Sunday 22 October 2017

محکمہ صحت پنجاب


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

تندرست و توانا شریر و جسم ہی توانا ذہن کو تعمیر کرتا ہے اور ذہن ایک مثبت سوچ کو جنم دیتا ہے ،تعلیم اس مثبت سوچ کو وہ راہ دکھاتی ہے جو قوم و وطن کو بہتری کی راہ پر گامزن کرے۔افسوس کہ ہمارا معاشرہ تو تعلیم اور صحت دونوں میں بہتری نہ ہونے کی بدولت نفسیاتی بیماری و کشمکش میں مبتلا ہے۔یہی کشمکش ہماری قوم کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے۔
تندرستی ہزار نعمت ہے! اس فقرے کا اندازہ ان لوگوں کو ہے جن کے گھر کی خوشیوں کو کسی مہلک بیماری نے گھیر لیا ہے اور ان کا اپنا پیارا کوئی مریض ہے۔بے بسی کا یہ عالم دیکھئے کہ کوئی بڑا طاقتور شخص بھی ہسپتال کی ہوا کھانے کے بعد اس نتیجے کو پہنچتا ہے کہ یا اللہ ہسپتال کا منہ تو کسی دشمن کہ بھی نہ دکھانا۔مرنا تو سب نے ہی ہے مگر پاکستان میں ہسپتالوں کی دیواروں سے لپٹے مریض اور فرشوں پر تڑپتے لوگ دیکھ کر تو اچھا خاصا تندرست شخص بھی بے چینی و مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یقین سے ہر شخص یہی دعا کرتا ہے یا اللہ ہمیں اس دنیا سے چلتے پھرتے ہی اٹھانا اور ہسپتالوں کے اس چکر سے بچانا۔ہسپتال بھی ایک قسم کا بوجھ ہے جسے اٹھانا کسی کی بھی خواہش نہیں ہر فرد اس سے میلوں دور رہنا چاہتا ہے۔اچھے ممالک میں اتنی دیر تک کوئی مریض ڈسچارج نہیں کیا جاتا جب تک وہ مکمل صحت یاب نہ ہوجائے۔ایسے ممالک میں لوگوں کی صحت کے شعبے سے منسلک پریشانیاں بہت کم ہوں گی۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر روز ہر ہزار میں سے ساڑھے سات فیصد لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔کچھ کا وقت بیت چکا ہوتا ہے باقی مہلک بیماریوں اور روزمرہ کے حادثات کی نظر ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں ناقص غزا اور ملاوٹ نے لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے،جس کے باعث ہمارے ہسپتال کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں اور یہاں تک کہ ایمرجنسی کی صورتحال میں بھی بہت سی جانیں صرف اسی لئے گنوا دی جاتی ہیں کہ قریب کوئی ہسپتال نہیں ملا ،ملا تو ہسپتال میں مریض کے لئے جگہ نہ ملی۔پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جس کی آبادی گیارہ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔پنجاب زراعت و صنعت کے وسائل سے مالا مال ہے۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ پنجاب ترقی یافتہ ہے اور باقی صوبے ترقی پذیر ہیں۔اس میں ضرور پنجاب حکومت کا بھی کردار شامل رہا ہوگا۔بات محکمہ صحت کی ہو تو اس میں بھی پنجاب حکومت سر فہرست دکھائی دیتی ہے یہاں تک دوسرے صوبوں کی مدد کو بھی پہنچتی ہے۔ایسے ہی اپنے صوبے میں بھی محکمہ صحت کی بہتری کے دعوے بھی اپنے اپنے دور میں حکومتیں کرتی رہیں۔یہ دعوے تو ہمیشہ ہر دور میں ہنگامی صورتحالوں میں عیاں ہوتے رہے مگر دیکھنے والا میڈیا معاملے کو ہمیشہ سے ہی ذرا دیر سے بھانپتا ہے۔