڑیوں کو اصولوں کا پابند ہونا پڑتا ہے۔اور جو کھلاڑی یا ٹیم پابند نہیں ہوتی انہیں پابندیوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے جرمانہ اور متعدد سزاؤں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مگر ہمارے پابندیاں لگانے والے بھی اسی بد اصول کھیل کی گرفت میں ہیں۔دوستو صدق دل سے اپنے آس پاس کے سیاسی کھلاڑیوں پر ایک نظر دوڑاؤ ۔کیا وہ سیاسی کھیل کے اصولوں پر پابند ہیں؟یا وہ سزا کے اہل ہیں؟اور انہیں سزا کون دلائے گا؟جہاں تک میرا خیال ہے کوئی بھی کھلاڑی اور ٹیم ایسی نہیں جو اصولوں کی پابند ہو۔البتہ دو یا تین فیصد کھلاڑی کچھ اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ماضی میں بھی یوں اصولوں سے انکاری کھلاڑیوں اور ٹیموں کی کمی نہ تھی۔یہ سلسلہ بڑی دیر سے چلتا آرہا ہے۔ملک پاکستان ہر سطح پر سیاسی مفادات کے کھیلوں میں جکڑا ہوا ہے۔مگر اس کے باوجود بھی اللہ تعالی کی ذات نے اس وطن کو مستحکم رکھا ہوا ہے۔خدارا میرے وطن کے سیاسی کھلاڑیو !اپنے مفادات کے کھیل میں ملک میں افراتفری و بدامنی نہ پھیلاؤ۔اس کو اپنا حقیقی وطن سمجھو۔تمام اقتتدار اور کرسی کی باتیں مل بیٹھ کر حل کرو۔لوگوں کی ملک پاکستان کی زندگی اجیرن نہ بناؤ۔کارکنوں کو یوں شب روز استعمال نہ کرو ۔اگر ایسے ہی اندرونی شازشوں اور مفادات میں لگے رہے تو دشمن ممالک کو پاکستان کو کھوکھلا کرنے کا موقع مل جائے گا۔اس پاکستان میں اتنی دیر تک کوئی انقلاب کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک نچلی سطح تک انصاف تعلیم صحت اورتمام اختیارات فراہم نہیں ہوتے۔تب ہوگی تبدیلی جب جاگیردار اور بزنس مین کے بیٹے کی بجائے ایک غریب مسکین کا پڑھا لکھا بیٹا حاکم ہوگا۔سب مل کر ملکی سلامتی اورملکی مضبوطی کا کھیل کھیلو دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جاؤ گے۔پہلے اندرونی مسائل و سازشوں کا فوری خاتمہ وطن کی ضرورت ہے پھر ہی پاکستان غیر ملکی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے قابل ہوگا۔ہمیں وقت کو سمجھنا ہوگا۔اور سیاسی کھیل میں اصولوں کو اپنانا ہوگا۔تبھی کامیابی حاصل ہوگی۔