Sunday 30 July 2017

عدالتی فیصلہ،ردعمل اور سوالات


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ

جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ روز جمعہ کو پانامہ لیکس کے کیس پر عدالتی فیصلہ سامنے آیا ۔بلاشبہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اس فیصلہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔مخالفین نے مٹھائیاں بانٹیں، ڈھول بجائے، اور بھنگڑے ڈال کر خوشی کا اظہار کیا۔بعض نے نوافل ادا کئے۔بالخصوص پی ٹی آئی کے کارکن زیادہ پرجوش نظر آئے۔فیصلے سے لے کر اب تک خوشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔عدالت عظمی کا یہ فیصلہ جہاں مخالفین کے لئے خوشیوں کا باعث بنا وہیں حامیوں کی لئے مایوسی کی وجہ بنا۔واضح کرتا چلوں عدالت نے نواز شریف کی نا اہلی کے ساتھ ساتھ نواز شریف ،اسحق ڈار ،مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز کے کیسز نیب کو ریفر کردیئے۔عدالت عظمی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے اور پاکستانی عوام اللہ کی عدالت کے بعد اس عدالت کو تسلیم کرتی ہے اسی بنا پر عدالتی فیصلے کو نا ماننے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہم من و عن عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔میڈیا کانفرنسز میں مسلم لیگ نواز کی طرف سے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا،تاہم مسلم لیگ ن سمیت نواز شریف کو بھی یہ فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔اسی طرح عوام کا بھی ردعمل بھی مختلف رہا۔کسی نے تحفظات کا اظہار کیا ،کسی نے تاریخی فیصلہ قرار دیا۔غور طلب بات یہ ہے کہ ماہر قانون و قانون دانوں کا رد عمل بھی ایک جیسا نہیں اکثر قانون دانوں نے فیصلے پر سوالات اٹھائے اور تحفظات کا اظہار کیا۔بعض قانون دانوں نے تکنیکی بنیادوں پر تنقید کی بعض نے تائید کی اور تاریخی فیصلہ قرار دیا۔سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو جہالت کو غلبہ حاصل رہا کافی گرما گرمی نظر آئی۔جاہل لوگوں نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خوب گالم گلوچ سے کام لیا،انتہا پسندی سر فہرست رہی جو کہ ہماری حقیقی روایت اور ساکھ کے منافی ہے۔سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے تحمل سے کام لیا کریں گالم گلوچ سے خود کو اور اپنی برائی کو عیاں نہ کیا کریں۔گزشتہ روز مسلم لیگ ن کا پارلیمانی اجلاس ہوا۔جس کے اختتام پر نواز شریف نے شہباز شریف کو بقیہ مدت کے لئے اور خاقان عباسی کو انٹرم ٹائم کے لئے وزیر اعظم نامزد کیا جس پر پوری پارٹی نے اتفاق رائے کا اظہار کیا۔تاہم مخالفین و ماہرین کی طرف سے تنقید سامنے آئی ماہرین کا کہنا ہے کہ نااہل شخص کی طرف سے وزیراعظم نامزد کیا جانا مذحقہ خیز ہے۔یہ تھی مختصر سٹوری ،اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔قارئین عدالت عظمی نے نواز شریف کو پانامہ کے معاملات پر نہیں بلکہ اثاثے چھپانے یعنی اقامہ کے معاملات پر نااہل کیا۔یعنی آئین کے آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت نااہل قرار دیا۔سوال یہ ہے کہ مدعی کی طرف سے کیس کرپشن کا دائر کیا گیا یا نااہلی کا؟اس پر مختلف قانون دان بھی تحفظات کا شکار ہیں،جو عدلیہ کی ساکھ کے لئے ٹھیک نہیں۔آزاد عدلیہ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے، اور آزاد عدلیہ سے انصاف پر مبنی فیصلے کی توقع کرنی چاہئے البتہ اگر بدقسمتی سے فیصلہ اس کے برعکس نظر آئے تو اس سے آزاد عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔آخر عدالت نے کرپشن پر نااہل کیوں نہیں کیا؟ کیا کرپشن ثابت نہیں ہوئی؟ان کے جوابات عدالت ہی دے سکتی ہے جو فیصلے کے بعد سے زیر گردش ہیں۔بڑی بات! جسٹس کھوسہ کا ایک عدالتی ریمارک سامنے آیا تھا جسے بعد میں حذف کر دیا گیا ۔’