Wednesday 14 November 2018

پریشان حال چھوٹے کسان

ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔


’روٹی بندہ کھا جاندی اے‘ پنجابی کا یہ مشہور فقرہ آپ کو سچ نظر آئے گا۔ اگر آپ بے چارے چھوٹے کسانوں کی حالت زار کا اندازہ لگائیں گے۔گزشتہ ادوار میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو ۔مگر موجودہ دور میں آئے روز کوئی نہ کوئی کسان روزی روٹی کی نظر ہورہا ہے۔چاہے ہماری طرف ہو یا بارڈر کے دوسری طرف ہو۔تقسیم کے بعد سے دونوں ملکوں کے چھوٹے کسان مایوسیوں کی نظر ہوتے چلے آرہے ہیں۔ہر گزرتا دن ان محنتی اور جفاکش کسانوں کے لئے نئی پریشانیاں لاتا ہے۔زندگی ہل چلاتے گزر جاتی ہے ۔مگر قرض کا بوجھ ہے کہ کم نہیں ہوتا۔کتنے دکھ و تکلیف کی بات ہے کہ، وہ کسان جو لوگوں کے لئے خوراک و اجناس کاشت کرتے ہیں ۔وہ خود اپنے خاندان کی اچھی کفالت نہیں کر سکتے۔ان کی اچھی پرورش نہیں کرسکتے۔نہ ہی معیاری تعلیم دلا سکتے ہیں۔نہ ہی بہتر طبی سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں۔روٹی جس کے بغیر انسانی زندگی نہ ممکن ہے۔اس کی کاشت کرنے والا آج سماج میں سب سے زیادہ بدحال ہے۔اس کے برعکس کپڑا اور مکان بنانے والا سماج میں بڑی کاروباری شخصیت تصور ہوتاہے۔شاید زمانے کی رفتار نے کسان کی اہمیت و قدر کو بھی کھو دیا ہے۔
پاکستان کا زیادہ تر رقبہ زرعی و دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ شعبہ زراعت سے وابسطہ ہیں۔لیکن بدلتی صورتحال اور ضروریات کی بدولت لوگ اس شعبے کو ترک کر کے دیگر شعبوں سے منسلک ہو رہے ہو۔ اس بدلتی صورتحال کی وجہ سے پاکستان زرعی لحاظ سے اپنے ہم پلہ زرعی ملکوں سے زراعت کے شعبے میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔شاید یہ فرق آئندہ کئی برسوں میں بڑھتا چلا جائے۔
پاکستان میں زیر کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے۔ایسے کسانوں کی اکثریت ہے، جن کے پاس چند کنالوں سے لے کر بیس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔یہی کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان حال و بدحال بھی ہیں۔زمانے کی اس تیزی نے ان کسانوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ان کی کاشت کردہ اجناس سے حاصل شدہ معاوضہ ان کی روز مرہ کی ضرورتوں کی نسبت بہت کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔آئے روز ان کی ضرورتیں ان کے روزگار کو دھکیلتے ہوئے برق رفتار ی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔قرضوں کے بوجھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
بعض کسانوں کے حالات ایسے ہیں کہ برسوں سے ان پر قرضوں کا بوجھ چلا آرہا ہے۔ان کے باپ دادا بھی اسی قرض کے بوجھ کو کم کرتے کرتے ،اپنی زندگی تمام کر گئے۔کچھ کو اپنی گزشتہ نسلوں سے قرض زدہ وراثتی زمینیں ملی ہیں ۔جن کے بدلے وہ اپنے بزرگوں کو بد دعائیں تو نہ دیتے ہوں، لیکن کوستے ضرور ہوں گے۔بعض مفکرین کے نزدیک شعبہ زراعت سے وابسطہ یہ متوسط طبقہ شروع ہی سے پریشان حال چلا آرہا ہے۔ہر حکومت کی ترجیحات میں شہراور شہری مسائل ہی شامل رہے ہیں۔بعض کے نزدیک نہ صرف حکومت بلکہ نام نہاد تنظیموں اور حتی کہ میڈیا کی ترجیحات میں بھی شہری مسائل اور ان کا حل ہی رہاہے۔
کم علم ہونے کی بدولت یہ متوسط طبقہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے میں بھی ناکام رہا ہے۔دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کی ترجیحات میں بھی شہر اور شہری آبادی شامل رہی ہے۔سیاسی پارٹیوں اور حکومت کو تو صرف اپنی شہرت اور ووٹ حاصل کرنے سے غرض ہوتی ہے۔انہیں اس بات سے ہر گز کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو یا پھر پھلے ، پھولے۔اقتدار کا لالچ ہمیشہ سے زرعی علاقوں کو نظر انداز کرتا چلا آیا ہے۔
واقعی اس میں کسانوں کی اپنی کم علمی اور بڑی غلطیاں بھی شامل ہیں۔کسی بھی حکومت نے اس متوسط طبقے کی خود مختاری کے لئے صدق دل سے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔قرضوں کی نت نئی اسکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں۔جس کے جال میں پھنس کر چھوٹا کسان اپنی زندگی زہنی اذیتیوں کی نظر کر دیتا ہے۔کروڑوں اربوں کی سبسڈیاں نہ جانے کہاں چلی جاتی ہیں۔کبھی کسی چھوٹے کسان کو براہ راست کسی سبسڈی کا فائدہ نہیں پہنچا ۔بلکہ اس کے برعکس بڑے ذخیرہ اندوز اور بڑے جاگیردار ہی اس سے مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں۔اس جاگیردارانہ نظام میں ڈھنڈیاں مارنے کا سلسلہ بھی کافی پراناہے۔ڈھنڈیاں مارنے میں محکمہ زراعت ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔
اس کرپٹ نظام میں چھوٹے کسان کا ہمیشہ بھرکس ہی نکلتا رہا۔جو آج بھی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے۔کھادوں دواؤں کے بڑھتے ریٹ، چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اکساتے ہیں۔ڈیزل کے بڑھتے ریٹ، کسانوں کو خود پر چھڑک کرآگ کی نظر ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔زرعی آلات کی قیمتیں اور ان کے معیار، کسانوں کو ٹریکٹر کے نیچے دب کر کٹھن حالات سے چھٹکارے کی نشاندہی کرتے ہیں۔آخر میں فصلوں کے نامناسب ریٹ ،کسان کو ایسی فصل کے ساتھ ہی دفن ہونے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔جس سے کسان کے خون پسینے کا ازالہ نہ ہو ۔جس سے وہ اپنی اولاد کی پرورش نہ کر سکیں۔کسان تو آئے روز ویسے ہی مرتا ہے۔لیکن ’مڈل مین‘ مراد کاروباری اشرافیہ کے روپ میں ڈیلرز وغیرہ نے تو کسانوں کو جیسے راکھ کرنے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے، کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔یہ وہ متحرک گروہ ہے، جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹس کو کنٹرول کرتا ہے۔ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسان انہیں اپنی فصل اونے پونے بیچ جائے ۔ذخیرہ اندوزی ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔
ہمیشہ ہی سے حکومت اور اس کا چہیتا محکمہ زراعت اس سارے معاملے میں غفلت کی نیند ہی سویا رہا ۔من مانیاں اس محکمے کا جیسے فرض ہو۔زمانہ ادھر سے ادھر ہو گیا ہے۔دنیا میں جدت آگئی ہے۔زراعت کے شعبے میں بڑی ترقیاں ہو ئیں۔لیکن مجال ہے کہ، ہمارا محکمہ زراعت کبھی اپنی شاہانہ سستی کم کرنے لئے ٹس سے مس بھی ہوا ہو۔
کم آگاہی اور جدید مشینیری کی کمی، کی وجہ سے ہمارے کسان آج بھی وہی چاول کی فصل ، وہی گندم کی فصل اور دیگر اجناس اگا رہے ہیں، جو برسوں پہلے ان کے آباؤ اجداد لگایا کرتے تھے۔اور وہی پیداواری اوسط نکل رہی ہے، جو آج سے کوئی دس برس قبل ہوا کرتی تھی۔وہی پرانی چند ٹریکٹرز کمپنیاں آج بھی راج کر رہی ہیں جو برسوں پہلے تھیں۔کسان وہی پرانی طرز کی مشینری خریدنے پر مجبور ہیں جو دنیا نے برسوں پہلے استعمال کرنا بھی چھوڑ دی تھیں۔وہی لاعلم کسان جنہیں صرف یہی علم ہے، کہ لال رنگ کی دوا ڈالنی ہے اور سفید رنگ کی کھاد۔انہیں کچھ علم نہیں کے کوئی زمین کا چیک اپ بھی ہوتا ہے ،جس سے زمین کی زرخیزی کے بارے علم ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر رپورٹ کے مطابق انہیں کیمکلز یعنی دوائیں ڈالنا ہوں گی۔لیکن ہمارا لاڈلہ محکمہ زراعت اور ہماری مفاد پرست حکومتوں کے نزدیک شاید اس بارے آگاہی و کام کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئی ہو۔ کیونکہ بڑے جاگیردار اور اشرافیہ توآج بھی جدید طریقہ کاشت کاری سے مستفید ہو رہے ہیں۔معاملہ تو صرف ان کسانوں کا ہے ۔جن کے ووٹ خریدے جا سکتے ہیں، گلی نالیوں اور چھوٹے موٹے لالچ کے برعکس۔
آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ اس محکمے کا کردار کیا ہے؟ کون یہ طے کرے گا کہ اکثریت میں موجود چھوٹے بدحال و پریشان کسانوں کے لئے کچھ کرنا ہے؟کب وہ وقت آئے گا جب محکموں پر لاڈلوں کی چھاپ ختم ہو گی؟کب یہ محکمہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوگا؟چھوٹے کسانوں کے زخموں پر کون مرہم رکھے گا؟آخر کب تک یونہی سبسڈی کے نام پر کرپشن کے مینار کھڑے ہوتے رہیں گے؟آخر کب تک ہماری معشیت اور زراعت مفادات کی نظر ہوتی رہے گی؟۔
موجودہ حکومت پر عوام کو اعتماد ہے۔حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سنگین مسئلے پر کام سے لگایا جا سکتا ہے جسے گزشتہ حکومتیں مسئلہ ہی تصور نہیں کرتی تھیں۔مراد آبی مسئلہ جس کے ضمن میں حکومت ڈیم فنڈ اکٹھا کر رہی ہے۔حکومت نے جلد از جلد نئے ڈیمز تعمیر کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔جو زراعت کی مضبوطی کے لئے مفید ترین ثابت ہوگا۔ مہنگائی کے اس دور میں گندم کی بوائی سے پہلے کھادوں ،دواؤں اور ڈیزل کے بڑھتے ریٹ چھوٹے کسانوں پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہیں۔حکومت کو کسانوں کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے انہیں سہولتیں مہیا کرنی چاہئیں۔کسانوں کو آپ سے بڑی امیدیں وابسطہ ہیں۔امید کرتے ہیں کہ، موجودہ حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔وگرنہ ،رفتہ رفتہ شعبہ زراعت سے لوگوں کا دل اٹھتا چلا جائے گا۔جس کے نتیجہ میں زراعت کی تنزلی اور ہماری معیشت کی کمزوری بڑھتی چلی جائے گی۔۔۔ذرا سوچئے!
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی 
اس کھیت کے ہر گوشہ گندم کو جلا دو

