Sunday 27 March 2016

RAW..PATHANKOT AIR BASE..BY ZULQARNAIN HUNDAL






را۔پٹھانکوٹ ائیر بیس
چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔۹۶۲۲۵۶۴۲۴۳۰
را کی پاکستانی مخالف اور پاکستان کو توڑنے کی کوشش و کاروائیوں سے نا واقف کوئی بھی نہیں۔پاکستانی بھارتی عوام اور اقوام متحدہ سمیت سب بھارتی خفیہ ایجنسی کی کاروائیوں سے واقف ہیں۔پاکستان بننے کے بعد کبھی بھارتی حکومت نے دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ۔ادھر بھارت ہمیشہ کی طرح پاکستان کی جڑیں کمزور کرنے کی کوششیں کرتا رہا اور یہاں پاکستان ہمیشہ تعلقات کے فروغ کی کوشش کرتا رہا۔بھارت ہمیشہ دوگلی پالیسیوں پر گامزن رہا یعنی بگل میں چھری منہ میں رام رام۔ظاہری تور پر تعلقات کی بہتری اور پس پردہ تخریب کاریاں۔پہلے بھارتی مداخلت نے مشرقی پاکستان کو توڑا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔بھارت نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا اپنی خفیہ ایجنسی را کو افغانستان اور ایران کے زریعے پاکستان میں بہت سی تخریب کاریوں کے لئے استعمال کیا۔پاکستان نے را کے کئی ایجنٹس پکڑے بھی باقائدہ کاروائی بھی کی اور اقوام متحدہ کو ثبوت بھی پیش کئے اور بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش بھی کی۔مگر اسکے خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئے اور نہ ہی بھارت اپنے کاموں سے باز آیا اور نہ ہی اقوام متحدہ نے کوئی ایکشن لیا۔یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا پاکستان را کا معاملہ صحیح طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کر پایا؟یا پھر اقوام متحدہ ہی نام نہاد ہے اپنے مفادات کے لئے؟یا بھارت بہت بڑا چال باز ہے انٹرنیشنل لیول پر؟
گزشتہ دنوں بلوچستان سے بھارت کا حاضر ڈیوٹی افسر اور را کا بڑا نمائندہ پکڑا گیا جو کہ ابھی زیر تفتیش ہے موصوف کا نام کل بھوشن یادو ہے۔ براستہ ایران ایرانی پاسپورٹ بنوا کر پاکستان پہنچا جناب نے اپنا نام بھی تبدیل کر رکھا تھا
مزید تفتیش سے پتا چلا کہ براستہ افغانستان اسلحہ اور رقم پاکستان منتقل کرتا اور بلوچی تنظیموں کو روپے اور اسلحہ کی مدد فراہم کرتا۔بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ بہت سی تنظیموں کی پشت پناہی کرتا۔ اور روپے کے عوض انکو پاکستانی مخالف کام کے لیئے متعدد ٹاسک دیئے جاتے۔مزید انکشافات کیئے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کے علاقہ میں جیولری کی دکان چلاتا رہا تاکہ کسی کو شک نہ ہو تفتیشی ٹیم نے اس کے موبائل آکاؤنٹس اور وائرلیس سیٹ کی بھی انفارمیشن حاصل کرلی ہے۔ انٹرنیٹ آکاؤنٹس کی بھی۔اور انکشاف یہ کیا جا رہا ہے کہ اس کے مزید ساتھی را کے اور بھی نمائندے پاکستان میں موجود ہیں ۔ بلوچستان کے علاوہ کراچی میں باقائدگی سے تخریب کاریاں کی جاتی رہیں را نے اپنے اس نمائندے سمیت پوری ٹیم کو بلوچستان کراچی کی پاکستان سے علیحدگی سمیت اور مزید ٹاسک سونپے۔ لیکن پاکستانی انٹیلی جنس نے اس کمیٹی کے سربراہ کو ہی پکڑ لیا اور مزید پورے گروہ کے پکڑے جانے کا امکان ہے۔معلومات کے مطابق یہ شخص کافی عرصہ سے اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھا اور اسکے بہت سے ساتھی پاکستان سمیت افغانستان میں موجود ہیں۔بھارت کا افغانستان پر کافی عرصہ سے کنٹرول ہے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کرتا رہا کئی بار پاکستانیوں نے را کے نمائندوں کو پکڑا مگر بھارت ثبوتوں کے باوجود ماننے سے انکار کر دیتا مگر اس بار بھارت نے تسلیم کیا کہ کل بھوشن یادو ہمارا ہی شہری ہے اس کے علاوہ بھارت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔یعنی کے چوری اور سینہ زوری پاکستان ان حالات میں بھی بات چیت کو چھوڑنا نہیں چاہتا ایک طرف بھارت میں دوگلی پالیسیاں اور دوسری طرف پاکستان کی خطے میں امن کی کوشش۔ ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان آئے تعلقات کو مزید فروغ دینے پر بات چیت ہوئی جنرل راحیل شریف نے ایرانی صدر سے ملاقات کی اور بھارتی پرپیگنڈہ کے بارے میں بتایا اور را کے ایران میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کام کے بارے بتایا اور امید ظاہر کی ایران امن کی خاطر پاکستان کا ساتھ دے گا۔پٹھانکوٹ ائیر بیس پر حملے کی تحقیقات کے لئے پاکستانی کمیٹی منگل کو بھارت روانہ ہوگی وہیں بھارت میں بھارتیوں کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اور تحقیقاتی کمیٹی پر بہت سی پابندیاں عائد کر دیں
۔ یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں؟دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا تحقیقاتی کمیٹی ایسے میں تحقیقات مکمل کر پائے گی؟ بھارت پٹھانکوٹ ائیر بیس پر حملہ کی تحقیقات کو لے کر اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟ کیا اس میں کوئی بھارتی سازش ہے؟ یا بھارتی انٹیلی جینس را نے خود یہ حملہ کر وایا؟تا کہ پاکستان پر پریشر ڈالا جاسکے اور دوسری طرف اپنی تخریب کاریاں جاری رکھی جا سکیں۔ مجھ سمیت بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ بھارت پٹھانکوٹ ائیر بیس پر حملہ کا کوئی حل نہیں چاہتا کیونکہ یہ انکی اپنی تنظیم را کا ہی رچایا ہوا ہے صرف پا کستان پر الزامات ڈالنے اور پا کستان سے تعلق ختم کرنے کی خاطر رچایہ گیا۔ ہمیشہ سے ہی پاکستان بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور بھارت اپنی کثیر رقم پاکستان میں مختلف سازشیں جنم دینے اور پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے یہ بھارتی عوام کے لئے بھی سوچنے کی بات ہے پٹھانکوٹ سمیت کئی دوسرے حملے بھی بھارتی ایجنسی را کے