قارئین آپ کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ کسی نہ کسی سرکاری ہسپتال سے واسطہ تو پڑا ہوگا، اور آپ کو باخوبی علم ہوگا کہ محکمہ صحت کیسے مسائل سے دو چار ہے اور گورنس کے دعوے کتنے جھوٹے ہیں۔یقین کیجئے جتنی مرتبہ بھی کسی مریض کی عیادت کے لئے کسی سرکاری ہسپتال میں گیا وہاں کا عالم اور لوگوں کی بے بسی دیکھ کر دل ہی دل میں حکومتی ذمہ داران کوبرا جانا۔یاد رکھئے کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں بنیادی چیزیں صحت و تعلیم ہوتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ دنیا ان پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔ایسے اداروں کو تحویل میں رکھ کر ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، تا کہ عوام ان سہولتوں سے محروم نہ ہو اور ملکی ترقی کی رفتار جاری رہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں بلکہ ان دو محکموں کو ہی زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے، افسوس کہ گزشتہ روز لاہور گنگا رام ہسپتال کے باہر راہداری پر مجبور عورت نے بچے کو جنم دے دیا۔تفصیلات کے مطابق خاتون کو رات کے وقت ہسپتال لایا گیا مگر رات کو بیڈ نہ مل سکا صبح ہو گئی اور خاتون کی حالت بگھڑ گئی اس نے ایم ایس کے دفتر کے سامنے بچے کو جنم دے دیا۔ایک ہفتہ یہلے ایسا واقعہ رائیونڈ میں پیش آیا۔ایسے کئی واقعات اور بھی ہوں گے جو ہم سب اور میڈیا کی نظر میں نہیں آئے۔وزیر اعلی نے سخت ایکشن لیا مگر اب کیا حاصل کیا فائدہ محکمہ صحت کی اصلیت تو عیاں ہو چکی دنیا بھر میں پاکستان کی سبکی ہوئی،یہ نامی کلامی ایکشن ہونی کو واپس لا سکتے ہیں ؟وہ جن کے عزیز تڑپ تڑپ کر مرگئے ان کے دلوں میں پیدا محرومیاں کون ختم کرے گا؟ ۔کوئی نہیں کیونکہ سب اقتتدار کے لالچی ہیں ان کے نزدیک انسانیت کی کوئی قدر نہیں ۔ان کے اپنے تو برطانیہ میں کسی نامور ہسپتال و ڈاکٹر سے علاج کروا لیں گے مگر غریب یونہی گزشتہ برسوں کی طرح ہسپتالوں کی دیواروں سے چمٹے مرتے رہیں گے۔جناب اعلی فقط ایک ایکشن سے کیا حاصل؟ یہاں تو پورا کا پورا محکمہ ہی توجہ طلب ہے۔پنجاب میں ہسپتالوں کی کمی ایک المیہ بن چکا ہے ،جسے ہماری حکومتیں برسوں سے نظر انداز کرتی آرہی ہیں۔ جس کی بدولت پرائیویٹ مافیا سرگرم عمل ہے اور کسی غریب کے لئے علاج کروانا یونہی ہے جیسے جائیدادیں بیچ کر زندگی کے چند سانس خریدنا۔ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی مریض بروقت بیڈ نہ ملنے یعنی ہسپتال میں جگہ نہ ملنے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے،اور اس کے پیارے اپنی اس بے بسی کو دیکھ کر خود مریض بن جاتے ہیں اور برسوں خود کو اور پاکستان کو کوستے رہتے ہیں۔ہمارے اکثر سرکاری ہسپتالوں کا تو کوئی معیار ہی نہیں مگر جن چند ہسپتالوں کا معیار بہتر ہے وہاں علاج کے لئے مہینوں کا وقت ملتا ہے اکثر بے چارے لوگ تو مقررہ وقت سے پہلے ہی کسی پرائیویٹ ڈاکٹر کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی گنوا بیٹھتے ہیں اور اکثر مریض تو علاج کے مقررہ وقت سے پہلے ہی ایسی سیرئیس حالت بیماری میں پہنچ جاتے ہیں جن کا بچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ایسے حالات میں لوگ کریں تو کیا کریں ،جائیں تو کہاں جائیں؟ذرا سوچئے!

