Sunday 30 September 2018

تبدیلی کہاں ہے؟


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

ہم سب بھی دنیا میں موجود ایسی قوم کا حصہ ہیں،جن کی اکثریت عملی لحاظ سے سست اور کاہل ہے۔ایسی قوم جس نے بڑے قابل ، زہین اور تاریخ دان دیئے ہوں۔مگر اس کی اکثریت عملی لحاظ سے سست اور زبانی کلام میں درجہ اول کی ہو۔ہمیشہ اکثریت کی بدولت اقلیت کو پنپنے کا خاص موقع ہی نہیں ملتا۔مجموعی لحاظ سے ہم خاصی الجھی ہوئی قوم ہیں۔لیڈرشپ کا فقدان واضح ہے۔اپنی سمت خود تعین کرنے سے عاری، بنے بنائے راستوں پر چلنے کی عادی قوم۔شاید دنیا میں ایسی ہی اکثریت ہو ۔مگر ہم بھی وہی قوم ہیں، جن کو واویلہ مچانا خوب آتا ہو۔کامل یقین سے عاری، اور بے یقینی سے پیوستہ۔بے یقینی ہمیشہ وسوسوں کو جنم دیتی ہے۔وسوسے افراتفری کو فروغ دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عمل سے عاری قوموں میں ہمیشہ مایوسی ہی جھلک رہی ہوگی۔شکایات کے انبار نے زہنوں پر منفیت کو مصلت کیا ہوگا۔’اللہ اتنی دیر تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود نہ چاہے‘۔یہاں چاہنے سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ کوئی خلائی مخلوق آئے اور سب بدل جائے۔حقیقی تبدیلی عوام ہی لا سکتی ہے۔عمل سے،تحمل سے اور دانائی سے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ،ہم کسی ایک نظریے پر چلتے ہی نہیں۔ہماری باتوں اور عمل میں بڑا تضاد موجود ہے۔شاید ہم زمانے کی رفتار کو صحیح سمجھ نہیں پائے۔بطور پاکستانی عوام ہم سب عمل سے عاری ہیں۔اول درجے کے بے صبر۔تحمل وبرداشت شاید قریب سے بھی نہ گزری ہو۔البتہ باتوں سے ہم خود کو بڑے درجے کے دانشور و دانا ظاہر کرتے۔مگر عملی میدان میں ہماری دانائی گہری نیند سو جاتی ہے۔بات پاکستان کی موجودہ حکومت کی ہو۔چند مہینے پہلے بڑی دانائی کی باتیں کر رہے تھے۔واقعی خود کو عوام میں اول درجے کے دانا بھی ثابت کر چکے۔یہی وجہ ہے کہ آج حکومت میں ہیں۔تحمل و برداشت تو پہلے ہی سے دور رہی ۔مگر ایک دانائی کا ہی سہارا تھا ،جس کی بدولت حکومت ملی۔تبدیلی کے بڑے دعوے۔سو دن میں ملکی قسمت بدلنے کے کرتب۔کرپشن کا دنوں میں ہی جڑ سے سوکھ جانا۔بیرون ملک موجود پاکستانی رقم کی وطن واپسی کی کامیاب ترین ترکیبیں۔قومی کرکٹ ٹیم پر سے وزیراعظم کے اثر ات کا خاتمہ۔رشتہ داروں اور دوستوں کو وزارتوں سے پرے رکھنا۔وزراتی پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کی دوا۔نوجوانوں سے بھرے ایوان۔پڑھا لکھا ایوان ہمارا۔پروٹوکول کو غائب کرنا۔سائیکل کو جہاز کا درجہ دینا۔پٹرول کو پانی کی طرح عام کرنا۔مہنگائی کی کمر توڑ دینا۔آئی ایم ایف سے نظر چرانا۔ملک کو خودمختار بنانا۔دوسرے ملکوں کو قرض دینا۔ایسے دعوے ہرگز کسی بنگالی بابا نے نہیں کئے تھے۔ بلکہ ہماری ہونہار موجودہ حکومت نے کئے تھے۔ایسے ہی کچھ کرتب اور ترکیبیں 2013 کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ نواز نے بھی بتائی تھیں۔