Sunday 24 September 2017

امن دشمن انسان نما شیطان



چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکنیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

موجودہ دور میں دنیا میں موجود تمام بڑی ریاستی طاقتیں میرے نزدیک امن دشمن ہیں۔شاید گزشتہ صدیوں میں کچھ اور نظام رائج ہو اور امن کے فروغ کے لئے کوششیں کی جاتی ہوں۔ اگر گزشتہ دور میں امن کو ترجیح دی جاتی تھی تو یہ دور تو پھر بالکل الٹ چل رہا ہے۔ہر انا پرست او ر اپنے مذہب سے بالاتر شخص بھی امن دشمن ہے۔
امن ہر ریاست کی ضرورت ہے۔ امن کو عظیم نعمت کہنا بجا ہوگا۔امن لفظ کا واسطہ آزادی سے ہے۔امن کسی بھی ریاست کے لئے مکمل آزادی مذہبی و ثقافتی آزادی ہے۔امن کسی بھی ریاست کا مکمل پر سکون ہونا کسی بھی قسم کی اندرونی و بیرونی جنگ سے پاک ہونا ہے۔ہر قسم کی الجھن سے آزاد ہونا ۔اپنے مذہب اپنی ریاست اور اسکے قوانین میں مگن رہنا،زندگی سے مطمئن ہونا سب امن کی علامات ہیں۔
دنیا میں امن بھی زیر گردش رہا ہے، امن کی فضا بھی گلوبل ونڈز کی طرح ہی ثابت ہوئی ہے،کبھی اس پار تو کبھی اس پار یعنی امن کبھی کسی مخصوص ریاست کے گرد نہیں رہا۔شاید انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ساتھ بڑا خطا کار بھی ہے جسکی بدولت امن انسانوں سے جلد روٹھ جاتا ہے اور کبھی کسی ریاست کو مستقل طور پر نصیب ہی نہیں ہوا۔یہ بھی درست ہوگا کہ ہر دور میں کچھ حاسد و شیطانیت پسند ریاستیں لوگ اور انکے پیرو کار بھی موجود ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ اپنی لپیٹ میں باقی ریاستوں و لوگوں کو بھی لے لیتے ہیں۔پھر رموٹ کنٹرول سے امن کی تاریخ ساز دھجیاں اڑاتے ہیں۔ایسی ریاستیں ایسے لوگ مذہب سے بالاتر ہوتے ہیں اور ہر دور میں مذہب کا لبادہ اوڑھے فرعونیت کو فروغ دیتے ہیں،انہیں وقت کا فرعون کہنا بجا ہوگا۔میں کوئی عالم نہیں ،عام انسان ہوں۔درد دل رکھتا ہوں، اور دنیا میں امن کا خواہاں ہوں۔دنیا کے فرعونوں کی نشاندہی کرنا میرے بس کی بات نہیں،میں زندگی کا تجزیہ اپنے خیالات کے مطابق کر رہا ہوں ۔متفق ہونا نہ ہونا ضروری نہیں۔امن تمہید باندھنے کا مقصد ہے کہ موجودہ دور میں عالمی امن کو لاحق خطرات پر بات کی جا سکے۔یقین کیجئے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتا ،دیکھتا اور پڑھتا آیا ہوں کہ عالمی امن خطرات سے دو چار ہے،اور واقعی ایسا ہی ہے عالمی سطح پر دیکھ لیں فلسطین ، برما اور کشمیر جیسی کئی ریاستیں ہیں جہاں دنیا کے نمبر دار براہ راست انسانیت کی دجھیاں بکھیرنے میں ملوث ہیں۔امن و انسانیت کا معیار اتنا پست ہوگیا ہے کہ گلی محلوں تک اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔افراتفری کا غلبہ ہے، ہر طرف ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے چکر میں انسانیت کی حدوں کو پھلانگ کر امن کی دجھیاں بکھیری جاتی ہیں۔یقین کیجئے یہ سب وقت کے فرعونوں کی بدولت ہے،ورنہ انسانیت کا احساس کسی براعظم ، ملک یہاں تک کہ شخص کے دل سے نہیں نکل سکتا ہے ۔