Sunday 24 April 2016

Meeting With Munib Iqbal

تقریب میسج آف اقبال ٹو یوتھ ۔ملاقات منیب اقبال




چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔۹۶۲۲۵۶۴۲۴۳۰
بیس اپریل کو میں ڈیپارٹمنٹ میں موجود تھا ایک دوست حافظ امیرحمزہ بھاگتے ہوئے آئے اور بتانے لگے کہ آج منیب اقبال شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے پوتے یونیورسٹی ایڈی ٹوریم میں تشریف لا رہے ہیں میرے ساتھ چلو انکا خطاب سنیں گے۔میں بہت کم ہی تقریبوں میں جاتا ہوں مگر حافظ صاحب نے ہمیں علامہ محمد اقبال کی عقیدت میں قائل کر لیا ۔ڈیپارٹمنٹ سے اجازت مانگی اور ایڈی ٹوریم کی طرف چل دیے لگ بھگ دو بجے کا وقت تھا پانچ منٹ بیٹھنے کے بعد میں نے جائزہ لیا کہ ابھی سیمینار کے آغاز میں کچھ وقت ہے۔میں اٹھ کر سیمینار کے آرگنائزر الیکٹرونکس سوسائٹی کے صدر عتیق الرحمان ان کے پاس چلا گیا اور اپنے بارے میں بتایا کافی رسپیکٹ ملی اورپھر ایونٹ کے بارے معلوم کیا انہوں نے مجھے بتایا کہ ابھی منیب صاحب کے آنے میں کچھ وقت درکار ہے ہم ایونٹ کے فوری بعد ریفریشمنٹ کے دوران آپکی ملاقات منیب صاحب سے کروا دیں گے۔میں وہاں سے حافظ کو لے کر قریب ہی فلیٹ میں چلا گیا ایک گھنٹے بعد کچھ با ذوق دوستوں صدام ثاقب اور اظہر نے ہمیں زبردستی پھر ساتھ لیا اور سیمینار میں چلے گئے یونیورسٹی آف لاہور الیکٹرونکس سوسائٹی والوں نے اچھا انتظام کیا ہوا تھالوگ پورے نظم و نسق کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے منیب صاحب کے آنے میں کچھ وقت ابھی بھی تھا اس سیمینار و ایونٹ کا نام و عنوان تھا’’ میسج آف اقبال ٹو یوتھ بائے منیب اقبال‘‘۔ اس بار انتظار نہ کرنا پڑا تھوڑی ہی دیر بعد منیب اقبال تشریف لائے اور پر جوش استقبال کیا گیا تلاوت قرآن پاک سے باقاعدہ تقریب کا آغاز کیا گیا آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ اکیس اپریل۸۳۹۱ کو علامہ محمد اقبال اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر لوگوں کے دلوں میں ابھی تک زندہ ہیں۔یہ تقریب علامہ صاحب کی برسی کے سلسلہ میں منعقد کی گئی تقریب میں لڑکوں نے اقبال کی شاعری سنائی اور نغمہ پیش کیا جی منیب صاحب کے خطاب کی باری آگئی آپ کو بتاتا جاؤں کہ منیب اقبال کافی ہنسی مذاق والے انسان ہیں انہوں نے سٹیج پر آتے ہی کہا’’پائی میں ڈاکٹر ڈوکٹر کوئی نئی ایویں مینوں وی لوگ اقبال صاحب دی عقیدت نال ڈاکٹر کہہ دیندے نے‘‘ ان کے اس سٹارٹنگ جملے سے لوگ زرا پہلے سے زیادہ متوجہ ہو گئے۔منیب صاحب نے کافی لمبا خطاب کیا جس میں سے کچھ سرسری باتیں بتا دیتا ہوں انہوں نے بتایا کہ علامہ صاحب کی پیدائش فجر کی آذان کے وقت ہوئی اور جب وہ اس دنیا س رخصت ہوئے تب فجر کی جماعت کھڑی تھی یعنی انہوں نے اذان سے لے کر جماعت تک کا وقت پایا اور اس تھوڑے وقت میں لوگوں کے دلوں پر چھا گئے اور اللہ نے اتنا ذیادہ مقام عطا کیا۔بتایا کہ علامہ صاحب نے انگریز حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب لینے سے انکار کردیا اور خواہش ظاہر کی کہ جب تک میرے استاد سید میر حسن کو ’’شمس العلماء ‘‘ کا خطاب نہیں ملتا تب تک میں بھی یہ خطاب نہیں لے سکتا انگریز حکومت نے کہا کہ آپ کی نظمیں اور اشعار بہت سی اخبارات پر شائع ہوتے ہیں آپکو بہت سے لوگ جانتے ہیں مگر میر حسن ۔علامہ صاحب نے جواب دیا میں بذات خود چلتا پھرتا اپنے استاد کی ایک کتاب ہوں۔انہوں نے بتایا کہ علامہ صاحب نے انسانیت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لئے بھی شاعری کی اور نوجوانوں کو بیدار کیا کیونکہ نوجوان قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں منیب صاحب نے اپنے دادا کے یہ اشعار بھی پڑھے۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں 