اس سے پہلے یہ کرتب دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی بتائے گئے ہوں گے۔تو تبدیلی کہاں گئی؟ہو سکتا ہے، تبدیلی الیکشن کی تھکاوٹ اتار رہی ہو۔الیکشن کے بعد وہی رویہ حکومت کا ہے ،جو ماضی کی حکومتوں کا رہا۔وہی رویہ اپوزیشن کا ہے، جو ماضی میں اپوزیشن کا رہا۔تو بدلاؤ کہاں ہے؟فواد چوہدری اور مشاہداللہ کا ایک دوسرے پر تنقید کرنا، بھی تبدیلی کا حصہ نہیں۔بلکہ ہر گز نہیں ،ماضی میں ایسی تنقید خود عمران خان، خواجہ آصف،عابد شیر اور مراد سعید اور دیگر بھی کرتے رہے ہیں۔الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پہلے بھی تھے ،اور اب بھی ہیں۔اپوزیشن کی حکومت کا دنوں میں بستر گول کرنے کی دھمکی، بھی تبدیلی کا حصہ نہیں۔ایسا تو گزشتہ معروف دھرنوں میں بھی ہوتا رہا ہے۔عوام کا حکومت کو منتخب کر کے جلد بدگمان ہو جانا، بھی ہر گز نیا نہیں۔ایسا بھی ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہے۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر ملکی امور کو روکنا،پہلے بھی ہماری فطرت میں شامل تھا ،اور اب بھی ہے۔حکومتی اکڑ پہلے بھی تھی، اور اب بھی ہے۔تنقید برائے تنقید پہلے بھی تھی ،اور اب بھی ہے۔عہدوں کی بندر بانٹ پہلے بھی تھی ،اور اب بھی ہے۔تو بدلا کیا ہے؟کچھ نہیں۔صرف طریقہ واردات کے علاوہ۔گزشتہ حکومت نے چار دن تنخواہیں نہ لینے کے دعوے کر کے عوام کو بے وقوف بنایا تھا۔اب کی حکومت بھینسیں بیچ کر خوب داد وصول کر رہی ہے۔میں اس فقرے سے بالکل متفق ہوں’ جیسی عوام ویسے حکمران‘۔
یاد رکھئے !کہ اتنی دیر تک کچھ نہیں بدلے گا ،جب تک ہم نہیں بدلیں گے۔ہمیں اپنے اندر مثبت سوچ کو جذب کرنا ہوگا۔منفیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔صبر کے پیمانے کو وسیع کرنا ہوگا۔تحمل و برداشت سے آشنا ہونا پڑے گا۔ذاتی انا کو پرے رکھ کر غلط کو غلط اور درست کو درست کہنا ہوگا۔اپنی منتخب کردہ حکومت اور نمائندے پر یقین کرنا ہوگا۔انہیں وقت دینا ہوگا۔تنقید کرنا ہوگی مگر جائز تنقید۔پارٹیوں کی گرفت سے نکل کر محب وطن پاکستانی بننا ہوگا۔جائز تنقید سننا ہوگی۔چاہے خود پر ہی کیوں نہ ہو۔کسی کی مخالفت میں گھٹیا جملوں اور پرپیگنڈہ سے اجتناب کرنا ہوگا۔اگر حکومت غلط ڈگر پر ہو تو مل کر پوری قوم کو مخالفت کرنا ہوگی۔اگر اپوزیشن غلط کرے تو سب کو مل کر اسے براکہنا ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں کی محبت سے نکل کر ملکی سلامتی کا سوچنا ہوگا۔سیاسی ورکر بننے کی بجائے ملکی ورکر بننا ہوگا۔حق کا ساتھ دینا ہوگا۔جتنا بھٹو گے اتنا بھٹکو گے۔چھوٹی سی مثال آخر پر ،اس گاؤں کا کام کوئی سیاستدان نہیں کرتا ۔جس کی عوام مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوجائے۔کیوں کہ اس گاؤں کی نظریاتی تقسیم کی بنا پر ووٹ کی قدر ختم ہوجاتی ہے۔عوام کو اپنی قدر بڑھانا ہوگی ،متحد ہوکر۔ورنہ! تبدیلی لفظ کو بھول جاؤ۔
شعر کو زرا مروڑنے پر معزرت
یہاں بدلی ہے نہ عادت حکومت کی ،نہ ہی اپوزیشن کی
وہی ہے بے صبرعوام ،اس میں ہر گز کوئی تبدیلی تو نہیں