کونسی ریاستیں شیطانیت کی پیرو کار ہیں اور کیسے پیروکار بنیں؟تمام ریاستیں جنہوں نے اپنی برتری و نمبرداری کے چکر میں انسانوں کو قتل کروایا اور اپنے پراپیگنڈے سے دوسری چھوٹی ریاستوں میں افراتفری پھیلا کر ان کے امن و آزادی کو داؤ پر لگایا۔شروع ہی سے امن تباہی کا باعث ایسی ریاستیں ایسے لوگ اور نظریات بنے ہیں جنہوں نے لوگوں پر زبردستی حکمرانی اور ظلم کئے ہیں اور اپنی برتری اور بڑائی کے لئے شیطان کی بغل میں بیٹھ کر انسانیت کی دجھیاں بکھیریں ہیں۔عرصہ دراز سے دنیا میں یہی چلتا آرہا ہے۔درست ہے کہ اللہ رب العزت خطا کاروں کی رسیاں دراز کر دیتا ہے اور ایک دن وہ اپنی خطاؤں کے بوجھ تلے ہی دب کر مر جاتے ہیں۔قارئین موجودہ دور کی سب بڑی ریاستی طاقت امریکہ ہے جو ٹیکنالوجی میں بھی بہت آگے ہے۔ذرا غور کیجئے کہ امریکہ نے امن کا نام استعمال کر کے کتنے لوگوں کا امن تباہ کر رکھا ہے۔امریکہ کی مکاری و عیاری کسی چھپی نہیں۔امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ آرڈر کے زریعے دنیا میں ٹیکنالوجی عام کر کے دنیا کی توجہ اپنے نظریات کی طرف مبذول کروائی اور افراتفری کی فضا کو عام کیا۔اپنے شیطانیت پسندانہ عزائم کو دنیا بھر میں پھیلایا۔لوگوں کے نظریات پر گرفت حاصل کی۔آزادی و امن کا نعرہ لگا کر درحقیقت اپنا پیروکار بنایا اور متعصب پسند خیالات کو ترویج دی۔دنیا کے وسائل پر قبضہ کیا اور ان کو قرضوں کی لپیٹ میں لیا۔پنجابی میں کہتے ہیں کانا کیا۔امریکہ نے بہت سی ریاستوں کو لالچ میں کانا کر کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔میڈیا پر تسلط جما کر اخلاق و عزت کا خاتمہ کیا، انا و میں کو ترجیح دی۔ان سب کی بدولت معاشرے کا توازن بگھاڑا اور افراتفری کو فروغ دیا کہ لوگ بھلائی کے بارے میں سوچ نہ سکیں۔اخلاقی باتیں تو ہوں مگر کوئی عمل نہ کر سکے۔انفرادی طور پر ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی کا مارا ہو، ڈپریشن سوسائٹی کی جڑوں میں سرائیت کر جائے،زندگی برق رفتار ہوجائے اور کسی کو موقع ہی نہ ملے کہ وہ چند لمحات نکال کر معاشرے کی تشکیل کے بارے سوچ سکے ،ہر شخص اپنی میں کا مارا ٹیکنالوجی کی قید میں زندگی بسر کر جائے۔خود ہی سوچئے انسان نما امن دشمن کون ہیں؟، اورانکے مقاصد کیا ، ؟کیا یہ شیطان کے پیرو کار نہیں؟یہ تمام بڑی سپر پاورز امریکہ، روس، چائنہ جرمنی برطانیہ، اور بھارت سب امن دشمن ہیں ان سب کی بس یہی کاوش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے اپنے خطے میں موجود ریاستوں پر اپنا تسلط جمایا جائے،چاہے اس کی مد میں انسانیت کی دجھیاں ہی کیوں نہ بکھیرنی پڑیں۔ان سب کے طریقہ واردات ذرا مختلف ہیں،مقصد و ارادے ایک ہیں۔ان طاقتوں سے امن کی امید اور ان کے منہ سے امن کے نعرے بے سود ہیں ،جو خود امن و انسانیت کے دشمن ہوں۔انہیں بس یہی کہنا بجا ہوگا امن دشمن انسان نما شیطان!

