Sunday 15 May 2016

ہیں سب چور لٹیرے


!ہیں سب چور لٹیرے
چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ
پانامہ پانامہ پانامہ! سن سن کر اب عوام بھی تنگ آچکی ہے۔روز روز کوئی نہ کوئی بڑی اور اہم خبر اور پھر پانامہ کا دھماکہ۔کیا یہ دھماکہ پاکستان میں ٹھس ہو جاتا ہے؟قارئین ویسے تو آپ سب جانتے ہیں لیکن میں پھر بھی بتاتا جاؤں کے پانامہ لیکس میں جن آف شور کمپنیوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کیا ہیں کس لئے ہیں اور کیوں ہیں؟سب سے بڑا مقصد تو ٹیکس بچانا ہوتا ہے۔ اور پاکستان سمیت مختلف ممالک کے امراء بزنس مین و سیاست دان اپنی بڑی رقوم ایسے ممالک میں انویسٹ کرتے ہیں۔جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہو اور ان کی دولت یا کمپنی کو بھی صیغہ راز میں رکھا جائے۔پانامہ نے جن آف شور کمپنیوں کا زکر کیا ہے ان میں زیادہ تر بزنس مین شامل ہیں جن کے اپنے ممالک میں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے یا بہتر مواقع نہیں۔انہوں نے ایسے ممالک میں آف شور کمپنیاں بنائی ہیں جہاں ٹیکس سے بچت ہو جائے اور ان کے اس کام کو بھی صیغہ راز میں رکھا جائے۔یعنی ٹیکس سے بچنے کے لئے کافی سارے بزنس مین آف شور کمپنیاں بناتے ہیں۔اور جو سیاست دان آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں وہ سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔وہ اس وقت مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ ملکی دولت کو کسی دوسرے ملک میں صیغہ راز میں رکھنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے ایسے سیاستدان کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور اسکی تحقیقات ہوتی ہیں ۔لیکن ہمارے ہاں تو بڑے بڑ ے ڈھیٹ سیاستدان ہیں اور احمق عوام۔جن ممالک میں آف شور کمپنیاں بنائی جاتی ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح فائدہ ضرور ملتا ہے۔ایسے ممالک ایشین لوگوں کو زیادہ پریفرینس دیتے ہیں کیونکہ ایشیائی لوگ سوال جواب بہت کم کرتے ہیں اور زیادہ تحقیقاتی بھی نہیں ہوتے۔پانامہ اور آف شور کمپنیوں کی معلومات لکھنے سے قاصر ہوں۔اب میں اپنے عنوان کی طرف آتا ہوں’’ہیں سب چور لٹیرے‘‘۔پانامہ نے کوئی بہت بڑا دھماکہ نہیں کیا بس بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو بتایا ہے۔بہت سے لوگ ایسی معلومات پہلے بھی رکھتے تھے۔بہت سے صحافیوں تجزیہ کاروں اور لکھاریوں نے بار بار بتایا ہے کہ یہ سب چور لٹیرے ہیں۔ انکی دولت اور بزنس بیرون ممالک ہیں میرا خیال ہے کہ پاکستان کے با شعور لوگ یہ سب پہلے سے ہی جانتے تھے۔میں بھی بار بار چوروں لٹیروں کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔میرے دوست احباب اسرار کرتے تھے پانامہ کے بارے لکھوں مگر میں جانتا تھا کہ فوری لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں یہ سب وقتی ہے۔اس کی زد میں سب سیاستدان آنے والے ہیں۔کوئی ایک دو اس کی لپیٹ کا حصہ نہیں بلکہ سارے کا سارا آوہ ہی اس کی زد میں آئے گا۔سب چور اور لٹیرے ہیں یہ قوم کا پیسا کھاتے تھے کھاتے ہیں اور کھاتے رہیں گے۔