اگر 62,63 کا اطلاق کیا جائے تو سراج الحق کے علاوہ کوئی پارلیمنٹ میں صادق و امین نہیں بچے گا‘۔ البتہ نواز شریف 62آرٹیکل کے تحت ناہل ہوا۔کیا 62,63کی آڑ میں باقی اسمبلی ممبران کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا؟اگر نہیں تو کیوں؟ بالخصوص یہ سوال جسٹس کھوسہ کے لئے۔ماہرین کے مطابق بھٹو کے فیصلے کی طرح یہ فیصلہ بھی سوالات کا شکار ہے اور کبھی بھی اس فیصلے کو تاریخ میں نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جائے گا۔کیوں کہ کوئی بھی پارٹی نہیں چاہے گی کہ 62,63کے تحت انکے رہنما تاحیات نااہل قرار پائیں۔کیا عمران خان،آصف زرداری،پرویز مشرف،شیخ رشید،خورشید شاہ،جہانگیر ترین اور علیم خان وغیرہ اسے نظیر کے طور پر پیش کریں گے ؟کیا اسکا اطلاق اپنے اوپر چاہیں گے ؟ہر گز نہیں،کیوں کہ یہ خود بھی اس کی زد میں آکر نااہل ہو جائیں گے۔اسی لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ خوشیاں منانے سے پہلے فیصلے کو نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے (کاش ایسا ہو جائے)اور اب پاکستان کرپشن سے پاک ہوجائے گایہ ان کی خواہش ضرور ہے حقیقت میں تو ابھی بہت سے کام ہونا باقی ہیں۔نواز شریف کے بہت سے کیسز ماضی میں زیر التواء تھے جس طرح اب مشرف کا بغاوت کا مقدمہ زیر التواء ہے۔ماضی میں بھی ایسے کئی زیر التواء کیسز عدلیہ کے کردار پر سوال اٹھاتے رہے اور اب بھی بھی ایسا ہی ہے۔بلا امتیاز اور حقیقی احتساب نہ جانے کب شروع ہوگا؟کب تک ٹارگٹڈ احتساب جاری رہے گا؟آخر کرپشن کو جڑ سے کیوں نہیں اکھاڑا جاتا؟بلاتفریق سب کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟آخرکیوں؟کیا کچھ طاقتیں ہمارے اوپر حاوی ہیں؟کیا مفادات کے لئے کچھ کا احتساب اور کچھ کو بری ذمہ کردیا جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں ہے کیسے ہے وجوہات کیا ہیں؟کیوں کوئی منتخب وزیراعظم اپنی مدت نہیں کر پاتا؟ اگر کرپشن اس کی وجہ ہے تو ہم کیسے لوگ ہیں کہ ہم سے کرپٹ لیڈر ہی منتخب ہوتا ہے؟غلطی عوام کی ہے یا سازشی قوتیں طاقتور اور با اثر ہیں؟آخر اسٹیبلشمنٹ کہتے کسے ہیں؟ اس کا کیا کردار ہے؟ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے کوئی جوابات نہیں،عوام چاہتے ہوئے بھی ان کے جوابات حاصل نہی کر پاتی کیوں افراتفری کے اس کھیل میں عوامی توجہ و خیالات کو فوری ٹریپ کیا جاتا ہے۔اب وقت بدل رہا ہے سازشی بھی وقت کی رفتار سے چلنا سیکھ رہے ہیں اور ہم عوام ہیں کہ سیاست و اندرونی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں ۔ہمیں بھی بدلنا ہوگا اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کے لئے بدلنا ہوگا۔ہم کیسے بے وقوف ہیں کہ صرف ایک دو شخص کے احتساب پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اور باقی کرپٹ عناصر کو سلگتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر وہی سلگتی چنگاری ہمیں بار بار اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔آئیے ایک عہد کریں کے سب کرپٹ و بد اخلاق لوگوں کا احتساب کریں ،آواز اٹھائیں ایسی نہ ختم ہونے والے آواز جو پارلیمنٹ کے ایوانوں سے ہوتی ہوئی فوج کے ہیڈکوارٹرز سے گزر کر سیدھا انصاف کے کٹہروں میں جا گونجے۔واضح کرتا چلوں کہ کسی ادارے و پارٹی میں اچھے و برے لوگ دونوں ہوتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ چند برے لوگ ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں ہمیں انکا استحصال کرنا ہوگا۔ہمیں ایک آواز ہونا ہوگا۔کیا سب کے احتساب کا مطالبہ درست نہیں؟ اگر ہے تو چلو یکجا ہوجاؤ اور آواز و صدا بلند کرو ہر فورم پر، کہ ہمیں سب کا احتساب چاہئے۔میڈیا جس پر بہت سے الزامات ہیں ،اس کے پاس بھی موقع ہے کہ احتساب کے اس موسم میں’سب کے احتساب‘ کا مطالبہ اٹھا کر ملک و قوم کے وفادار ثابت ہو جائیں۔ 