Sunday 16 September 2018

بے روزگار انجینئرز


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری مکینیکل انجینئر اور وائس وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

اعزاز جیسے کتنے ہی انجینئرز ہوں گے جنہوں نے انٹرمیڈیٹ میں سخت محنت کی بدولت انجینئرنگ یونیورسٹیز میں داخلہ لیا ہوگا۔یہ لمحات واقعی ان کے اور گھر والوں کے لئے مسرت کا باعث بنے ہوں گے۔والدین کے چہروں کی چمک عیاں ہوتی ہوگی۔بہت سی امیدوں اور خوابوں کی تعبیر میں، کامیابی کی راہ پر گامزن !ان کی آنکھوں کے تارے گھر کے آنگن کو روشن کر رہے ہوں گے۔جوں توں کر کے ،قرض اٹھا کر، مزدوری کرکے ،زیورات بیچ کر، یا پراپرٹی بیچ کر چار سال کی فیسیں اتاری ہوں گی۔یہ کٹھن وقت والدین نے بڑی ہمت اور آس و امید سے گزار دیا ہوگا۔ڈگری مکمل ہونے پر’ کنووکیشن ‘کے موقع پر والدین کو اپنے چمکتے ستاروں کی مسکراہٹ میں اپنے خوابوں کی تکمیل نظر آرہی ہو گی۔باعث فخر سارے خاندان کو مٹھائیاں کھلائی ہوں گی ،مبارکبادیں وصول کی ہوں گی۔مگر وقت کی رفتار تھی کہ کم نہ ہوئی نہ ہی ان مسرت بھرے لمحات کا دورانیہ بڑھا۔کچھ عرصہ گزرا کہ چند انجینئرز ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ٹرینی انجینئرز بھرتی ہوگئے۔کچھ کی سیاسی وابستگی اور شناسائی کام آگئی۔کچھ کے والدین نے ہمت بڑھاتے ہوئے اپنے ستاروں کو مزید پڑھنے کے لئے بیرون ملک اور پاکستان میں داخلہ کر وا دیا۔اب آخری قسم کے انجینئرز جن کی تعدا د شاید سب سے زیادہ ہے۔یہ درمیانے طبقہ سے ہوتے ہیں، اور درحقیقت ان کے والدین اپنی ساری جمع پونجی حتی کہ قرض لے کر بھی ان کی تعلیم پر صرف کر چکے ہوتے ہیں۔اب انہی انجینئرز پر بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔عرصہ گزرتا ہے،مسلسل ناکامی کے باعث بہت سے اپنی فیلڈ بدل کر سکول ٹیچر بن جاتے ہیں ،سیلز مین بن جاتے ہیں،اور یہاں تک کہ سی ایس ایس جیسے مقابلے کے امتحانوں کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔زہنی دباؤ ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ڈپریشن میں اضافہ کے لئے رشتہ داروں کی پوچھ گیچھ جلتی پہ تیل کا کام انجام دیتی ہے۔ایسے مشکل حالات اور ڈپریشن کی حالت میں بہت سے انجینیئرز غلط راہ اختیار کرتے ہیں۔باقی بچنے والے انجینئرز کی قسم اعزاز والی ہے۔اعزاز راولپنڈی سے نسٹ سے مکینیکل انجینئرنگ گریجوئیٹ تھا۔ جس نے مسلسل نوکری نہ حاصل کر نے پر زہنی دباؤ و ڈپریشن سے ہمیشہ نجات کے لئے اکتوبر 2017کوخودکشی کا راستہ اختیار کیا۔ایسے مزیدکم ہمت نوجوان ہیں، جو خود کو الجھنوں سے آزاد کر کے والدین کی آنکھوں کا نور ہمیشہ کے لئے بے نور کر جاتے ہیں۔یہ واقعات ہماری حکومت ومعاشرے کی بد انتظامی کوعیاں کرتے ہیں۔دنیا بھر میں انجینئرنگ و ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ سر فہرست ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ ، روس، انگلینڈ ، چائنہ، جرمنی، اور جاپان وغیرہ دنیا میں نمایاں ہیں۔ مگر ہمارا نظام تو یکسر مختلف ہے۔ہمارے ہاں انجینئرز تھوک کے حساب سے تول کر بک رہے ہیں مگر پھر بھی خریدارانہیں خریدنے سے قاصر ہیں۔