Sunday 15 October 2017

ڈو مور

چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

ڈو مور کے مطالبات چاہے پاکستان کے اندر سے ہوں یا باہر سے،مطالبات نے افراتفری میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور دشمن افرتفری کی اس فضا میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے در پے ہے۔تمام اداروں کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے ، اپنے بیانات سے ملک میں افراتفری کو فروغ دینے سے گریز کرنا چاہئے۔
پاکستان کے لئے ڈو مور ایک جانا پہچانا لفظ ہے۔ڈو مور کے اردو معنی ہیں،مزید کریں۔دراصل ڈو مور لفظ نے پاکستان میں خاصی شہرت حاصل کرلی ہے،ڈو مور ایک مطالبہ ہے جو برسوں سے امریکہ پاکستان سے کرتا آ رہا ہے۔اس امریکی مطالبے سے جہاں پاکستانی عوام اکتا گئی ہے ،وہیں لفظ ڈو مور بھی نو مور کہنے پر مجبور ہے۔مگر سپر پاور امریکہ اور ٹرمپ حکومت کی سمجھ سے سب کچھ بالاتر ہے۔اسکے پیچھے کچھ پہلو ہو سکتے ہیں،ٹرمپ کے خوشامدی ٹولے،ٹرمپ پسند ممالک کی چہہ مگوئیاں اور ٹرمپ کے پاس ناقص علم اور نامکمل و حقیقت کے برعکس معلومات وغیرہ۔یہ پہلو تو واقعی سچ ہے کہ پاکستان حکومت کا امریکی بہکاوے میں بار بار آنا یا پھر پابندیوں سے بچنے کی مجبوری۔جو بھی ہو امریکی چالاکیاں سر فہرست ہیں۔ورنہ پاکستان نے جتنا ڈومور پر عمل کیا ہے شاید ہی کوئی اور ملک کر پائے۔ڈو مور کی اہمیت کا اندازہ لگائیے کہ امریکی صدر ڈومور کو اپنے بیانات کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔کرم ایجنسی سے پاک فوج کے آپریشن سے بازیاب ہونے والے کینڈین جوڑے پر واشنگٹن میں امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی حکام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امن کے لئے پاکستان نے ہمارے ڈومور مطالبے کو تسلیم کرلیا۔ٹرمپ کے نزدیک پاک امریکہ تعلقات کا اصل آغاز اب شروع ہوا ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ پاکستان کے مفاد میں رہے۔دوسری طرف ترجمان دفتر خارجہ پاکستان زکریا نفیس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان نے مل جل کر مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کا اعادہ کر لیا ہے۔گزشتہ روز خواجہ آصف نے بھی کہا کہ امریکہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرے ہم آپریشن کریں گے۔مانتے ہیں کہ پاکستان کی ہمیشہ خارجہ پالیسی یہی رہی کہ تمام ممالک سے بہتر تعلقات استوار کئے جائیں۔مانتے ہیں امریکہ سپر پاور ہے،پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتا ہے۔تعلقات ضرور قائم کئے جائیں اصولوں کی بنیاد پر برابری کی بنیاد پر اور اپنی خودمختاری و سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے۔گزارش ہے کہ امریکہ سے تعلقات کی مجبوری میں ملکی خودمختاری و سلامتی پر کوئی حرف نہیں آنا چاہئے۔بات رہی ٹرمپ کی کہ امریکی تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں۔بالکل غلط! یہ تو پاکستان ہی جانتا ہے کہ ان تعلقات کی مد میں پاکستان کو خسارہ ہی خسارہ ہوا۔ضرورت کے وقت ہمیشہ امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور جب کبھی پاکستان کو امریکہ کی ضرورت پڑی تو امریکہ نے ہمیشہ دھوکا دیا بلکہ بعض موقعوں پر پاکستانی مخالفین کی حمایت بھی کی۔پاکستان امریکی ڈو مور کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے ستر ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں گنوا بیٹھا ہے۔معیشت کا بیڑا غرق کیا۔مگر امریکہ بجائے شاباشی کے آج بھی پاکستان کے کردار پر شک کرتا ہے۔شک کی بنا پر امریکہ نے بدستور پاکستان کے ساتھ دھمکیوں اور ڈو مور کا مطالبہ قائم رکھا ہوا ہے۔اگر پاکستان امریکہ کے آگے جھک کر تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے تو یہ ہماری خودمختاری و سلامتی کے منافی ہے،اور ہمارا مذہب بھی ایسے تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔پاکستانی حکومت کو اپنے خدشات بارے امریکی حکومت کو آگاہ کرنا چاہئے تاکہ امریکہ اپنی دھمکیوں سے باز آجائے اور مساوی تعلقات کو فروغ دے۔اگر آج ہماری قوم اور حکومتوں نے ڈومور کے معاملے کو سنجیدگی سے نہ سمجھا تو صدیوں تک ہماری نسلیں ڈومور کے مطالبے ہی پوری کرتی رہیں گیں چاہے مطالبہ امریکہ کی طرف سے ہو چین کی طرف سے ہو یا کسی اور بڑی پاور کی طرف سے۔قارئین ویسے تو پاکستان میں عسکری قیادت کی طرف سے جمہوری حکومتوں کو ڈو مور کے مطالبے کی روایت بھی عرصہ سے چل رہی ہے۔مگر گزشتہ روز سے معیشت کی بات زیر بحث ہے جس پر آرمی کے ڈو مور کے مطالبے کو حکومت نے رد کیا اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔عسکری ترجمان نے حکومتی ترجمان کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ فوج اپنے مؤقف پر قائم ہے۔مختلف زرائع کے مطابق حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔فل حال دونوں سے ہی گزارش ہے کہ بیان بازی سے گریز کریں اور مل جل کر خدشات دور کریں،حکومت اور عسکری قیادت دونوں ہی ملک کے لئے اہم ترین ہیں ایک لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں اور دوسروں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔افراتفری کو فروغ دینے کی بجائے تحمل سے کام لینا چاہئے تاکہ دشمن کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ پہنچے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن رہے ۔