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
منیب صاحب نے ایک واقعہ بتایا کہ نہرو پنڈت ایک دفعہ ملاقات کے سلسلے میں علامہ صاحب کے پاس تشریف لائے اور نیچے زمین پر بیٹھ گئے علامہ صاحب بڑے حیران ہوئے اور کہا اوپر بیٹھیں جواب میں نہرو نے کہا ہم تو بہت چھوٹے درجے کے پنڈت ہیں آپ کے آباؤ اجداد بہت اعلی درجے کے پنڈت تھے اسی لئے ہماری جگہ یہیں بنتی ہے علامہ صاحب کو بہت غصہ آیا کیونکہ وہ ایک سچے مسلمان اور درجوں پر یقین نہیں رکھتے تھے خیر پنڈت نہرو نے باتوں باتوں میں اقبال صاحب کو کہا کہ آپ نے محمد علی جناح کو مسلمانوں کی قیادت کیوں سونپی بلکہ آپ کو تو خود ہی مسلمانوں کی قیادت سنبھالنی چاہیے تھی علامہ صاحب کو بہت غصہ آیا اور کہنے لگے میں تمہاری سازشوں کو اچھی طرح جانتا ہوں تم ہمارے اندر تفرقہ ڈالنا چاہتے ہو مگر میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گا جان لو کہ مسلمانوں کے اصل لیڈر جناح ہی ہیں میں انکا ایک عام سا سپاہی ہوں اور ساتھ ہی نہرو کو گھر سے چلتا کیا۔منیب صاحب نے بتایا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اقبال اور جناح کی آپس میں بنتی نہیں تھی یہ انکی بھول ہے انہیں’’ لیٹرز آف اقبال ٹو جناح ‘‘بک پڑھنی چاہئے بہت کم لوگ اس بک کے بارے میں جانتے ہیں یہ بک اقبال نے لکھی اور جناح نے پبلش کروائی۔علامہ صاحب کے دوقومی نظریے کے بارے میں سب جانتے ہیں منیب صاحب نے کافی چیزیں بتائیں جو پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔تقریب کے فوری بعد ریفریشمنٹ تھی ریفریشمنٹ کے دوران میری منیب اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی دعا
سلام کے بعد میں نے اپنا تعارف کروایا تھوڑی گپ شپ کے بعد میں نے منیب صاحب سے سوالات شروع کردیے۔میں نے بھی آغاز ہنسی مذاق سے کیا منیب اقبال ابھی غیر شادی شدہ ہیں شادی سے متعلق سوال کر دیا اور انہوں نے بڑی ہوشیاری سے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ اقبال بھی آزادی پسند تھے میں بھی ابھی آزادی چاہتا ہوں کچھ عرصہ بعد شادی کا سوچوں گا پھر میں نے یوتھ کے متعلق سوال کیا اور انہوں نے جواب میں کہا کہ ہمیں ساری امیدیں یوتھ سے ہی وابستہ کرنی چاہیے عمر رسیدہ لوگوں کو تو بار بار آزما چکے ہیں میں نے سیاسی پاٹیوں کے بارے میں پوچھا تو کہنے سب ایک جیسے ہیں۔پی ٹی آئی کے بارے پوچھا تو کہنے لگ جیسے پی ایم ایل نواز ویسے ہی پی ٹی آئی سب ایک جیسے ہیں سیاست کے بارے انہوں نے زرا محتاط ہو کر جوابات دئیے۔میں نے تبدیلی کے بارے پوچھا تو بتانے لگے کہ تبدیلی حقیقت میں سوچ کی تبدیلی ہے تبدیلی عوام کے شعور سے ہے ۔میں نے اقبال اکیڈمی کے بارے پوچھا تو کہنے لگے اقبال اکیڈمی کا نائب صدر ہوں اقبال اکیڈمی ہر کوئی جوائن کر سکتا ہے اسے جوائن کرنے کے لئے ایف اے بی اے تک تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے میں نے ان سے ذاتی زندگی اور سیاست کے بارے اور بھی بہت سے تیکھے سوالات پوچھے جن کویہاں بتانا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ میراا ن سے ملاقات کا مقصد فیوچر میں علامہ صاحب کے بار میں معلومات حاصل کرنا ہے تاکہ ان سے مل کر وہ معلومات حاصل کی جاسکیں جو بہت کم لوگ علامہ صاحب کے بارے میں جانتے ہیں اور انشاء اللہ بہت جلد علامہ صاحب کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی اور منیب صاحب کے والد جاوید اقبال کے بارے میں بھی وقفوں میں لکھوں گا ۔فیوچر میں منیب صاحب سے ملاقاتوں کا مقصد صرف اور صرف معلومات حاصل کرنا ہے۔