Sunday 16 July 2017

پاکستانی احتساب


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ

پاکستان میں حقیقی معنوں میں کبھی احتساب ہی نہیں ہوا اگر ایسا ہوتا تو پاکستانی سیاست سے کرپٹ عناصر کا صفایا ہوجاتا۔پاکستانی احتساب بااثر لوگ صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ایسا عرصہ دراز سے چل رہا ہے،پاکستانی حکومتیں ہمیشہ ان باثر لوگوں کے زیر اثر رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کی قدر و قیمت ویسے ہی قائم دائم رہتی ہے اگر اللہ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے ایک دفع بھی ساری سیاسی جماعتوں کا حقیقی احتساب ہوجائے تو دوبارہ کوئی بدعنوانی پنپنے کا نام ہی نہ لے، اور لفظ احتساب کو عوام بھول جائے۔احتساب کے معنی ہیں جانچ پڑتال یعنی محاسبہ کرنا نفس عارف کا تفصیل تعینات سے ،ڈھونڈنا ان میں حقائق کو،پھر روک ٹوک وغیرہ۔اس سے مراد خلاف حکومت یا مخرب اخلاق اظہار خیال پر سیاسی پابندی ہے۔یہ قدیم یونانی طریقہ ہے جو رد و بدل کے بعد چل رہا ہے۔باقی دنیا سے بڑھ کر پاکستان میں لفظ احتساب زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔ہمیشہ عوام میں وہی چیز مقبول ہوتی ہے جسے وہ چاہے یعنی عوام عرصہ دراز سے حقیقی احتساب چاہتی ہے۔مگر افسوس کہ عوام کو احتساب کی تعریف و مفہوم معلوم ہی نہیں اسی لئے ہر دفع انہیں بے وقوف بنایا جاتا ہے۔قارئین آپ کو واضح بتاتا چلوں کہ جو عرصہ دراز سے پاکستان میں احتساب کی روایت پھل پھول رہی ہے وہ صرف موسمی ہے۔یعنی موسمی احتسابی روایت کے پس پردہ کچھ عناصر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔پاکستانی تاریخ سے باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیسے احتساب صرف مفادات کے برعکس اور ٹارگٹڈ طور پر کیا گیا۔اگر ایک بار بھی حقیقی احتساب ہوجاتا تو دوبارہ بار بار احتساب کی نوبت ہی نہ آتی۔یوں کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان میں ہونے والے احتسابوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔آپ سوچتے ہوں گے کہ میں کیسی فضول باتیں کر رہا ہوں ،مگر افسوس کہ یہی حقیقت ہے۔پاکستان میں متعدد بار احتساب کا رونا رویا گیا اور متعدد بار احتساب ہوا بھی مگر صرف وقتی و ٹارگٹڈ طور پر۔ایسے احتسابات کے بعد بھی پاکستان وہی پرانے طرز پر چل رہا ہے ،کرپشن بڑھ رہی ہے نانصافی قائم ہے۔بدلا ہے تو صرف اور صرف مفادات حاصل کرنے کا طریقہ بدلا ہے۔مفادات کی خاطر ایسے نت نئے قوانین و طریقے رائج کئے گئے کہ ملک کی دھجیاں اڑتی رہیں۔ملکی خود مختاری و سلامتی کو پس پردہ ڈال کر حکومتوں و اداروں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ملک ایک بار پھر احتساب کی فضا سے لبالب ہے۔ملکی سیاست کے سب سے بااثر اور وزیراعظم احتساب کی فضا کے زیر گردش ہیں۔عوام کے مطابق ملک میں بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔جلد حکومت کا تختہ الٹ کر اگلے الکشنز میں پی ٹی آئی بر سر اقتدار آنے والی ہے جو ملک کے قرض ختم کردے گی اور ملکی خودمختاری کو بحال و مستحکم کرے گی۔مگر میرے ملک کی بھلی عوام ہر بار کی طرح پھر بھول میں ہے نہیں جانتے کہ پس پردہ طاقتیں کیا چاہتی ہیں اور ملک کس طرف جا رہا ہے یقینی طور پر افراتفری کا غلبہ قائم کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کو روکا جا سکے۔چند سالوں سے ملکی سیاست پر نظر جمائے ہوئے ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستان پر حکومتوں سے زیادہ اداروں کا کنٹرول ہے۔