Sunday 26 March 2017

افغان امن ماسکو کانفرنس


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

چند دنوں سے افغان امن کے حوالے سے روس کے شہر ماسکو میں کانفرنس کے بارے خبریں گردش کر رہی ہیں اس حوالے سے چند ماہ قبل بھی کوششیں کی گئیں جن میں افغان امن پر اتفاق کیا گیا اسی ضمن میں اگلے ماہ ماسکو میں روس چائنہ افغانستان پاکستان بھارت اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک کے وفوداکٹھے ہوں گے۔امریکہ کا شمولیت سے انکار کئی شکوک و شبہات کو حقیقت کی طرف لے جائے گا۔افغانستان ایک اسلامی ملک ہے جو سنٹرل ایشیاء میں پاکستان ایران ترکمانستان ازبکستان تاجکستان اور چائنہ کے ساتھ واقع ہے۔جغرافیائی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے اسی وجہ سے دنیا کی نظریں یہاں سے ہٹتی نہیں۔قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ایشیائی ممالک کی تجارت کے لئے سنٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔1980 سے دہشتگردی کی آڑ میں ہے۔روس امریکہ اور دوسرے مغربی اتحادی اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔بھارت نے بھی افغانستان پر اپنا اثر و رسوخ جما کر پاکستانی حکمرانوں کی غلطیوں کا فائدہ اٹھا کر افغانستان کو پاکستان کے خلاف بھڑکانہ شروع کر دیا۔اس سے قبل پاکستان افغانستان کے تعلقات قدرے بہتر تھے پاکستان نے تاریخ کی سب سے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔حالات یکسر نہیں رہتے بدلاؤ آتا رہتا ہے۔منفی بدلاؤ بھی ہو سکتا ہے اور مثبت بھی۔سویت وار کے بعد امریکا کوافغانستان کو ایک خودار اور پر امن ریاست بنانا تھا مگر امریکہ نے اپنا مقصد پورا ہوتے ہی اپنا رویہ بدل لیا۔دہشتگردی کی آڑ میں ہزاروں کی تعداد میں فسادیوں نے جنم لیا۔مذہب عزت کلچر سب کو پامال کیا گیا۔امریکی کھیل کی بدولت افغانستان ایک صدی پیچھے ہی رہ گیا۔ترقی و خوشحالی پر روک کی چھاپ لگ گئی۔پاکستان نے بھی اس دہشتگردی سے بڑے نقصانات اٹھائے مگر وقت بدلا پاکستان نے اپنی غلطیوں کو بھانپا ان سے سیکھا اور مثبت راہ کو چنا۔آج واقعی پاکستان اپنے فہم کی وجہ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔گزشتہ بدلتی صورتحال کو افغان حکومت نہ بھانپ سکی یا پھر ایسا چاہتی ہی نہیں۔شاید گزشتہ صدی سے کچھ نہیں سیکھا۔اسی لئے اپنی تباہی کے سودے خودہی کر رہی ہے۔خود کو خود مختار بنانے کی بجائے دوسروں پر انحصار رکھا ۔اب وقت کی سمت افغانستان کے لئے پھر موزوں ہے بلکہ بہت ہی زیادہ موزوں ہے۔چین اور دوسرے ممالک نے پاکستان میں امن کی بنا پر اسے محفوظ ملک گردانتے ہوئے سی پیک کا مرکز بنانے کا ارادہ کیا جس پر کام جاری ہے جو شاید چند برسوں تک پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔پاکستان کے ساتھ افغانستان 2650 کلو میٹر لمبی سرحد کے ذریعے منسلک ہے بلکہ آر پار رہنے والے ایک ہی زبان کلچراور مذہب کے لوگ ہیں۔افغانستان براہ راست اس روٹ کا حصہ ہے۔