آخر میں اقبال کا شعر
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Sunday 17 April 2016

Tabdeeli Part 2 by Zulqarnain Hundal

تبدیلی(دوسرا حصہ)

ذوالقرنین ہندل
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
حبیب جالب کا شعر ہے حبیب جالب نے جو انقلابی گیت لکھے وہ اب کچھ اور ہی کام کے لئے استعمال ہو رہے ہیں خیر تبدیلی و انقلاب شاعری میں تو زندہ ہے۔قارئین میں آج آپکو بتانے کی کوشش کروں گا کہ ہمارے نظام اور معاشرے کے بگاڑ کی وجوہات اور ساتھ ہی حقیقی تبدیلی کے بارے آگاہ کروں گا اور بتاؤں گا کہ تبدیلی کیسے ممکن ہے۔قارئین دین سے دوری ایک بہت بڑا فیکٹر ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا اور ہو رہا ہے ہمارا نظام مفلوج ہے ہمارے حکمران و عوام دھوکے باز کرپٹ ہیں۔دوستو آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ دین کا تبدیلی سے کیا تعلق ہے۔بہت گہرا تعلق ہے ہمارا دین اسلام زندگی کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے اور آج ہم اپنے دین کے راہنما اصولوں کو ہی بھول چکے ہیں اور غیر مذاہب قومیں اور وطن ہمارے دین کے اصولوں کو لے کر دن رات ترقی کی طرف گامزن ہیں۔حقیقی تبدیلی ان میں آئی ہے۔ جنہوں نے اپنے معاشرے کی بہتری کے لئے اسلام کے راہنما اصولوں کو اپنایا ۔ دوستوں نہ تو میں کو ئی عالم ہوں نہ ہی کوئی مولوی البتہ میرا دل کہتا ہے۔ کہ تبدیلی کا واسطہ دین سے ہے۔ اگر ہم دین اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو ہمارا معاشرہ تبدیل ہو سکتا ہے اسکی دو چھوٹی مثالیں جھوٹ سے اور سود سے اجتناب فرق واضح نظر آئے گا۔دین اسلام کا تبدیلی سے کیا لنک و ہ بھی تفصیل میں پھر کبھی لکھوں گا۔ غربت بھی ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔جو ہمارے معاشرے کی بگھاڑ میں شامل ہے۔ غربت کی وجہ سے جرائم میں اصافہ ہو رہا ہے اور ہو چکا ہے۔غربت کا ڈائریکٹ لنک کرپشن سے ہے۔اور کرپشن سے غربت اور پھر غربت سے مزید جرائم دہشت گردی قتل و غارت چوری ڈکیٹی اور ایسے بہت سے جرائم اور بھی ایسے مزید فیکٹر ہبں جو معاشرے کی تبدیلی میں رکاوٹ ہیں لیکن دہرا معیار ڈیول پالیسی یعنی امیروغریب کا فرق اور جاگیردار نہ نظام خاندانی سیاست اور اعلی عہدوں پر لالچی اور چوروں ڈاکوؤں کا قبضہ اسے یہ کہنا بجا ہو گاکہ سارے فیکٹرز کی جڑ ہیں یہ۔ میں نے بارہا سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان کا موجودہ نظام تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پورا کا پورا نظام ایسے نظام کا کیا فائدہ جہاں قانون تو ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں اور نہ ہی قانون کی پاسداری جہاں انصاف نہیں مجھے تو بھکاؤ لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جب میں انکے بارے میں سوچتا ہوں کہ ان لوگوں نے اﷲ تعالی کو حاضر ناظر جان کرایمانداری کا حلف اٹھایا ہے کیا ایسے حلف کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا ہے یہ سب اتنا پڑھنے لکھنے کے بعد بھی جہالت؟ ہم نے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا کہاں ہیں اسلامی قوانین ؟اگر ہیں تو پاسداری کیوں نہیں؟ کیا ہمیں اﷲ تعا لی کے سامنے پیش ہونے کا کوئی خوف نہیں ایسے نظام کا کیا فائدہ جہاں غریب۔ غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔اورامیر۔ امیر سے امیر تر قسم سے کبھی کبھی دل چاہتا ہے ایسے نظام کو ہی آگ لگا دوں نہ تو ہم ایسا کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ اس کا حل ہے اصلی حل تو زہن کی تبدیلی ہے۔زہن دل و دماغ نیز اپنی آنکھوں کانوں اور ہاتھوں اپنے جسم کے ہر اعضاء کو اسلام کے مطابق استعمال کرو پہلے اپنے اندر تبدیلی لاؤ اپنے اندر انقلاب لاؤ اپنا زہن تبدیل کرو۔جتنا ہمارا نظام بگھڑ چکا ہے اس میں تبدیلی لانے کے لئے کافی عرصہ لگ سکتا ہے اگر ہم کہیں کہ آلہ دین کا چراغ لا کر فٹا فٹ ہی سب کچھ تبدیل کر دیں گے تو یہ جھوٹ ہے۔اور میں بتاتا جاؤں کے بڑے بڑے تبدیلی کے دعویدار بھی جھوٹے ہیں اس وطن میں سب پنجابی والے (دا) یعنی داؤ پر بیٹھے ہوتے ہیں کب انہیں بھی لوٹنے کا موقع ملے۔آخری کالم میں بھی میں الیکشن کمیشن سے مخاطب ہوا تھا پھر کچھ کہنا چاہتا ہوں خدارا اپنے ہونے کا کچھ ثبوت پیش کریں اور آئندہ انتخابات سے پہلے ہی کوئی ایسی پالیسی تشکیل دیں جس سے کرپٹ لوگ ہمیشہ کے لئے نا اہل ثابت ہو جائیں ایسا نظام اور پالیسی بنائیں کہ اسلحہ اور روپے کی طاقت کا استعمال الیکشنز میں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے ایسی پالیسی ہو کہ غریب اور ایماندار لوگ بھی سامنے آسکیں اگر ایسا ہو جائے تو زندگی بھر کے لئے لو گ آپ کو دعائیں دیں گے اور اﷲ بھی اسکا اجر دے گا۔میری قومی اسمبلی کے تمام ممبران اور سینٹ کے تمام ممبران سے گزارش ہے کہ آئین میں ترمیم کر کے یہ بل پاس کیا جائے کہ وزیر اعظم اور صدر پاکستان کے لئے پی ایچ ڈی و ایم فل کی ڈگری اور تعلیم والے شخص ہی اپنے کاغذات جمع کرواسکیں قومی اسمبلی وزیر مطلوبہ وزارت میں ماسٹرو ایم اے تک تعلیم یافتہ ہوں ایم این ایز وایم پی ایز بھی کم از کم ماسٹر ڈگری ہولڈر ہوں اور ناظم ونائب ناظم بی اے اور جنرل کونسلر ایف اے تک تعلیم یافتہ ہوں اور عہدوں کے حساب سے نیٹ گیٹ سیٹ وغیرہ کے ٹیسٹ ہوں جن میں پاس ہونا لازمی ورنہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔میں جانتا ہو ں کہ ایسا ہونے نہیں دیں گے کیوں کہ یہ تبدیلی چاہتے ہی نہیں انکا لالچ معاشر کو ختم کر کے ہی دم لے گا موجودہ پاکستان کے نظام میں صاف ستھرے سیاسی نمائندوں اور لیڈروں کی ضرورت ہے جو لالچ کے بغیر وطن کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں اگر کوئی ایسا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تو میر نزدیک وہ بھی عبادت ہے۔ذرا سوچئے۔حقیقی تبدیلی کے بارے میں سوچئے ہمیں ہی کچھ کرنا ہے اپنے وطن کی ساکھ کو قائم رکھنے اور بچانے کے لئے۔