Sunday 21 October 2018

سنگین افغان صورتحال


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

افغانستان پہاڑوں سے گھرا ہوا خشکی کا خطہ ہے۔جو ایشیاء کے جنوب۔وسط میں واقع ہے۔جس کی 99فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔جس کے ہمسایہ ممالک میں پاکستان،ایران، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان اور چائنہ شامل ہیں۔
یوں تو صدیوں سے ہی جنگوں اور لڑائیوں کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔افغانستان بھی ایسا ملک ہے، جو موجودہ جدید دور میں بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔گزشتہ چالیس برس کی طویل خانہ جنگی نے افغانستان کی زمین کو سرخ کر دیا ہے۔خطے میں دہشت طاری ہے۔ان گنت جانوں کا نقصان، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اس جنگی صورتحال کا آغاز 1978میں ہوا۔جب کیمیونسٹ حامی گروپ کی بغاوت سامنے آئی۔تاہم اس سے پہلے بھی افغانوں میں قبیلوں کی لڑائیاں ،برسوں سے لڑی در لڑی چلتی آرہی تھیں۔انہیں بغاوتوں اور لڑائیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے1979کو سویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجی مداخلت شروع کردی۔خانہ جنگی دن بدن بڑھتی چلی گئی۔افغان گروپ متحرک ہوکر روسیوں اور اتحادیوں کے خلاف لڑنے لگے۔تاہم اس افغانی لڑائی میں افغانیوں کو امریکہ ،پاکستان، اور سعودیہ کی مدد حاصل تھی۔امریکی جدید اسلحے کی بدولت افغانی دوبارہ اپنے علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے لگے۔جہاں افغانستان کی تاریخ خون سے رنگی جا رہی تھی، وہیں سویت یونین بھی اپنی بدترین شکست کی طرف گامزن تھی۔اس خونی جنگ میں لاکھوں افغانیوں نے پاکستان ہجرت کی۔ایک لمبی خونی جنگ کے بعد روسیوں اور اتحادیوں کو ہار تسلیم کرنا پڑی ،اور سویت یونین نے 1989میں افغانستان سے اپنی فوجوں کو نکال لیا۔
تاہم بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی۔امریکہ جس نے سویت یونین کو شکست دینے کے لئے افغانیوں کی مدد کی ،انہیں استعمال کیا ،افغانستان کو اپنے اسلحے سے لیس کر کے بے یارو مددگار چھوڑ گیا۔افغانستان میں مختلف گروہ اپنی بالادستی کے لئے آپس میں لڑنے لگے۔آپسی جنگوں کے بعد افغان طالبان کی حکومت سامنے آئی ۔جس میں شریعت کا قانون نافذ کیا گیا۔پاکستان افغان طالبان کا حامی تھا۔مگر امریکہ و دیگر اس حکومت سے خائف تھے۔پھر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نائن الیون کا واقع رونما ہوتا ہے۔جسے القاعدہ کے ذمہ ڈالا جاتا ہے۔امریکہ دنیا بھر کی ہمدردیاں سمیٹتا ہے۔مسلمان دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہونے لگتے ہیں۔امریکہ اپنی ہمدردیوں کی بدولت نیٹو اتحاد کے زریعے 2001کو افغانستان میں اپنی فوجیں اتاردیتا ہے۔مکمل کنٹرول حاصل کرتا ہے۔طالبان اور اتحادیوں کی حکومت کا خاتمہ کرتا ہے۔طالبان اور اتحادی دوبارہ جنگی محاذوں پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔امریکہ حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرتا ہے۔پاکستان بھی امریکی نان نیٹو اتحادی کی صورت میں امریکہ کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتا ہے۔پاکستانی چیف ایگزیکٹیو مشرف امریکیوں کو افغانستان میں سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے ہر ممکن راستہ فراہم کرتا ہے۔بہت سے افغانی گروہ پاکستان مخالف ہو جاتے ہیں۔جس کی بدولت پاکستان میں بھی دہشتگردی کی گونج سنائی دیتی ہے۔امریکہ اسی دہشتگردی کی آڑ میں پاکستان میں ڈراؤن اٹیک کی صورت میں مداخلت کرتا ہے۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتا ہے۔اسی دوران اسامہ بن لادن کی موت کا ڈرامہ بھی رچایا جاتا ہے۔
امریکہ کو اس جنگ سے پہلے اور درمیان میں بہت سے زرائع نے خبر دار کیا تھا کہ، افغانستان میں مداخلت سے باز رہو۔افغانستان میں فتح حاصل کرنا جتنا آسان ہے، فتح برقرار رکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔بہت سے زرائع نے مذاکرات کے زریعے معاملے کو حل کرنے کی بھی تجویز دی۔پاکستان بھی مذاکرات کا حامی ہے۔تاہم امریکہ اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا۔امریکہ طاقت کے نشے میں وہ احداف حاصل کرنا چاہتا تھا ،جو وہ ظاہر نہیں کرتا ۔وقت گزرتا گیا ۔امریکہ اپنے اصل احداف جن کی بدولت افغانستان پر قابض تھا نہ حاصل کر سکا۔درحقیت امریکہ براسطہ افغانستان خطے کو کنٹرول نہ کرسکا۔نہ ہی پاکستان پر نہ ہی ایران پر اس طرح سے اثر انداز ہو سکا ،جو اس کے اصل احداف میں شامل تھا۔امریکہ کو اس جنگ میں پسپائی نظر آرہی ہے۔اوپر سے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور شراکت داریوں نے امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے۔امریکہ اس طرح سے ابھرتی ہوئی طاقتوں کو کاؤنٹر نہیں کر پا رہا، جس طرح اس کی چاہ ہے۔امریکہ اپنے حصے میں آنے والی شکست سے خائف ہے۔اور چاہتاہے کہ، سویت یونین کی طرح اسے نقصان نہ اٹھانا پڑے۔کسی درمیانے طریقے سے نکل جائے۔بالادستی اور عزت بھی قائم رہے۔درحقیت دنیا کو مختلف محاذوں پر الجھانے والا امریکہ خود اس خطے میں الجھن کا شکار بن گیا ہے۔یہی وجہ ہے گزشتہ سالوں سے طرح طرح کے تجربات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔کبھی پاکستان کو اپنا بڑا اتحادی گردانتے ہوئے تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔کبھی پاکستان کو ڈو مور کا حکم دیتا ہے۔کبھی پاکستان کو سنگین دھمکیاں دیتا ہے۔کبھی پابندیاں عائد کرتا ہے۔کبھی افغانستان میں بم باری کرتا ہے۔کبھی مذکرات کو ترجیح دیتا ہے۔کبھی بھارت کو افغانستان میں سرگرمیاں تیز کرنے کی تنبیہ کرتا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔گزشتہ امریکی ردو بدل سے صاف ظاہر ہوتا ہے ۔امریکہ بھی اب کے بار بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔افغانستان سے انخلاء چاہتا ہے ،مگر اپنی انا پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔امریکہ جیسی سپر پاور کے طرف سے مذاکرات کے اشارے افغان امن کے لئے نہایت ضروری ہیں۔امید کرتے ہیں کہ ان مذکرات کی بدولت افغانستان میں امن و امان کی صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہوگی۔گزشتہ روز افغان طالبان کی طرف سے گورنر ہاؤس میں منعقدہ اجلاس کے بعد امریکی کمانڈر اور گورنرز پر جو حملہ کیا گیا ،نہایت تشویش ناک ہے۔جب مذاکرات کی راہ نکل رہی ہو۔ ایسے میں جان لیوا حملے مذکرات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اور معاملات مزید بگھڑ سکتے ہیں۔دونوں گروہوں کو صبر سے کام لینا چاہئے۔تاہم امریکہ سے کوئی زیادہ امیدیں وابسطہ نہیں رکھنی چاہئیں۔امریکہ ماضی میں بھی سویت یونین کے خلاف جنگ کے بعد افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چلا گیا تھا۔جس کا خمیازہ پاکستان اور افغانستان کو بھگتنا پڑا۔اب کے بار بھی امریکہ اسی موقعے کی تلاش میں ہے۔امریکہ اب کی بار پھر افغانیوں کو یوں ہی چھوڑ کر چلا گیا ، تو یہ پھر گروہوں میں بھٹ کر خانہ جنگی کو فروغ دیں گے۔جس سے افغانستان کے حالات مزید سنگین تر سنگین ہو جائیں گے۔جس سے نبردآزما ہونے کے لئے پاکستان کو زہنی لحاظ سے تیار رہنا چاہئے۔جتنا جلد ہوسکے بارڈر مینجمنٹ کو مکمل کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ، پاکستان امریکہ اور اتحادیوں کو امن امان کی صورتحال بہتر ہونے تک، انخلاء نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔امریکہ کو پاکستان سے ایسی امیدیں وابسطہ نہیں رکھنی چاہئیں، جس پر ان کا اختیار ہی نہیں۔امریکہ مسلسل پاکستان کو الجھانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔جہاں تک ہوسکے گا، پاکستان امن کے فروغ کے لئے اپنی کاوشیں جاری رکھے گا۔کیوں کہ خطے کا امن ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔پاکستان کو اپنا مؤقف قائم رکھنا چاہئے۔اور کسی بہلاوے کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔یہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔

Sunday 14 October 2018

قابل تعریف اقدامات ،مگر نامناسب منصوبہ بندی

چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے جب سے حکومت سنبھالی ہے، لگاتار مشکلات کا شکار ہے۔الیکشن سے قبل برسر اقتدار جماعت کی طرف سے بلند و بانگ دعوے کئے گئے تھے۔شاید ایسے دعوؤں کو فی الفور عملی جامہ پہنچانا، صرف مشکل ہی نہیں ہے۔بلکہ ناممکن کے قریب ترین ہے۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ، مناسب منصوبہ بندی کے تحت، حکومت عوام کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرسکتی ہے۔برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں حکومت مشکلات سے دو چار ہے۔ وہیں اس میں حکومت کی اپنی ناتجربہ کاری اور گزشتہ حکومتوں کی نامناسب منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔موجودہ حکومت کی ایمانداری پر عوام کو ابھی شک نہیں کرنا چاہئے۔انہیں مناسب منصوبہ بندی کا وقت دینا چاہئے۔برسراقتدار حکومت لگاتر اچھے اقدامات اٹھا رہی ہے۔جو واقعی قابل تعریف ہیں۔جیسے کلین اینڈ گرین پاکستان،تجاوزات کا خاتمہ، ہاؤسنگ سکیم ،ٹریفک قوانین کی پابندی اور احتساب وغیرہ۔ تاہم سارے اقدامات نامناسب منصوبہ بندی اور جلد سازی کی نظر ہورہے ہیں۔
گزشتہ روز سے یہ خبر سر گرم عمل ہے ،کہ 20اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون قابل استعمال نہیں رہیں گے۔موبائل صارفین کو 8484نمبر کی طرف سے پیغامات وصول ہو رہے ہیں ،کہ20اکتوبر کے بعد پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل فون بند کر دیئے جائیں گے۔تفصیلات جاننے کے لئے 8484پر اپنا IMEIنمبر بھیجیں۔تاہم مختلف موبائل فونز کی طرف سے نمبر بھیجنے پر کوئی خاطر خواہ تفصیلات موصول نہیں ہوتیں۔جواب موصول ہوتا ہے کہ ،کوئی تفصیل موجود نہیں براہ کرم دوبارہ کوشش کیجئے۔یقین مانئے حاکم وقت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے یہ نہایت ہی اچھا اور قابل تعریف اقدام ہے۔تاہم اس اقدام کے پیچھے مناسب منصوبہ سازی نظر نہیں آتی۔یہ اقدام بھی دوسرے اقدامات کی طرح جلد بازی کا شاخسانہ نظر آرہا ہے۔لوگوں کو موبائل فون بند کرنے کے پیغامات تو بھیج دیئے گئے ہیں۔مگر چند چیزیں مد نظر نہیں رکھی گئیں۔آیا حکومت یا متعلقہ ادارے کو، لوگوں میں پی ٹی اے،آئی ایم ای آئی نمبر وغیرہ بارے آگاہی نہیں دینی چاہئے؟کیا متعلقہ ادارے کو پہلے ایسے زرائع کو کنٹرول نہیں کرنا چاہئے جہاں سے پی ٹی اے سے غیر تصدیق شدہ موبائل آتے ہیں؟ہونا تو یہ چاہئے تھا حکومت ایسے موبائل فونوں کے امپورٹ پر پابندی لگاتی۔لوگوں میں موبائل فونوں کی خریداری بارے آگاہی پھیلاتی۔پہلے سے موجود لوگوں کے پاس موبائل فونوں کو رجسٹرڈ ہونے کا موقع فراہم کرتی۔یقین سے یہ موقع فراہم کیا جا رہا ہے ۔مگر عوام اس سے بے خبر کیوں ہے؟۔کیا کوئی آگاہی اشتہار جاری نہیں کرنا چاہئے؟۔فقط چند ویب سائٹس پر معلومات سے عام لوگوں تک خبر نہیں پہنچ پاتی۔ایسی معلومات کوسماجی ویب سائٹس اور ٹیلی ویژن پر عام کرنا چاہئے۔پھر جا کر کہیں موبائل فونوں کی بندش کا عندیہ دیا جانا چاہئے تھا۔حکومت اپنے ہر آغاز ہی کو اختتام گردانتی ہے۔حکومت کی طرف سے جلد بازی میں کئے گئے یک طرفہ اقدامات، جس میں عوام کو ہر صورت نقصان ہی پہنچے ،یا پریشانی کا سبب بنے۔ کسی صورت قابل قبول نہیں۔موبائل فونوں کی بندش کے فوری اقتدامات پر حکومت کو نظر ثانی کرنا ہوگی۔اور ایسا کرنے سے پہلے آگاہی پھیلانا ہوگی۔حکومت کو زمینی حقائق و مسائل اور عوام کی بھلائی کو مد نظر رکھ کر پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔حکومت کا کام عوام کو سہولیات میسر کرنا ہوتا ہے ۔نہ کہ اپنے جارحانہ فیصلے ان پر مصلت کرنا۔ہر کام کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے ۔پہلے آگاہی دی جاتی ہے۔پھر اس پر عملدرآمد کر وایا جاتا ہے۔
حکومت نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کر کے بڑے بڑے برجوں کو الٹ دیا ہے۔عوام حکومت کے اس اقدام سے کافی خوش بھی ہے۔واقعی حکومت کا یہ اقدام بھی قابل تعریف ہے۔مگر اس اقدام کی گہرائی میں بھی جایا جائے تو علم ہوتا ہے کہ مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔بظاہر یہ منصوبہ بہت اچھا ہے اور واقعی اس کے نتائج پاکستان کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔مگر دیکھا جائے تو تجاوزات کے خلاف آپریشن کسی ترتیب کے تحت نہیں کیا جا رہا۔کسی روز دائیں جانب دو کلومیٹر جا کر کوئی عمارت گرا دی جاتی ہے تو کسی روز بائیں جانب۔اس غیر ترتیب شدہ آپریشن میں جہاں مال داروں کو وقت مل رہا ہے۔ وہیں غریبوں کے سر پر کم وقت کی تلوار لٹک رہی ہے۔اگر آپریشن کسی ترتیب کے تحت کیا جائے تو غریب لوگوں کو اپنی باری کا اندازہ ہو جائے اور اپنے مقررہ وقت سے پہلے وہ اپنا بندوبست کر لیں۔ایسے میں عوام کو بھی وقت مل جا ئے گا اور حکومت کا بھی وقت بچ جائے گا۔
اسی طرح پچاس لاکھ گھروں کی اسکیم میں بھی نامناسب منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔وزیر اعظم کچھ کہتے ہیں اور تفصیلات کچھ نظر آتی ہیں۔تاہم اس حکومتی جلد سازی و فیصلے پر بعد میں بھی ردو بدل ہو سکتا ہے۔
حکومت کی نامناسب منصوبہ بندی کے تحت آج عوام سو پیاز اور سو جوتے بھی کھا رہی ہے۔یعنی ٹیکسوں کی بھرمار نے مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔غربت کی ماری عوام مہنگائی کے اس طوفان میں مزید پس رہی ہے۔حکومت ایک طرف عوام پر مہنگائی کا طوفان مصلت کر کے دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرض مانگ رہی ہے۔اگر قرض ہی مانگنا تھا تو عوام کو پھر ریلیف کیوں نہیں دیا؟ مانتے ہیں کہ اس میں گزشتہ حکومتوں کا پورا پورا قصور شامل ہے۔مگر یاد رکھئے! کہ عوام کو نہ ہی دیا ہوا ریلیف بھولتا ہے اور نہ ہی مہنگائی۔
حکومتی وزراء کی طرف سی پیک جیسے منصوبے پر نامناسب بیان بازی نے ،اس مفید منصوبے کو متاثر کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ دوبارہ اسے سبوتاز کرنے کی تگ و دو کرہا ہے۔آئی ایم ایف ہم سے سی پیک کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔چائنہ ہم سے کترانہ شروع ہوگیا ہے۔خطے میں ہمارا مذاق بن رہا ہے۔حکومت کی یونہی ڈگمگاتی پالیسیاں اور منصوبہ بندی ہر گز وطن کے مفاد میں نہیں۔
اسی طرح ٹریفک قوانین پر پابندی جو کہ نہایت ہی قابل تعریف اقدام ہے۔صرف اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر مذاق بنا، کیوں کہ قوانین پر عملدرآمد سے پہلے ان کے بارے آگاہی نہیں دی گئی۔
حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے سارے اقدامات قابل تعریف ہیں۔اور واقعی خالص عوام کی بھلائی کے لئے ہیں۔مگر حکومت اپنے ہر عمل میں جلد بازی کا شکار ہو رہی ہے۔منصوبہ بندی کا فقدان حکومت کے لئے تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج حکومت کا ہر منصوبہ مذاق بن رہا ہے اور عوام مایوس نظر آرہی ہے۔حکومت کو ایک بات زہن نشین کرنی چاہئے کہ وہ ایک سال یا دو سال کے لئے منتخب نہیں ہوئے ۔بلکہ عوام کی طرف پانچ سال کے لئے منتخب کیے گئے ہیں۔اگر حکومت کا رویہ یونہی غیر سنجیدہ رہا۔ تو وہ دن دور نہیں جب انکا نام بھی گزشتہ روایتی حکومتوں کے ساتھ موجود ہوگا۔
حکومت پاکستان کو مناسب و دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔جس میں دانائی نظر آئے۔جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو۔جس سے عوام کو بھی ریلیف ملے۔تنقیدی تبصروں سے نکل کر مناسب منصوبہ بندی کے تحت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