اپنے ہی پلان کا حصہ تھے جو صرف پاکستان کو عالمی سطح پر نقصان کی خاطر کئے گئے۔

Tuesday 15 March 2016

Kisano K Sath Dhoka Dahi By Zulqarnain Hundal





کسانوں کے ساتھ دھوکہ دہی۔۔۔۔ تحریر: چوہدری ذوالقرنین ہندل،گوجرانوالہ

کسانوں کے ساتھ ہمیشہ سے دھوکا ۔فراڈ کیا جا رہا ہے۔ پوری دنیا کے کسان بے بس بالخصوص پاکستان کے ۔’کسان ‘جو کہ کسی دور میں ایک شان سمجھاجاتا تھا۔کسان ایک فخریہ لفظ تھا۔کسان لوگ خود پر بہت فخر محسوس کرتے تھے کسان علاقے کے معزز و قابل احترام لوگ سمجھے جاتے تھے۔ زمینداری اور کاشت کاری پیشہ میں لوگ دلچسپی رکھتے تھے۔اور کسان اپنے علاقہ میں دوسرے لوگوں کی مدد کیاکرتے تھے۔کسانوں کا ایک دور ایسا بھی تھا کہ کسان ضرورت مندوں کو سال بھر کا اناج مفت میں خوشی خوشی دیا کرتے تھے اور ایسے میں بھی کسان گھرانے ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے تھے یہ بات بھی سچ ہے کہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ موجودہ حالات کسانوں کے لئے بہت ہی کٹھن اور تکلیف دہ ثابت ہو رہے ہیں کسان چاہے آج بھی قابل احترام لوگ سمجھے جاتے ہیں مگر کسان دن بدن پستے جا رہے ہیں حالات کچھ ایسے ہیں کہ جو لوگ دوسروں کے کھانے کے لئے اناج اگاتے ہیں اب وہ خود کے گھروں میں بہت مشکل سے دو وقت چولہا جلا سکتے ہیں اور دوسری ضروریات زندگی پوری کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی کاشت کاری پیشہ جو لوگوں کی شان و شوکت کو ظاہر کرتا تھا آج یہی پیشہ وبال جان ثابت ہو رہا ہے۔
چھوٹے کاشتکار اور زرعی اراضی ٹھیکوں پر لے کر کاشت کاری کرنے والے تو قرض کے بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں سارا دن کھیتوں میں محنت کے باوجود بھی ضروریات زندگی پوری کرنا ناممکن سا ہو گیا ہے ایسے میں غریب اور محنت کش لوگوں کی خود کشیوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں چھوٹے کسان بے چاریے بن کر رہ گئے ہیں وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم اچھی صحت اچھی غزا اچھے کپڑے کوئی بھی ضروریات کو اچھی طرح مہیا نہیں کر سکتے۔
چھوٹے کسانوں کی بہت بڑی تعداد کاشت کاری چھوڑ کر دوسرے کاموں کی طرف جا رہی ہے اور ماں جیسی زمینوں کو بیچ کر شہروں میں صنعت سے وابستہ ہو رہے ہیں کاشت کاری میں عدم دلچسپی ملک و قوم کے لئے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے اور ہوگا ہمارے وطن کی اکثریت کاشت کاری و زراعت سے منسلک ہے اور اگر کاشت کار دب جائے تو باقی شعبوں میں بھی ہلچل مچ جاتی ہے کسی بھی وطن بلکہ ہمارے وطن کی مضبوطی میں زراعت کا بھی بہت زیادہ عمل دخل ہے ایسے میں مجھے اپنے وطن کی حکومت اور محکمہ زراعت ہمیشہ کی طرح گہری نیند میں نظر آئے ہیں اگر کسانوں نے کبھی شور ڈال کر انہیں بیدار کرنا چاہا تو کسان تنظیم کے سربراہان کو بھی وہی نیند کی دوا کھلا پلا کر اپنا حامی بنا لیتے ہیں ۔قارئین غور فرمائیے گا یہ کہنا بجا ہوگا کہ عرصہ دراز سے کسانوں کے ساتھ دھوکا اور فراڈ کیا جاتا رہا جھوٹے دعوے اور فرضی امداد دی جاتی رہی۔