میرے مطابق ملکی حکومتیں اسٹبلشمنٹ کے زیر اثر ہوتی ہیں چاہے وہ ملکی ہو یا انٹرنیشنل میرے خیال سے(آپ کی رائے مختلف بھی ہوسکتی ہے) بلکہ مختلف تجزیہ کاروں کا بھی یہی نظریہ ہے مگر کہنے سے ڈرتے ہیں کہ جو اسٹبلشمنٹ و ایجنسیوں کے زیر سایہ رہا اسے حکومت عطا کر دی گئی اس کے بعد جس نے ان باثر لوگوں کے مفادات کو یاد رکھا اس نے اپنی مدت پوری کی اور جس نے انکے مفادات کو پس پردہ ڈال کر ملکی مفادات کو ترجیح دی اس کو حکومت سے محروم ہونا پڑا۔ہم لوگوں کا بھی عالم دیکھئے کہ ہم جانتے ہوئے بھی ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں کہ انہوں نے کرپشن کرنی ہے۔کرپٹ لوگوں کو ایوانوں تک ہم خود پہنچاتے ہیں۔یہی ہمارا المیہ ہے۔شاید کچھ عناصر عین وقت ہمارے ذہن کو کنٹرول کر کے ہم سے یہ سب کرواتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس بار تو ہم پہلے سے زیادہ بالغ ہوگئے ہیں اور بہتری کی سمجھ رکھتے ہیں ہم آزاد ہیں اور بہتر فیصلہ لے سکتے ہیں ۔مگر ہم اپنی آزادی میں بھی غلطی پر ہوتے ہیں ہمیں ٹریپ کیا جاتا ہے مختلف طریقوں سے ہمارے زہنوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے،اور ہم نا چاہتے ہوئے بھی ہمیشہ کی طرح اپنی غلامی کا سودہ کر لیتے ہیں شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔آخر ایسا کیوں ہے؟ سب سے بڑی وجہ ہماری خودمختاری،یعنی عرصہ دراز سے ہماری خودمختاری کا سودہ ہمارے آباؤ اجداد نے جانے انجانے میں کیا تھا اور آج ہمارے پاس کوئی بہتر رستہ ہی نہیں۔خیر یہ بااثر عناصر کی برسوں پہلے پلاننگ ، ہمارے لیڈران کے لالچ اور ہمارے بزرگوں کی ناسمجھی کا نتیجہ ہے۔ہم بھی موجودہ دور میں سمجھداری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں ،کیوں بحثیت قوم ہم کبھی ایک پلیٹ فارم پر متفق ہی نہیں ہوئے؟۔یا پھر مختلف عناصر ہمیں اصل نظریات سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔خیر کچھ تو ہے جس کی بدولت ہم نا چاہتے ہوئے بھی خودمختاری کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ خودمختاری میں ہی بہتری و سلامتی ہے۔قارئین جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان بہتری کی طرف گامزن ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملکی ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اگر یونہی حکومت و اپوزیشن میں تصادم چلتا رہا تو ملک افراتفری کی زد میں آجائے گا جس سے پاکستان میں ترقی کی راہیں بند ہوں گی۔بات احتساب کی ہے تو احتساب بھی ضروری ہے مگر سب کا۔ملکی ترقی کو پس پردہ صرف ایک صورت میں ڈالا جا سکتا ہے اگر امید ہو کہ احتساب سب کا ہوگا اور ایسا احتساب ہوگا جس سے تمام کرپٹ اور سازشی بچ نہ پائیں گے۔اگر ٹارگٹڈ اور مفاداتی احتساب ہی ہونا ہے تو کیا فائدہ کیا حاصل؟میری عوام سے گزارش ہے کہ احتساب سب کا،مکمل احتساب کی آواز اٹھائیں تاکہ ملک ایک نئے سرے سے جدوجہد شروع کرے ،جیسے چائنہ نے کی۔مفاد پرست اور زیر اثر لوگوں کا خاتمہ ہو۔کیوں نہ ہم اپنی پسند اپنی پارٹی اور پسندیدہ شخصیت کو پس پردہ ڈال ایک آواز ہو کر سب کے احتساب کا مطالبہ کریں اور ایک ہی نعرہ لگائیں احتساب سب کا۔یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم نئے سرے سے ملکی خود مختاری کو اولین ترجیحات میں شامل کر سکیں گے۔ورنہ یہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر ملکی نقصان و غلامی کو فروغ دیتے رہیں گے۔آخر میں’کوڑے کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر مٹھی بھر کوڑا اچھالنے سے صفائی نہیں ہوجاتی‘بلکہ پورا کا پورا کوڑا ڈمپ کرنا پڑتا ہے۔پاکستانی احتساب بھی کوڑا اچھالنے کے مترادف ہے۔حقیقی و مکمل احتساب کی ضرورت ہے، ورنہ یہ لوگ حکومت حاصل کرنے کے لئے بلی چوہا ہی بنتے رہیں گے۔مگر پاکستان کا کیا بنے گا؟سوچنا ہوگا!