Tuesday 9 October 2018

احتساب یا سیاسی انتقام

پاکستان 
 میں لفظ’ احتساب‘ مشکوک نظروں او ر غلط نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔احتساب کو مشکوک بلندیوں تک پہنچانے میں گزشتہ سیاسی پارٹیوں اور آمروں کا خاصہ کردار رہا ہے۔گزشتہ ادوار میں احتساب کو ذاتی و سیاسی مفادات و انتقام کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔
پاکستانی عوام برسوں سے حقیقی احتساب کی راہ تک رہی ہے۔ہمارے آباؤ اجداد بھی اس کی گونج سننے کو بے تاب تھے۔یہی وجہ ہے لفظ احتساب کی مقبولیت آج بھی قائم ہے۔احتساب کے معنی ’جانچ پڑتال‘ کے ہیں۔یعنی محاسبہ کرنا نفس عارف کا تفصیل تعینات سے،ڈھونڈنا ان میں حقائق کو، اور پھر روک تھام وغیرہ۔
ہمارے ہاں درمیانہ طبقہ احتساب کا خاصہ متلاشی رہا ہے۔کیونکہ اس طبقے کو ہر دور میں یہی ابہام رہا ہے، کہ ان کے جائز حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔دوسری طرف امراء و جاگیرداروں میں اسے مزاح کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔کیونکہ انہیں یقین ہے کہ، یہ ممکن ہی نہیں کہ احتساب ہوسکے۔بروقت مناسب احتساب قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ ،یورپ، اور چائنہ وغیرہ ہم سے بہت آگے ہیں۔بروقت احتساب نے قوموں کو بام عروج تک پہنچایا ہے۔واقعی اس میں ان کی محنت ہی شامل ہے۔
ہمارے ہاں جیسی محنت و کارکردگی دیگر شعبوں میں ہے ،ویسی ہی احتساب کے عمل میں۔بلکہ ہمارے ہاں حکومتیں اور ادارے احتساب کو اپنے ذاتی مفاد و مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔گزشتہ کئی عرصوں سے ہمارے ہاں احتساب مسلسل ذاتی مفادات کی غرض سے جاری ہے۔کبھی پیپلز پارٹی، تو کبھی مسلم لیگ، ایک دوسرے کو فرضی احتساب میں دھکیلتے آئے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ ،ہمارے ہاں بار بار وہی چہرے سامنے آرہے؟کیا وجہ ہے کہ بار بار احتساب کی ضرورت پڑتی ہے؟وجہ یہی ہے کہ احتسابی عمل کی کبھی تکمیل ہی نہیں ہوئی۔جس کی بدولت ان کو بار بار کرپشن کا موقع ملتا ہے۔بار بار وہی پرانے چہرے سامنے آرہے ہیں۔ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں احتساب کی بازگشت صرف اور صرف سیاسی انتقام کی صورت میں ہی سنائی دی۔سیاسی انتقام کی صورت میں صرف ہدف و نشانہ بنا کر ہی احتساب ہوتا ہے۔سیاسی پارٹیوں میں انتقامی احتساب برسوں سے چل رہا ہے۔کبھی اس کی باری تو کبھی اس کی۔اور یہ انتقامی احتساب ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمارے ملک پر عسکری آمر بھی قابض رہے ۔سنا ہے کہ آمریت بہت مضبوط ہوتی ہے۔مگر افسوس کہ گزشتہ ادوار کے آمر بھی فقط حدفی احتساب کو ہی فروغ دیتے رہے۔احتساب پر مفادات اور اقتدار کو ترجیح دیتے رہے۔بروقت اور شفاف احتساب کی تکمیل میں گزشتہ آمر و منتخب حکومتیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔احتساب کے ڈر سے پارٹی مفادات بدلتے بھی دیکھے گئے۔احتساب کے خوف سے پارٹیاں بدلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔نا مکمل احتساب کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ، بہت سے کرپٹ سیاستدان احتساب سے بچنے کے لئے سیاسی پارٹیاں بدل لیتے۔ اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ،جو احتساب کی صدا بلند کرتی۔مگر افسوس کہ، احتساب کی صدا لگانے والوں کو اپنی پارٹی یا گروہ میں کبھی کوئی بدعنوان و کرپٹ نظر نہیں آیا۔گزشتہ چند سالوں سے تبدیلی کی صورت میں احتساب کی باز گشت پھر سنائی دے رہی ہے۔جس کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے۔عمران خان نے ہمیشہ ہر فورم پر کرپشن کے خاتمے پر زور دیا۔یہی وجہ ہے عوام نے انہیں آج ایوانوں میں پہنچایا ہے۔عوام آج احتساب کے مطالبے پر عملدرآمد چاہتی ہے۔ مانتے ہیں کہ، عمران خان بھی اپنے اس وعدے پر قائم ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف آج دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہیں۔شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں بلا کر، آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں گرفتار کیا گیا ۔اس میں کوئی مزائقہ نہیں۔نیب ایک آزاد و خودمختار ادارہ ہے۔ اسی لئے اسپیکر قومی اسمبلی کو بتائے بغیر گرفتار کیا گیا۔مگر سوال یہ ہے کہ نیب کی گزشتہ کارکردگی کیا ہے؟ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ، ضمنی انتخابات سے پہلے ہی کیوں گرفتار کیا گیا؟ کیا یہ گرفتاری انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوگی؟کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ انتخابات میں ہارنے کے خوف سے گرفتاری عمل میں لائی گئی ہو؟ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں۔ موجودہ حکومت صدق دل سے احتساب کا عمل چاہتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ، احتساب صرف ایک پارٹی تک ہی محدود کیوں؟کیا دیگر پارٹیوں میں موجود وزراء اور منتخب نمائندے بھی نیب و دیگر کیسوں میں ملوث نہیں؟نیب کی لسٹ میں موجود ، زلفی بخاری، علیم خان،پرویز خٹک ، پرویز الہی اور دیگر نمائندوں کو کیوں نہیں بلایا جا رہا؟ کیا نیب کے پاس ان کے لئے وقت نہیں؟ عوام ایسا احتساب ہر گز نہیں چاہتی ،جس میں ایک ہی جماعت کو نشانہ بنایا جائے۔ سب کا احتساب چاہتی ہے ،نہ کہ صرف حدفی احتساب۔عوام ہر گز یہ نہیں چاہتی کے پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ضرور ڈالا جائے۔مگر عوام کو بتایا جائے نیب والے کب آصف زرداری اور شجاعب حسین کو بلا رہے ہیں؟ کب بیرون ملک موجود پرویز مشرف کا احتساب ہوگا؟عوام تو چاہتی ہے کہ، جلد از جلد ملک کو نقصان پہنچانے والے سلاخوں کے پیچھے ہوں۔ چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں۔اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اسے انتقامی سیاست سمجھا جائے ؟روایتی سیاست کو ہر گز احتساب کا رنگ نہ دیں ۔احتساب کے لئے کچھ نیا کرنا پڑے گا ۔اپنی صفوں سے بھی صفایا کرنا پڑے گا۔پشاور میٹرو جس کی لاگت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔کیا اس منصوبے کا فرانزک آڈٹ ضروری نہیں؟ احتساب کی جیسی فضا آج چل رہی ہے۔ایسی ہی فضا گزشتہ ادوار میں بھی چلتی رہی ہے۔گزشتہ منتخب حکومتوں اور آمروں نے اداروں کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کیا ہوتا۔تو آج ہمارے اداروں پر سوالیہ نشان نہ ہوتا۔ویسی ہی غلطی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔موجودہ حکومت کی طرف سے احتساب کی فضا صرف سیاسی حدف حاصل کرنے کا شاخسانہ نظر آرہی ہے۔وریراعظم صاحب اگر واقعی احتساب چاہتے ہیں، تو پارٹیوں کی تفریق کئے بغیر ہر رنگ کی پارٹی کے شخص کو جو مطلوب ہو، کٹہرے میں لایا جائے۔چاہے اپنی ہی پارٹی کا کیوں نہ ہو۔ ابھی عوام موجودہ حکومت پر اعتماد کرتی ہے، اور امید کرتی ہے کہ یہ گزشتہ ادوار کی طرح لوگوں کو حدف بنا کر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کریں گے۔بلکہ صدق دل سے سیاسی انتقام، پارٹی، اور ذاتی مفادات کو پرے رکھ کر احتساب کے عمل کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔اگر موجودہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو اس میں او ر جنرل مشرف کے دور میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ بہت سے شکوک و شبہات جنم لیں گے۔اگر حالات ایسے ہی رہے تو حکومت سے عوام کا اعتماد جلد اٹھ جائے گا۔
۔

Sunday 30 September 2018

تبدیلی کہاں ہے؟


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

ہم سب بھی دنیا میں موجود ایسی قوم کا حصہ ہیں،جن کی اکثریت عملی لحاظ سے سست اور کاہل ہے۔ایسی قوم جس نے بڑے قابل ، زہین اور تاریخ دان دیئے ہوں۔مگر اس کی اکثریت عملی لحاظ سے سست اور زبانی کلام میں درجہ اول کی ہو۔ہمیشہ اکثریت کی بدولت اقلیت کو پنپنے کا خاص موقع ہی نہیں ملتا۔مجموعی لحاظ سے ہم خاصی الجھی ہوئی قوم ہیں۔لیڈرشپ کا فقدان واضح ہے۔اپنی سمت خود تعین کرنے سے عاری، بنے بنائے راستوں پر چلنے کی عادی قوم۔شاید دنیا میں ایسی ہی اکثریت ہو ۔مگر ہم بھی وہی قوم ہیں، جن کو واویلہ مچانا خوب آتا ہو۔کامل یقین سے عاری، اور بے یقینی سے پیوستہ۔بے یقینی ہمیشہ وسوسوں کو جنم دیتی ہے۔وسوسے افراتفری کو فروغ دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عمل سے عاری قوموں میں ہمیشہ مایوسی ہی جھلک رہی ہوگی۔شکایات کے انبار نے زہنوں پر منفیت کو مصلت کیا ہوگا۔’اللہ اتنی دیر تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود نہ چاہے‘۔یہاں چاہنے سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ کوئی خلائی مخلوق آئے اور سب بدل جائے۔حقیقی تبدیلی عوام ہی لا سکتی ہے۔عمل سے،تحمل سے اور دانائی سے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ،ہم کسی ایک نظریے پر چلتے ہی نہیں۔ہماری باتوں اور عمل میں بڑا تضاد موجود ہے۔شاید ہم زمانے کی رفتار کو صحیح سمجھ نہیں پائے۔بطور پاکستانی عوام ہم سب عمل سے عاری ہیں۔اول درجے کے بے صبر۔تحمل وبرداشت شاید قریب سے بھی نہ گزری ہو۔البتہ باتوں سے ہم خود کو بڑے درجے کے دانشور و دانا ظاہر کرتے۔مگر عملی میدان میں ہماری دانائی گہری نیند سو جاتی ہے۔بات پاکستان کی موجودہ حکومت کی ہو۔چند مہینے پہلے بڑی دانائی کی باتیں کر رہے تھے۔واقعی خود کو عوام میں اول درجے کے دانا بھی ثابت کر چکے۔یہی وجہ ہے کہ آج حکومت میں ہیں۔تحمل و برداشت تو پہلے ہی سے دور رہی ۔مگر ایک دانائی کا ہی سہارا تھا ،جس کی بدولت حکومت ملی۔تبدیلی کے بڑے دعوے۔سو دن میں ملکی قسمت بدلنے کے کرتب۔کرپشن کا دنوں میں ہی جڑ سے سوکھ جانا۔بیرون ملک موجود پاکستانی رقم کی وطن واپسی کی کامیاب ترین ترکیبیں۔قومی کرکٹ ٹیم پر سے وزیراعظم کے اثر ات کا خاتمہ۔رشتہ داروں اور دوستوں کو وزارتوں سے پرے رکھنا۔وزراتی پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کی دوا۔نوجوانوں سے بھرے ایوان۔پڑھا لکھا ایوان ہمارا۔پروٹوکول کو غائب کرنا۔سائیکل کو جہاز کا درجہ دینا۔پٹرول کو پانی کی طرح عام کرنا۔مہنگائی کی کمر توڑ دینا۔آئی ایم ایف سے نظر چرانا۔ملک کو خودمختار بنانا۔دوسرے ملکوں کو قرض دینا۔ایسے دعوے ہرگز کسی بنگالی بابا نے نہیں کئے تھے۔ بلکہ ہماری ہونہار موجودہ حکومت نے کئے تھے۔ایسے ہی کچھ کرتب اور ترکیبیں 2013 کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ نواز نے بھی بتائی تھیں۔اس سے پہلے یہ کرتب دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی بتائے گئے ہوں گے۔تو تبدیلی کہاں گئی؟ہو سکتا ہے، تبدیلی الیکشن کی تھکاوٹ اتار رہی ہو۔الیکشن کے بعد وہی رویہ حکومت کا ہے ،جو ماضی کی حکومتوں کا رہا۔وہی رویہ اپوزیشن کا ہے، جو ماضی میں اپوزیشن کا رہا۔تو بدلاؤ کہاں ہے؟فواد چوہدری اور مشاہداللہ کا ایک دوسرے پر تنقید کرنا، بھی تبدیلی کا حصہ نہیں۔بلکہ ہر گز نہیں ،ماضی میں ایسی تنقید خود عمران خان، خواجہ آصف،عابد شیر اور مراد سعید اور دیگر بھی کرتے رہے ہیں۔الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پہلے بھی تھے ،اور اب بھی ہیں۔اپوزیشن کی حکومت کا دنوں میں بستر گول کرنے کی دھمکی، بھی تبدیلی کا حصہ نہیں۔ایسا تو گزشتہ معروف دھرنوں میں بھی ہوتا رہا ہے۔عوام کا حکومت کو منتخب کر کے جلد بدگمان ہو جانا، بھی ہر گز نیا نہیں۔ایسا بھی ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہے۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر ملکی امور کو روکنا،پہلے بھی ہماری فطرت میں شامل تھا ،اور اب بھی ہے۔حکومتی اکڑ پہلے بھی تھی، اور اب بھی ہے۔تنقید برائے تنقید پہلے بھی تھی ،اور اب بھی ہے۔عہدوں کی بندر بانٹ پہلے بھی تھی ،اور اب بھی ہے۔تو بدلا کیا ہے؟کچھ نہیں۔صرف طریقہ واردات کے علاوہ۔گزشتہ حکومت نے چار دن تنخواہیں نہ لینے کے دعوے کر کے عوام کو بے وقوف بنایا تھا۔اب کی حکومت بھینسیں بیچ کر خوب داد وصول کر رہی ہے۔میں اس فقرے سے بالکل متفق ہوں’ جیسی عوام ویسے حکمران‘۔
یاد رکھئے !کہ اتنی دیر تک کچھ نہیں بدلے گا ،جب تک ہم نہیں بدلیں گے۔ہمیں اپنے اندر مثبت سوچ کو جذب کرنا ہوگا۔منفیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔صبر کے پیمانے کو وسیع کرنا ہوگا۔تحمل و برداشت سے آشنا ہونا پڑے گا۔ذاتی انا کو پرے رکھ کر غلط کو غلط اور درست کو درست کہنا ہوگا۔اپنی منتخب کردہ حکومت اور نمائندے پر یقین کرنا ہوگا۔انہیں وقت دینا ہوگا۔تنقید کرنا ہوگی مگر جائز تنقید۔پارٹیوں کی گرفت سے نکل کر محب وطن پاکستانی بننا ہوگا۔جائز تنقید سننا ہوگی۔چاہے خود پر ہی کیوں نہ ہو۔کسی کی مخالفت میں گھٹیا جملوں اور پرپیگنڈہ سے اجتناب کرنا ہوگا۔اگر حکومت غلط ڈگر پر ہو تو مل کر پوری قوم کو مخالفت کرنا ہوگی۔اگر اپوزیشن غلط کرے تو سب کو مل کر اسے براکہنا ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں کی محبت سے نکل کر ملکی سلامتی کا سوچنا ہوگا۔سیاسی ورکر بننے کی بجائے ملکی ورکر بننا ہوگا۔حق کا ساتھ دینا ہوگا۔جتنا بھٹو گے اتنا بھٹکو گے۔چھوٹی سی مثال آخر پر ،اس گاؤں کا کام کوئی سیاستدان نہیں کرتا ۔جس کی عوام مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوجائے۔کیوں کہ اس گاؤں کی نظریاتی تقسیم کی بنا پر ووٹ کی قدر ختم ہوجاتی ہے۔عوام کو اپنی قدر بڑھانا ہوگی ،متحد ہوکر۔ورنہ! تبدیلی لفظ کو بھول جاؤ۔
شعر کو زرا مروڑنے پر معزرت
یہاں بدلی ہے نہ عادت حکومت کی ،نہ ہی اپوزیشن کی
وہی ہے بے صبرعوام ،اس میں ہر گز کوئی تبدیلی تو نہیں

Sunday 16 September 2018

بے روزگار انجینئرز


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری مکینیکل انجینئر اور وائس وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