آج ہمارے انجینئرز یونیورسٹیز میں بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر دنیا بھر میں نام کما رہے ہیں۔مگر ہماری حکومتیں بڑے پراجیکٹس پر اپنے انجینیئرز کو موقع دینے سے قاصر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے شہر کراچی اور لاہور جتنے بڑے ممالک بھی مختلف مقامات پر ہم سے بہت آگے ہیں۔ہماری حکومت اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کی ناکامی کی انتہا یہ ہے، کہ آج تک 2015 ,2016,2017کے انجینئرز فریش ہیں،اور ٹرینی انجینئرز کی پوسٹوں پر اپلائی کر رہے ہیں۔آج بھی پاکستان بھر سے پچاس ہزار کے قریب انجینئرز بے روزگار ہیں۔حکومت اور پی ای سی ہمیشہ سے ’جاب پلیسمنٹ ‘میں ناکام رہی ہے۔ڈسکاؤنٹ جیسے جھوٹے بہلاوے دیے جا رہے ہیں۔کیا فائدہ ایسے ڈسکاؤنٹ کا اگر سپر وائزری سرٹیفیکیٹ حاصل کر کے بھی روزگار نہیں ملنا؟ جب روزگار ہی نہیں تو کیا خریدیں کیسے ڈسکاؤنٹ استعمال کریں؟ہماری حکومتوں کا المیہ یہ ہے، کہ انہیں’ چیک اینڈ بیلنس‘ نام سے آشنائی ہی نہیں۔کوئی خبر و علم نہیں کہ کیسے اداروں کو کنٹرول کرنا ہے۔ہماری ہاں ڈیمانڈ کہاں ہے۔بھائی جتنی گنجائش ہے جس شعبے میں اسی حساب سے یونیورسٹیز کو سیٹیں آلاٹ کرو۔اگر ’سپلائی و ڈیمانڈ‘ کا علم ہی نہیں ہوگا ،تو ہمارے ادارے عدم توازن کا ہی شکار رہیں گے۔ہماری حکومتیں جب بڑے پراجیکٹس پر فارن انجینئرز اور ورکرز کو لگاتی ہیں، تو انجینیئرز کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔طرح طرح کے سوال جنم لیتے ہیں۔کیا ہمارے انجینئرز قابل نہیں؟ اگر ایسا ہے تو بیرون ملک جا کر یہ کامیاب کیوں ہو جاتے ہیں؟ہمارے ہاں بہت سی کمپنیاں سوائے چند ملٹی نیشنل کے فریش انجینئرز کو بھرتی ہی نہیں کرتیں۔بھائی کہاں سے لائیں یہ تجربہ موقع نہیں دو گے تو تجربہ کہاں سے آئے گا۔اگر کوئی کمپنی فریش انجینیئرز کی پوسٹ نکالے بھی تو چھ ماہ کا تجربہ مانگ لیتی ہے۔بہت سی چھوٹی کمپنیوں میں انجینئرز مزدوروں سے بھی کم اجرت پر کام کررہے ہیں۔ایسے میں انجیئرز کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوگا۔ یہ حالات تو ان انجینیئرز کے ہیں جو پاکستان انجینیرنگ کونسل سے رجسٹرڈ ہیں۔ آپ خود سوچ لیں کہ، وہ انجینئرز اور ٹیکنالوجسٹ جو انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ نہیں انکی بے بسی کا کیا عالم ہوگا؟کیابڑھتا ڈپریشن خودکشی کے لئے کافی نہیں؟کیا ہمارا نظام و معاشرہ بلو وہیل جیسی خونی گیموں سے زیادہ بھیانک نہیں؟کیا یہی قصور ہے ان انجینئرز کا کہ انہوں نے سوچا کہ اپنے وطن کی ترقی کے لئے انجینئرنگ و ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ میں کام کریں گے؟کون ان کی بے روزگاری کا حل نکالے گا؟کیا کروڑوں نوکریوں میں ان کا بھی کوئی حصہ بنتا ہے؟کیا لاکھوں گھروں میں انہیں بھی کوئی گھر ملے گا؟یا یونہی ہر سال حکومت نے اپنا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نظر کرنا ہے؟وقت ہے کہ ملک کا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نظر ہونے سے بچایا جائے۔ اس سرمائے کو، ان کی جوان ہمت کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے۔ذرا سوچئے!