Sunday 17 September 2017

پا ک بھارت آبی تنازعہ

چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینئر ہیں اور وائس آف سوسائٹی کے
سی ای او ہیں۔
دنیا میں شروع ہی سے یہی اصول چل رہا ہے کہ دریا چاہے کسی بھی ریاست سے نکلتا ہو مگر وہ جہاں سے بھی گزرے گا اس کے باسیوں کا دریا کے پانی پر پورا حق ہوگا،اور اگر کوئی قدرت کے اس گزرتے پانی کو کسی ریاست کے استعمال کے لئے روکے تو وہ جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔
میرے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعہ کھڑا کرنے کا منصوبہ تقسیم ہند کے دور کا ہے،البتہ اس پر عمل درآمد تب سامنے آیا جب بھارت نے مسلمان اکثریت والی ریاست کشمیر پر اپنا تسلط جما لیا۔ یہ ہند وائسرائے اور ہندو لیڈروں کا باہمی منصوبہ تھا۔تقسیم کے وقت کی جانے والی ناانصافی آج پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔کشمیر کے قریبی چند مسلم علاقے جن کو تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ بننا تھا جان بوجھ کر بھارت کو دیئے گئے تاکہ بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ جما سکے۔درحقیقت بھارت کے کشمیر پر قبضے سے ہی آبی تنازعہ شروع ہوگیا تھا۔قارئین پاکستان کو سیراب کرنے والے دریا بھارتی زیر اثر کشمیر سے ہی نکلتے ہیں۔کچھ برس گزرنے کے بعد جب بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو پاکستانی حکومت و ماہرین کو یہ ادراک ہوا کہ پاکستان تو ایک بڑے آبی مسئلے کا شکار ہے۔اس کے بعد بھارت کا پانی کو روکنا کا معمول بن گیا،جو اب تک جاری ہے صرف پانی کے روکنے کی مقدار میں کمی بیشی ہوتی ہے۔سندھ طاس معاہدے سے پہلے پاکستان میں لوگوں کے دلوں میں جنگ کے وسوسوں نے جنم لیا،ہر با شعور پاکستانی یہی سوچتا تھا کہ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے لئے ایک بڑی جنگ ہوگی،خدا نخواستہ اگر پاکستان پانی سے محروم ہوگیا تو ہمارے سرسبز میدان تو بنجر ہوجائیں گے قحط سالی ہمیں جکڑ لے گی،ہم سب چٹیل میدانوں میں افلاس کے مارے بادہ نشینوں کی طرح خوراک کی آس لگائے مارے مارے میلوں پیدل گھومتے نظر آئیں گے۔ایسے بے شمار وسوسے تھے جو پریشانی میں اضافہ کرتے تھے۔چناچہ پاکستان کی کاوشوں اور واویلے کے بعد 1960میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا جو اس وقت کے موجودہ ہمارے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم نہرو کے زیر نگرانی طے ہوا ۔یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی بدولت طے ہوا جس کی ضمانت پر دونوں ملک معاہدے کے لئے رضا مند ہوئے۔اس معاہدے کا فائدہ بھی بھارت کو پہنچا،کیوں کہ معاہدے کے تحت دو پاکستانی دریا راوی اور ستلج بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔باقی تین دریا سندھ چناب اور جہلم پاکستان کے حصہ میں آئے۔ورلڈ بینک نے معاہدے کے تحت پاکستان کو ڈیم بنانے کے لئے کچھ رقم فراہم کی جس کی بدولت پاکستان نے منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے۔چند برس گزرے بھارت نے اپنے کئے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنا شروع کردی پاکستانی حصے کے دریاؤں کا پانی روکنے کے لئے ان پر ڈیم بنانا شروع کر دیئے۔1984میں دریائے جہلم پر وولر بیراج اور1990میں چناب پر بگلیہار ڈیم اور اسکے علاوہ چھوٹے بڑے درجنوں منصوبے مکمل کر کے پاکستان کو پانی جیسی عظیم نعمت سے محروم کرنا چاہا۔ہمارے گزشتہ وقت کے منصوبہ سازوں نے غفلت برتی اور بھارتی ڈیم مکمل ہونے کے بعد ان کے ڈیزائنز کو عالمی عدالت میں چیلنج کیا۔پاکستان کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ اب تو ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور خلاف ورزیوں سے باز نہ آیا اور پاکستانی حصے کے دریاؤں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کا منصوبہ تیار کرلیا۔بس اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دریاؤں کا رخ تبدیل کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ایسے بے دھڑک منصوبوں کی بدولت ہی مودی سرکار پاکستان کو بنجر کرنے کی بڑھکیں مارتی ہے۔تاہم خوش آئیند بات یہ ہے کہ ہمارے آبی ماہرین نے گزشتہ غلطیوں سے سیکھا اوربھارت کے جانب سے کشن گنگا اور راتلے ڈیم کی تعمیر کی شروعات سے پہلے ہی ان ڈیزائنز پر عالمی بینک میں اعتراضات اٹھادیئے۔جس کی بدولت گزشتہ دو روز عالمی بینک کے ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں آبی کانفرنس ہوئی جو بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ٹھہری۔عالمی بینک نے حکم دیا تھا کو دونوں فریقین مل بیٹھ کر معاملات طے کریں،اگر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو ثالثی کورٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اب عالمی بینک کا حق بنتا ہے کہ وہ ثالثی کورٹ تشکیل دے۔سوچنے کی بات ہے کہ بھارت مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل کیوں چاہے گا جو اس کے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔پاکستانی قیادت کو بھارت سے کوئی امید وابستہ نہیں رکھنی چاہئے، بلکہ اپنی اعلی و تیز سفارتکاری کی بدولت دنیا کے سامنے بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں اور تعصب پسندی کو بے نقاب کرنا چاہئے۔تاکہ عالمی طاقتیں بھارت پر دباؤ ڈال سکیں۔پاکستان کو عالمی بینک کو اپنے آبی مسئلے کی نوعیت بارے تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہئے اور ثالثی کورٹ کی تشکیل کے لئے رضا مند کرنا چاہئے تاکہ پانی جیسی عظیم نعمت کے اس سنگین مسئلے کو حل کیا جا سکے۔اب اپنی حکومتوں کی ناکامی کا اندازہ لگائے کہ کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی پر اربوں خرچ ہوگئے مگر آج تک اس پر کام شروع نہیں ہوسکا۔بھارت ہے کہ دھڑا دھڑ ڈیم بنائی جا رہا ہے۔ہماری حکومت اور ذمہ داران کو جلد از جلد پانی کے اس سنگین مسئلے کو بھانپنا ہوگا اور بھارت نواز سازشوں کو بے نقاب کرکے کالا باغ سمیت مزید ڈیموں کی تعمیر کو ممکن بنانا ہوگا۔ورنہ بھارت کی ہٹ دھرمی تو برسوں سے قائم ہے۔میرے نزدیک موئثر اور فوری حل یہ ہی ہے کہ پاکستان جلد از جلد زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کر کے اپنے دریائی پانی کو محفوظ بنائے تاکہ پاکستان آئندہ برسوں قحط سالی کا شکار نہ ہو اور زراعت سے حاصل ہونے والی بھاری معیشت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔ذرا سوچئے!

Sunday 10 September 2017

ہماری خارجہ پالیسی


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ


کسی بھی ملک کے بیرونی و بین الاقوامی معاملات و تعلقات کے لئے خارجہ پالیسی انتہائی اہم و اہمیت کی حامل ہے۔خارجہ پالیسی دراصل اپنے ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی ہے۔دنیا میں کامیابی کے حصول کے لئے کسی بھی ملک کو ایک جامع اور مثبت خارجہ پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے۔دنیا میں کامیاب سپر پاورز کی کامیابی کے پیچھے انکی بہترین اور مفصل خارجہ پالیسی کا بڑا کردار ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے ہماری خارجہ پالیسی زیر بحث ہے،ہمارے تجزیہ کار اور ماہرین خارجہ پالیسی پر نقطۂ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔ماہرین کے نزدیک بدلتی صورتحال کے تناظر میں ملک پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں بھی بدلاؤ لانا چاہئے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک اپنی ناکام خارجہ پالیسی کی بدولت دنیا میں تنہائی کا شکار ہو جائے۔حکومت کے سیاسی مخالفین کے نزدیک ناکام خارجہ پالیسی کی بدولت حکومت نے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔گزشتہ چار برس وزارت خارجہ اور خارجہ پالیسی کا تعین نہ ہونا حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔قارئین ہمارا ہمسائیہ اور دشمن ملک بھارت جو ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کا ناپاک عزم کرچکا ہے،اپنی مفصل و چالاک خارجہ پالیسی کی بدولت وہ ایسا کرنے میں کافی حد تک کامیاب ٹھہرا ہے۔مودی سرکار کی چاک و چوبند خارجہ پالیسی نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی،یہ تو صرف اللہ رب العزت کی عنایت ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت کی وجہ سے کوئی بھی ملک ہم سے من و عن منہ نہیں پھیر سکتا۔بڑے افسوس کے ساتھ ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ہم مذہب ہمسائیہ ممالک بھی ہمارے مؤقف کے حامی نہیں۔دوسری طرف چوکنا دشمن بھارت جس کے اندر عرصہ دراز سے آزادی کی بغاوتیں موجود ہیں ،وہی ملک ہمیں تنہائی کا شکار کرنے کی طرف گامزن ہے۔میں مانتا ہوں بھارت ایک بڑی طاقت ہے،اسکی آبادی ہم سے زیادہ ہے ،افواج و اسلحے میں ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔مگر اس کے مسائل بھی ہم سے زیادہ ہیں ،اسے اپنی سلامتی برقرار رکھنے کے لئے ہم سے کہیں زیادہ مشکلات درکار ہیں مگر وہ اپنی کاوشوں میں مگن ہے۔الحمد للہ ہمارے اندرونی معاملات کافی حد تک بہتر ہو گئے ہیں اور بہتری کی طرف گامزن ہیں،بلوچستان کے حالات قدرے بہتر اور تسلی بخش ہیں۔مگر بھارت کے صوبہ پنجاب و بنگال سمیت بہت سے صوبوں میں آزادی کی بغاوتیں دن بدن بڑ رہی ہیں۔اتنے کٹھن اندرونی حالات کے باوجود بھارتی وزارت خارجہ و مودی سرکار نے عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف اپنی سفارت کاری پر زور دیا اور دنیا کی بڑی طاقتوں پر پریشر ڈالا کہ وہ پاکستان کو دہشتگردی کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔مگر ہماری حکومت ہے کہ چار برس خواب عشق و غفلت میں سوئی رہی اور جب سے نواز شریف نااہل ہوا ہے نااہلی کا رونا ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا ،کہیں ماتم اور کہیں جشن کا سماں ہے۔ملکی بہتری و عزت کی کوئی پرواہ نہیں۔