اعزاز جیسے کتنے ہی انجینئرز ہوں گے جنہوں نے انٹرمیڈیٹ میں سخت محنت کی بدولت انجینئرنگ یونیورسٹیز میں داخلہ لیا ہوگا۔یہ لمحات واقعی ان کے اور گھر والوں کے لئے مسرت کا باعث بنے ہوں گے۔والدین کے چہروں کی چمک عیاں ہوتی ہوگی۔بہت سی امیدوں اور خوابوں کی تعبیر میں، کامیابی کی راہ پر گامزن !ان کی آنکھوں کے تارے گھر کے آنگن کو روشن کر رہے ہوں گے۔جوں توں کر کے ،قرض اٹھا کر، مزدوری کرکے ،زیورات بیچ کر، یا پراپرٹی بیچ کر چار سال کی فیسیں اتاری ہوں گی۔یہ کٹھن وقت والدین نے بڑی ہمت اور آس و امید سے گزار دیا ہوگا۔ڈگری مکمل ہونے پر’ کنووکیشن ‘کے موقع پر والدین کو اپنے چمکتے ستاروں کی مسکراہٹ میں اپنے خوابوں کی تکمیل نظر آرہی ہو گی۔باعث فخر سارے خاندان کو مٹھائیاں کھلائی ہوں گی ،مبارکبادیں وصول کی ہوں گی۔مگر وقت کی رفتار تھی کہ کم نہ ہوئی نہ ہی ان مسرت بھرے لمحات کا دورانیہ بڑھا۔کچھ عرصہ گزرا کہ چند انجینئرز ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ٹرینی انجینئرز بھرتی ہوگئے۔کچھ کی سیاسی وابستگی اور شناسائی کام آگئی۔کچھ کے والدین نے ہمت بڑھاتے ہوئے اپنے ستاروں کو مزید پڑھنے کے لئے بیرون ملک اور پاکستان میں داخلہ کر وا دیا۔اب آخری قسم کے انجینئرز جن کی تعدا د شاید سب سے زیادہ ہے۔یہ درمیانے طبقہ سے ہوتے ہیں، اور درحقیقت ان کے والدین اپنی ساری جمع پونجی حتی کہ قرض لے کر بھی ان کی تعلیم پر صرف کر چکے ہوتے ہیں۔اب انہی انجینئرز پر بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔عرصہ گزرتا ہے،مسلسل ناکامی کے باعث بہت سے اپنی فیلڈ بدل کر سکول ٹیچر بن جاتے ہیں ،سیلز مین بن جاتے ہیں،اور یہاں تک کہ سی ایس ایس جیسے مقابلے کے امتحانوں کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔زہنی دباؤ ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ڈپریشن میں اضافہ کے لئے رشتہ داروں کی پوچھ گیچھ جلتی پہ تیل کا کام انجام دیتی ہے۔ایسے مشکل حالات اور ڈپریشن کی حالت میں بہت سے انجینیئرز غلط راہ اختیار کرتے ہیں۔باقی بچنے والے انجینئرز کی قسم اعزاز والی ہے۔اعزاز راولپنڈی سے نسٹ سے مکینیکل انجینئرنگ گریجوئیٹ تھا۔ جس نے مسلسل نوکری نہ حاصل کر نے پر زہنی دباؤ و ڈپریشن سے ہمیشہ نجات کے لئے اکتوبر 2017کوخودکشی کا راستہ اختیار کیا۔ایسے مزیدکم ہمت نوجوان ہیں، جو خود کو الجھنوں سے آزاد کر کے والدین کی آنکھوں کا نور ہمیشہ کے لئے بے نور کر جاتے ہیں۔یہ واقعات ہماری حکومت ومعاشرے کی بد انتظامی کوعیاں کرتے ہیں۔دنیا بھر میں انجینئرنگ و ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ سر فہرست ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ ، روس، انگلینڈ ، چائنہ، جرمنی، اور جاپان وغیرہ دنیا میں نمایاں ہیں۔ مگر ہمارا نظام تو یکسر مختلف ہے۔ہمارے ہاں انجینئرز تھوک کے حساب سے تول کر بک رہے ہیں مگر پھر بھی خریدارانہیں خریدنے سے قاصر ہیں۔آج ہمارے انجینئرز یونیورسٹیز میں بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر دنیا بھر میں نام کما رہے ہیں۔مگر ہماری حکومتیں بڑے پراجیکٹس پر اپنے انجینیئرز کو موقع دینے سے قاصر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے شہر کراچی اور لاہور جتنے بڑے ممالک بھی مختلف مقامات پر ہم سے بہت آگے ہیں۔ہماری حکومت اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کی ناکامی کی انتہا یہ ہے، کہ آج تک 2015 ,2016,2017کے انجینئرز فریش ہیں،اور ٹرینی انجینئرز کی پوسٹوں پر اپلائی کر رہے ہیں۔آج بھی پاکستان بھر سے پچاس ہزار کے قریب انجینئرز بے روزگار ہیں۔حکومت اور پی ای سی ہمیشہ سے ’جاب پلیسمنٹ ‘میں ناکام رہی ہے۔ڈسکاؤنٹ جیسے جھوٹے بہلاوے دیے جا رہے ہیں۔کیا فائدہ ایسے ڈسکاؤنٹ کا اگر سپر وائزری سرٹیفیکیٹ حاصل کر کے بھی روزگار نہیں ملنا؟ جب روزگار ہی نہیں تو کیا خریدیں کیسے ڈسکاؤنٹ استعمال کریں؟ہماری حکومتوں کا المیہ یہ ہے، کہ انہیں’ چیک اینڈ بیلنس‘ نام سے آشنائی ہی نہیں۔کوئی خبر و علم نہیں کہ کیسے اداروں کو کنٹرول کرنا ہے۔ہماری ہاں ڈیمانڈ کہاں ہے۔بھائی جتنی گنجائش ہے جس شعبے میں اسی حساب سے یونیورسٹیز کو سیٹیں آلاٹ کرو۔اگر ’سپلائی و ڈیمانڈ‘ کا علم ہی نہیں ہوگا ،تو ہمارے ادارے عدم توازن کا ہی شکار رہیں گے۔ہماری حکومتیں جب بڑے پراجیکٹس پر فارن انجینئرز اور ورکرز کو لگاتی ہیں، تو انجینیئرز کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔طرح طرح کے سوال جنم لیتے ہیں۔کیا ہمارے انجینئرز قابل نہیں؟ اگر ایسا ہے تو بیرون ملک جا کر یہ کامیاب کیوں ہو جاتے ہیں؟ہمارے ہاں بہت سی کمپنیاں سوائے چند ملٹی نیشنل کے فریش انجینئرز کو بھرتی ہی نہیں کرتیں۔بھائی کہاں سے لائیں یہ تجربہ موقع نہیں دو گے تو تجربہ کہاں سے آئے گا۔اگر کوئی کمپنی فریش انجینیئرز کی پوسٹ نکالے بھی تو چھ ماہ کا تجربہ مانگ لیتی ہے۔بہت سی چھوٹی کمپنیوں میں انجینئرز مزدوروں سے بھی کم اجرت پر کام کررہے ہیں۔ایسے میں انجیئرز کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوگا۔ یہ حالات تو ان انجینیئرز کے ہیں جو پاکستان انجینیرنگ کونسل سے رجسٹرڈ ہیں۔ آپ خود سوچ لیں کہ، وہ انجینئرز اور ٹیکنالوجسٹ جو انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ نہیں انکی بے بسی کا کیا عالم ہوگا؟کیابڑھتا ڈپریشن خودکشی کے لئے کافی نہیں؟کیا ہمارا نظام و معاشرہ بلو وہیل جیسی خونی گیموں سے زیادہ بھیانک نہیں؟کیا یہی قصور ہے ان انجینئرز کا کہ انہوں نے سوچا کہ اپنے وطن کی ترقی کے لئے انجینئرنگ و ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ میں کام کریں گے؟کون ان کی بے روزگاری کا حل نکالے گا؟کیا کروڑوں نوکریوں میں ان کا بھی کوئی حصہ بنتا ہے؟کیا لاکھوں گھروں میں انہیں بھی کوئی گھر ملے گا؟یا یونہی ہر سال حکومت نے اپنا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نظر کرنا ہے؟وقت ہے کہ ملک کا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نظر ہونے سے بچایا جائے۔ اس سرمائے کو، ان کی جوان ہمت کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے۔ذرا سوچئے!

Sunday 15 July 2018

الیکشن اور ضلع گوجرانوالہ کی سیاسی و انتخابی صورتحال


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

گوجرانوالہ پہلوانوں کا شہر،خوش خوراک لوگوں کا مسکن،حسن پرستوں اور مہمان نوازوں کا گھر ہے۔گوجرانوالہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔جو رقبہ کے لحاظ سے3198kmsqپر پھیلا ہوا ہے۔شہر کی کل آبادی 2238243نفوس پر مشتمل ہے۔گوجرانوالہ کو صنعتی لحاظ بڑا درجہ حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ، پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی میں گوجرانوالہ کی 5%شراکت ہوتی ہے۔ضلع گوجرانوالہ کی بات کی جائے تو اس میں شہر کی دو تحصیلوں(صدر،سٹی) کے ساتھ دیہی علاقوں کی تحصیلوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس میں کامونکی ،وزیر آباد اور نوشہرہ ورکاں شامل ہیں۔رقبہ کے لحاظ سے ضلع کی حدود3622kmsqتک پھیلی ہوئی ہیں۔جبکہ ضلع کی کل آبادی5014196نفوس پر مشتمل ہے۔سیاست کی بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ ،گوجرانوالہ کی بھولی عوام ہمیشہ سے اپنے نمائندے چننے میں فہم و فراست سے کام نہیں لیتی۔یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ جیسا بڑا ضلع آج بھی بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔قومی اسمبلی کی نشتوں کی بات کی جائے تو، گوجرانوالہ ضلع چھ قومی حلقوں پر مشتمل ہے۔حلقہ بندیوں سے پہلے نشتوں کی تعداد سات تھی ،جو اب کم ہوکر چھ رہ گئی ہے۔اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشتوں کی تعداد 14ہے۔قومی اسمبلی کے حلقے 79سے لے کر84 تک جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقے51سے لے کر 64تک ہیں۔گوجرانوالہ کو جی ٹی روڈ کی سیاست کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جو ماضی میں حکومتوں کی تخلیق میں اہم کردار نبھاتا رہا ہے۔ گوجرانوالہ ماضی میں مسلم لیگ ن اور ق کا گڑھ رہ چکا ہے ،بلکہ گوجرانوالہ کو اب بھی مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔مگر الیکشن 2018کی بات کی جائے تو صورتحال بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔الیکشن سے عین قبل مسلم لیگ ن کے دو ایم این ایز رانا عمر نذیر اور میاں طارق کا پارٹی کو خیر آباد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہونا ،اور اپنے ساتھیوں اور حلقے پر اثر انداز ہونا۔ تحریک انصاف کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔اسی بنا پر تحریک انصاف اب مسلم لیگ کے لئے آسان حدف نہیں رہا۔اور آل صورتحال میڈیا ایجنسیز کے سروے اور ہماری اپنی تشخیص کے مطابق اندازہ لگایا جائے تو ;گوجرانوالہ کے ووٹرز کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے۔مسلم لیگ ن 45%تحریک انصاف39%باقی تیسری پوزیشن تحریک لبیک اور آزاد امیدوران جبکہ چوتھی پوزیشن پی پی پی کی ہوگی۔ضلع کے ہر حلقے میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔گوجرانوالہ کے حلقہ NA79 کی بات کی جائے تو یہ حلقہ تحصیل وزیر آباد اور علی پور ٹاؤن کے علاقوں پر مشتمل ہے ۔جس کی کل آبادی830396نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر نثار چیمہ ہیں جو سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ اور سابق ایم این اے افتخار چیمہ کے بھائی ہیں۔افتخار چیمہ اسی حلقہ سے دو دفعہ2008اور2013میں ایم این اے منتخب ہو ئے تھے۔جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار احمد چٹھہ ہیں ۔ جو سابق اسپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے ہیں۔اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔تاہم پی ٹی آئی کے جیتنے کے چانسز زیادہ ہیں۔اس حلقہ کے زیر نگیں صوبائی اسمبلی کے حلقہً PP51,52 پر کانٹے کامقابلہ متوقع ہے۔حلقہNA80کی بات کی جائے تو یہ حلقہ گوجرانوالہ کینٹ راہوالی قلعہ دیدار سنگھ اور شہر کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔جس کی کل آبادی833310نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار محمود بشر ورک ہیں۔جو سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔پی ٹی آئی کے امیدوار میاں طارق محمود ہیں ۔جو سابق ایم این رہ چکے ہیں اور کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے تاہم الیکشن سے قبل جیت کا اندا زہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہاں ففٹی ففٹی چانسز ہیں۔تاہم اس کے زیر نگیں صوبائی نشتوں PP53,62پر پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔حلقہNA81کی بات کی جائے تو یہ گوجرانوالہ شہر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ جس میں سیٹلائٹ ٹاؤن اورپیپلز کالونی کے علاقے بھی شامل ہیں۔جس کی کل آبادی852472نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار خرم دستگیر ہیں ۔جو سابق ایم این اے دستگیر خاں کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر ہیں۔دستگیر خاندان عرصہ درازسے ہی گوجرانوالہ سے یہ نشست جیت رہا ہے۔خرم دستگیر کے مد مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار صدیق مہر ہیں۔اس حلقہ میں خرم دستگیر گروپ کافی مضبوط ہے اور ان کے جیتنے کے امکانات واضح ہیں۔تاہم اس کے زیر نگیں صوبائی نسشتوںPP54,58 پر کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔خصوصی تور پر PP54جہاں پومی بٹ کے بھائی عمران خالد بٹ مسلم لیگ ن اور سابق میئر اسلم بٹ کے بیٹے رضوان اسلم بٹ پی ٹی آئی کی طرف سے مد مقابل ہیں۔اندرون شہر کی اس نسشت پر مقابلہ بازی زور و شور سے جاری ہے۔ دونوں ہی گروپ خاصے مقبول اور مضبوط ہیں۔ یہاں مقابلہ ففٹی ففٹی ہے، اسی لئے اس صوبائی نشت کے نتائج کے بارے کچھ کہنا جلد بازی ہوگی ۔حلقہNA82 گوجرانوالہ کا سب سے بڑا حلقہ ہے ۔جس کی کل آبادی867382نفوس پر مشتمل ہے۔اس حلقہ میں گوجرانوالہ میونسپل کارپوریشن اور ضلع گوجرانوالہ کے مختلف علاقے شامل ہیں۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق وفاقی وزیر عثمان ابراہیم ہیں ۔جبکہ ان کے مد مقابل سپر ایشیاء گروپ کے مالک علی اشرف مغل ہیں۔تاہم اس حلقے میں عثمان ابراہیم کے جیتنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔اس کے زیر نگیں صوبائی نشستوں PP55,56پر بھی مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔حلقہ NA83تحصیل کامونکی،ٹاؤن سادھوکی،تلونڈی موسی خان،منڈیالہ میر شکاراں، کوہلوال، اور گوجرانوالہ شہر کے دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔اس کی کل آبادی837017نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم پی اے ذوالفقار علی بھنڈر ہیں۔جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے امیدوار سابق وفاقی وزیر رانا نذیر احمد خاں ہیں۔رانا نذیر گروپ اس حلقہ میں خاصہ مقبول ہے اور سات دفعہ اس حلقہ سے ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔موجودہ الیکشن میں کانٹے کا مقابلہ ہو سکتا ہے ۔تاہم مختلف زرائع کے مطابق رانا نذیر گروپ کے جیتنے کے چانسز واضح ہیں۔اس حلقہ کے زیر نگیں صوبائی اسمبلی کی نشستوںPP59,60,61پر کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔خصوصی تور پر PP60جہاں پر مسلم لیگ ن کی طرف سے سابق ایم پی اے قیصر سندھو اور پی ٹی آئی کی طرف سے سابق ایم پی اے ظفراللہ چیمہ مد مقابل ہیں۔ یہاں مقابلہ ففٹی ففٹی ہے اسی لئے قبل از وقت کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔حلقہNA84یہ گوجرانوالہ کا آخری حلقہ ہے۔جوتحصیل نوشہرہ ورکاں، ایمن آباد ٹاؤن اور گوجرانوالہ میونسپل کارپوریشن کے مختلف علاقوں پر مشتمل ہے۔اس کی کل آبادی793857نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوارسابق ایم این اے اور حاجی مدثر قیوم ناہرہ کے بھائی اظہر قیوم ناہرہ ہیں۔جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار سابق ایم این اے بلال اعجاز ہیں۔اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔اس کے زیر نگیں صوبائی نشستوںPP63,64پر مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری دیکھائی دیتا ہے۔تاہم PP63جہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق صوبائی وزیر اقبال گجر اور تحریک انصاف کے امیدوار سابق ایم این اے راعمر نذیر کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
قارئین یہ تھی ہماری رائے مگر اصل نتائج تو 25جولائی کو ہی سامنے آئیں گے۔
گوجرانوالہ کے ووٹروں کی بات کی جائے تو آج بھی لوگ گلیوں ،نالیوں، سوئی گیس اور تھانے کچہریوں کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں سیاسی فہم نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ اندرون شہر میں لوگوں کی کچھ تعداد سیاسی بصیرت رکھتی ہے۔مسائل کی بات کی جائے تو سنٹرل پنجاب کے اس ضلع میں آج بھی تعلیم اور صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔شہر آج بھی بڑی سرکاری یونیورسٹی سے محروم ہے۔ایک سول ہسپتال ہے۔ جہاں مناسب سہولیات نہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹرز سیریس مریضوں کو لاہور ریفر کردیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔امن وامان کی صورتحال ضرور بحال ہوئی ۔تاہم کاروبار و زراعت آج بھی ویسے ہی ہیں۔چھوٹے کسان مسائل کی گرفت میں ہیں۔روزگارکے مواقع کم ہیں۔سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے آمدورفت کافی بہتر ہوئی ہے ۔تاہم محلوں گلیوں میں آج بھی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔گنجان آباد محلوں اور دیہاتوں میں سیوریج کے مسائل ہیں۔اہم گزرگاہ کنگنی والا پل جو شاید زمانہ انگریز سے بنا ہوا ہے۔اس پل کی ازسر نو تعمیر بہت ضروری ہے۔اس کے علاوہ دیہاتوں کے ساتھ ساتھ شہر کے بھی اکثر علاقوں میں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔اس کے علاوہ نہ جانے کتنے مسائل جو برسوں سے چلے آرہے ہیں نمائندوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔
گوجراونوالہ کے پہلوانوں،حسن پرستوں اور بھولے بھالے لوگوں سے گزارش ہے کہ، اس بار ضرور دیکھ بھال کر ووٹ دیں اور 25جولائی کو اپنا فیصلہ سنا دیں۔