Sunday 9 July 2017

قومی سلامتی اور سازشی عناصر


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ

پاکستانی سلامتی کو جتنا خطرہ بیرونی سازشوں سے ہے ان سے کہیں زیادہ خطرات اندرونی سازشوں سے ہیں،جن میں مختلف این جی اوز مختلف تنظیمیں اور مختلف گروہ سرگرم ہیں۔افسوس ہم بے چارے سادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پڑھ لکھ کر آزاد ہوگئے ہیں مگر بہت سے عناصر انٹرنیٹ،سوشل میڈیا کے زریعے ہمیں استعمال کر رہے جن میں دین کے نام پر آزادی کے نام پر اور بہت سے طریقوں سے عوام کو ٹریپ کیا جا رہا ہے۔اور ہم بے چارے لوگ ہیں کہ ہمیں ملکی سلامتی پس پردہ ڈال کر ان سازشوں کے بنائے ہوئے کھیل پر ناچنا پڑتا ہے۔حقیقت میں ہم اصلاحی کام کررہے ہوتے ہیں مگر بعض اوقات جزباتی طور پر ملکی سلامتی اور خودمختاری کی دجھیاں ہم سے جانے انجانے اڑ ہی جاتی ہیں۔خیر اس میں عوام کا کوئی زیادہ قصور نہیں ہوتا بلکہ سازشی گروپ اور ان کے کنٹرول پینل اتنے مضبوط اور جامع ہوتے ہیں کہ ہر کوئی ان کی گرفت میں آجائے۔حکومت پاکستان کو اس کی اصلاح کے لئے مزید کام کرنا ہوگا اورایسے عناصر کو بے نقاب کرنے کیلئے کوششیں کرنی ہوں گی۔ملکی سلامتی عرصہ دراز سے زیر بحث ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی عسکری و سول قیادت نے ملکی سلامتی کو سب سے زیادہ مقدم جانا ،ملکی بقاء کی خاطر مشکل حالات میں طرح طرح کی سازشوں کا مقابلہ کیا۔بعض غلطیاں بھی سر زد ہوئیں، بعض اوقات سازشی عناصر کوغلبہ حاصل رہا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سازشی عناصر کی تشخیص نہ ہونا۔جیسے مرض کی تشخیص ہوجائے تو علاج کرنا آسان ہوتا ہے اسی طرح ملکی سلامتی کے خلاف ہونے والی سازشوں کی تشخیض بہت ہی ضروری اور اہم ہے اس ضمن میں حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئے جس میں مختلف ڈیپارٹمنٹ کے فلاسفر موجود ہوں جو ہر وقت ملک میں ہونے والی سازشوں کو بھانپیں اور متعلقہ اداروں کو ان کے بارے آگاہ کریں۔ملک پاکستان کی سلامتی سے جڑے چند ممالک قابل زکر ہیں۔بھارت، افغانستان،ایران،چین،امریکہ اور روس وغیرہ۔موجودہ صورتحال سے باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روس اور چائنہ پاکستان کے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔اور ہمسایہ ممالک بھارت ایران اور افغانستان سے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔امریکہ جو کہ ایشیاء میں اثر رسوخ کے لئے پاکستان کا استعمال کرتا رہا اس کے نا روا رویے اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو بھانپتے ہوئے پاکستان کا جھکاؤ چائنہ کی طرف بڑھ گیا ہے اور امریکہ سے تعلقات کافی حد تک کم ہوچکے ہیں۔مختلف مفکرین و تجزیہ کاروں کے مطابق چائنہ پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتا ہے اور روس امریکہ کی جگہ پاکستان کا استعمال چاہتا ہے ۔