یہ وقتی مظاہرے اور تنقیدیں صرف اپنے مفادات کی خاطر ہیں۔عوام کو تو صرف اور صرف بے وقوف بنایا جاتا ہے۔سب اپنے آپ کو صادق سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو صادق و امین ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے جھوٹ اور بہانے بنانے میں مصروف ہیں۔کوئی کہتا ہے میری آف شور جائز ہے کوئی کہتا نہیں صرف میری جائز ہے۔سب دھوکے باز اور اقتدار کے لالچی ہیں۔انہیں اسلامی حکمرانی کے بارے کچھ علم نہیں۔یہ ایک دوسرے کا احتساب نہیں ہونے دیں گے۔کیونکہ سب ہی احتساب کے شکار میں پھنس جائیں گے اور بے نقاب تو پہلے ہی سے ہیں ذلیل بھی ہو جائیں گے۔کیا دور ہے ایک مسلم ملک میں عدلیہ آزاد نہیں عدلیہ فیصلہ نہیں کرسکتی۔عدلیہ حکومتی بوجھ تلے دب گئی ہے۔اگر انصاف کرنے کا عہد کیا ہے تواس کی پاسداری بھی کرو۔ورنہ مستعفی ہو جاؤ انصاف نہیں کرسکتے تو آپکا موجود ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔کیونکہ پھر آپ بھی چور لٹیروں کے یار نظر آتے ہیں۔میں بار بار لکھ چکا ہوں کے جس کا نام کرپشن یا دوسری بدعنوانیوں میں موجود ہو اسے تا حیات الیکشنز کے لئے نا اہل ٹھہرایا جائے۔میں پورے پاکستان سے ملک کی عوام ملک کے ایوان ملک کی انتظامیہ ملک کی عدلیہ نیز ہر فرد سے اور ملک کی افواج سے گزارش کرتا ہوں کے کوئی ایسا قانون ایسا نظام تشکیل دیں جس سے سارے کرپٹ دہشتگرد اور نا اہل سیاستدانوں کو ہمیشہ کے لئے سیاست سے دور پھینکا جائے اور انکے ساتھ ساتھ کرپٹ آفیسرز کا بھی کڑا احتساب کیا جائے تا کہ غلط کام کرتے وقت احتساب کا ڈر ضرور ہو۔پڑھے لکھے سادہ اور نیک ایمان دار لوگوں کو سامنے لایا جائے۔روپے اسلحے کا زور ختم کیا جائے۔قوانین پر عملدرآمد کروایا جائے۔سرکاری اداروں کو آزاد اور فعال بنایا جائے۔انصاف کے فیصلوں پر عملدرآمد کروایا جائے۔میری عوام سے گزارش ہے کہ اگر وطن کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان سب چور لٹیروں کو تا حیات نااہل کروانے اور ان کے کڑے احتساب کے لئے صدا بلند کریں تاکہ ملک پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں سب چور لٹیرے ہیں۔اگر پانامہ کی ایک اور قسط جاری ہو جائے تو ان میں سے مزید آپکے سامنے ننگے ہو جائیں گے۔میرا آخر میں سوال ہے کہ آف شور کمپنیاں بنانے کی نوبت کیوں آئی؟اس کی بہت بڑی وجہ بھی ہمارے وطن کے چور لٹیرے ہی ہیں۔سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں بزنس مین طبقہ کی ہیں۔ہمارے وطن میں سیاستدانوں اور انکے حامیوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔سیاستدان اور انکے یار حکومتی ملازمین بزنس طبقہ کو ستاتے رہتے ہیں اور بھتہ مانگتے ہیں بھتہ نہ ملنے پر بے جا ٹیکسوں یا کسی اور خوف سے ڈراتے ہیں ۔ایسی کئی مشکلات کی وجہ سے بزنس مین خود کو یہاں محفوظ نہیں سمجھتا اور بیرون ممالک آف شور کمپنیاں بناتا ہے۔تحقیق تو سب کی ہونی چاہیے اور ہر لحاظ سے ہونی چاہیے اور بیرون ممالک رقوم ٹرانسفر کرنے کی وجوہات بھی معلوم کی جانی چاہیے۔ملکی رقم کو پاکستان واپس لانے کے لئے بھی سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔لیکن ایسا ہونے کون دے گا ایسا کرنے کون دے گا ؟کیوں کہ سب لٹیرے یار ہیں۔ذرا سوچئے۔