Sunday 29 April 2018

بجٹ و ترقیاتی سروے حقیقت میں


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینئر،پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ممبر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

گزشتہ روز پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کے وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل نے اپنی حکومت کی طرف سے آخری بجٹ2018-19پیش کیا ۔جس کا حجم 59کھرب32ارب50کروڑ روپے مختص کیا گیا۔جس میں ترقیاتی بجٹ 20کھرب143ارب جبکہ پی ایس ڈی پی کے لئے 800ارب روپے مختص کئے گئے۔وزیر خزانہ نے اپنی حکومت کی طرف سے ترقیاتی کارکردگی پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔بتایا گیا کہ مجموعی ترقی کی شرح 5.4فیصد ہے۔مارچ تک کے سروے کے مطابق افراط زر3.8فیصد رہا، جبکہ شرح نمو 13سال کی سب سے زیادہ سطح پر پہنچ کر5.79فیصد ہوگئی۔اسی طرح حکومت کے مطابق ٹیکس وصولیوں میں پانچ سال کے دور حکومت میں 2ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔گزشتہ پانچ سال میں33ہزار 285کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔وغیرہ وغیرہ۔موجودہ حکومت سے معصومانہ سوال ہے کہ اتنا سب کچھ بہتر ہونے کے باوجود عام عوام کیوں ناخوش ہے؟کیوں غریب !غریب تر ہوتا جا رہا ہے؟آج بھی لاکھوں لوگ بے روزگار کیوں ہیں؟کیا 2ہزار ارب کے ٹیکس سے کوئی بھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کہ بے روزگاری کم ہو؟کیا ہزاروں نئی رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں میں بے روزگار لوگوں کے لئے کوئی نوکری نہیں؟کیاان پانچ سالوں میں ملک میں حالات سے مجبور بے روزگار لوگوں کے لئے بھی کوئی ادارہ بنا یا گیا، کوئی منصوبہ بندی کی گئی؟نہ جانے ترقی کہاں ہورہی ہے۔شاید اشرافیہ کی نظر میں ہو رہی ہو۔کیوں کہ انہیں تو گاڑیوں کے ٹیکس میں چھوٹ مل رہی ہے۔ان کے لئے معیاری سڑکیں بن رہی ہیں۔غریب کے لئے تو روزگار کا حصول ہی افضل ہے۔
مانتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بہت اچھا بجٹ پیش کیا۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھا دیں پنشرز کی پنشنز میں اضافہ ہوگیا۔کھاد بنانے والی کمپنیوں کے لئے ٹیکس میں چھوٹ ہو گئی۔زرعی مشینری پر عائد ٹیکس کم ہوگیا۔الیکٹرک گاڑیوں پر عائد ٹیکس ختم کر دیا۔دودھ مکھن پنیر مچھلی مرغی کی خوراک سستی کر نے کا اعلان کردیا۔ایل این جی لنڈے کے کپڑے جوتے اور میٹرس وغیرہ بھی سستے کرنے کا اعلان کردیا۔کینسر کی ادویات،ایل ای ڈیز اور قرآن پاک کی طباعت والے کاغذ پر بھی عائد ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان۔ہائبرڈ گاڑیوں پر ڈیوٹی کم کر کے 50سے25فیصد کردیا۔وغیرہ وغیرہ۔بہت ہی اچھا اقدام ہے، اور پاکستان کی ترقی کے لئے ایسے اقدامات ضروری ہیں۔مگر معصومانہ سوال پھر وہی ہے کہ ،بے روزگاروں کے لئے کیا !کیا گیا؟پاکستان 21کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہے۔جس میں سے اکثریت غربت کی زندگی بسر کرہی ہے۔بہت سے لوگوں کو تو ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کا کچھ علم نہیں کہ یہ کیا ہیں۔بہت سے تو گاڑی خرید ہی نہیں سکتے۔دنیا بھر میں ملک کی اکثریت عوام کاپیشہ سرکاری ملازمت ہوتاہے ۔مگر ہمارے ہاں اکثریت عوام پرائیویٹ سطح پر کام کرتی ہے۔سب سے بڑی معیشت زراعت کا حال دیکھ لیجئے چھوٹے کسان ذلت امیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں قرضوں کا بوجھ ہے کہ ان کے سروں پر منڈھلاتا رہتا ہے۔ اب ایسے میں ،کیا بھوکے ننگھے کسان زرعی مشینری امپورٹ کریں گے۔آپ کے دور حکومت میں صرف کسانوں کو ایک ہی فائدہ ملا جو عام عوام تک بھی پہنچا وہ تھا کھاد پر براہ راست سبسڈی مگر اب کھاد پر 10ارب کی سبسڈی کو ختم کر کے اس کے لئے صرف ایک ارب ہی مختص کرنا سراسر زیادتی ہے۔سرکارنے کینسر کی دوا تو سستی کردی مگر کینسر ہسپتال بنانا شاید ضروری نہیں سمجھا۔اکیس کروڑ عوام میں اتنے زیادہ ہسپتالوں کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی شاید!
چلیں ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں سے سب سے بہتر بجٹ پیش کیا گیا۔یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس میں غرباء اور ملازمین کے لئے بڑی رعائتی جھلک نظر آ رہی ہے۔مگر معصومانہ سوال ہے کہ ایسا بجٹ گزشتہ پانچ سالوں میں کیوں پیش نہیں کیا گیا؟اب جب کہ حکومت کی مدت میں دو ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے اتنا عوام دوست بجٹ کتنا معنی خیز ہوگا؟ دو ماہ کی مہمان حکومت کا پورے سال کا بجٹ پیش کرنا اور پھر اپنے دور حکومت کا سب سے اچھا بجٹ !آخر یہ معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے۔کہیں حکومت ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی کوشش میں تو نہیں؟یعنی بجٹ سے عوام خوش اور الیکشن کمپین بھی باخوبی۔یا پھر پیپلز پارٹی کی طرح بجٹ تو نام کا ہے اصل میں مختص رقم تو الیکشن لڑنے اور اپنے زیر التوا پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے ہے۔تاریخ گواہ ہے پاکستان میں ہر منتخب حکومت نے سرکاری خزانہ استعمال کر کے ووٹ خریدنے کی ہی سیاست کی ہے ،چاہے کسی آمر کی حکومت ہو یا منتخب جماعت کی۔
موجودہ حکومت سے بہت سے سوالات ہیں۔آج حکومت زراعت کا نام استعمال کرکے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔تعلیم اور صحت کا نام استعمال کرنا چاہتی ہے۔سی پیک کا نام تو پہلے ہی استعمال ہورہا ہے۔مگر افسوس کہ حکومت نے اپنی کسی رپورٹ میں تعلیم کی بہتری کے لئے بنائے جانے والے اسکول کالجز اور یونیورسٹیز کی تعداد نہیں بتائی۔صحت کے حصول کے لئے بنائے گئے ہسپتالوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔آخر ایسا کچھ کیا ہوگا تو رپورٹ مرتب کریں گے۔ دنیا بھر میں،لاہور شہر سے چھوٹے ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں متعدد کالجز یونیورسٹیاں اور ہسپتال موجود ہیں۔مگر ہمارے سب سے زیادہ ڈیولپ صوبہ پنجاب کا یہ عالم ہے کہ پورے صوبے کے شہروں سے عوام آج بھی لاہور کے واحد ہسپتال میں ہی علاج کے حصول کے لئے آتی ہے۔ایسا ہی عالم تعلیم کا ہے لوگ پورے پنجاب سے لاہور ہی یونیورسٹیز کے لئے آتے ہیں۔اب جبکہ حکومت دو ماہ کی مہمان ہے۔ایسے میں صحت کے لئے مختص 37ارب اور ایچ ای سی کے لئے مختص47ارب روپے سے کیا ہوجائے گا۔اکیس کروڑ آبادی کے بڑے ملک جہاں اکثریت نوجوان ہوں اور ان کی بھی اکثریت بے روزگار ہو۔ وہاں یوتھ کے لئے 10ارب بہت زیادہ نہیں وہ بھی دو ماہ کی حکومت کی طرف سے۔معصومانہ سوال ہے میٹرو بس، سڑکیں اور اورنج لائن ٹرین تعلیم وصحت کے متبادل ہو سکتی ہیں۔؟افسوس کہ حکومت زراعت ،صحت اور تعلیم جیسے بہت سے سیکٹرز کا بجٹ استعمال کر کے بھی ایک توانائی کے مسئلے کو حل نہیں کر سکی۔جتنا بجٹ موجودہ حکومت کے دور میں تعمیرات پر خرچ ہوا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سی پیک پر چائنہ نہیں بلکہ صرف پاکستان ہی خرچ کر رہا ہو۔باقی رہی بات زراعت کی تو گندم کی فروخت کے لئے باردانہ حاصل کرنے والے کسانوں کو ہی مل لیجئے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔حقیقت میں حکومت کی طرف سے پیش کیا جانے والا ترقیاتی سروے اور بجٹ صرف اور صرف عوام کو دیا جانے والا ایک بہلاوہ ہے۔باقی پاکستان کے سارے ادارے آپ کے سامنے ہیں ۔گزشتہ سالوں کی کارکردگی کا اندازہ لگاتے ہوئے موجودہ حکومت کو پرکھ لیجئے۔بجٹ کے بہلاوے میں نہ آئیے گا ۔کیوں کہ دو ماہ کی حکومت کا،سال کے بجٹ کا کوئی جواز نہیں بنتا، اور نہ ہی یہ حکومت اس بجٹ کے ثمرات عوام تک پہنچا سکتی ہے۔ذرا سوچئے! 