چائنہ پاکستان کا خیر خواہ اس لئے ہے کہ دونوں کا بڑا دشمن بھارت ہے اور اس کے علاوہ چائنہ براستہ پاکستان وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی چاہتا ہے سی پیک اسی ضمن میں جاری ہے۔دوسری طرف امریکہ بھارت کا بڑا حامی ہے اور بیک وطن بھارت اور پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے سازشوں کی دنیا کا بادشاہ ملک ہے امریکہ۔جبکہ بھارت تو پاکستان کا ازل سے ہی دشمن ہے اس کی بڑی وجہ کشمیر ہے۔افسوس ناک امر ہے کہ ایران و افغانستان مسلمان ممالک ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اسکی بڑی وجہ شاید بھارت اور اسکی خفیہ ایجنسی را ہے۔بھارت ایران میں چار بہار بندرگاہ کے لئے خطیر رقم خرچ کر رہا ہے تاکہ وہ ایران کی حمایت حاصل کرکے پاکستان کو خطے میں تنہا کرسکے۔ایران اور افغانستان پاکستان کے ہمسایہ ملک ہیں اسی لئے سازشی و مکار بھارت نے ان پر اپنا اثر ورسوخ بڑھا لیا ہے تاکہ پاکستان کی سلامتی کو ٹھیس پہنچا سکے اس کی مثالیں بھی سامنے آچکی ہیں۔جیسے کلبھوشن یادیو۔پاکستان اور چین کے مفادات ایک دوسرے سے منسلک ہیں باقی تمام ملک صرف سازشی عناصر کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں جن کے ماسٹر مائینڈ خود امریکہ و بھارت ہیں۔پاکستان کو اب امریکہ نواز پالیسیوں سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنی خودمختاری کو سر فہرست لانا ہوگا تاکہ ہماری سلامتی کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔پاکستان کو بیک وقت افغانستان پر اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی ضرورت ہے اوراس میں چین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور مسئلہ کشمیر کو مزید اجاگر کرنا ہوگا ۔گزشتہ دن وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سول و عسکری قیادت نے شرکت کی۔جس میں ملکی سلامتی امن اور کشمیر سمیت کلبھوشن کیس پر تبادلہ خیال ہوا۔ اجلاس میں اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ سازشی ملک بھارت کو دنیا میں بے نقاب کریں گے ۔ملکی قیادت نے فیصلہ کیا کہ بھارت کی ہر سازش کا بروقت اور موئثر جواب دیا جائے گا۔میں سلامتی کمیٹی کی ان کاوششوں کو سراہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ سول قیادت سفارتی سطح پر سازشی عناصر کو لگام ڈالے گی۔ امید کرتا ہوں کہ اندرونی سازشوں کی تشخیص کے لئے بھی کوئی موئثر اقدام کیا جائے گا۔متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کو اپنی خودمختاری عزیز ہونی چاہئے پاکستان خودمختار اور ثابت قدم ہوجائے تو بھارت تو خود ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا جس میں متعدد علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔موجودہ صورتحال پاکستان کے سامنے ہے اب پاکستان کو بھانپنا ہوگا کہ ان کے لئے غلط و درست کیا ہے اور یہ کام جتنا جلد ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے۔