یہ ان سب کو طماچہ ہے جو میں نے مارا ہے
اٹھو میری قوم کے لوگو ذرا تم بھی طماچہ دو۔

Sunday 8 May 2016

Kisan Kidher Jaein


کسان کہاں جائیں؟
03424652269چوہدری ذوالقرنین ہندلگوجرانوالہ
۔۔۰
گندم کی کٹائی بھی مکمل ہو گئی۔اور اپنے ساتھ کسانوں کی خوش فہمی کو بھی نگل گئی۔کسانوں کی امیدیں اور منصوبے سب ختم ہو گئے۔سب خواہشیں دری کی دری رہ گئیں۔اور کچھ بچا ہوا صبر اور حوصلہ بھی ختم ہو گیا۔قرض پہلے سے بڑھ گئے۔کسانوں کے سب ارمان ٹوٹ گئے۔گھرانے پہلے سے بھی ویران نظر آنے لگے۔فکریں اب بوجھ بن گئیں اور زہن نے سوچ سوچ کر کسانوں کو بڑھاپے میں داخل کر دیا۔آباؤ اجداد کا پیشہ اب زہر کی طرح زہریلا بن گیا۔کھیتی باڑی سے محبت ختم ہو گئی۔اور دل و دماغ گردش میں رہنے لگے طرح طرح کے وسوسے تنگ کرنے لگے۔کچھ نے تو یہ سوچ کر دل کو تسکین دی کہ نفع ہو یا نقصان سب کچھ بیچ باچ کر شہر یا کسی ٹاؤن میں منتقل ہو کر کوئی کاروبار شروع کریں گے اور زراعت کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہیں گے آخر اس نے ہمیں دیا ہی کیا ہے بلکہ ہمارا خون ہی چوسا ہے۔نہ جانے ہمارے دل میں ایسی سوچ پہلے کیوں نہ آئی ہماری عقل پر پردہ جو پڑا تھا۔مگر بے چارے وہ کسان جن کے پاس نہ تو مویشی ہیں نہ ہی کوئی آباؤ اجداد کی جائیداد انکا تو کلیجہ ہی پھٹ گیا قلب نے جیسے حرکت کرنا ہی چھوڑ دیا۔اور اوپر سے فصل پر لگے اخراجات اور خرچ جو کسی ڈیلر سے قرض کے تور پر لئے تھے وہ ستانے لگے۔افسوس کے بہت ساروں نے خودکشی کا بھی سوچا ہوگا مگر کیسے خودکشی کریں گھروں میں بیٹھی ماؤں بہنوں بیویوں اور بیٹیوں کا وارث کون ہوگا۔بس دل میں یہی خیال ہے کہ جائیں تو کہاں جائیں کریں تو کیا کریں؟۔قارئین یہ سب لکھنے کا مقصد بتانا ہے کہ بالخصوص چھوٹے کسان تو پس چکے ہیں ان کا ہمدرد کوئی نہیں۔کچھ تو اللہ تعالی پر توکل قائم رکھے ہوئے ہیں اور کجھ تو زندگی کی ہمت ہار چکے ہیں بس انکا دل ہے کہ آخری آرام گاہ کا سکون لیں۔موجودہ گندم کی کٹائی کے بعد کسانوں کو بہت زیادہ ذلیل کیا گیا۔کہنے کو تو حکومت گندم کی خریداری ۰۰۳۱ روپے فی من میں کر رہی ہے مگر اصل میں جو رقم کسان کو ملتی ہے وہ ۰۰۲۱ روپے فی من ہے۔اوپر والا سو روپیہ معزز حکومت کے گوداموں تک گندم پہنچانے کا خرچ جس میں سے باردانہ کی قیمت کرایہ اور کچھ رقم محترم فوڈ انسپکٹر اور باقی عملے کی نظر۔یہ تو صرف انکے لئے تھا جو صاحب وافر مقدار میں روپیہ رکھتے ہوں مگر غریب کسان بے چارے روز باردانہ کے حصول کے لئے آتے اور سارا دن لائنوں میں کھڑے ہو کر شام کو خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتے یعنی ہفتوں ذلالت انکا مقدر ٹھہری اور آخر کار پھر وہی ڈیلروں کو ۰۱۱ ۰روپے فی من کے عوض گندم فروخت کرنی پڑی۔مگر اس کے بر عکس ایم این ایز و ایم پی ایز فوڈ انسپکٹر اور انکے حامی و عزیزواقارب بغیر کسی لائن میں کھڑے ہزاروں کی تعداد میں توڑے و باردانہ سب سے پہلے ہی لے گئے اور انہوں نے وافر مقدار میں باردانہ لے کر بعد میں اپنا ریٹ بنا کر بلیک میں دوسرے ڈیلروں کو فروخت کیا۔