اسی لئے پاکستان افغان امن کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔دوسری طرف افغانستان کی سرزمین سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔افغانستان کو بھارتی چالاکیوں میں آنے کی بجائے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔پاکستان کا امن افغانستان کے ساتھ جڑا ہے درست ہے۔اسی طرح پاکستان کے ساتھ افغانستان کے پاس بھی سی پیک سے اقتصادی ترقی کے مواقع موجود ہیں۔اب افغانستان پر ہی منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے ڈیل کرتا ہے۔اپنی تباہی کو پریفر کرتا ہے یا مسترد کر کے ایک اقتصادی ملک بن کر ابھرتا ہے۔ماضی میں روس واقعی افغان امن کی تباہی کا باعث بنامگر صورتحال بدل چکی ہے۔اب دنیا کی بڑی طاقتیں جنگ کی جگہ معاشی ترقی پر یقین رکھتی ہیں۔یہی ابھرتی طاقتوں کا وطیرہ ہے۔گزشتہ چند عرصے سے پاکستان روس ایران اور چائنہ افغانستان میں امن کے لئے تہہ دل سے کوشاں ہیں۔کیونکہ سی پیک کی مکمل افادیت سے مستفید ہونے کے لئے افغانستان میں امن بہت ضروری ہے۔افغانستان کے امن سے ہی پاکستان کا امن منسلک ہے۔پاکستان سی پیک کا مرکز ہے۔یہی ایک قریبی راستہ ہے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کا اور افغانستان میں امن کی بدولت ہی ایشیائی ممالک میں تجارت کو مزید پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ افغانستان میں امن سے ہی چائنہ پاکستان ایران اور روس کو فائدہ ہے۔موجودہ امن کوششیں اور ماسکو کانفرنس بھی سی پیک کی افادیت سے مستفید ہونے اور اسکی تکمیل کے لئے ہے۔افغانستان ایسا خوش قسمت ملک ہے جو براہ راست سی پیک کا حصہ ہے۔اور جسکی ترقی اور امن کے لئے دوسرے ممالک مسلسل تگ و دو میں ہیں۔مگر شاید افغانستان سنجیدہ نہیں افغانستان کی سنجیدگی اسے ترقی یافتہ ملک بنا سکتی ہے۔اور غیر سنجیدگی مزید افلاس کی طرف دھکیلے گی۔اب فیصلہ افغانیوں کے ہاتھوں میں ہے۔امریکہ کا افغان امن ماسکو کانفرنس میں شرکت سے انکار دہرے معیار کا بیان ہے۔جو ایک سپر پاور کو ذیب نہیں دیتا ۔بلکہ کئی شکوک شبہات کو حقیقت کے قریب لے جاتا ہے جس سے امریکی دہرا معیار واضح ہوتا ہے امریکہ کو اس سے متعلق نظر ثانی کی ضرورت ہے۔پاکستان کو ماسکو کانفرنس میں بھارتی ہٹ دھرمیوں اور افغانی الزامات کو مد نظر رکھ کر شرکت کرنی چاہئے اور بھی بہتر ہو اگر پاکستان اس کانفرنس میں شرکت سے پہلے مختلف نقطوں پر تبادلہ خیال کر لے۔جیسے چائنہ روس اور ایران کو اعتماد میں لے کر بھارتیوں کو باز آنے اور افغانیوں کو تعاون کرنے کا زور ڈالے۔اس کانفرنس کا فائدہ اسی صورت میں ہے اگر افغانستان اپنے خیر خواہ اور دشمنوں کو بھانپ لے اور بدلتی صورتحال سے سیکھ کر اپنے امن اور ترقی کو پریفر کرے نا کہ بھارتی چالاکیوں کی گرفت میں رہے۔اگلے مہینے تک پاکستان کو اس کانفرنس میں، حقیقی پہلوؤں کو اجاگر کرنے، اس کے بارے سوچ کر کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان خطے میں امن کے لئے بہترین کردار ادا کر سکے۔

Sunday 19 March 2017

پاک افغان امن


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