Share Comments




Sunday 10 April 2016

Tabdeeli By Zulqarnain Hundalتبدیلی


تبدیلی

چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔سٹی کوآرڈینیٹر ہماری ویب رائیٹرز کلب۔۹۶۲۲۵۶۴۲۴۳۰




ہمار ہاں پاکستان میں ہمیشہ سے ہی تبدیلی کا غلط مفہوم نکالا جاتا رہا عرصہ دراز سے ہی ہم سب تبدیلی کا مطلب بھی اپنے مطابق تبدیل کرتے ہیں ہر کوئی چینج کی بات کرتا ہے اور اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق اسی چینج کے معنی و مفہوم تبدیل کر دیتے ہیں۔لفظ تبدیلی بھی اب اکتا گیا ہوگا کہ کیسے وطن میں پھنس گیا ہوں میرا کوئی معیار کوئی وجود نہیں سرا سر مذاق بن کر رہ گیا ہوں بڑے بڑے تبدیلی کے دعویدار بھی تبدیلی کی باتیں آسمانوں کی بلندیوں تک کر کے پھر خود ہی اس فرش پر دے مارتے ہیں تبدیلی لفظ ایسے لوگوں کا کھلونا بن کر رہ گیا ہے ۔قارئین آپ سب سے ایک سادہ سا سوال ہے۔کہ تبدیلی کیا ہے؟ براہ کرم اپنے جوابات ضرور دیجئے گا۔ دوستو میرے نزدیک تبدیلی ایک پرفیکٹ چینج کا نام ہے۔ایک پازیٹیو چینج کا نا م ہے۔جو واقعی حقیقت میں ایک معاشر کو بدل کر بہتری کی طرف گامزن کر دے۔میں جانتا ہوں کہ آپ سب کے نزدیک بھی تبدیلی کا معیار ایسا ہی ہو گا۔تبدیلی ضمیر کی تبدیلی ہے ۔تبدیلی سوچ کی تبدیلی ہے۔ تبدیلی کچھ کرنے کی ہمت دلاتی ہے۔ تبدیلی نئے چہرے لاتی ہے۔ تبدیلی آنگن میں نئے اور پاک صاف پھل و پھول اگاتی ہے۔تبدیلی ہم سے ہے اور ہم تبدیلی سے ایک معاشرے کو بدل کر ایک اچھا اور خوشیوں والا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں تبدیلی حق و سچ کا غلبہ لاتی ہے۔قارئین تبدیلی ہر گز یہ نہیں کہ باپ کے بعد بیٹا یا بھائی۔تبدیلی یہ ہے کہ امیر کے بعد اہل غریب شخص۔اور دوستو چہروں کی تبدیلی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ایک چوہدری کی جگہ دوسرا چوہدری یا کسی بڑے چوہدری کی جگہ اس کا چھوٹا بھائی یا بیٹا لے آیا جائے۔ہمارے وطن پاکستان میں ہر نئے سیاستدان نے اپنا سیاسی آغاز بڑے جوش و جذبے سے کیا اور تبدیلی کے نعرے لگائے مگر تھوڑی بہت مقبولیت کے بعد وہی جاگیرداروں اور قوم کے لٹیروں کو ساتھ ہاتھ ملا کر تبدیلی لفظ کی بے حرمتی کرتے ہیں۔خیر یہ کہنا بجا ہوگا کہ تبدیلی پاکستان میں بہت زیادہ ہے وہ کچھ ایسے یعنی اپنا اسٹیٹس ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے جو نئے چہروں کو سامنے لانے سے تبدیلی کو منصوب کرتے ہیں انکے نزدیک ہی پھر تبدیلی کا معیار تبدیل ہو جاتا ہے جب وہ پرانے لٹیروں کو ساتھ ملا لیتے ہیں ایسے لوگوں کا مکروح چہرہ واضح ہو جاتا ہے اور انکے روز روز کے تبدیل ہونے کا بھی سب کو بخوبی علم ہوتا ہے
۔ایسا پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی نے کیا سب کے وعدے جھوٹے ہوتے ہیں یکے بعد دیگر وطن و قوم کا خزانہ لوٹ کر بیرون ممالک میں عالی شان محل اور بزنس ڈویلپ کرتے ہیں پاکستان کو ہمیشہ سے ہی جس کا جتنا بس چلا اس نے اتنا ہی لوٹا سب باری باری وطن کو لوٹتے ہیں ان کے بچے یورپ کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور وطن میں تعلیم کا دہرا معیار ادھر تعلیم کے بجٹ سے بیرون ممالک بچوں کی تعلیم اور آسائشیں۔ادھر صحت کا نظام بہت برا اور حکمرانوں کے زرا سی تکلیف پر بیرون ممالک مہنگے ترین علاج۔ہر سیاسی پارٹی قوم کو چونا لگانے پر تلی ہوئی ہے میں یقین سے کہتا ہوں کے یہ لوگ بیٹھ کر عوام پر ہنستے ہوں گے کہ بار بار عوام بے وقوف بن جاتی ہے
۔حقیقی تبدیلی عوام کی سوچ کی تبدیلی ہے نظام کی تبدیلی ہے۔شریف برادران ۔زرداری بھٹو فیملی۔ چوہدری برادران ۔عمران خان۔ اور مولانا حضرات سمیت سب کا مقصد صرف قوم کو لوٹنا ہی ہے بس فرق صرف اتنا ہے تبدیلی صرف اتنی ہے کہ سب کے لوٹنے کے طریقے تبدیل ہو جاتے ہیں۔تبدیلی تب ممکن ہو گی جب دہرا معیار ختم ہو جائے گا۔جب امیر وغریب کا فرق ختم ہو جائے گا امیر و غریب کے بچے ایک ادارے میں پڑھیں گے صحت کی بہتری کے لئے ایک جیسا ہی نظام ہو گا ایک ہی ہسپتال میں امیر و غریب علاج کر وائیں گے جب صحیح حقدار اور اہل حکمران سامنے آئینگے جب روپے کا لالچ ختم ہو جائے گا جب کسی غریب کا بیٹا بھی وزیر ہو گا تب ہی غریبوں کی بہتری کے لئے کچھ ہو سکے گا۔جب امیرو غریب کے لئے ایک جیسا نظام ہوگا ۔سرکاری ادارے فعال اور آزاد ہونگے انصاف کا نظام سب کے لئے یکساں ہو گا قانون سب کے لئے ایک ہو گا مگر یہ ممکن ہونا بہت مشکل ہے ہمیں اپنے حق کے لئے کسی نہ کسی طرح آواز اٹھانی ہوگی۔حقیقی تبدیلی ہم سے ہے۔میری الیکشن کمیشن آف پاکستان سے گزارش ہے کہ آئیندہ کچھ ایسا انتظام کیا جائے کہ الیکشنز میں روپے اور طاقت کے استعمال کو ختم کیا جائے اور نا ہل لوگوں کو ہمیشہ کے لئے مسترد کیا جائے اگر الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا کرے تو واضح فرق پڑسکتا ہے۔اگلا پارٹ تبدیلی بھی چند دنوں بعد
لکھوں گا