بقول ہماری گورنمنٹ ساڑھے بارہ ایکڑ اور اس سے کم اراضی والے چھوٹے کاشتکاروں کو سب سے پہلے باردانہ دیا گیا اور میں نے ایسے اشتہارات بھی اخبارات میں دیکھے جن میں لکھا ہوا تھا کہ باردانہ کی منصفانہ تقسیم ہوئی۔مگر پتا نہیں انہیں نظر کیوں نہیں آتا؟کہ ان کے اپنے ایم این ایز و ایم پی ایز اور آفیسران ہی غریبوں کا حق کھا جا تے ہیں۔خدارا حضرت عمر رضی اللہ کی حیات و حکمرانی کے بارے ضرور پڑھیں شاید آپ کو خدا کا خوف آجائے۔کسانوں کے ساتھ عرصہ دراز سے ہی نا انصافی ہو رہی ہے کہیں کسانوں(زراعت) کا بجٹ میٹرو ٹرین کی نظر اور کہیں دوسرے پراجیکٹس کی نظر۔اور اگر کچھ حصہ آبھی جائے تو وہ محکمہ زراعت اور ایم پی ایز و ایم این ایز کی نظر۔کیا کسان اس وطن کا حصہ نہیں ؟اگر ہے تو ان کے ساتھ سوتیلوں سے بھی بد تر سلوک کیوں؟کیا حکمرانوں کی کسانوں سے کوئی دشمنی ہے؟اگر نہیں تو بے گانوں سا سلوک کیوں؟ کیا کوئی سازش پاکستانی کسانوں(زراعت) کا خاتمہ چاہتی ہے؟اور کیا حکومت اس میں سازشیوں کے ساتھ ہے؟پاکستان میں ہر چڑھتے سورج کے ساتھ زراعت کا پیشہ ٹھپ ہوتا جا رہا ہے۔ایسا صرف کسانوں کے ساتھ نا روا سلوک کی بدولت ہو رہا ہے۔کسان بے چارے طرح طرح کے ٹیکس دیں کہیں زرعی ٹیکس کہیں آبی ٹیکس کہیں کھادوں دواؤں کے ٹیکس یہ سب کسان کو ہی ادا کرنے ہوتے ہیں ۔اور دن بدن کھادوں دواؤں اور دوسری ضرورت کی اشیاء کے آسمانوں کو چھوتے ہوئے ریٹ اور بے چارے کسانوں کی فصل وہی کوڑی کے بھاؤ۔ آخر حکومت خود ہی بتا دے کہ کسان ایسے میں کہاں جائیں اور کیا کریں؟میں آپکو بتانا چاہتا ہوں ہمارے وطن کی زراعت کو خطرہ لاحق ہے اگر وطن سے کسان کم ہوتے گئے تو ایک دن ایسا آئے گا ہمیں بیرون ممالک سے زرعی اجناس منگوانی پڑیں گی۔اور پھر موجودہ زرعی اجناس سے چار گنا زیادہ رقم ادا کرنا پڑے گی اور پھر ایسی مہنگائی سامنے آئے گی کہ دوسرے شعبوں اور صنعت کا بھی بیڑہ بھی غرق ہو جائے گا یعنی سب کچھ اجڑ جائے گا۔ ملک میں توازن قائم نہیں رہے گا اور جرائم پہلے سے بھی چار گنا زیادہ بڑھ جائیں گے۔اگر کسانوں کی خوشحالی کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو خوش کوئی بھی نہیں رہے گا کسان خوشحال تو پاکستان خوشحال۔ذرا سوچئے جو دہقاں و کسان آپکو کھانے پینے کی بہت ضروری اشیاء فراہم کرتا ہے اگر وہ خود اپنی ضروریات پوری نہ کر سکے تو یہ کتنی بڑی نا انصافی ہے۔محکمہ زراعت۔خدارا یا تو اس محکمے کو ختم کر دیں یا اس کو فعال بنائیں ۔ یوں ہی یہ بھی قومی خزانے پر بوجھ ہے اور وزارت زراعت کا تو اللہ ہی حافظ۔اور وزیر اعظم صاحب کہاں گئی وہ تین سو چالیس ۰۴۳ ارب کی امداد جو کسانوں کے لئے مختص تھی کہاں گئے وہ وعدے جو کسانوں ک ساتھ کئے۔اللہ تعالی سے ڈریں آخر سب نے مرنا ہے ۔مجھے غصہ آتا ہے ان ڈیلروں اور صنعت کاروں پر جنہیں کسانوں کی فصلوں کا ریٹ بڑھتا ہوا چبھتا ہے مگر اپنی چیزوں کے ریٹ بھلے معلوم ہوتے ہیں۔اصل میں کسان انکی بنائی ہوئی چیزوں کی مہنگائی اور حکومت کی کرپشن کی وجہ سے پس گیا ہے۔وزیر اعظم صاحب کسانوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کریں ورنہ ہم یاد کرواتے رہیں گے اور میری صحافیوں و لکھاریوں سے گزارش ہے کہ کسانوں کا حال ایوانوں تک پہنچائیں اللہ تعالی اجر دے گا۔