یہ واقعی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے۔خطے میں اس وقت تک امن کی فضاء کو قائم نہیں رکھا جا سکتا جب تک افغانستان امن کی خاطر تہہ دل سے اقدامات نہ کرے۔دونوں ملک 2640 کلو میٹر کی لمبی سرحد سے دوطرفہ تجارت کرتے ہیں۔اس سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر اس سرحد کے آر پار رہنے والے ایک ہی زبان بولتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں ایک ہی مذہب ایک ہی ثقافت بلکل ایک جیسے لوگ۔پاکستان اور افغانستان براعظم ایشیاء کے دو اسلامی ملک ہیں۔جغرافیائی لحاظ سے دونوں اہمیت کے حامل ہیں۔قدرتی وسائل سے مالا مال بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان ممالک پر اپنا پورا اثر رسوخ چاہتا ہے۔امریکہ اور روس کی لڑائی کے لئے امریکہ نے بڑی مکاری کے ساتھ دونوں ملکوں کا استعمال کیا اور براستہ پاکستان افغانستان پر جنگ مسلط کر دی۔اسی جنگ کے دوران افغانستان سے لاکھوں پناہ گزین پاکستان آئے ۔پاکستانیوں نے انہیں مسلمان بھائی سمجھ کر خوشی سے تسلیم کیا۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی قدرے بہتر تھے۔وقت گزرا روس کو شکست ہوئی سویت یونین کے ٹکڑے ہوئے امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا۔آہستہ آہستہ امریکہ نے دونوں ملکوں سے اپنی امداد روک لی اور دونوں بارے اپنی سٹریٹیجی بھی بدلی صرف فوجی و جنگی مداخلت جاری رکھی۔اسی دوران امریکہ کبھی پاکستان میں دہشتگردی کی آڑ میں بم برساتا اور کبھی افغانستان میں دونوں ملکوں کے حالات بدتر ہوتے گئے۔نوبت یہاں تک پہنچی کے دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی پر اتر آئے۔اس بدلتی کیفیت میں بھارت نے افغانستان پر سرمایہ کاری شروع کی اور افغانستان پر اپنا اثر رسوخ قائم کیا۔افغان حکومت بھارتی زبان بولنے لگی۔قائد کا پاکستان جو امن و آشتی کے لئے اسلام کے نام پر قائم ہوا۔وہی ملک افراتفری کا شکار ہونے لگا۔امن کی دھجیاں بکھرنے لگیں۔محبتوں کو قدروں کو پامال کیا گیا۔بیک وقت پاکستان کے متعدد دشمن پیدا ہوگئے۔جن میں افغانستان اور امریکہ دشمنوں کے سہولت کار رہے۔وقت گزرا پاکستان نے اپنی غلطیوں کو جانچا اور اپنی سالمیت کو مضبوط کیا۔دشمنوں کے خلاف جنگ لڑی اور کامیاب رہے امریکی ڈرون کا پاکستان میں گرنا بھی بند ہوگیا۔لیکن افغان حکومت بھارتی بین سنتی رہی اور اپنی بربادی کا سودا کرتی رہی۔پاکستان ایک محفوظ ملک بنا اور چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور جیسا بڑا منصوبہ سامنے آیا اور اس پر کام جاری و ساری ہے۔یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے اس خطے کی صورتحال یکسر بدل جائے گی۔یہ خطہ ایک معاشی خطہ بن کر ابھرے گا۔آج پاکستان پھر ایک مثبت سمت پر گامزن ہے اور دنیا اس کا اعتراف بھی کر چکی ہے اسی لئے پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور میں پچاس سے زائد ممالک شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔افغانستان بھی براہ راست اس راہداری کا حصہ ہے۔شاید افغانستان کو اس بات کی خبر نہیں کہ وہ کس قدر خوش قسمت ملک ہے کہ وہ براہ راست اس بڑے اقتصادی منصوبے کا حصہ ہے۔اگر اس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا تو بھارتی شہہ پر براستہ افغانستان پاکستان میں دہشتگردی کر کے سی پیک کو ناکام بنانے کی سازشیں نہ کی جاتیں۔