Sunday 8 April 2018

پی ٹی آئی کا سفر اور نوجوان کارکن


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف1996میں ایک معروف سابق قومی کرکٹر عمران خان کی کی سربراہی میں سیاسی جماعت کی صورت میں سامنے آئی۔ابتدائی مراحل میں کافی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن عمران خان نے اپنے ارادے و حوصلے پست نہیں کئے وہ ڈٹا رہا۔عمران نے 1997کے جنرل الیکشنز میں سات نشستوں پر انتخابات لڑے کسی بھی حلقے سے بھاری ووٹ حاصل نہیں کرسکے۔پھر 2002کے انتخابات میں میانوالی سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔پی ٹی آئی نے 2008کے الیکشنز کا بائیکاٹ کیا۔پارٹی 2011میں نئے عزم کے ساتھ عوام کی توجہ کا مرکز بنی۔ طلباء اورنوجوانوں میں کافی مقبول ہوئی۔الیکشنز 2013سے قبل پی ٹی آئی ایک مقبول ترین جماعت بن گئی۔عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں تیسری اور بنیادی تور پر دوسری بڑی جماعت بن گئی۔تحریک انصاف نے اس سارے عرصے میں خوب کمپین چلائی۔تحریک انصاف کے کارکن ،پڑھے لکھے باشعورنوجوان اور باہمت مڈل و غریب طبقہ نے تحریک انصاف کو حقیقی معنوں میں بام عروج تک پہنچایا۔ملک کے کونے کونے میں لوگوں میں شعور اجاگر کیا۔سب سے بڑی بات تحریک انصاف نے اپنے پلیٹ فارم سے انتخابات میں عام کارکنوں، نوجوانوں اور غریب لوگوں کو برابری کے درجے کے تحت میدان میں اتارنے کا اعلان کیا۔جسے دیکھ کر کارکنوں نوجوانوں کا جذبہ بڑھا اور ملک کے گلی کوچے میں تحریک انصاف کے تبدیلی کے پیغام کو پہنچایا۔کارکنوں نے بے انتہا محنت کی اور حقیقی معنوں میں تحریک انصاف کو ایک نئی روح و پہچان بخشی۔وقت گزرا 2013کے عام انتخابات آئے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے دوسری پارٹیوں کے مضبوط امیدواروں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ۔اپنے اس مقصد میں کچھ حد تک کامیاب بھی ٹھہرے۔پارٹی ٹکٹوں کا وقت آیا تو مضبوط اور طاقتور امیدواروں کو ٹکٹ دیئے گئے۔کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا۔جن حلقوں میں کوئی مضبوط امیدوار نہ ملا وہاں کارکنوں کو ٹکٹ بھی ملے۔ ان سارے حالات میں کارکنوں نے صبر سے کام لیا۔پارٹی قیادت کی طرف سے تسلیم کیا گیا کے ٹکٹ میرٹ پر تقسیم نہیں ہوئے۔یقین دہانی کروائی گئی کہ آئندہ باشعور اور قابل لوگوں کو ٹکٹ دیں گے۔اب جب کہ 2018کے الیکشنز کا وقت ہے تو خان صاحب پھر یوٹرن مارنے کو تیار ہیں۔خان صاحب کارکنوں نے بڑا صبر کرلیا کچھ ایسے یو ٹرنز پر
جیسے۔1۔شیخ رشید کواپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔شیخ رشید کی اور ہماری سوچ ایک ہی ہے۔2۔پرویز الہی پنجاب کا بڑا ڈاکو ہے۔پرویز الہی اور ہم مل کر کرپشن کے لئے لڑیں گے۔3۔آف شور کمپنی رکھنے والے چور ہیں۔میں نے کمپنی ٹیکس بچانے کے لئے بنائی۔ اور مزید بہت سے یوٹرنز جیسے پارٹی میں صاف شفاف انتخابات سے جعلی انتخابات ،کے پی کے میں احتساب سے ناانصافی تک ۔ہر محاذ پر آپ کو کارکنوں نے نہ صرف برداشت کیا بلکہ اپنی پوری کوشش و توانائی سے آپ کادفاع بھی کیا۔خان صاحب جان لیجئے کہ ایک لیڈر اور سیاستدان کے لئے اس کے ورکرز ہی ہمیشہ میدان بناتے ہیں۔اسے بام عروج تک پہنچاتے ہیں۔اس کے لئے لڑتے جگھڑتے ہیں۔اپنی خوشیاں اس کی خوشیوں پر نچھاور کر تے ہیں۔سیاستدان اگر فہم و فرواست والا ہو تو ورکروں کی عزت کرتا ہے انہیں ان کی قربانیوں کا صلہ دینے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ان کی قربانیوں کا ہمیشہ معترف رہتا ہے اور انہیں ہمیشہ سراہتا ہے۔ہر محاظ پر ان کو اعتماد میں لیتا ہے ان سے مشورہ کرتا ہے۔اگر کوئی لیڈر اپنے کارکنوں کی قدر نہ کرے تو یہ کارکنوں کا نقصان نہیں بلکہ لیڈر کی کم عقلی ہے۔یاد رکھئے کہ ورکر عزت و قدر کا بھوکا ہوتا ہے۔اگر انہیں عزت و احترام نہ دیا جائے تو وہ اپنا لیڈر بدلنے کا پورا حق رکھتے ہیں اور ایسا کر گزرتے ہیں۔جو آپ کو شہرت کی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے وہ واقعی آپ کو اس شہرت کی بلندی سے گرانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
خان صاحب آپ کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو،آپ کی جماعت یوتھ یعنی نوجوانوں کی نمائندہ جماعت تھی۔آپ نے بھی قائد کی طرح نوجوانوں کو پاکستان کے لئے متوجہ کیا۔مگر افسوس کے آپ نوجوان کار کنوں کو نہ تو عزت دے سکے نہ ہی ان کی نمائندگی کرسکے۔پی ٹی وی سنٹر حملہ ہی دیکھ لیجئے آپ کے کارکن کیسے کیسز میں ذلیل ہوتے رہے مگر آپ نے نہ تو انہیں اپنایا نہ ہی ان کی کوئی مدد کی۔انسان اگر شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتا ہے تو اس میں ہمت حوصلہ اور صبر بھی ہونا چاہئے۔خان صاحب موجودہ الیکشنز نزدیک ہیں اور آپ بھی پارٹی میں پرانے بے وفا اور آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو بھرتی کر رہے ہیں۔کہاں گئی ؟خان صاحب وہ نوجوانوں کی نمائندگی !وہ جنونی کارکن !وہ تبدیلی !کہاں گئے باشعور لوگ ،وہ طلباء ، اوروہ باہمت غریب؟۔آخر کہاں گئے؟یوٹرن کہیں انہیں بھی ساتھ بہا کر تو نہی لے گیا؟کیا پاکستان تحریک انصاف کا مقدر بھی وہی خاندانی جاگیردار مفاد پرست سیاستدان ہی ہیں جو بھرسوں سے کبھی اس پارٹی تو کبھی اس پارٹی حکومت کے مزے لے رہے ہیں؟بے وفا آزمائے ہوئے اور کرپٹ لوگوں کا ہی ٹولہ بنانا تھا تو پھر کیوں تبدیلی کے دعوے کئے؟کہاں گئی وہ’ نیا پاکستان‘ کی تحریک؟آخر میں !آ پ بھی کرسی کی خاطر جوڑ توڑ کرنے والے ہی نکلے۔تبدیلی تو چھٹیوں پر چلی گئی۔خان صاحب یاد رکھئے گا یہ بے وفا اپنی پارٹی اور لیڈروں کے قصیدے پڑھا کرتے تھے آج انہیں دھوکا دیا کل آپ کو بھی دیں گے۔ان کے لئے حکومت اور اس کے ثمرات افضل ہیں کوئی پارٹی کوئی لیڈر افضل نہیں۔خان صاحب بہادر کارکن اور نوجوان پوچھنا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو کرپٹ اور لٹیروں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟آپ کے پاس ایسا کونسا کلینر ہے جس میں سے گزر کر ہر کرپٹ کرپشن سے پاک ،ہر چور شریف اور ہر بد تمیزتمیز دار ہو جاتا ہے؟خان صاحب جواب دیجئے گا کہ آپ نے کیوں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے بزنس ٹائیکونوں کے برعکس فوزیہ قصوری، ناز بلوچ اور جسٹس وجیہہ الدین جیسے رہنماؤں کو گنوایا؟تحریک انصاف کا حقیقی نظریہ کیا ہے اور آج پارٹی اپنا نظریہ کیوں بھلا بیٹھی ہے؟کیوں غلط سمت پر گامزن ہیں؟
خان صاحب یہ جو آپ نے اپنے ارد گرد موجود کرپٹ نیب سے شہرت یافتہ لوگوں کے کہنے پر ایم این اے کی درخواست کے لئے ایک لاکھ اور ایم پی اے کی درخواست کے لئے پچاس ہزار کی فیس رکھی ہے۔یہ ان امیر اور دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے مفاد پرست امیروں کے لئے تو موزوں ہے۔ مگر یہ ایک عام شہری اور ورکر ایک نوجوان سیاسی سپاہی اور جیالے کے لئے بہت زیادہ ہے۔یہ غریب کارکنوں امیدواروں اور نوجوانوں کے منہ پر تو آپ کے گرد جمع امراء کا ایک طمانچہ ہے۔آخر یہ ساری سکیم اس لئے تیار کی گئی کہ کوئی ورکر اور غریب ٹکٹ کے لئے اپلائی ہی نہ کر سکے۔آپ ان آزمائے ہوئے کارتوسوں کو ضرور ٹکٹیں دیجئے اور واضح کر دیجئے کہ آپ سیاسی بازار میں زرداری ،نواز اور مولانا حضرات کے بھائی ہی ہیں۔کیا فرق آپ میں اور ان میں ؟وہ بھی کرسی کے لئے ہر طرح کی بدعنوانیاں کرنے والے امراء کو ساتھ ملاتے ہیں آپ بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔ وہ بھی جنونی و جذباتی ورکرز کا استعمال کرتے ہیں آپ بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔خان صاحب آپ ان ساری اسکیموں سے 2018کے الیکشنز تو جیت جائیں گے ،مگر عوام کے دل نہیں جیت پائیں گے۔کارکنوں و نوجوانوں کا حوصلہ ہمت سب ختم ہو جائے گا۔دوران حکومت آپ کو کوئی ڈیفینڈ کرنے والا نہیں ہوگا۔حکومت لعن تعن کا شکار رہے گی۔کارکنوں نے ساتھ چھوڑنا شروع کیا تو آپ کی حالت بھی نواز شریف جیسی ہوگی طرح طرح کے تعنے کسے جائیں گے۔ایسے حالات میں مفاد پرست ٹولہ آپ کا ساتھ دینے کی بجائے آپ کو ہی پارٹی اور حکومت سے الگ کرنے کی اسکیمیں بنائے گا۔یاد رکھئے یہ کرپٹ کبھی کرپشن سے باز نہیں آئیں گے اور نہ ہی آپ سے کنٹرول ہوں گے۔خان صاحب اب آپ کی مرضی ہے کہ عوام کا ساتھ حاصل کر کے نیا پاکستان تشکیل دینا ہے یا پھر مفاد پرست ٹولے کو ملا کر ملک کو مزید کھوکھلا کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

Sunday 1 April 2018

ہماری سلامتی کو لاحق اندرونی خطرات


چوہدری ذوالقرنین ہندل:لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔
آج پاکستان مختلف (سیکیورٹی تھریٹس) خطرات کی وجہ سے متعدد محاظ پر الجھا ہوا ہے۔ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی سیاست کا ماحول اس کے جغرافیائی مقام کی اہمیت پر منحصر ہے۔ کسی بھی ملک کے لئے اس کے زمینی حقائق اور اثرات سے بچنا ناممکن ہوتا ہے۔اہم یہ ہے کہ کوئی ملک کیسے اپنے اوپر اثر انداز ہونے والے عوامل و دباؤ کو ہینڈل کرتا ہے۔کسی بھی ملک کی پالیسیاں بھی اس کی زمینی اہمیت پر منحصر ہوتی ہیں۔جغرافیائی لحاظ سے جنوبی ایشیاء کو بحر ہند کا ذیلی خطہ کہا جا سکتا ہے ۔پہاڑی دیواروں کی بنیاد جو کہ کرتھر بلوچستان کی حد سے خیبر پاس تک وسیع ہے۔ہمالیہ کے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ مشرق کی جانب پھر یہ تیزی سے جنوب کی طرف آرکانا یامہ کی طرف شمال مغرب سے شمالی مشرقی دیواروں تک۔ جبکہ خلیج بنگال شمال کی طرف ،مرکزی بحر ہند جنوب میں اور بحیرہ عرب مغرب کی طرف جنوبی ایشیاء کے ثقافتی زون کی حد کو مکمل کرتا ہے۔پاکستان اس خطے میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔پاکستان ایسی جکہ پر واقع ہے جہاں تین اہم علاقے آپس میں ملتے ہیں۔جیسے جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیاء اور جنوبی مشرقی ایشیاء جسے’ فلکرم آف ایشیاء‘ بھی کہتے ہیں۔ اس زمینی مقام کی بنا پر دنیا بالخصوص ایشیاء کی طاقتیں پاکستان پر اپنی نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔پاکستان نا چاہتے ہوئے بھی ایسی لڑائیاں لڑنے پر مجبور ہے جو دنیا کی سیاست کی بدولت پاکستان کے حصے میں آرہی ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں بھی اسی جغرافیائی لوکیشن کی بدولت ہیں۔پاکستان ایک ایسا رفاقتی معاشرہ ہے ،جہاں بہت سے مذہبی گروپ فقط چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدت کی انتہا تک بھٹے ہوئے ہیں۔پاکستان میں مذہب، ذات، زبان، عقیدے اور حالات کی بنا پر ایسے بہت سے تنازعات نے جڑیں مضبوط کر رکھیں ہیں جو ہماری اندرونی سلامتی کے لئے خطرات کا باعث ہیں۔یہی وجوہات پاکستان کی اقتصادی ترقی کو روکنے کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی عدم استحکام کا بھی باعث بن رہی ہیں۔درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر پاکستان کی اندرونی سلامتی ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے۔
سیاسی نظام کی خرابی۔پاکستان میں قائد کی وفات کے بعد کوئی بڑا قومی لیڈر سامنے نہیں آیا جو ملک کو سیاسی مصلحت کے ساتھ چلا سکے۔مفاد پرست وڈیروں ،بزنس ٹائیکونوں اور سرکاری افسروں نے ملک کی سیاست میں عمل دخل شروع کر دیا اور سیاسی جمہوری نظام کی آڑ میں مفادات کے کھیل کھیلے گئے۔ایسے ملک میں اندرونی و بیرونی خطرات ہمیشہ منڈھلاتے رہتے ہیں جہاں سیاسی نظام مفلوج ہو۔یہاں جسکی لاٹھی اس کی بھینس والے قانون کے تحت آمریت و جمہوریت نامی الفاظ کی آڑ میں کم عقل کم فہم با اثر لوگ سیاست جیسے مقدس شعبے کو ملک و قوم کی مفادات کی بجائے اپنے مفادات و اثر رسوخ کے لئے استعمال کرتے ہیں جو ہمارے سیاسی نظام کی خرابی کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
غیر منظم شدہ جدیدیت۔عالمگیریت نے جہاں مغرب کو بے بہا وسائل فراہم کئے ہیں وہیں ترقی پذیر ممالک کے اقتصادی نظام میں جیسے چھید کردیا گیاہو۔ جو کسی بھی ملک کی سیاسی و سماجی بربادی کے لئے کافی ہے۔ورلڈ ٹریڈ آرڈر کے تحت مغرب نے اپنی بنی ہوئی ٹیکنالوجی کی اشیاء کو اتنا عام کیا کہ دنیا اس کی حیرت میں گم ہو گئی اور اسی کے برعکس دنیا بھر سے غذائی اجناس اور تیل جیسے بہت سے ذخیروں تک اپنی رسائی حاصل کی ۔پاکستان بھی ایسے ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جہاں الیکٹرانک کی جدید اشیاء عیش و عشرت سے مزین ہوٹل عام عوام کی توجہ کا مرکز ہیں۔مگر اپنی معیشت ،زراعت پر جیسے پردہ پڑ گیا ہو۔آج ہماری غذائی اجناس اور دوسری پراڈکٹس کی قیمتیں بہت کم ہیں جس کی بنا پر ہمارا ملک مالی مسائل کا شکار رہتا ہے اور ہماری عوام غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے روزگارموجود نہیں۔مغرب نے پاکستان کو بھی ایک منافع بخش مارکیٹ کے طور پر گردانتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں عیش و عشرت اور جیدیت کو فروغ دیا۔آج پاکستان میں لوگوں کے پاس موبائل اور کمپیوٹر ضرور موجود ہوگا چاہے وہ معیاری خوراک حاصل نہ کرسکے۔پاکستان آج بھی بجلی و پانی کے مسئلے سے دو چار ہے ۔مغرب نے گلوبلائزیشن سے اپنے مفادات کو حاصل کیا ہے باقی دنیا آج بھی مسائل سے دوچار ہے۔
بیگانگی کا احساس۔نظام میں موجود خرابیاں اور ناکافی صلاحیتیں پاکستان کو گھر میں ہی کمزور کر رہی ہیں۔وڈیروں سیاستدانوں اور افسروں کی طاقت کے غلط استعمال اور ظلم و جبر سے تنگ لوگوں کے لئے ملک صرف امراء کی جاگیر ہوتا ہے۔حالات و واقعات سے اکتائے لوگ خود کو اور ملک بیگانہ تصور کرتے ہیں جو ملکی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے۔
میڈیا پول۔میڈیا پر بزنس ٹائیکونوں کا قبضہ بھی ہمارے اندرونی معاملات کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔میڈیا ہاؤسز اکثریت ایسے لوگ چلا رہے ہیں جنہیں صرف روپے سے غرض ہے چاہے اس میں ملکی سلامتی داؤ پر لگ جائے۔ مختلف چینلز پربنی بنائی من گھرٹ کہانیاں ملک میں صرف افراتفری اور انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں۔ایسے میں صحافتی اداروں کو حکومت کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ ملک سے بکاؤ میڈیا گروپس کا خاتمہ ہو سکے۔
سیاست، ایک کاروبار۔بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سیاست کی کوئی درسگاہ نہیں یہاں مقدس و خالص سیاست سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔یہاں سیاست کی آڑ میں کاروبار چمکائے جا رہے ہیں ۔سیاست کی آڑ میں اثر ورسوخ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔معاشرہ خود غرض ہے ،ووٹر خود غرض ہیں، سیاستدان خود غرض ہیں۔کوئی روپے دے کر صرف اس امید پر ووٹ خریدتا ہے کہ منتخب ہو کر اس سے کہیں زیادہ کما لے گا۔اور کوئی اتنا خود غرض اور جاہل ہے کہ قیمے والے نان ، گلیوں نالیوں، موبائل فون ،نقدی اور نوکری کے لالچ میں ووٹ فروخت کر دیتا ہے۔سیاسی کاروبار کی خریداری کا موسم پھر شروع ہوا چاہتاہے۔ایسا ملک خطرات کی زد سے کیسے باہر نکلے گا جس ملک و وطن کے نام کا چورن بیچ کر منافع کمانے والے لوگ موجود ہوں گے۔
مذہبی بد انتظامیت۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہبی قوم کی نسلیں آباد ہیں جن کا ریاست سے متفق ہونا ضروری نہیں جن کے اپنے ہی الگ نظریات ہیں۔غیر مسلم کے مقابلے ممتاز ہونا ایک طرف یہ تو فرقے ہیں جوایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ایک دوسرے میں فرق کرتے ہیں خود کو ممتاز سمجھتے ہیں دوسرے کو کافر۔کوئی بھی مذہبی گروپ اٹھتا ہے اور ریاست کو یرغمال بنا لیتا ہے۔جتنے فرقے اتنے نظریے اور قانون ہیں ۔جب ریاست کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تو پھر ملکی بہتری کی امید کیوں؟جب خود انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہو تو پھر دھماکوں پر افسوس کیوں؟
غیر ریاستی اداکاروں کا اضافہ۔بے شمار فرقہ پرستی، مذہبی عدم برداشت ،قومیت پرستی اور انا کی بنا پر بہت سی غیر ریاستی طاقتیں سرگرم ہیں۔ہماری آپس کی تفرقہ بازی غیر ریاستی اداکاروں کے اضافے کا سبب ہے۔غیر ریاستی طاقتیں ہمارے بہت سے علاقوں اور لوگوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔بعض اوقات ہماری عوام اپنی کم ضرفی میں غیر ریاستی اداکاروں کو پرموٹ کرتی ہے اور ہماری ریاست ایسے میں کچھ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔
فلسفیانہ دو فرعی تقسیم۔علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقاتی تقسیم بھی ہمارے ملک کے اندرونی معاملات کے خطرات کی بڑی وجہ ہے۔علماء حضرات کی اکثریت جدید طرز تعلیم سے عاری ہے اور جدید طبقہ مذہبی پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یوں دو دھڑے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکرمیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں جتے ہوئے ہیں ۔ان کے لئے ایک پیج پر متفق ہونا جیسے قیامت ہو۔جبکہ حقیقت میں ملک کی بہتری میں دین و دنیا دونوں کی ضرورت ہے۔ ایک چیز سے ایک طرف کا پلڑا بھاری ہوتا ہے جبکہ دونوں کے توازن سے معاشرہ بھی متوازن ہو جاتا ہے۔
بے روزگاری و غیر ملکی مداخلت۔بے روزگاری ایک اہم اور بڑا مسئلہ ہے۔بہت سے غریب حالات سے تنگ آکر غلط کاموں کا سہارا لیتے ہیں۔بے روزگاری انسان کو کمزور اور اندھا بنا دیتی ہے اچھے و برے کی تمیز ختم کر دیتی ہے پھر انسان کے لئے صرف رزق کی تلاش ہوتی ہے چاہے وہ اچھے زریعے سے ملے یا کسی غلط راہ سے۔ایسے اکتائے ہوئے لوگ عدم برداشت کا شکار ہوجاتے ملک میں افراتفری پھیلتی ہے اور غیر ملکی ایجنسیاں مداخلت کرتی ہیں بہت سے حالات کے مارے لوگ دشمن کے لئے کام کرتے ہیں اور دشمن ممالک ہمارے ملک میں افراتفری کو مزید فروغ دے کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ 
یہ ہمارے ملک کے اندرونی خطرات کی بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج بھی ملک حالت جنگ میں ہے۔جن پر قابو پانا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ہمیں مل جل کر ایسے کام کرنے چاہئے جو ہمارے ملک کی بہتری کے لئے ضروری ہیں۔ہمیں عوام میں شعور اجاگرکرنا چاہئے۔ذرا سوچئے!