نہ رہے دہقاں و کسان اس دیس میں تو
نہ رہیں گی حکومتیں سلامت نہ صنعتیں۔

Sunday 1 May 2016

Baldyati Idary Gumshuda



بلدیاتی ادارے گمشدہ
چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔۹۶۲۲۵۶۴۲۴۳۰
قارئین آپ جانتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشنز کروانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے کتنی کوششیں کیں صوبائی حکومتیں ہر گز نہ چاہتی تھیں کہ مقامی حکومتیں بنیں اور اقتدار لوکل سطح پر منتقل ہو۔یعنی اپنے وزراء اور ایم پی ایز کو خوش رکھنا ہی بس ان کی منشاء تھی۔مگر عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان نے بہت کوشش و ہمت اور سوچ کے بعد بلدیاتی الیکشنز کروانے کا حکم جاری کیا۔حکومتیں ٹال مٹول سے کام کرتی رہیں مگر اپوزیشن جماعتوں نے عوام کی طاقت کا سہارا لیتے ہوئے حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کروانے پر مجبور کیا۔جی آخر کار قسطوں میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔اسی دوران الیکشن کمیشن لاچار نظر آیا۔قتل و غارت اسلحے کا استعمال اور سر عام روپے اور اسلحے کی نمائش اور ایسے ہی متعدد واقعات نظر آئے۔ کوئی دھاندلی کرتا نظر آیا اور کسی کو ووٹ نہ دینے پر کڑی سزائیں سہنی پڑیں۔کئی ہستے بستے گھر اجڑ گئے۔بہت ساری پرانی دشمنیاں دوبارہ تازہ ہوئیں۔بہت سی نئی دشمنیوں نے جنم لیا۔بہت سی رشتہ داریوں میں دراڑیں پڑیں۔ان سب کے بتانے کا مقصد ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں۔ہمارے حکمران اور ادارے نااہل اور کرپٹ ہیں۔انتخابات مکمل ہوئے جیسے صوبائی حکومتیں چاہتی تھیں ویسے ہی ہوا بھاری اکثریت سے صوبائی حکومتوں کے اپنے ہی نمائندے منتخب ہوئے۔ بڑی بڑی دعوتیں جیت کی خوشیوں میں اڑائی گئیں۔جیت کی خوشیوں میں فائرنگ اور رقص کی محفلیں سجائی گئیں۔بلدیاتی انتخابات میں دوبارہ پرانا عکس نظر آیا وہی نمائندے وہی نظام۔قارئین بلدیاتی ادارے وہ ادارے ہیں جو کسی سیاستدان کے لئے بنیاد ہوتے ہیں۔یعنی کے سیاست کی پہلی سیڑھی۔جہاں بار بار پرانے لوگ بلا مقابلہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر جیت جاتے ہیں وہیں بلدیاتی انتخابات میں کچھ نئے چہرے بھی سامنے آئے اور منتخب ہوئے۔جو لوگوں کی نئی امید ہیں۔بلدیاتی انتخابات کروانے کا مقصد اقتدار کو لوکل سطح پر منتقل کرنا تا کہ مقامی لوگ اپنے مقامی نمائندے سے اپنے مسائل حل کروا سکیں۔مگر گزشتہ بلدیاتی نمائندوں نے بھی ایم این ایز اور ایم پی ایز کی طرح لوٹ مار کا بازار گرم رکھا جس سے لوگوں کا اعتبار ہی سیاست دانوں سے اٹھ گیا۔میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ کم از کم حلف کی ہی پاسداری کر لیا کریں۔خیر چھوڑیں یہ سب لکھنے کا مقصد تھا کہ تھوڑا بلدیاتی انتخابات کا عکس دکھاؤں۔اب میں اپنے عنوان پر آتا ہوں ’’بلدیاتی ادارے گمشدہ‘‘۔قارئین کیسا لگے گا اگر آپ نے اپنی پسند کے مطابق شادی کے لئے ساری مشکلات جھیلنے کے بعد آخر کار سب کو رضا مند کرلیا اور اس کے بعدمہندی کی رات بھی خوب شور شرابا کیا۔