گزشتہ روز افغانستان کی طرف سے دہشتگردوں نے پاکستانی چوکی پر پھر حملہ کیا۔افغانستان سے در اندازی کا سلسلہ تشویش ناک صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ان حملوں میں ملوث تنظیموں اور سہولت کاروں کے ٹھکانے افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب ہیں۔پاکستان بار بار افغانستان کو دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کا کہہ چکا ہے مگر خاطر خواہ اقدام نہیں کئے جا رہے۔یا تو یہ افغان حکومتی شہ پر ہورہا ہے یا افغان فورسز دہشتگردوں سے کمزور ہیں۔بر حال افغان حکومت کو پاکستانی تعاون سے ان دہشتگردوں کے خاتمے کے لئے کام کرنا چاہئے تا کہ دونوں ممالک کا امن اور تجارت بحال ہوسکے۔پاکستان نے تو ماضی کی غلطیوں کو پہچان کر اپنا آج اور مستقبل سنوار لیا ہے۔اب افغان حکومت کے پاس بھی موقع ہے کہ وہ دوبارہ اپنی بہتری اور امن امان کے بارے میں سوچے نہ کہ بھارتی گود میں کھیلتے کھیلتے خود کو دہشتگردی کی آڑ میں جلاتا رہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ افغانستان ایک مسلم ہمسایہ اور خیرخواہ پاکستان کو مخالف اور ایک غیر مسلم مکار انتہا پسند اور دشمن ملک بھارت کو اپنا دوست تصور کرتا ہے۔افغانستان کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ بدلتی صورتحال سے آشنا ہو جائے اور خود کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کر لے نہ کہ امریکی و بھارتی سہولت کار بن کے دہشتگردی کی آگ میں جلتا رہے۔پاکستان کا کیا ہے پاکستان تو پاک افغان سرحد بند بھی کر سکتا ہے اور اس پر آمدورفت کو کنٹرول بھی کرسکتا ہے جس پر کام بھی جاری ہے۔ماضی میں دونوں طرف سے غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن اب غلطیاں دہرانے کا دور ختم ہوا دونوں ملکوں کو نئی دوستی بھائی چارے اور ولولے کے ساتھ امن و ترقی کی راہ کو چننا چاہئے۔کیونکہ دونوں ممالک میں امن سے ہی خطے میں امن ہوگا۔دونوں وطنوں کا امن بھی ایک دوسرے کے امن سے منسلک ہے۔اگر افغانستان نے بھارتی گود نہ چھوڑی تو ایک دن پھر افغانستان دوسرے ملکوں وریاستوں سے صدیاں پیچھے ہوگااور اس کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ ہوگا۔پاکستان کی طرف سے بھی خاطر خواہ اقتدامات ہونے چاہئے ایسا نہ ہو کہ بھارت براستہ افغانستان ہمارے امن کوششوں کو تار تار کرنے کی تگ و دو کرتا رہے۔پاکستان کو فی الفور افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر طریقے سے طے کرنے چاہئیے۔یہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔پاک افغان امن سے بہت سے دشمنوں کو بیک وقت شکست ہوگی۔پاکستانی حکومت کو افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دہشتگردی کے خاتمے اور اقتصادی ترقی کی اہمیت بارے آگاہ کرنا چاہئے۔

Sunday 12 March 2017

پاکستان اور امریکی کھیل


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی 