گزشتہ چار سالوں سے کسان بے چارے کبھی سیلاب کی لپیٹ میں آتے رہے اور کبھی فصلوں کے کم داموں کی وجہ سے تنگ نظر آئے۔ اس عرصہ میں ایسا بھی ہوتا رہا کہ کسانوں نے جو کھادوں۔دواؤں اور پانی کے اخراجات فصلوں پر لگائے فصلیں کاشت کے بعد ان اخراجات کی رقم بھی پوری نہیں کر پائیں۔اور کسان قرض کے ملبے تلے دب کر رہ گیا۔گزشتہ سال ۴۱۰۲میں حکومت کی طرف سیلاب سے متاثرہ زمین داروں کو امداد کا اعلان کیا گیا جو کہ اعلان ہی بن کر رہ گیا فوٹو سیشن کے لیئے حکومت اور انکے نمائندوں نے چند لوگوں کو امدادی چیک دیئے اور پھر پردہ سے غائب یعنی کے جو رقم امداد کے لیئے مختص کی گئی ان میں سے تنکہ فوٹوسیشن کے لیئے لوگوں کو دیا اور باقی کی رقم کرپشن کی نظر بڑے زمینداراور حکومتی نمائندے خوب امدادی پیسہ کھاتے رہے۔ایسا ہی کچھ ۵۱۰۲نومبر میں ہوا۔بلدیاتی انتخابات کی آمد تھی۔حکومت بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے خو فزدہ تھی۔ اور ایوزیشن جماعتوں نے بھی کسانوں کو اچھا لاہوا تھا۔ ایسے میں ایک تیر سے دو شاکار کھیلنے کے لیئے وزیرا عظم پاکستان نے کسان پیکج کا اعلان کیا۔ جس کے تحت چھوٹے کسانوں کو فوری ۰۰۰۵فی ایکڑ امداد سولر ٹیوب ویل اور زراعت کے لیئے آسان شرائط پر قر ضوں اور کھادوں دواؤں کے ریٹ پر کمی کسانوں کے زرعی بینک کے قرضوں پر ۲فیصد رعائیت اور بہت سی سہولتوں کا اعلان کیا گیا۔ پہلے تو کسان چیخا کہ یہ کیا مزاق۔ ہمیں آٹے میں تنکہ برابر مدد دی جارہی ہے یہ ہمارے اور زراعت کے ساتھ مزاق ہے اس اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتیں بھی کسانوں کا ساتھ چھوڑ گیءں اور بلدیاتی انتخابات کے باعث کسان پیکج کی مخالفت کرنے لگیں۔ یعنی کے اپنے اپنے مفاد کسان تھوڑا دھیما پڑ گیا اور سوچا خیر کچھ نہ آنے سے کچھ آجائے بہتر ہے۔ کچھ تو فرق پڑے گا۔بلدیاتی انتخابات سے کچھ پہلے ہی چند علاقوں میں فوری ۰۰۰۵پر ایکڑ کے چیک تقسیم کیئے گئے ۔ اور الیکشنز کے دوران اور تھوڑا عرصہ تک امدادکے چیک مختلف علاقوں میں تقسیم کئے گئے۔ جو نہی الیکشنز گزرے امدادی چیک روک دیئے گے۔اور ابھی تک باقی کسانوں کو رقم فراہم نہیں کی گئی۔ ان کو آج َؔ 249کل کے دلاسے دیئے جارہے ہیں۔اور اسکے علاوہ دوسری شرائط بھی پوری نہیں کی جا رہیں۔نہ قرضوں پر کمی نہ آسان شرائط پر قر ضے کچھ بھی نہیں سب دھوکا دہی ۔یہاں سے سوال اٹھتا ہے کہ جو بڑی رقم کسانوں کے لئے یا کسان پیکج کے لئے مختص کی گئی تھی کیا وہ حکومتی نمائندوں میں بانٹی گئی؟ ایم این ایز۔ایم پی ایز کو تقسیم کی گئی؟یا پھر میٹرو ٹرین کی نظر ہو گئی؟کہاں گئی وہ رقم جو کسانوں کے لئے مختص تھی؟میرے چھوٹے سے گاؤں اور اس جیسے سینکڑوں دیہات اور قصبوں کے لوگ منتظر ہیں کہ کب انہیں کسان پیکج کے تحت امدادی رقم فراہم کی جائے مگر وہ معصوم اور سیدھے سادھے لوگ نہیں جانتے کے اب فوٹو سیشن ہو گیا ہے بس یہ منصوبہ فوٹو سیشن کے وقت کچھ چیک تقسیم کئیے جانے کا منصوبہ تھا۔ان کے حق میں آنے والی رقم کرپشن کی نظر ہو گئی ہے۔ کسان پیکج کے بعد مہینے گزر گئے ہیں