صبح نکاح کے لئے شیروانی بھی تیار ہو۔شادی کی ساری خریداری بھی کی ہو۔ اور عین مقررہ وقت پر آپ بارات لے کر لڑکی والوں کے پاس پہنچے ہوں اور کسی وجہ سے یا بغیر کسی وجہ سے لڑکی والے انکار کر دیں تو سوچیں ہونے والے دلہے پر کیا قیامت گزرے گی یقین سے کسی کے لئے بھی اچھا نہیں ہو گا۔ لیکن ایسا ہوا۔افسوس کہ ہمارے بلدیاتی نمائندے جو منتخب ہو چکے جنہوں نے اپنے جیتنے کی خوشی میں بہت دھوم دھام سے دعوتیں اڑائیں ہلا گلا کیا۔حلف برداری کی تقریب بھی ہو چکی ہو۔مگر افسوس کے اختیارات نہ ملے ہوں۔ ایسا ہوا اور سارے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہوا۔ بے چارے اس دلہے کی مانند ہی ہیں سارے انتظامات جیت و جشن کے بعد بھی اپنا عہدہ سیٹ اور اختیارات حاصل نہ کرسکے۔وہ وعدے جو انہوں نے عوام کے ساتھ کئے تھے وہ ان کو سونے نہیں دیتے ہوں گے۔اور جو شوق سے یا برادری میں مقام بڑھانے کے لئے آگے آئے ان کو بھی یہ جیت مہنگی پڑی۔قارئین پنجاب اور سندھ میں تو سٹی تحصیل اور ضلعی حکومتوں کے الیکشن بھی نہیں ہوئے بس گورنمنٹ آج کل کے دلاسے دے رہی ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے اب جن سیٹوں کے الیکشن رہ گئے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسا کوئی آثار نظر نہیں آتا۔بلدیاتی نمائندوں کے بارے میں بتا دوں جن میں سے بہت سے ایسے ہیں جو قرض تلے دب کر الیکشنز جیتے مگر اپنا مقام حاصل نہیں کر سکے۔میں سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ صوبائی حکومتوں کے اپنے ہی نمائندے اکثریت میں ہیں۔مگر پھر بھی اختیارات نہیں دیے جا رہے۔کیا ایسے میں ان کے نمائندے باغی نہیں ہو جائیں گے؟۔یا پھر انہیں چپ کی گولی دی جا چکی ہے؟۔یا فکسنگ ہو گئی ہے؟ کہ نمائندوں کو آخر میں دولت سے نوازا جائے گا۔اختیارات نمائندوں کو نہ سونپنے کا مقصد کیا ہے؟۔ کیا حکومتوں کے پاس مزید رقم نہیں کہ بلدیاتی اداروں کو فعال بنا سکیں ؟اگر ایسا ہے تو کیا وہ رقم ایم پی ایز کو نوازی گئی؟۔یا پھر صوبائی حکومتوں نے مقامی حکومتوں کے بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں؟۔اصل فیکٹر کیا ہے عوام جاننا چاہتی ہے؟ اور جس کا جواب دینا حکومتوں پر لازم ہے؟ ۔آخر کار اتنا زیادہ روپیہ خرچ کروا کر الیکشنز کروائے گئے۔حکومتی خزانہ وامیدواروں کا خزانہ خرچ ہوا۔کیا یہ صرف نامی کلامی انتخابات تھے اس کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو ذلیل کرنا ہی تھا۔کدھر ہیں بلدیاتی ادارے نظر کیوں نہیں آتے؟۔کیا آپ کے چہیتے افسرز آپکے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ساتھ مل کر یونین کونسلز ٹاؤن میونسپل اور ضلعی ہالز پر قابض ہیں؟ یا سب کچھ بیچ کر کھا چکے ہیں؟۔بلدیاتی اداروں کو فعال بنانے میں رکاوٹ کیا ہے؟۔خدارا اگر قوم کا پیسا خرچ کیا ہے انتخابات پر تو بلدیاتی ادارے بھی فعال کریں۔یوں خود ہی نہ مقامی حکومتوں کے اختیارات بھی استعمال کریں۔قوم کو بے وقوف بنانا چھوڑ دیں اور اللہ تعالی سے ڈریں اور معافی مانگیں۔ورنہ جگہ جگہ یہ ہی لکھا ہوا دیکھیں گے’’ بلدیاتی ادارے گمشدہ‘‘۔اور آپ کے اپنے نمائندے ہی آپ سے بغاوت پر اتر آئیں گے۔