پاکستان امریکی کھیل کی بدولت آج تک دہشتگردی سے لڑ رہا ہے اور اگر پاکستان نے اپنی پالیسیوں کو نہ بدلا تو شاید آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے۔پاکستان امریکہ تعلقات کا آغاز پاکستان بننے کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔لمبے عرصے تک پاکستانی حکومتیں اور جرنیل امریکی تعلقات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔لطف میں ڈالرز اور پروٹوکول نمایاں ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آنے کے بعد متعدد چیلنجز در پیش تھے۔انتظامی و مالی سرفہرست تھے۔مگر اس دہائی میں بھی پاکستان سے دہشتگردی کوسوں دور تھی۔کچھ عرصہ تک پاکستان نے کافی حد تک اپنے انتظامی و مالی مسائل پر قابو پالیا تھا۔وقت گزرا پاکستانی آمروں نے اپنی ٹرنیلی کے چکر میں امریکی کھیل میں شمولیت اختیار کی۔یہ کھیل ظاہری طور پر تو بہت ہی سادہ اور فائدہ مند تھابہت کم لوگ اس کے اثرات سے واقف تھے۔پاکستان خطے میں امریکی اتحادی کے روپ میں نظر آیا۔امریکہ اپنا یکہ وتر کرنے کے لئے پاکستانی سر زمین کو استعمال کرنے لگا ہمارے ادارے بھی اس میں شامل رہے۔سویت یونین کی واپسی کے بعد پاکستان نے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کئے جو کامیاب ٹھہرے۔ایٹمی نمائش کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے۔امریکہ کو ہر گز گوارا نہ تھا کہ اس کے اشاروں سے چلنے والا اتحادی مضبوط ہو۔امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کیں ڈالرز آنے بند ہوگئے۔یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنی پالیسیاں بدل دیں اور پاکستان کو بدلتی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا۔ ایک بار پھر پاکستانی جرنیل نے ٹرنیلی کے چکر میں امریکہ کو افغانستان پر چڑھائی کے لئے پاکستانی اڈے فراہم کئے نیٹو سپلائی شروع ہوئی۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پھر بہتر ہوئے مگر پہلے سی گرم جوشی نہ دکھائی دی۔امریکہ ڈالرز جاری کرتا اور ساتھ ہی پاکستان پر ڈراؤن اٹیک کی صورت میں ڈالرز کے دام پورے کرتا۔افغانستان کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان پر بھی چڑھائی کی کوششیں کرتا رہا۔عرصہ گزرا یونہی چلتا رہا امریکی ڈراؤنز کی زد میں معصوم پاکستانی آتے رہے۔بہت سی پاکستا ن خلاف تنظیموں نے جنم لیا۔پاکستان ریاست کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی دشمن ملک نے اس سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔پاکستان بیک وقت امریکی ڈراؤن اور دہشتگرد ی سے دوچار رہا۔وقت گزرا جرنیل گھر چلتا بنا۔جمہوری حکومت آئی متعدد کوششوں کے باوجود بھی دہشتگردی پر قابو نہ پایا گیا۔امریکی تعلقات بنتے ٹوٹتے رہے۔امریکی آپریشن ایبٹ آباد جس میں شاید امریکی فورسز نے اسامہ بن لادن کو مارا تھا۔اس کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات کافی خراب رہے۔پاکستان امریکہ پر ڈراؤن پر قابو پانے کے لئے دباؤ ڈالتا رہا۔نئی حکومت آئی۔پاکستان چائنہ اور روس قریب ہوتے نظر آئے۔نئے آرمی چیف آئے بلوچستان سمیت بہت سے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔پاکستان کے دو ٹوک مؤقف اور بار بار اصرار پر ڈراؤن اٹیک بند ہوگئے۔