قارئین یہ ہماری ناکام خارجہ پالیسی ہی ہے کہ امریکہ جو ہمیں کچھ عرصہ پہلے اپنا سب سے بڑا نان نیٹو اتحادی کہتا نہیں تھکتا تھا وہی آج ہمیں محض اس لئے دہشتگردوں کا حامی قرار دے رہا کہ اس کا نیا پیار نیا دوست بھارت خوش ہو سکے۔انتہائی دکھ و افسوس کا عالم تھا کہ گزشتہ دن ہمارے اکلوتے دوست ملک چین نے بھی ہمیں ڈو مور کا مطالبہ کر دیا، اور یقین جانئے یہ صرف ہماری ناکام خارجہ پالیسی کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔بھارتی سفارتکاری کا جادو ہی ہے کہ چین اپنے دوست ملک کے خلاف بولا اپنے دشمن کے کہنے پر، تاہم چینی حکومت کو چینی ماہرین نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔بلاشبہ مودی سرکار نے اپنی توسیع پسند اور چالاک پالیسیوں کی بدولت اپنے مفادات کے قریب پہنچنے کی پوری کوشش کی ہے۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستانی حکومت و ذمہ داران کب خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں؟اور کب اپنی عزت و آبرو اور مفادات کو مد نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں وضع کرتے ہیں۔گزشتہ روز وزیر خارجہ خواجہ آصف کا دورہ چین بہت خوش آئند اور معنی خیز ہے،جس میں چین نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی اور پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کاوشوں اور قربانیوں کو سراہا اور دنیا پر بھی ذور ڈالا کہ وہ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے اور دہشتگردی کی روک تھام کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔چینی وزیر خارجہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک چین دوستی برقرار رہے گی اور چین اپنے دوست ملک کی ہمیشہ ہمایت کرے گا۔اس اہم میٹینگ سے برکس سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا خاتمہ تو ہوگیا ،مگر پاکستان کو مستقبل میں چاک و چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،پاکستان اپنی نئی وضع کردہ خارجہ پالیسی پر کتنا کاربند رہتا ہے؟وزرات خارجہ کی طرف سے چین کے بعد ایران ،ترکی اور روس وغیرہ کے دوروں کا بھی زکر کیا گیا،جوکہ خوش آئند ہے۔اگر ایسا پہلے ہوجاتا تو آج پاکستان کو دنیا کی طرف سے ایسے ریمارکس سننے کو نہ ملتے،خیر دیر آئے درست آئے۔موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ایران جو کہ ہمارا ہم مذہب ہمسائیہ بھی ہے اس کو افغانستان کے معاملے پر اپنا حامی بنانا بہت ضروری ہے،جو اس وقت افغان معاملہ میں بھارت کا حامی ہے۔اہم بات پاکستان کو روس سے تعلقات بڑھانے کے ساتھ ساتھ امریکہ سے بھی تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔جیسے بھارت نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دی مگر روس سے اپنے تعلقات کو کم نہیں ہونے دیا ،اور پاکستان نے امریکہ سے تو تعلقات کم کرلئے مگر روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت نہیں دی۔یہ سب ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے جسے مستقبل میں مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔روس کو ہم پر زیادہ اعتبار نہیں ہمیں اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا ،پاکستان کے لئے بیک وقت روس کو اپنا گرویدہ بنانا اور امریکہ سے بھی تعلقات کو بہتر کرنا مستقبل کا بڑا چیلنج ہوگا۔یہی وہ طریقہ ہے کہ پاکستان سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر خطے میں معاشی طاقت بن سکتا ہے۔