رقم چند لوگوں کو تقسیم کرنے کے بعد باقی کی ہڑپ ۔کھادوں دواؤں کے ریٹ وہی اور معیار صفر۔کسان اپنی رقم کھادوں دواؤں کی نظر کرتے ہیں۔ اور قرضوں پر کھادیں دوائیں حاصل کرتے ہیں ۔مگر ان میں بھی دو نمبری ہے۔ اول تو دام مہنگے ہیں ان کے ۔دوم معیار بھی کم تر۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہاں ہے محکمہ زراعت جو کھادوں دواؤں کے معیار چیک کرتا ہے ۔اور کسانوں کو بہتر کاشتکاری کے بارے آگاہ کرتا ہے۔انکی کارکردگی بھی صفر صرف اورصرف سفارشی لوگ ملازم بھرتی ہیں ۔ اور حکومت کے ساتھ مل کر کسانوں کے ساتھ دھوکا دہی کی جا رہی ہے ۔
آخر کب اس وطن میں کوئی کسانوں کا ہمدرد لیڈر انکے حق کی خاطر دھوکے بازوں سے لڑے گا۔کسانوں کے ساتھ متعدد ایسی ناانصافیاں ہو رہی ہیں اور کی جا تی رہیں جو میں پھر کبھی بیان کروں گا۔ کرپٹ اور دھوکا بازوں کے لئے آپﷺ کی حدیث مبارکہ

’’جو ہم کو فریب دے وہ ہم میں س نہیں‘‘(مسلم)
قرآن کی روشنی میں
’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘(البقرہ۔۰۱)
آخر میں اقبال کا شعر
جس کھیت سے نہ ہو میسر دہقاں کو روزی
اس  کھیت ک ہر گوشہ گندم کو جلا دو