آرمی پبلک سکول جیسا دردناک واقعہ نے پوری قوم کو جنجھوڑ دیا۔پاکستان حکومت اور فورسز نے آپریشن ضرب عضب کا یک طرفہ فیصلہ کیا۔جس پر عملدرآمد کے بعد پاکستان کے بہت سے علاقوں سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوا۔پاکستان کے دہشتگردی کے خلاف اقدامات کو امریکہ بھی سراہتا رہا اور ساتھ ہی ڈومور کا بھی مطالبہ کرتا رہا۔امریکہ نے بلا جواز پاکستان پر پابندیاں بھی لگائیں اور بھارت کے ساتھ قربت بھی امریکی پالیسی کا حصہ رہا۔پاکستان ایک لمبے عرصے کے بعد کسی مثبت مقام پر پہنچا تو چائنہ نے پاکستان کو محفوظ ملک گردانتے ہوئے پاک چائنہ اکنامک کوریڈور پر کام شروع کیا۔اکنامک کوریڈور پر کام شروع ہوتے ہی دنیا کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہوگئیں۔بھارت اور امریکہ کو ہر گز گوارا نہ تھا کہ پاکستان اور چائنہ کی اشتراک سے یہ منصوبہ مکمل ہوامریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات محدود کر کے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ شروع کردی۔بھارت اکنامک کوریڈور کو ناکام کرنے کے لئے سازشیں کرتا رہا پاکستان نے نقصان کے باوجود ان سازشوں کو ناکام بنایا۔اسی دوران امریکی صدر بدلا اور ٹرمپ برسراقتدار آیا۔جس کی انتہا پسندانہ سوچ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کے لئے نقصان دہ اور بھارت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔اسی صورتحال کے دوران امریکی بیانات میں متضاد نظر آیا کبھی امریکہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو سراہتا اور کبھی پاکستان پر دہشتگردی کو پروان چڑھانے کے الزامات لگاتا۔امریکہ کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی تاریخ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ہماری سرزمین صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے مزید اپنے مفادات کی خاطر اپنا اثر رسوخ پاکستان پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان میں دہشتگردی اور پاک افغان تعلقات میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ خود امریکہ ہے۔امریکہ ہر گز پاکستان اور اس خطے کو مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔گزشتہ دنوں امریکی کمانڈر جوزف کی طرف سے ڈو مور کا مطالبہ اور پھر رکن ایوان ٹیڈپو جو کہ امریکی ایوان میں دہشتگردی سے متعلق کمیٹی کے صدر ہیں نے پاکستان کو دہشتگردی کی معاونت کرنے والا ملک قرار دینے کے لئے ایوان میں بل پیش کیا۔جو کہ حقائق سے منافی ہے۔دنیا پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کارکردگی کو متتعد بار تسلیم کرچکی ہے۔شاید بلکہ یقینی طور پر امریکہ پاکستان کو دوبارہ ٹف ٹائم دینے کی تیاریوں میں ہے۔ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو پابندیوں والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔پاکستان کو سفارتی سطح پر چستی دکھانا ہوگی اور اس بل کی احمقانہ اور پراپیگنڈہ حقیقت کو سامنے لانا ہوگا۔امریکہ سے مطالبہ کرنا ہوگاکہ تعلقات دو طرفہ ہونے چاہئے ہم دو طرفہ تعلقات کے حامی ہیں۔