Saturday 1 July 2017

دی کنٹریکٹر اور سوالات

چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

دی کنٹریکٹر نے منظر عام پر آتے ہی پاکستانی اداروں اور حکمرانوں کو کنٹریکٹر ثابت کردیا اور ایسے کنٹریکٹر جو اپنے آقا امریکہ سے خوف و ہراس کی وجہ سے ایک وطن کے اعلی عہدیداران ہو کر بھی کنٹریکٹر کا کام کرتے رہے۔’دی کنٹریکٹر‘ ایک کتاب کا نام ہے جو سابق امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اپنی آپ بیتی پر لکھی مگر اس آپ بیتی نے پاکستانی سربراہوں کے پول بھی کھول دیئے۔جہاں حکومتی بے بسی کے پول کھولے وہیں عوام کے دلوں میں افسردگی و سوالات بھی چھوڑے۔اور امید کرتے ہیں ہمارے ادارے اور نمائندگان وضاحت ضرور پیش کریں گے۔2011 کا یہ باب پھر سے کھل کر سامنے آگیا اور اس بار کچھ زیادہ ہی کھل کر سامنے آگیا۔ایک بار پھر محب وطن پاکستانی عوام سوالات کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔عوام کے دلوں میں طرح طرح کے سوالات گردش کرنے لگے ہیں۔عوام کے دلوں میں ملال ہے کہ وہ اپنی محنت اور کوشش سے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی محنت کی کمائی سے کچھ رقم ٹیکس کی صورت میں دیتے ہیں تا کہ انہیں تحفظ اور انصاف جیسی سہولتیں ملیں۔مگر افسوس کے قوم کا ہر فرد بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔مگر کیوں؟کیا ہم ان قرضوں کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے؟آخر ہمیں خودمختاری کب نصیب ہوگی؟پاکستان تو ایک خودمختار ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا آخر خودمختاری کہاں کھوگئی؟آیا ہماری خود مختاری ڈالرز کے عوض بک چکی ہے؟اربوں ڈالرز کے عوض اپنی خودمختاری بیچ کر بھی تعلیم صحت اور غربت میں فرق نہیں تو پھر ایسا کیوں ہے؟آیا ہمیں اپنی بدولت خودمختار ملک بن کر سوکھی روٹی بہتر نہیں؟یہ سوالات برسوں سے چلے آرہے ہیں اور ہماری خودمختاری کا جنازہ نکالنے کے لئے کافی ہیں۔اربوں ڈالرز کا قرض ہماری حکومتیں اور ادارے بٹور رہے کیا؟بحیثیت قوم ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ریمنڈ ڈیوس کے انکشافات غیرت مند قوم کے لئے آگ کے گولوں سے کم نہیں ہماری خودمختاری کی کرچیاں کرچیاں بکھری پڑی ہیں اس کتاب کے انکشافات میں۔افسوس کے کسی نمائندے کی طرف سے اس کی وضاحت بھی پیش نہیں کی گئی۔قارئین آپ کو بتاتے ہیں کیا انکشافات کئے ہیں ریمنڈ ڈیوس نے،اس کا کہنا ہے کہ اس نے دس گولیاں دو پاکستانیوں کے سینوں میں اپنے خطرے کی صورت میں سرعام لاہور شہر میں اتار دیں۔اس کے بعد اسے حراست میں لے لیا گیا جیسے ہی یہ معاملہ امریکہ تک پہنچا تو پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی ہوگئی۔