Monday 7 March 2016

Samj Sy Balatar By Zulqarnain Hundal

سمجھ سے بالاتر۔دہرا معیار۔۔۔۔ تحریر: چوہدری ذوالقرنین ہندل،گوجرانوالہ

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین پراتارا ہے۔ اور بنی نوع انسان کا بھی فرض ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکا مات کے مطابق زندگی گزارے اور اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دے۔ خیر چھوڑئیے دنیا میں انسان تو مختلف رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔ مجھے آج پاکستانی عوام پہ بات کرنی ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ہماری عوام سمجھ سے بالاتر ہے۔ میں ایک عرصہ سے عوام پر نظر لگائے بیٹھا ہوں۔ میں نے لوگوں کو بہت تولا۔ ناپا۔ جانچا اور پرکھا لیکن جب میری باری آئی تومجھے ترازو ہی نہیں ملا کیونکہ مجھ سے اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا مگر دوسروں کے گریبان سے نظر نہیں ہٹتی ۔ یہی ہماری عوام کا المیہ ہے۔ کہ خود میں چاہے لاکھ خامیاں خرابیاں ہوں۔مگر خود کو دوسروں سے افضل جانتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔ کسی ایک بات پر کسی ایک معیار پر اکتفاء نہیں کرتے۔ ہرروز اپنی رائے بدلتے ہیں۔ اپنی ہر خامی خرابی دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ خود کو پاک دامن تصور کرتے ہیں اور دوسروں کو کم تر ۔زندگی کا کوئی معیار نہیں۔ معیار لوگوں کی دولت کے مطابق ہے۔ دولت کے مطابق معیار۔ خیر پانچوں انگلیاں برابر تو نہیں ہوتی۔کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو واقعی دین دار ہیں اور انسانیت کوسمجھتے ہیں۔ جنہوں نے اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھاما ہے۔ جو مذہب وطن کو اپنے مفاد کے لیئے استعمال نہیں کرتے۔افسوس کے ایسے انسانوں۔ مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جوخود کو عامل اور باعمل سمجھتے ہیں مگر عمل انسے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اور خود کو بہتر جانتے ہوئے انہوں نے دوسروں کی زندگی اجیرن کرر کھی ہے۔ صرف انکا مقصد تنقید کرناہے۔دوسرے کو کم تر دکھا نا ۔ خود کو افضل دکھانا خیر چھوڑئیے ایسی عوام پہ تو تبصرہ ہوتا رہے گا ۔ آخری ہفتہ جو گزرا ہے اپنے ساتھ بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔قارئین جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ۔گزشتہ سو موار کو ممتاز حسین قادری صاحب کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔یہ خبر سن کر میں بھی ششدر رہ گیا۔ عوام کافی ہلچل میں رہی۔ ممتاز حسین قادری صاحب کو سابقہ گورنر سامان تاثیر کے قتل کے جرم میں سزا دی گئی۔ممتاز حسین قادری صاحب نے سلمان تا ثیر کو بار باراسلام مخالف بیانات اور توہین رسالت کی مجرم آسیہ کی ہمدردی اور اسلام کے قانون کو کالا قانون کہنے کی وجہ سے ممتاز قادری نے انہیں قتل کیا ۔اچھا کیایا غلط یہ تو اللہ تعالی بہتر جانتے ہیں لیکن انسان اپنے حذبات پر قابو نہیں پا سکتا جب کوئی اسکے مذہب کے بارے میں غلط کہے۔اور میرے نزدیک ممتاز قادری شہید بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکا وہ ایک سچا عاشق رسول تھا۔ اس بات کا یقین سب کو ہے۔ جب تختے پر لٹکایا گیا تو اس عاشق رسول کے ہاتھ پاؤں نہ کانپے اور نہ ہی اسکے دل میں خوف اور مایوسی تھی۔ بلکہ ممتاز قادری نے خوشی خوشی اپنی جان دے دی۔افسوس ہے۔ایسے انصاف والوں پر اور ایسی عوام پر جن کے پاس دہرا معیار ہے۔ اور ایسے حکمرانوں پر آج بہت سی تنظیموں اور پارٹیوں اور لوگوں کی طرف سے احتجاج کیئے جارہے ہیں۔جبکہ اب ممتاز قادری اپنے خالق حقیقی کو جا ملے ہیں۔ ان لوگوں سے میرا ایک سوال ہے کہ کہاں تھے لوگ جب ممتاز قادری کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ تب کوئی سامنے نہیں آیا جب ممتاز قادری جیل میں قید تھے۔کہاں تھی یہ نعرہ بازی۔ کہاں تھے یہ اسلام والے جو آج اپنے مفادوں کی وجہ سے یا اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ہرگز کوئی بھی اسکا درست جواب نہیں دے گا۔ کیونکہ ان سب میں دہرا معیار ہے۔ اگر ان لوگوں نے اتنے احتجاج اور جلوس پہلے قادری صاحب کے حق میں کئے ہوتے اور سب نے مل کر ممتاز قادری صاحب کی رہائی کے لےئے حکومت سے اپیل کی ہوتی ان کے لےئے ایک اچھا وکیل کیا ہوتا مگر افسوس تب یہ سب سوئے ہوئے تھے۔ اب اپنے مفادوں کو ترجیح دینے یہ وطن میں توڑ پھوڑ کروا رہے ہیں۔دوسری مایوسی مجھے حکومت اور انصاف کرنے والوں پہ ہے۔ خیر ان لوگوں سے تو ایسی ہی توقع کی جا سکتی ہے ۔کیونکہ انکی نظر میں انصاف کا معیار ایک نہیں۔ صدر اور وزیراعظم آج چپ بیٹھے ہیں۔کیا یہ ایسے کریٹیکل معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔فیصلہ کر سکتے تھے مگر نہیں کیا کیونکہ انہیں عاشق رسول کی کوئی پروا نہیں بلکہ ایک سیاستدان کی پرواہ ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیوں سب کے لےئے انصاف کا معیار اور ہے؟ کیوں ریمنڈڈیوس کو پھانسی نہیں دی گئی؟ کیوں شارخ جتوئی زندہ ہے ۔کیوں مصطفی کانجو اور گیلانی صاحب کے بیٹے زندہ ہیں۔کیا انکی باری انصاف کامعیار اور ہے۔ ہمارے وطن میں متعدد لوگوں کو عمر قید کی سزائیں بھی سنائیں گئی ہیں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ قتل کے جرم میں ۸’۷’۱۰ سال کی سزا کے بعد مجرم کو رہا کر دیا گیا ہے۔کیا ممتاز قادری کی باری ان پر کوئی دباؤ تھا یا ذاتی رکھ رکھاؤ کو قائم رکھا۔ یہ پاکستان ہے۔یہ اسلام کے نام پر حاصل کیاگیاہے۔پھر اس میں انصاف بھی سب کے لئے ایک ہونا چاہیے۔ ایسی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جہاں انصاف کا معیار دہرا ہوتا ہے۔ پاکستان میں انصاف کا فقدان عرصہ دراز سے ہے۔ اسی لئے آج ہم افراتفری کی قید میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ہماری حکمرانوں کی نظر میں دہرا معیار ہماری عوام کی نظر میں دہرا معیار ہم سب افرا تفری کی قید میں قابو ہیں۔ہمیں صرف اپنی فکر ہے۔ دوسروں کے لئے کوئی سوچتا بھی نہیں نہ مذہب کی پاسداری نہ وطن کی۔ صرف مفاد پر ستی رہ گئی ہے۔ یہ سب اسلام دین سے دوری کے باعث ہے۔ ہمیں خود کو بدلنا ہو گا۔ ہم سمجھ سے بالاتر ہوتے جارہے ہیں۔
کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندہ حق تو بھی ادھر جا

Wednesday 2 March 2016

Ethad E Insaniyat By Zulqarnain Hundal



اتحاد انسانیت

(Zulqarnain Hundal, Gujranwala) 


اتحاد انسانیت ایک بہت ہی اہم عنوان ہے ۔اس عنوان کو زیر بحث لا رہا ہوں ۔اس عنوان کے بارے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے میں کوئی بڑا رائیٹر نہیں ہوں اسی لئے میں اس عنوان پر صرف اپنی رائے پیش کروں گا۔ یہ میری رائے ہو گی آپکی رائے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ قارئین میرے نزدیک انسانیت میں اتحاد کا شروع ہی سے فقدان رہا۔انسان جوں جوں زندگی میں آگے بڑھتا گیادشمنیاں بڑھاتا گیا۔انسانیت کو بری طرح کچلا گیا۔ اتحاد نام کی چیز پورے انسانوں کی بجائے کسی ایک طبقے میں بھی نہیں۔چونکہ میرا عنوان اتحاد انسانیت ہے میں اسی پر ہی رہوں گا۔ ’’انسانیت‘‘ میرے نزدیک انسانیت اسے کہتے ہیں جو کسی سچے اور نیک انسان میں پائی جاتی ہے جو شخص دوسروں کے لیے بہتر سوچے کسی کے غم میں غمگین اور خوشی میں خوش اور مصیبت میں پوری کوشش اور ہمت سے مدد کرے جسے صرف اپنی اپنے خاندان اپنے فرقے کے علاوہ پوری انسانیت کی فکر جس کے کام جس کی باتیں سب انسانوں کی بھلائی کے لیے ہو۔ انسانیت لفظ لکھنے میں تو چھوٹا سا ہے۔لیکن اس کی تعریف وتشریح بہت زیادہ ہے۔
لفظ اتحاد کے معنی ہیں متحد ہو کر رہنا اتفاق قائم کرنا یکجا ہونا ۔ لفظ اتحاد کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ جن کا آپس میں اتحاد قائم ہو وہ قومیں ہمیشہ مضبوط ہوتی ہیں۔ اگر ہم با قا ئدہ مطالعہ کریں تو ہمیں انسانوں میں ان دونوں چیزوں کا فقدان نظر آئے گا۔ اتحاد انسانیت کا۔ انسان ماضی میں بھی اتحاد انسانیت قائم کرنے کی کوششیں کرتا کچھ حد تک کامیاب بھی رہامگر شیطان کو یہ ہر گز گوارا نہ تھا ۔ کیونکہ اس نے انسانوں کو برباد کرنے کاٹھیکہ لے رکھا تھا۔ اسی لیئے شیطانی وس وسوں نے کبھی بھی انسانوں میں اتحاد اور انسانیت کو قائم نہیں ہونے دیا۔انسان ہمیشہ سے ہی بھٹکتارہا۔اﷲ تعالی نے انسانوں کی اصلاح کے لیئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ پر نبوت کا خاتمہ کر دیاآپ ﷺ دنیا کے آخری پیغمبر ہیں۔اس کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔ اب آپﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا تا قیامت ضروری ہے۔آپﷺ صرف مسلمانوں کے ہی نہیں پورے جہاں کے پیغمبر ہیں۔ آپﷺ نے بھی انسانیت کا درس دیا۔ اور انسانیت میں اتحاد کو ضروری قرار دیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اسی طرح آپﷺکی تعلیمات پورے عالم کے لئیے ہیں۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اک نسخاء کیمیاء ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا سوت حادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
کہاں ہے وہ اخوت وہ بھائی چارہ وہ اتحاد جسے ہمیں اسلام نے سکھایا؟کیا ہم مسلماں کہلانے کے لائق ہیں؟کیا ہمارے اندر انسانیت ہے؟ ہم بس افراتفری میں قید ہیں انسانیت ایک بہت بڑا خزانہ ہے اسے لباس میں نہیں انسان میں تلاش کرو ہمیں جس سبق کو پڑھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ انسانیت کا ہے۔انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں قدرت کا عطا کردہ ہے لیکن اپنے اندر انسانیت بنائے رکھنا ہمارا انتخاب ہے دین عقل کی زمین پر معرفت کا وہ درخت ہے جس کا تنا اخلاق شاخیں قانون اور پھل عدل و انصاف ہے کس قدر بد نصیب ہیں ہم کہ ہمیں انسانوں کی اس دنیا میں ہمیشہ علم اور عقل کی اہمیت ثابت کرنا پڑی اگر تم عظمت کی بلندیوں کو چھوناچاہتے ہو تو اپنے دل میں انسانیت کے لیے نفرت کی بجائے محبت آباد کرو۔مگر ہم حقیقت کی طرف نہیں آتے۔ہم مسلمان ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اتحاد انسانیت میں کردار ادا کریں۔نہ کہ مسلمان مسلمانوں کا ہی خون کا پیاسا رہے۔ ہمیں سب قوموں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔بقول اقبال ۔
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی 
کہ ہوں ایک جنیدی وارد شیری 

ہمیں غیر مسلمانوں کے ساتھ بھی متحد ہو کر اپنی اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنا ہے۔ ہمیں ثابت کرنا ہے کہ اسلام بھائی چارے کا درس دیتا ہے اتحاد وانسانیت کا درس دیتاہے۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اب اتحاد میں فقدان ہے۔اور یہ دین سے دوری کے باعث ہے۔ ہمیں پہلے آپس میں اور پھر پورے عالم انسانیت میں اتحاد قائم کرنا ہے۔ہمیں فضول کاموں کو چھوڑ چھاڑکر انسانیت کے لیئے سوچنا چاہیے ۔ آج لوگ آپس میں لڑ لڑ کر مر رہے ہیں۔انہیں اتحاد کا درس دینا ہے۔ اور نقصانات سے بچانا ہے۔سبھی رشتوں کے لیئے دن منائے جائے ہیں۔کاش کوئی روٹی ڈے بھی ہوتا بھو کے لوگ پیٹ بھر کے روٹی تو کھا تے کاش کوئی کوئی کپڑا ڈے بھی ہوتا۔تو ٹھنڈ سے ٹھٹھرتے غریب لوگ بھی کپڑے پہنتے کاش کوئی انسانیت ڈے بھی ہوتا۔ تو لوگوں کو سمجھ آتی کہ انسانیت کیا ہوتی ہے۔اور انسانیت میں اتحاد کتنا ضروری ہے۔ 
دیادرس ہے اسلام نے انسانیت کا
رہے نہ اب کے مسلمان متحد 
اسی میں ہندل ہے فائدہ انسانیت کا 
کے رہیں ہر قدم انسان متحد

Tuesday 1 March 2016

Patang Bazi-Basant Mela By Zulqarnain Hundal



پتنگ بازی۔بسنت میلہ

(Zulqarnain Hundal, Gujranwala)

بسنت میلہ ایک موسمی میلہ ہے جو عرصہ دراز سے پنجاب بھر اور دوسرے علاقوں میں منایا جاتا رہا اسے بھارتی بسنت پنچمی بھی کہتے ہیں یہ تہوار ۔میلہ جنوری۔فروری میں موسم بہار کے آغاز پر منایا جاتا۔بسنت میلہ پاکستان میں لاہور کراچی اور دوسرے شہروں میں منایا جاتا رہا چند عرصہ پہلے کیمکل ڈور کے خطرات کے باعث بسنت میلے پر پابندی عائد کی گئی کیونکہ کیمکلز ڈور وں کی وجہ سے بہت سے جانی نقصانات بھی ہوئے اور بہت سے ایسے واقعات بھی سامنے آتے رہے۔انیسویں صدی میں تاریخی مہاراجہ رنجھیت سنگھ نے بسنت میلہ کا آغاز کیا۔اور عرصہ دراز سے ہندوستان کے لوگ بسنت کو ایک تہوار کی طرح مناتے رہے اور اسکے لئے باقائدہ تیاریاں بھی کی جاتیں لوگ میٹھے میٹھے کھانے پکاتے پیلے رنگوں کے کپڑے پہنتے اور گھروں کو سجھاتے ہندؤں اور سکھوں میں بسنت کو بڑی اہمیت دی گئی اور اسے بہت خوش اسلوبی سے مناتے چونکہ مسلمان سکھ ہندو اکٹھے رہتے تھے اسی لیے انکی بہت سی عادات ملتی جلتی تھیں اسی لئے کچھ مسلمان بھی بسنت کے بڑے شوقین تھے اور ہیں۔وہ پرانے وقت وہ پر فضا کھیت اور وہ خوش اخلاق و ہمدرد لوگ ہر کھیل اور تہوار کو اپنے رنگ میں رنگ دیتے مگر اب کے بار وقت بدل گیا ہے نہ وہ فضا نہ وہ کھیت نہ وہ خالص پن نہ وہ خوش اخلاقی یہ وقت افراتفری کی گرفت میں ہے ہر طرف افراتفری چھائی ہوئی ہے اور ہر بنی نوع انسان کو اس نے اپنی لپیٹ میں لپیٹ رکھا ہے چھوڑئیے افراتفری کو اس پہ تو بات ہوتی رہے گی۔بات تو بسنت کی ہے قارئین اس موجودہ افراتفری میں کیا بسنت کیا میلہ۔ اب یہ بسنت میلہ وہ بسنت میلہ نہیں رہا ۔ اب یہ صرف پتنگ بازی ہی رہ گئی ہے۔ان کیمکلز نے ہماری فصلوں زمینوں کو تباہ کرنے کے بعد ہماری زندگیوں میں تبدیلیاں شروع کردی ہیں ۔اس طرح کمیکلز ڈوروں نے لوگوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ انسان ظاہری طور پر تو ترقی کرتاجارہاہے۔مگر اسکا باطن افسردہ ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے انسان اپنی تخلیفات سے اپنوں کو ہی نقصان پہنچنے دیکھ کر نفسیات کے گھیرے میں قید ہورہا ہے۔خیر چھوڑئیے اس فلسفے کو اور خبردار رہیے پنجاب حکومت نے پتنگ بازوں کے خلاف سخت اقدامات شروع کر دیے ہیں گزشتہ روز گوجرانوالہ میں بسنت کے بار ے میں سنا لوگ چھپ چھپا کر بسنت مناتے رہے مگر جو پکڑے گئے پنجاب پولیس نے انکی خوب دھلائی کی اور حوالات کی ہوا بھی کھلائی شہریوں کو ڈور پھرنے اور زخمی ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے تاہم پابندی اور سختی کے باعث کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔بہت سے دوستوں کی خواہش تھی کے میں بسنت کی بحالی کے بارے میں لکھوں مگر مجھے بسنت و پتنگ بازی میں کوئی دلچسپی نہیں اسی لئے ٹال مٹول س کام لیا اور اب زیادہ اصرار پر لکھ رہا ہوں۔میرے خیال میں بسنت منانا اور اسکا حکم جاری کرنا بے وقوفی ہے پنجاب حکومت نے سختی کر کے اچھا اقدام کیا بہت سے نقصانات پر قابو پایا گیا میں ان کی کاوش کو سراہتا ہوں.
.مگر ہم کب تک اس پر قابو پاتے رہیں گے آخر کار ہمیں اسکا کوئی اور حل نکالنا ہی ہوگا بہت سے متوالے اور بسنت دیوانے پاکستان میں موجود ہیں ہم ان کے ارمانوں کو ختم نہیں کر سکتے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حفاظتی اقدامات بڑھائے جائیں اور کیمکل اور دوسری نقصان دہ ڈوروں پر پابندی لگائی جائے اور ایسی فیکٹریوں اور لوگوں کو حراست میں لیا جائے جو نقصان دے ڈوریں بناتے اور انکو سپلائی کرتے ہیں بسنت منانے کے لئے کچھ مخصوص مقامات کا انتظام کیا جانا چاہیے ایسے علاقوں میں بسنت میلہ کو آرگینائز کیا جائے جہاں آبادی کم ہو اور ٹریفک کا رجحان کم ہو۔کائٹس ایسوسی ایشنز اور حکومت کو مل کر بسنت میلہ کے معاملات کو طے کرنا چاہیے اور نقصانات کو زہن میں رکھ کر ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں نقصانات سے بچا جاسکے اور لمیٹیشنز پر امپلیمنٹ کروانا چاہیے اور اس کام میں کائٹس ایسوسی ایشنز کو بھی حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔

Urdu Poetry By Zulqarnain Hundal

رمز زندگی
Poet: چوہدری ذوالقرنین ہندل
By: Ch.Zulqarnain.Hundal, Gujranwala

بہت کٹھن ہے یہ فطرت انسانی میرے دوست
ہر انسان اس فطرت کا قائل نہیں ہوتا

جینا مشکل ہے حالات زندگی میں دربدر
ہر شخص اس دنیا میں سائل نہیں ہوتا

زندگی کی رنگینیوں میں جو رنگا بنی نوع انسان
اس کی تقدیر میں ایمان کا فائل نہیں ہوتا

بے جا مسرت و پریشانی ہے شہر زندگانی میں
جسکا عقیدہ ہو پختہ وہ جاہل نہیں ہوتا

ہو جو زندگی کا طرز ہی درویشانہ و فقیرانہ
اس پر نشئہ شاہانی کبھی حائل نہیں ہوتا