Sunday 11 March 2018

سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں


چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے):لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینینئر ہیں۔

پاکستان ایک جنوبی ایشیائی ملک ہے ،جو مشرق وسطی اور وسط ایشیاء کے پار قریب ترین ملک ہے۔پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے دنیا و خطے کی بہت سی طاقتیں اس پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔پاکستان کو جہاں اپنی جغرافیائی اہمیت کا مان ہے اور سی پیک جیسے کئی مفاد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔وہیں اگر محتاط اندازہ لگایا جائے تو باخوبی علم ہوتا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی بدولت بہت سے ممالک جیسے بھارت و امریکہ اسے کمزور و غیر مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔پاکستان میں پھیلتی افراتفری ،عدم مساوات اور انتہا پسندی انہیں طاقتوں کی منصوبہ بندی ہے۔پاکستان معرض وجو د سے ہی بہت سے اقتصادی انتظامی اور سماجی مسائل کا شکار تھا۔ وقت کے ساتھ کچھ پر قابو پالیا گیا۔ مگر کچھ مسائل گمبھیر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔پاکستانی حکومتیں ہمیشہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہیں۔اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ملکی و غیر ملکی قرضوں کی دوڑ میں مگن ہو گئیں۔تمام حکومتوں نے بنیادی مسائل کو حل کرکے اقتصادی و سماجی مسائل پر کنٹرول پانے کی بجائے، وقتی قرضوں کی بدولت اپنی نااہلیوں کو چھپایا۔پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کی راہ میں چند حائل رکاوٹیں۔ 
ملکی و غیر ملکی قرضے، چند حساس میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کا گردشی قرضہ 10کھرب سے تجاوز کر گیا ہے۔صرف پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 10کھرب22ارب روپے ہوگیا ہے۔قانون کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے60فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے،مگر ہمارا قرض قریب جی ڈی پی کے75فیصد تک پہنچ چکا ہے۔گزشتہ چار سال میں پاکستان کے قرضوں میں12ہزار500ارب کا اضافہ ہوا۔موجودہ ملکی و غیر ملکی قرض کا حجم26ہزار814ارب ہے۔جس میں غیر ملکی قرض کا حجم9ہزار816ارب کے لگ بھگ ہے۔پاکستانی کی اقتصادی و سماجی ترقی میں قرضے رکاوٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان ان قرضوں پر ہر سال اربوں روپے سود دیتا ہے اور اصلی قرض بڑھتا چلا جا رہاہے ۔جو ہماری معیشت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔اسی طرح ہماری خودمختاری بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اسی قرض کی بدولت ہمیں غیر ممالک کو اپنے بہت سے معاملات میں رسائی دینا پڑتی ہے۔جو ہمارے سماج پر گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں۔
بڑھتی آبادی،پاکستان کی بڑھتی آبادی اور محدود وسائل پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا کردار ادا کر رہی ہے۔قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان کی آبادی 3کروڑ کے لگ بھگ تھی۔موجودہ 2017کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی21کروڑ ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عام آدمی یومیہ 2ڈالر کے قریب کماتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں غربت و افلاس ہے۔لوگ سماجی و اقتصادی مسائل سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔معاشرہ عدم مساوات کا شکار ہے۔آبادی و معیشت پر کنٹرول صفر ہے۔ایک اچھی و معیاری زندگی بسر کرنے کے لئے حکومت کو عوام میں آبادی کے کنٹرول کے حوالے سے آگاہی دینی چاہئے ۔تا کہ آبادی و وسائل میں توازن قائم رہے۔
غربت، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں 80فیصد دیہاتی لوگ خط غربت سے نیچے بنیادی سہولیات سے محروم زندگی بسر کررہے ہیں۔خیبر پختونخوا کی حکومتی رپورٹ کے مطابق44فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کرہے ہیں۔فاٹا میں 60فیصد لوگ غط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔بہت سے مزید علاقے جیسے تھر جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اسی محرومی کے باعث وہ دشمن کے ہاتھوں اونے پونے اپنا ایمان فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔جو ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا سبب ہے۔
ناقص تعلیمی سہولیات،تعلیم ہی ایک ایسا زریعہ ہے جو لوگوں کو صبر اور شعور فراہم کرتا ہے اور معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔مگر افسوس کہ ہمارا تعلیمی ڈھانچہ ہی بہت کمزور اور ناقص ہے۔بہت سے علاقے تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں۔قریب79فیصد پاکستانی میٹرک سے نیچے یعنی انڈر میٹرک ہیں۔تعلیم معاشرے کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ تعلیم کا فقدان ہی معاشرتی و سماجی برائیوں کو جنم دیتا ہے اور معاشرہ ہر لحاظ سے کھوکھلا ہوجاتا ہے۔
بے روزگاری،بے روزگاری مجبور و لاچار لوگوں کے لئے جلتی پر تیل کا کام انجام دیتی ہے۔بہت سے لوگ روزگار سے محروم اور معاشرے سے نالاں ہو کر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔بہت سے لوگ روزگار کے لئے دشمن کے عزائم کا حصہ بن کر دہشتگردی کو فروغ دیتے ہیں۔پاکستان میں2015\16کی رپورٹ کے مطابق 7فیصد لوگ بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں۔جن کو روزگار کا موقع ہی میسر نہیں ہوتا ہے ۔وہی بے روزگار دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔آخر کار ایک وقت ان کے لئے اچھا برا سب تمیز ختم ہوجاتی ہے اور متعدد بدعنوانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
توانائی کا بحران،بجلی کی بندش نے لاکھوں مزدوروں کے روزگار کو سوالیہ نشان بنا رکھا ہے۔سینکڑوں کاروبار ی افراد دیوالیہ ہوگئے ہیں۔ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے۔معاشی عدم استحکام کے باعث معاشرہ ناپاک عزائم میں دشمن کا ہم نوا بن رہا ہے۔
کرپشن، یہ ایک بڑا ناسور ہے جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔کھوکھلا کر رہا ہے۔ملک میں نانصافی کو فروغ دے رہا ہے۔لوگوں کی حق تلفی ہورہی ہے۔پاکستان کی معیشت کو آئے روز چونا لگایا جارہا ہے۔کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان 175میں سے 127نمبر پر ہے یعنی پاکستان میں 127ممالک سے زیادہ شرح کرپشن ہے۔پاکستان میں سیاستدان،بیوروکریٹ ، افواج، پولیس ،ججز اور بہت سے ادارے و عام لوگ کرپشن جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔جو ہماری ترقی کے راستے میں آئے روز سوراخ کر رہے ہیں، گڑھے کھود رہے ہیں اور ہماری ترقی انہیں گڑھوں میں رک جاتی ہے۔
جنگی اثرات، پاکستان نے بھارت کے ساتھ جنگوں میں کافی نقصان اٹھایاہے۔مگر 9/11 کے بعد سے امریکہ نے جہاں پاکستان کی دفاعی معاملات میں مدد کی،وہیں ہمارے سماجی و اقتصادی مسائل بھی بڑھنے لگے۔پاکستان کی طالبان کے لئے حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، امریکہ نے بین الاقوامی پریشر کی بدولت(وار آن ٹیرر)دہشتگردوں کے خلاف جنگ کے نام پر بہت سی انتہا پسند تنظیموں اور افغانستان کو پاکستان کے مخالف کروا دیا۔بعد ازاں امریکی اثرات کی بدولت یہی دہشگردوں کے خلاف جنگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوگئی اور اس کے اثرات پاکستان کے مختلف شہروں میں بم دھماکوں کی صورت میں سامنے آنے لگے۔امریکہ اور دہشتگردوں نے پاکستان کو یرغمال بنانا شروع کر دیا۔پاکستان نے امریکی دوستی کی شکل میں اپنی معیشت اور بنیادی ڈھانچے میں 40بلین ڈالرز کا نقصان اٹھایا۔ لاکھوں جانوں جن میں سویلین شہریوں اور فوجی جوانوں کو قربان کیا۔بدلے میں امریکہ کی طرف سے متعدد سختیوں سے مشروط اتحادی فنڈ جو کہ1.2 بلین سالانہ تاخیر اور ٹال مٹول کے ساتھ دیا جاتا رہا۔شرائط ایسی کے پاکستان اس فنڈ کو اپنے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔پاکستان کو اس فنڈ کے بدلے دہشتگردی کا ٹیگ ملا اور دہشتگردوں کی دشمنی، مارکیٹ میں امریکی اسمگل اسلحہ براستہ افغانستان ملا جو انتہا پسندی کے فروغ کا کردار ادا کررہا ہے۔جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کو برسوں سے روکے ہوئے ہے۔
خطے میں بھارتی اثر و کردار،بھارت نے اپنے برسوں پرانے نمبرداری کے خواب کو پورا کرنے کے لئے بلی چوہے کا کھیل رچایا ہوا ہے۔بھارت خطے میں موجود ممالک بالخصوص پاکستان کو اپنے اثر کی بدولت دبانا چاہتا ہے۔بھارت کشمیر پر جبری قبضہ جمائے ہوئے ہے۔پاکستان کو کشمیر پالیسی کی بدولت اقتصادی سطح پر بہت سے نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔بھارت پاکستان کا پانی روکنے کے لئے دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہا ہے جو ہماری زراعت اور معیشت کے لئے ایک بڑا دھچکہ ہے۔بھارت پاکستان کو مسلسل مختلف محاذوں پر الجھائے ہوئے ہے جس میں ورکنگ باؤنڈری ،افغانستان ،ایران اور کشمیر وغیرہ۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں39000کے قریب بھارتی سپاہی موجود ہیں جن کا مقصد پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دینا ہے اور براستہ افغانستان پاکستان کی تجارت کو روکنا ہے۔۔یہی نہیں بھارت پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تجارتی معاملات میں بھی نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
ایسے بہت سے مزید چھوٹے بڑے عناصر ہیں جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل ہیں ج کا حل بہت ضروری ہے، اور فوری ہونا چاہئیے تا کہ پاکستان آنے والے مزید چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔

Sunday 4 March 2018

ہمارا نظام تعلیم


چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے):لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینئر ہیں۔