اس نے کہا کہ اس کی رہائی کے لئے امریکہ نے کوششیں شروع کردیں اور پاکستان اور اسکے اداروں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ اسی ضمن میں جان کیری نے نواز شریف سے ملاقات کی نواز شریف نے بازیابی کی یقین دہانی کرائی مزید بتایا کہ اس کی رہائی کے لئے جنرل پاشا نواز شریف اور صدر آصف زرداری متفق تھے۔حسین حقانی نے بھی بڑا کردار ادا کیا ۔ان سب نے امریکی سفارتکاروں کے ساتھ مل کر رہائی کی پلاننگ کی۔تاہم دیت کے تحط معاملات نمٹانے کے لئے کوشش شروع کر دی گئی مگر لواحقین ماننے کو تیار نہیں تھے اسی لئے لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا اور اس میں آئی ایس آئی اہلکاروں نے بھی مدد کی۔مزید کتاب میں لکھا کہ سب سے زیادہ مدد اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے کی۔انہوں نے پیشی کے دوران احاطہ عدالت میں رہ کر امریکی سفیر کیمرون منٹر کو میسجز کے زریعے عدالتی کاروائی کے بارے آگاہ بھی کیا۔قارئین یوں ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز کا خون بہا زبردستی لواحقین کو تھما کر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا حکم لکھ ڈالا۔یہاں بھی عوام کے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ ،کیا عدالت کو علم نہیں تھا کہ لواحقین پر دباؤ ڈالا گیا ہے؟۔یقینی علم ہوگا۔مگر افسوس کے قرآن واسلام کا حلف اٹھانے والے یہ عادل بھی خوف اور طاقت کے سامنے بے بس نظر آئے اور انصاف کی دجھیاں اڑادیں۔مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی وضاحت نہیں دے گا۔مگر عوام جاننا چاہتی ہے کہ کتاب میں سب حقیقت ہے کیا؟اگر نہیں تو وضاحت پیش کریں؟شاہ محمود وہ واحد شخصیت ہیں جو امریکہ کے سامنے دیوار بنے اسکی گواہی ڈیوس کی کتاب بھی دیتی ہے۔دنیا کی نمبر ایک انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے لمحہ فکریہ ہے انہیں از سر نو تحقیقات کرنی چاہئے اور ذمہ داران کو سزا دینی چاہئے تاکہ ملکی خود مختاری اور سلامتی کو یوں رسوا کرنے کی رسم تھم جائے۔عوام کی طرف سے منطق پیش کی جا رہی ہے کہ پاکستان ڈاکٹر عافیہ کو بازیاب کروا سکتا تھا مگر ڈیوس کی مدد کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی اور عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کرنے کی ہمت ہی نہیں کی۔واقعی بھکاریوں کی کوئی عزت نہیں۔بڑی بات، جب بات عزت نفس تک پہنچ جائے تو تعلق کو ٹھوکر مار دینی چاہئے عزت کا دفاع سب سے ضروری ہے تعلق بنتے رہتے ہیں۔دی کنٹریکٹر کا خلاصہ پڑھ کر اپنی حیثیت کا باخوبی اندازہہوگیا ہے پاکستانی عوام کو ، التجا ہے موجودہ آرمی چیف صاحب سے کہ ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے اور ملکی خودمختاری کو بحال کیا جائے عوام خودمختاری کی بحالی کے لئے تیار ہے۔چاہے اس کے عوض ہمیں پابندیاں ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں۔
سر شرم سے جھک گیا وطن کا
حاکم ہی بھک گیا وطن کا
محافظ بھی ظالم بنا وطن کا
ب بس نکلا عادل بھی وطن کا