دیکھا جائے تو پاکستان نے امریکی اتحادی بن کے اپنا ہی نقصان کیا ہے۔شاید امریکی امداد بھی اتنی نہ ملی ہو جتنی رقم ہم نے اپنے اندرونی معاملات اور دہشتگردی کے خلاف لڑنے کے لئے خرچ کی۔جو قیمتی جانیں قربان ہوئیں ان کا اذالہ کبھی ممکن نہیں۔دنیا اور پاکستان بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں موجوہ دہشتگردی امریکی دوستی کا ثمر ہے۔پاکستان کو امریکی ڈو مور مطالبے کو مسترد کر کے امریکہ سے دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی ترک کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔پاکستان کو امریکی کھیل کو مسترد کر کے خود مختار بننے کی ضرورت ہے ماضی وحال کے نقصانات اسی کھیل کا حصہ تھے۔امریکہ جیسے مکار یار کے لئے اپنی پالیسیاں بدلنے کی فوری ضرورت ہے۔کیونکہ مکار یار دشمن سے بھی خطرناک ہوتا ہے۔پاکستان کو اپنی خاجہ پالیسی ازسر نو بدلتی صورتحال کو دیکھ کر تشکیل دیناہوگی۔یہی وقت کی پکار ہے۔

Sunday 5 March 2017

پی ایس ایل فائنل اور جذبہ حب الوطنی


چوہدری ذوالقرنین ہندل ۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

آج شب لاہور قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ کے فائنل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کی ٹیمیں مد مقابل ہوں گی۔جس میں ملکی و غیر ملکی کھلاڑی بھی شرکت کریں گے۔زمبابوے کے پاکستان دورے کے بعد یہ پہلے بین الاقوامی سطح کے کرکٹ میچ کا پہلا میلا سجا ہے۔جس میں شائقین بڑھ چڑھ کر شرکت کر رہے ہیں۔پی ایس ایل ٹورنامنٹ کے باقی تمام میچز دبئی میں کھیلے گئے۔فائنل لاہور کرانے کا فیصلہ بہت پہلے کا تھا مگر لاہور اور ملک بھر میں گزشتہ دنوں دہشت گردی کی لہر نے جہاں پاکستانی اداروں پر سوالیہ نشان اٹھائے وہیں پی ایس ایل فائنل پر بھی سوال بننے لگے۔مگر پاکستان آرمی چیف اور حکومت نے یک طرفہ فیصلہ جاری کیا کہ پی ایس ایل کا فائنل ہر حال میں پاکستان میں ہی کھیلا جائے گا۔ریاست کے اس فیصلے سے غمزدہ لوگوں میں ایک خوشی کی لہر اٹھی ایک نیا ولولہ اٹھا۔یہ ولولہ یہ جذبہ حب الوطنی کا ہے۔پاکستانی قوم نے اپنی تاریخ میں بڑے دلسوز اور خوفناک واقعات و حالات دیکھے اور ایسے حالات سے دو چار اس قوم میں صبر اور برداشت کا بھی عنصر شامل ہوگیا۔اس قوم نے ہر مشکل میں دوبارہ چلنا سیکھ لیا۔گزستہ دنوں دہشتگردی نے لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے چھوڑے لوگوں کے دل و دماغ پر خوف کی چھاپ نے جمنے کی کوشش کی۔مگر یہ قوم غم و خوف کی اس منزل پر ہے کہ دشمن کی مزید کاروائی اس قوم کو دھکیلنے کی بجائے اچھالے گی ۔خیبر سے پنجاب سندھ بلوچستان کشمیر اور بلتستان پورا وطن پوری قوم گزشتہ دنوں غم کی لپیٹ میں تھی۔پھر اس قوم نے دشمن کی مات کے لئے ایک راستہ چنا اور پی ایس ایل فائنل کی کامیابی کی صورت میں دشمن کو اسکی ناکامی کا پیغام پہنچانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔اس قوم میں حب الوطنی کا جو جذبہ ہے اسے شاید دشمن کبھی کم نہیں کرسکتا۔آج لاہور قذافی اسٹیڈیم میں پورا وطن ہر صوبے کے نمائندگان جن میں بزرگ معصوم بچے اور نوجوان جذبہ حب الوطنی کے تحت پوری دنیا تک پر امن پاکستان کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔دشمنوں کی دہشتگردی کے واقعات نے جہاں اس قوم کو صبر اور برداشت کی طرف گامزن کیا ہے وہیں ثابت قدمی بھی ان میں بڑھتی جا رہی ہے۔ثابت قدمی کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت ہے۔پاکستان نے آپریشن ردالفساد اور پی ایس ایل فائنل کی شکل میں اپنی ثابت قدمی کے ثبوت پیش کئے ہیں۔دشمن اگر طویل عرصے تک ہمارے خلاف پرپیگنڈہ کر سکتا ہے تو ہم بھی ان کی سازشوں سے نمٹنے کے لئے ثابت قدم ہیں۔مجھ سمیت بہت سے لکھاری متعدد بار ثابت قدمی کی افادیت پر لکھ چکے ہیں۔امید ہے کہ پاکستان نے جس ثابت قدمی کی ابتداء کی ہے اس پر گامزن رہے گا۔گزشتہ دنوں ملک کے نامور سیاستدان اور اور نامور کرکٹرز نے پی ایس ایل فائنل لاہور کروانے کو پاگل پن قرار دے دیا۔میں انہیں بس یہ ہی جواب دینا چاہتا ہوں کہ اگر خوف اور دشمن کے خلاف لڑنا پاگل پن ہے تو ہاں ہم پاکستانی پاگل پن کا شکار ہیں اور ہم اسی طرح دشمنوں کی سازشوں کے خلاف ثابت قدم رہیں گے۔قومیں کبھی اس وقت تک دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں جب تک وہ اپنے اندر موجود خوف کا مقابلہ نہ کرلیں۔الحمداللہ پاکستانی قوم خوف کو اور دشمن کو ہمیشہ کے لئے شکست دے گی۔دوسری بات جو بیرون ممالک کھلاڑی پاکستان نہیں آئے ان کے لئے، پاکستان میں سی پیک کے لئے نو ممالک کے صدور آسکتے ہیں غیر ملکی فوجیں امن مشقیں کر سکتی ہیں مختلف ممالک تجارت کے لئے ہمارا راستہ استعمال کرنا چاہتے ہیں اور تم کچھ گھنٹوں کے لئے میچ نہیں کھیل سکتے بزدل ہو گھر سے باہر نہ نکلا کرو۔دہشتگردی کے واقعات تو بھارت فرانس اور جرمنی وغیرہ میں بھی ہوتے ہیں ۔کیا وہاں لوگ کھیلنا چھوڑ دیتے ہیں؟نہیں ہر گز نہیں۔ہم بھی کھیلنا نہیں چھوڑیں گے۔چاہے کوئی غیر ملکی آئے یا نا آئے۔جو غیر ملکی پاکستان آئے ہیں انہیں تہہ دل سے خوش آمدید۔انشاء اللہ یہ کھلاڑی پاکستان سے امن کا پیغام لے کر جائیں گے۔قارئین دیکھیں آج بلوچستان کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹر اور خیبر پختونخواہ کی ٹیم پشاور زلمی قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ دشمن کے خلاف کھیلیں گی اور دشمن کے مقدر میں ہی شکست ہوگی اور درحقیقت صبح اخبارات پر دشمن کی شکست کی خبریں ہوں گی ۔یاد رہے کے بلوچستان اور خیبر پی کے میں دشمن نے نفرت پھیلانے کے لئے بڑی سازشیں کیں مگر اس غیور قوم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آج بھی دشمن کا مقابلہ کرنے لوگ خیبرپی کے بلوچستان سندھ اور پنجاب کے مختلف مقامات سے آئے ہیں۔میرے نزدیک پی ایس ایل کا فائنل کروانا ایک اچھا اور مثبت قدم ہے چاہے لاہور کے کچھ حصے بند ہیں ۔کیوں کہ نہ تو کبھی سکول پر حملوں کی وجہ سے ہم نے تعلیم حاصل کرنا چھوڑی نہ ہی مسجدوں پر حملوں کی وجہ سے نماز پڑھنا۔دشمن کی کارویوں پر ہم جھک نہیں سکتے نہ ہی گھروں میں بیٹھ کر خوف کی کیفیت میں رہ سکتے ہیں۔ہمیں آگے بڑھنا ہے مقابلہ کرنا ہے ۔پاکستان زندہ باد۔پائندہ آباد۔