دنیا بھر میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ نت نئی و حیرت انگیز ہونے والی ایجادات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے ۔انسان کا چاند اور سیاروں پر جانا صرف تعلیم کی بدولت ہی ممکن ہوا۔تاریخ سے باخوبی علم ہوتا ہے کہ دین اسلام بھی روز اول سے لے کر آج تک دنیا میں علم کی شمع جلا رہا ہے،اور قیامت تک علم کی اس مشعل کو لے کر آگے بڑھتا رہے گا۔دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے سب نے اللہ رب العزت کے احکامات کو لوگوں تک پہنچایا ،اور توحید و تقوی کی تعلیم دی۔اللہ کے آخری نبیﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ کچھ یوں تھی،ترجمہ:’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا‘‘۔آپﷺ نے اللہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچایا اور دین اسلام کو مکمل کیا۔کیا جس نے صحرا نشینوں کو یکتا! آپﷺ نے عرب کی بھگڑی ہوئی قوم کو ایک پرامن معاشرے میں تبدیل کیا ۔انہیں اخلاق و ایمان کی تعلیمات دیں۔
پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ،’آپ تعلیم پر پورا دیہان دیں۔اپنے آپ کو عمل کے لئے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ہماری قوم کے لئے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے‘۔
قارئین پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اسی دوران بیسیوں پالیسیاں بنیں اور مرتب کی گئیں مگر ہمارا تعلیم کا مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے بہت سے ممالک اس میدان میں آج ہم سے بہت آگے ہیں۔ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں136thنمبر پر ہے۔پاکستان میں58%لوگ پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں جنہیں ہم خواندہ کہتے ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 67لاکھ بچے سکول جانے کی عمر میں سکول جا ہی نہیں پاتے۔قریب59%بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کے کچھ عرصہ بعد مختلف وجوہات کی بنا پر سکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں5.3ملین بچے سکول ہی نہیں جا پاتے جو دنیا میں سکول سے محروم بچوں کا9.2%ہیں۔ پاکستان میں قریب49ملین بالغ افراد پڑھنا لکھنا ہی نہیں جانتے جو دنیا میں ناخواندہ افراد کا6.3%ہیں۔یو این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پرائمری سطح کی تعلیم میں دنیا سے پچاس سے زائد سال اور سیکنڈری سطح کی تعلیم میں ساٹھ سے زائد سال دنیا سے پیچھے ہے۔ہمارے نظام تعلیم میں بہت سی خرابیاں اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم آج دنیا سے پیچھے ہیں۔
غیر متوازن نظام تعلیم ،ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کا بڑا سبب ہے۔ہمارا تعلیمی نصاب ہو یا تعلیمی ڈھانچہ سب غیر متوازن ہیں۔ریاست ہمیشہ ملک کی عوام کو ایک جیسی تعلیم اور ایک جیسے تعلیمی مواقع دینے میں نکام رہی ہے۔ہمارے ہاں پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم جیسے مقدس شعبے میں مافیا کا کردار ادا کر رہے ہیں۔من چاہے تعلیمی نصاب اور من چاہے تعلیمی اخراجات عام عوام پر مسلط کئے جاتے ہیں۔غیر متوازن نظام تعلیم نے معاشرے کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور تعلیم کے میدان میں بھی افراتفری کا سماں ہے۔سرکاری ادارے میٹرک اور ایف اے کروا رہے ہیں اور پرائیویٹ ادارے اے لیول او لیول کروا رہے ہیں۔سرکاری ادارے اردو میڈیم ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر انگلش میڈیم ہیں۔اس غیر متوازن نظام تعلیم نے مڈل کلاس اور غرباء کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔جو کہ ہمارے نظام تعلیم کی بہتری میں حائل بڑی رکاوٹ ہے۔
علاقائی عدم مساوات، بھی تعلیمی بہتری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔بلوچستان فاٹا اور دوسرے علاقے جہاں پہلے ہی علاقائی اختلافات کے باعث تعلیمی میدان متاثر ہورہا ہے وہاں حکومت کا معیاری تعلیم کی فراہمی میں توجہ نہ دینا بھی نظام تعلیم کی بڑی ناکامی ہے۔ایسے علاقوں میں کالجز اور یونیورسٹیز بہت کم ہیں اور ان علاقوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کے سکول و کالجز کے معیار میں بھی زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ان علاقوں کو برابری کی سطح پر تعلیمی ماحول و مواقع فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست اپنے اس فرض سے بھی غافل دکھائی دیتی ہے۔
فنی تعلیم کا فقدان ،بھی ہمارے نظام تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔دنیا بھر میں ریاست اپنے نوجوانوں کو خودمختار بنانے کے لئے انہیں فنی تعلیم مہیا کرتی ہے۔اسی ضمن میں فنی تربیتی ادارے قائم کئے جاتے ہیں کالجز بنائے جاتے ہیں۔تربیت یافتہ نوجوان خودمختار ہوکر نہ صرف فنی تعلیم اور معاشرے کی بہتری میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں۔پاکستان میں ایسے فنی تربیتی کالجز کا فقدان ہے۔جو کچھ کالجز ہیں وہاں مناسب تربیتی سہولیات موجود نہیں،مناسب لیبارٹریز اور آلات موجود نہیں ہیں۔
صنفی فرق(gender unequality) ،یعنی مرد و عورت کی غیر برابری کا نظریہ بھی ہمارے نظام تعلیم کو بہتر ہونے سے روکتا ہے۔اس کا اندازہ پرائمری سکولوں میں لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد سے ہوتا ہے جو 10:4ہے۔بہت سے والدین آج بھی لڑکیوں سے غیر امتیازی طور پر ان کے بہت سے بنیادی حقوق چھین لیتے ہیں یا فراہم ہی نہیں کرتے۔اسی بنا پر بہت سی قابل لڑکیاں اپنی قابلیت کو نکھارنے سے محروم ہو جاتی ہیں۔جو ہمارے ملک کی ترقی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
غیر تربیت یافتہ اساتذہ ،بھی ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔دنیا بھر میں تعلیم میں اول نمبر اور قابل ترین افراد کو معلم کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے۔مگر ہمارے ہاں تو نظام ہی الٹ ہے جسے کوئی نوکری نہ ملے وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنی قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے جیسے بہت سے کم علم اور کم فہم طلباء کو پروان چڑھاتا ہے جو ہمارے نظام تعلیم کی خرابی اور معیار کی پستی کا باعث بنتے ہیں۔
غربت ،ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے ۔ملک کی بڑی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ایسے میں لوگوں کے لئے تعلیم کا حصول مشکل ہو جاتا ہے اور غریب والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کی بجائے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے بھٹوں اور مکینکوں کے پاس مزدوری کے لئے چھوڑ آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا ایک بڑا حصہ تعلیم سے محروم ہے۔
ناقص امتحانی طریقہ و تشخیص ،بھی ہمارے تعلیمی اداروں اور امتحانی مراکزکی بڑی خامی ہے۔دنیا بھر میں طلباء کو تعلیم بوجھ کے تصور سے بالاتر ہو کر بغیر کسی خوف اور سیکھانے کے نظریے سے دی جاتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں گریڈز اور نمبروں کی دوڑ میں ماں باپ اور اساتذہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے تعلیم کے بوجھ تلے دبے انہیں 90فیصد نتائج تو دے رہے ہیں مگر حقیقت میں سیکھنے کے مرحلے میں انہوں نے 50%بھی نہیں سیکھا۔دنیا بھر کے تعلیمی میدان میں روز یعنی معمول کاکام روز کروا کر اسی دن اس کام کو پرکھ لیا جاتا ہے اور اسی حساب سے طلباء کو نمبرز اور گریڈز دیئے جاتے ہیں۔اس طرح طلباء کام کے بوجھ سے بالاتر ہوکر سیکھتے ہیں اور گھر جا کر تعلیمی پریشانی سے آزاد کھیل کود کر اپنی جسمانی نشونما میں بھی بہتری لاتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں تو بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں ہفتے کا کام دو دنوں میں کروایا جاتا ہے اور اس کی تشخیص کے لئے مہینوں بعد کوئی امتحان لیا جاتا ہے۔جس کے باعث طلباء نمبروں کے لئے نقل یا رٹہ سسٹم کا سہارا لیتے ہیں۔اسی طرح ناقص امتحانی طریقے اور تشخیص نے ہمیں ایسے رٹے لگوائے ہیں کہ ہمیں انگریزی میں ہر لفظ یاد تو ہے مگر اس کے مطلب کا پتہ نہیں۔
ریاستی ناکامی، ان سب وجوہات کا باعث ہے۔ریاست برسوں سے میدان تعلیم میں اپنی ناہلی کی راہ پر گامزن ہے۔ہر حکومت اپنے مفادات کی دوڑ میں تعلیم جیسے اہم شعبے پر توجہ دینے سے کتراتی ہے۔
پاکستان کے آئین کی شق 25Aکے مطابق ’ریاست 5 سے16سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے‘۔مگر یہاں تو سارا نظام ہی الٹ ہے ریاست اپنے دوسرے فرائض کی طرح اس مقدس اور اہم فریضے کو بھی پورا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ریاست کی ناکامیوں کے باعث پرائیویٹ مافیا دن رات ہمارے نظام تعلیم کو پنکچر لگانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ہماری حکومتیں تعلیمی فنڈز میں کرپشن کرتی ہیں۔تعلیم کے لئے مختص کئے گئے فنڈز GDPکا 2%ہوتے ہیں جسے کم از کمGDPکا7%ہونا چاہئے۔دنیا بھر میں تعلیم کے لئے دفاع سے زیادہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔
ایسے مزید بہت سے عناصر(Factors) ہیں جو ہمارے نظام تعلیم کی راہ میں حائل ہیں اور آج ہم تعلیمی میدان میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ریاست کو تعلیم جیسے اہم شعبے کی ترقی کے لئے خلوص نیت سے کام کرنا ہوگا ،تبھی جاکر ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں شامل ہوگا اور ایک پرامن اور نمبر ون ملک بن کر ابھرے گا۔

Sunday 18 February 2018

حبیب بینک ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ


چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے):لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینئر ہیں۔

حکومت پاکستان حکومتی اداروں کو نجی اداروں میں منتقل کرنے میں مگن ہے۔ ریاست کے ان اقدامات کی وجہ سے غریب لوگ اور نچلے درجے کے ملازمین متاثر ہورہے ہیں۔پرائیویٹ مالکان اور سرمایہ دار ملازمین سے ان کے بنیادی حقوق چھین کر انہیں جبری تور پر ملازمت سے فارغ کر رہے ہیں۔سینکڑوں پنشنرز عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔حکومت یا حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے مظلوم ملازمین کی رسوائی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔اسے ریاستی کمزوری سمجھا جائے ؟یا پھر سرمایہ داروں کے لئے منافع خوری؟
ہمیشہ کی طرح 22دسمبر2017کے دن ایچ بی ایل بینک ملازمین پوری تیاری کے ساتھ اپنے دفتروں میں داخل ہوئے۔کام کے آغاز کے لئے سسٹم کو لاگن کرنا چاہا مگر سسٹم نے ایرر کی حالت دکھانا شروع کردی۔ملازمین نے اسے معمول کی خرابی تصور کرتے ہوئے اپنا کام شروع کردیا۔اتنے میں پوسٹ ماسٹر زآئے اور پاکستان بھر میں 144ایچ بی ایل ملازمین کو خط تھما کر چلے گئے۔خطوں کو دیکھتے ہی ملازمین کے پاؤں تلے زمین نکلنے لگی۔لمحہ بھر کے لئے سکتے میں چلے گئے۔خط کو ڈراؤنا خواب تصور کرنے کی بھی کوشش کی۔مگر حقیقت سے منکر نہیں ہوا جا سکتا۔دیکھتے ہی ساری ہمت اور چہرے کی رونق گہری گرد کی لپیٹ میں آگئی۔ چہروں پر حیرت کے بادل چھا گئے۔بعض تو یہ گہرا صدمہ سہہ نہ پائے اور ادھ موا ہوکر بے ہوشی کی حالت میں چلے گئے۔باقی اس آفت سے بچے ملازمین کے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگ گئے۔سرگودھا برانچ کے ایک صاحب کا دل یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔دل کے دورے نے انہیں گرنے پر مجبور کردیا۔تمام متاثرہ ملازمین وہی خط اٹھائے بدحواسی کی حالت میں پہلے پہر ہی گھروں کو لوٹنے لگے۔ایچ بی ایل کے اس خط میں ان ملازمین کی فراغت کے الفاظ درج تھے۔یہ دن ان کے لئے قیامت صغری سے کم نہ تھا۔نکالے جانے والے ان ملازمین کی عمریں45سے55سال تک کی تھیں۔ نچلے درجے کے ان کمزور وبڑی عمر کے ملازمین کے نہ جانے کتنے ارمان بکھر ے ہوں گے۔کسی نے اپنی رحمت یعنی بیٹی کو پوری شان و شوکت سے رخصت کرنا تھا۔کسی کو ابھی اپنا گھر بنانا تھا۔کسی نے اپنے بچوں کو مہنگی و معیاری تعلیم دلانا تھی۔ اسی طرح کسی نے کاروبار اور کسی نے خاندان کی لئے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔جو ان کو ملنے والی پنشن اور رقم سے ہی ممکن ہونا تھا۔نہ ختم ہونے والی پریشانیوں سے یہ لوگ بیمار ہونے لگے۔اسی آب و تاب میں کراچی ناظم آباد برانچ کے کمال مصطفی صدمے کے باعث اپنے خاندان کو بے آسرا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔سجاد احمد، اصغر ندیم اور عبدالشکور جیسے بہت سے ملازمین 30سے35برس تک محنت و دیانتداری سے بینک کے لئے اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔دوران ملازمت بہت سے بینکوں کی آفرز کو ٹھکرایا۔اب جب بڑھاپہ قریب ہے اور ریٹائرمنٹ میں صرف چند ماہ یا سال باقی ہیں۔ایسے میں بینک کی طرف سے جبری تور پر ملازمت سے فارغ کر کے صرف چھ ماہ کی تنخواہیں تھما دینا کہاں کا انصاف ہے۔بینک کی طرف سے ان کے ریٹائرمنٹ اور پینشن کے حقوق صلب کرنا انتہائی گھٹیا اور قابل مذمت اقدام ہے۔بینک کے دسمبر2017میں ریٹائر ہونے والے صدر نعمان کے ڈار کی تنخواہ ان 144ملازمین کی مجموعی تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔ ان ملازمین کو پنشن دینا بینک کے لئے ایسے ہے جیسے چیونٹی کا سمندر سے پانی پینا۔مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہی ہے!
قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ سال 2017میں امریکی ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سےHBLبینک کو 66کروڑ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔یہ جرمانہ بعد میں سودے بازی کے تحت کم کروا کے22.5کروڑ ڈالر جمع کروا دیاگیا۔اسی ضمن میںHBLنیو یارک برانچ کو بھی بند کرنا پڑا۔امریکی فنانشل سروسز کی رپورٹ کے مطابق حبیب بینک پر50کے قریب الزامات عائد کئے گئے۔جن کی بنا پر انہیں جرمانہ عائد کیا گیا۔جن میں منی لانڈرنگ، بلیک مارکیٹ ٹریڈنگ، دہشتگردوں کی مالی امداد اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے الزامات عائد کئے گئے۔بتایا گیا کہ2007سے2017تک منی لانڈرنگ کا سلسلہ جاری رہا جس میں بڑی سیاسی شخصیات بھی ملوث رہیں۔بینک کے ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔اسٹاک مارکیٹ میں نقصان ہوااور ڈالر کے ریٹ بڑھ گئے۔پاکستان کو بڑا معاشی دجھکا لگا۔ان اقدامات پر نہ تو چکومت کی طرف سے کوئی ایکشن سامنے آیا اور نہ ہی کسی حکومتی ادارے کی طرف سے۔ایسے میں بینک انتظامیہ کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے اپنا مالی خسارہ پورا کرنے کے لئے نچلے درجے کے ملازمین کے حق صلب کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ پاکستان بھر سے 144ملازمین کو جبری ریٹائر کردیا گیا اور انہیں انکے بنیادی ریٹائرمنٹ کے حقوق سے بھی محروم کردیا۔اطلاعات کے مطابق بینک انتظامیہ نے مزید 2000کے قریب ملازمین کو فارغ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
متاثرہ ملازمین نے قانونی جنگ کا فیصلہ کیا تو انہیں ماسٹر اینڈ سرونٹ رول کے تحت ٹرخایہ گیا۔بلا آخر ان کی جدوجہد کے باعث NIRCکورٹ کراچی نے بینک کے جبری ریٹائرمنٹ آپریشن کو12جنوری2018کے روز معطل کر کے17ملازمین کی فوری بحالی کا حکم صادر فرمایا۔مگر اس دن سے لے کر آج تک ملازمین HBLبینک کے دفتروں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔بینک انتظامیہ عدالت کے اس حکم کو ماننے سے انکاری ہے۔
حکومت پاکستان نے بہت سے سرکاری اداروں کو سرمایہ داروں کو بیچنے کے ساتھ نچلے درجے کے ملازمین کے بنیادی حقوق بھی بیچ دیئے۔جن کاادراک عوام کو اب ہورہا ہے اور وقت کے ساتھ ہوتا رہے گا۔ہماری حکومتی ناکامی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ اپنے ریاستی ادارے سرمایہ داروں کے آگے اونے پونے بیچ رہی ہے۔وہی سرمایہ دار ایک طرف عام عوام سے سروسز کی صورت میں اضافی ٹیکسز وصول کررہے ہیں اور دوسری طرف اپنے عام ملازمین کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کرہے ہیں۔یہ صرف حبیب بینک ہی کا معاملہ نہیں بہت سے پرائیویٹ اداروں میں ایسا ہورہا ہے۔ایسے تمام اداروں کا فرازک آڈٹ ہونا چاہئے۔جنہیں حکومت ،وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ایسے میں بے چارے مظلوم و لاچار ملازمین کہاں جائیں؟ کیا کریں؟
امید کرتے ہیں کہ جس طرح چیف جسٹس نے اس معاملے پر سوموٹو ایکشن لیا ہے۔وہ جلد ان مجبور ملازمین کو ان کے حقوق دلائیں گے ۔ حکومت کی ناہلی پر اس کی سرزنش اور پرائیوٹ اداروں کو جرمانہ عائد کریں گے۔
جس عہد میں لٹ جائے، فقیروں کی کمائی 
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے