Sunday 31 July 2016

چلو اب کارکردگی دکھاؤ

چلو اب کارکردگی دکھاؤ
چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔03424652269

سب جماعتوں و سیاسی پارٹیوں میں جو وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں ہیں ’چلو اب کارکردگی دکھاؤ‘ مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔آپ سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومتی مدت میں صرف بائیس ماہ کا وقت باقی بچا ہے۔اور سب کی کارکردگی بھی آپ کے سامنے ہے کوئی بھی پارٹی کرپشن اور دوسری بدعنوانیوں سے پاک نہیں۔سب کے سب اپنے اپنے منشور و وعدوں سے خاصے دور نظر آئے۔بعض نے تو اپنے مفادات کی خاطر موقع کی مناسبت سے منشور ہی بدل ڈالے۔2013سے اب تک کوئی بھی پارٹی اپنے حامیوں کے علاوہ باقی عوام کو متاثر نہ کر سکی بلکہ عوام کے دل نہ جیت سکی۔اس گزرے وقت میں سیاسی پارٹیوں کے کچھ اپنے حامی بھی نالاں نظر آئے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عوام کی ناراضگی کے باوجود بھی سیاسی پارٹیاں اور انکے وزراء صرف اپنے مشن میں ہی مگن رہے عوام کو صرف وقفوں میں ٹرخاتے رہے۔اب حکومتی مدت میں تھوڑا عرصہ باقی ہے اور سیاسی سربراہ جانتے ہیں کہ عوام انکی کتنی قدر کرتی ہے اس لئے اب2018 کے الیکشنزکی تیاریوں اور عوام کی حمایت کے لئے سب پارٹیوں کے سربراہان نے اپنے اپنے نمائندوں کو حکم جاری کر دیا ہے کہ چلو اب کارکردگی دکھاؤ۔سوچنے کی بات ہے کہ 2013 سے اب تک اس مہم کا آغاز کیوں نہیں کیا گیا۔دوستو آپ ذرا اس پر سوچئے گا۔پاکستان 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔آج پاکستان کو آزاد ہوئے67 سال کے قریب کا عرصہ ہو گیا ہے۔مگراپنے وطن کی حالت آپ کے سامنے ہے۔جب پاکستان آزاد ہوا تو پاکستان کی شرح خواندگی بہت کم تھی۔مگر لوگوں میں آگے بڑھنے کی ہمت و جذبہ تھا۔کام کرنے کی لگن تھی۔پاکستان نے آزادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ترقی کی راہ چن لی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حالات بہتر ہوئے لوگوں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا اور پاکستان کو دنیا نے تسلیم کرلیا۔مگر پتہ نہیں کیوں اور کس کی نظر پاکستان کو لگی اور اکسویں صدی میں پاکستان بدعنوانیوں کا شکار رہا۔ملک میں کرپشن لوٹ مار اور دہشتگردی جیسی جڑوں نے مظبوطی پکڑ لی۔افسوس کے اکیسویں صدی میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا مگر لوگوں کے ولولے اور ہمت دم توڑ گئی۔لوگوں میں کام کرنے کی لگن ختم ہوگئی۔آج بھی پاکستان میں غربت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ملک دشمن غربت سے ستائے لوگوں کو استعمال کرنے لگے۔دیہاتوں میں غربت کی شرح 60فیصداور شہروں میں 10فیصد ہے۔گزشتہ سیلابوں نے دیہاتوں اور دیہاتیوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔افسوس کے ہر سال سیلاب کی روک تھام کے لئے تعلیم کے لئے صحت کے لئے رقم مختص ہوتی ہے مگر صرف کاغذی کاروائی تک ۔گزشتہ کئی حکومتوں نے دیہاتیوں کے روپے کھائے ہیں۔حکومتی کرپشنز کی وجہ سے بہت سی بد عنوانیوں نے جنم لیا ہے۔میں دیہاتیوں کی پسماندگی کی وجہ کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے با شعور لوگوں کو بھی ٹھہراتا ہوں جو دیہاتیوں کی آواز نہیں بنتے۔پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں سب پر کرپشن کے الزامات ہیں۔مگر افسوس کے ہم پھر بار بار انہیں لوگوں کو اقتتدار میں لاتے ہیں۔کیا ہم بے حس ہیں؟کیا ہمارے اندر شعور نہیں؟یا پھر ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں؟کب پاکستان ان بدعنوانیوں سے چھٹکارا حاصل کر سکے گا؟کون سچائی کی مشعل لے کر آگ بڑھے گا؟آخر کون!؟کیا ہماری عوام میں کسی چیز کی کمی ہے؟آخر کس چیز کی کمی ہے!ہمیں سوچنا ہوگا۔جی قارئین آپ نے گزشتہ دنوں سے دیکھا ہوگا کہ سندھ حکومت میں اچانک ایک تبدیلی لائی گئی ۔سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ کو اقتدار سے الگ کر کے مراد علی شاہ کو نیا وزیر اعلی سندھ مقرر کر دیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ صوبائی کابینہ میں صوبائی وزارتوں میں بھی تبدیلیاں کر دی گئیں۔اور ہمیشہ کی طرح سندھ حکومت میں اس تبدیلی کا فیصلہ بھی آصف علی زرداری نے کیا۔عوام کو اچانک کی تبدیلی سمجھ میں نہ آئی۔مگر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ’ چلو اب کارکردگی دکھاؤ‘ مہم کا ہی ایک شاخسانہ ہے۔ورنہ اس سے قبل یہ تبدیلی یاد نہ آ جاتی۔کچھ کے نزدیک مراد علی شاہ بھی گزشتہ کرپشنز کی ری ہیسلز کر چکے ہیں اور انکے خیال میں مراد علی شاہ کو وزیر اعلی تعین کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے مفادات بھی حاصل ہوتے رہیں اور لوگوں کو بھی کچھ تبدیلی نظر آتی رہے۔یعنی زرداری صاحب پھر ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کے لئے میدان میں ہیں۔جی قارئین اسی طرح وفاق صوبہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان میں بر سر اقتتدار پارٹی مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف صاحب کی گزشتہ مری میں بریفنگ سے پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ ’چلو اب کار کردگی دکھاؤ‘ مہم کا حکم مسلم لیگ ن کے سربراہان و وزراء کو بھی جاری کر دیا گیا ہے۔اور ساتھ میں یہ اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ جو کار کردگی نہیں دکھائے گا اس کا حال بھی قائم علی شاہ جیسا ہوگا۔اور حکم جاری کیا کہ زیر تکمیل پرجیکٹس عین انتخابات سے قبل مکمل ہو جانے چا ہیے۔اور اب ان پراجیکٹس کی نگرانی خود میاں نواز شریف کریں گے۔اسی طرح خیبر پختونخوا میں زیر اقتدار تحریک انصاف میں بھی کار کردگی دکھاؤ مہم کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ِ عمران خان نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ اب کارکردگی میں تاخیر برداشت نہیں ہوگی۔اور خیبر پختونخوا حکومت میں بھی تبدیلیاں متوقع ہیں۔لوگ حکومتوں کی کار کردگی میں تیزی پر انہیں سراہ رہے ہیں سراہنا بھی چاہئے۔دیر آئے درست آئے کچھ نہ کرنے سے تو بہتر ہے کہ باقی بائیس مہینوں میں ہی اپنے وطن کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ تو کیا۔اور یہ صرف عوام کی بدولت ہے یعنی اب عوام کو پیسے سے خریدنے کا دور ختم اثر و رسوخ سے ووٹ ختم۔اب کار کردگی کی بنا پر ووٹ ملیں گے۔ مگر افسوس کے کار کردگی الیکشنز کے قریب آنے پر ہی کیوں یاد آتی ہے۔میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں جب تک تمام ادارے آزادانہ سیاسی مداخلت کے بغیر کا م نہیں کر سکیں گے تب تک یہ لوگ نت نئے طریقوں سے ہمیں اور ہمارے وطن کو لوٹتے رہیں گے۔اب انہیں عوامی خدمت یاد آ گئی ہے صرف اور صرف ووٹ کی خاطر ۔ذرا سوچئے جو لوگ انکی کرپشن کی وجہ سے بد عنوانیوں کا شکار ہوئے انکا ذمہ دار کون ہے؟ جن کے گھر غربت سے اجڑ گئے انکا ذمہ دار کون ہے ۔؟

Sunday 24 July 2016

مقبوضہ جموں کشمیر؟؟

مقبوضہ جموں کشمیر؟؟

چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ
آخر بے چارے کشمیریوں کو کب آزادی ملے گی؟۔کب تک وہ بھارتی ظلم و ستم کا شکار بنتے رہیں گے؟۔کیوں کشمیریوں کا کوئی درد بھانٹنے والا نہیں کیوں؟۔کیوں کشمیریوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا؟۔آخر کب کشمیری اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں گے؟۔آخر کب ؟کشمیر کو عرصہ دراز سے بلکہ کئی دہائیوں سے ہی سوالیہ نشان بنایا گیا ہے۔ کوئی بھی صدق دل سے کشمیر کے معاملات کو حل کرنے کے لئے تیار نہیں۔انگریز حکومت کے دور میں انگریزوں نے کشمیر کو چند لاکھوں کے عوض ایک سکھ راجہ کو فروخت کر دیا ایک عرصہ تک سکھوں نے وہاں حکومت کی اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم و جبر کی کئی تاریخیں قائم کیں۔کشمیر آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تھی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل۔1947 کی تقسیم سے پہلے ہی کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے گاندھی اور جناح نے کوششیں شروع کر دیں۔کشمیر میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔اسی لئے کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔مگر سکھ راجہ نے بھارت کے ساتھ مل کر کشمیریوں کی آواز کچلنے کی کوشش کی ۔بھارت جعلی الحاق کی دستاویزات بنا کر اپنی فوجیں کشمیر میں بھیجنے لگا جو دن بدن بڑھتی ہی گئیں۔کشمیری مسلمانوں نے متعدد بار بھارتی مظالم کے خلاف آوازیں بلند کیں مگر ہمیشہ ہی انہیں کچلنے کی کوشش کی گئی ۔کشمیری مجاہدین نے اپنی جدوجہد کی بدولت بھارتی فوج کے ساتھ جنگ لڑی اور کشمیر کا کچھ علاقہ و حصہ آزاد کروا لیا۔جسے آج آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔یہ دیکھ کر بھارت کے اوسان خطا ہو گئے اور بھارت اقوام متحدہ میں پہنچ گیا۔اقوام متحدہ میں رو کر بھارت نے جنگ بندی تو کروا لی مگر اپنے وعدوں سے مکر گیا نہ ہی ریفرنڈم کروایا نہ ہی اپنی فوجیں واپس بلائیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت بھاگتا ہوا اقوام متحدہ تک نہ جاتا تو آج پورا کا پورا کشمیر آزاد ہوتا۔کشمیر کا جو حصہ بھارتی قبضہ میں ہے اسے مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں۔بھارتی فوج اس علاقہ میں ظلم و ستم کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔معصوم بچوں عورتوں اور بوڑھوں پر بھی ظلم کیا جاتا ہے۔بھارت کی اس ہٹ دھرمی و گیم میں لاکھوں کی تعداد میں کشمیریوں کے گھر اجڑ چکے ہیں۔کئی یتیم بے آسراء اور بے سہارا ہوئے ہیں۔واقعی میں عرصہ سے مقبوضہ کشمیر کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے اور بنایا جا رہا ہے۔اور اس میں شامل بھارت کے ساتھ اقوام متحدہ بھی ہے۔اقوام متحدہ نے کئی بار کشمیر میں استصواب رائے یعنی ریفرینڈم کروانے پر قرار دادیں منظور کیں مگر اقوام متحدہ ایسا کروانے میں ناکام رہا ۔بھارت کی ہٹ دھرمیوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ نے بھی ماضی میں اپنی ہٹ دھرمی کے کئی ثبوت پیش کئے ہیں۔بہت افسوس کی بات ہے کہ عالمی طاقتوں کو یورپ میں ایک قتل پر ایک عرصہ افسوس رہتا ہے مگر کشمیر میں ہر گزرتے دن کئی زندگیاں بج رہی ہیں مگر عالمی طاقتیں خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔آخر یہ دہرا معیار کیوں؟کیا کشمیری بے جان ہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں انسان نہیں رہتے؟بھارتی اور اقوام متحدہ کی ہٹ دھرمی سے لگتا ہے کہ کشمیری ان کے نزدیک انسان نہیں بلکہ بے جان ہیں۔وہ بھی انسان ہیں۔انسانیت کی پامالی کی جا رہی ہے اور اس میں کہیں نہ کہیں انسانیت کے نمبردار بھی ملوث ہیں۔گزشتہ روز میاں محمد نواز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا اس اجلاس میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشیدہ صورتحال کو وہاں کی حکومت کی طرف سے اندرونی معاملات قرار دینا بین الاقوامی قوانین اور کشمیر کے معاملات پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی شدید خلاف ورزی ہے۔اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت کا یہ دعوی کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے دراصل حقائق کے برعکس ہے۔اجلاس میں حریت پسند رہنما برہان وانی کی شہادت اور اس کے بعد احتجاج کرنے والوں پر بھارتی فوج کے مظالم کی شدید مذمت کی گئی۔اور اجلاس میں یہ کہا گیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل سے رابطے کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی بھجوانے کا کہے گا۔ تاکہ وہ کشمیریوں کے قتل عام اور ان پر ظلم و جبر کے واقعات کی تحقیقات کرے۔اور اجلاس میں بین الاقوامی برادری پر زور دیا کے وہ بھارتی مظالم کی مذمت کرے اور کشمیری عوام سے وعدے کے مطابق انہیں استصواب رائے کا حق دینے پر زور دے۔بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے اسلام آباد کو آزاد کشمیر خالی کرنے کی گیدڑ بھبھکی اس بات کی علامت ہے کہ وہ بو کھلا چکا ہے۔آزاد کشمیر میں آج بھی کوئی پاکستانی باشندہ جائیداد نہیں خرید سکتا البتہ بھارت دن بدن مقبوضہ کشمیر میں اپنے فوجیوں کے گھر بسا رہا ہے۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں انتہا پسند ہندؤں اور ایسے کئی عناصر اور پنڈتوں سمیت سابق فوجیوں کے گھر اور بستیاں بسا رہا ہے۔جوکہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی خلاف ورزی ہے۔متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کی ہیئت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا نہ ہی وہاں غیر کشمیریوں کو بسایا جا سکتا ہے۔کیونکہ رائے شماری میں صرف ریاستی باشندے ہی حصہ لے سکتے ہیں۔بھارت جانتا ہے کہ کشمیری عوام پاکستان کے حق میں ووٹ دے گی اسی لئے بھارت ایسے اقدامات کرکے اپنا اسر و رسوخ بڑھانے کی سازشیں کر رہا ہے زبردستی اپنی فوجیں اتار کر مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس سب کے باوجود دن بدن بھارت کشمیریوں کے دلوں میں اپنی نفرت میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔مکروہ بھارت آزاد کشمیر کے الیکشن دیکھ کر اندازہ لگا لے کہ کیسے منظم انتخابت تھے اور دوسری طرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں زبردستی ڈنڈے کے زور پر کٹھ پتلی حکومت کا قیام بھارتی ظلم کا منہ برلتا ثبوت ہے۔بھارت اور اقوام متحدہ مزید کشمیریوں کو سوالیہ نشان بنانا بند کرے۔سن لو بھارتی سورمو۔ اگر اپنی ہٹ دھرمیوں سے باز نہ آئے تو اللہ رب العزت ایک دن تمہارے ٹکڑ ٹکڑے کر دے گا۔کشمیر کی اس ظلم و ستم کی تاریخ میں ہم پاکستانی بھی اپنا کردار ادا نہیں کرسکے ہم کشمیر کی آواز صحیح طریقے سے دنیا تک نہیں پہنچا رہے ہمیں یہ کرنا ہوگا ۔روز قیامت کیا کہیں گے کہ ہمارے سامنے ہی ہمارے مسلمان بھائیوں بہنوں پر ظلم کیا جاتا رہا اور ہم اپنے ہی کاموں اپنی ہی موج مستیوں میں مگن رہے۔پاکستان حکومت کو بین الاقوامی طاقتوں کوبھارت کی اصل سازشوں سے آگاہ کرنا چاہئے ۔صرف مذمت کے بیانات سے کچھ نہیں ہونے والا ہمیں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں پر کشمیر کے حل کے لئے پریشر ڈالنا ہوگا۔

Sunday 17 July 2016

سب سے بڑی طاقت عوام مگر!


سب سے بڑی طاقت عوام مگر!

چوہدری ذوالقرنین ہندل .گوجرانوالہ
افسوس سب سے بڑی طاقت عوام ہے مگر ہم عوام ہیں یا بھیڑ بکریاں؟کوئی نہیں جانتا۔گزشتہ جمعہ کی شب ترکی ساری رات فوجی بغاوت کی وجہ سے متشدد کاروائیوں کا شکار رہا۔ترکی فوج کے ایک مخصوص گروہ نے حکومتی تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ترکی کی بہادر عوام اپنے صدر طیب اردوان کے کہنے پر گھروں سے باہر نکل آئی اور باغیوں کے راستے کی رکاوٹ بننا شروع کر دیا۔ترک عوام نے اپنی حکومت اور اپنے صدر رجب طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کے سامنے سینہ سپر ہو کر قومی شعور اور ملکی آئین اور جمہوری عمل کے ساتھ وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ترکی گزشتہ 1960۔1971۔اور1980 میں بھی فوجی انقلاب کا شکار رہا مگر چوتھی دفعہ عوام نے فوج کو مسترد کر دیا۔1932 سے جدید ترکی کا آغاز ہوا مگر ترقی میں ہر حکومت کے ساتھ بدلاؤ آتا گیا۔مگر گزشتہ پندرہ سالوں سے ترکی دنیا کی نظر میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہا۔جس میں رجب طیب اردوان اور اسکی حکومت کے اقدامات قابل قدر ہیں۔طیب رجب اردوان تین دفعہ وزیر اعظم منتخب ہوئے اور اب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔یہ شخص شروع ہی سے دین اسلام کی طرف مائل تھا سب س پہلے استنبول کا میئر منتخب ہو کر عوام کی خدمت کی اور استنبول کو ایک بہتر شہر کے تور پر نمودار کیا۔عوام کا بھروسا اور یقین اردوان کے لئے اور بڑھا اور اگلی بار اسے وزیر اعظم منتخب کردیا یہ سب عوامی طاقت کی بدولت ہوا۔اس بہادر لیڈر نے عالمی سطح تک خود کو متعارف کروایا۔پوری دنیا میں مسلمانوں کی مدد کو پہنچا اور دنیا کے ساتھ اپنے وطن میں بھی مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور عوامی دلوں پر چھایا رہا۔جی قارئین کہتے ہیں سب سے بڑی طاقت عوام ہے! آپ نے گزشتہ کئی ایسے واقعات بھی دیکھے ہونگے کہ جب عوام یکجا ہو جائے تو پھر صرف اور صرف عوام کا ہی لوہا مانا جاتا ہے۔عوام میں بڑی طاقت ہوتی ہے کیونکہ عوام جب اکٹھی ہوتی ہے تو پورے دل و جان سے اکٹھی ہوتی ہے۔گزشتہ رات ترکی کو مارشل لاء سے بچانے والی عوام ہے۔اردوان کے مخالفین نے عوام کو اردوان کے خلاف کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور بلا آخر فوجی بغاوت کے زریعے حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر عوام نے اس بغاوت کو یکساں مسترد کر دیا اور اپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کہا۔ اردوان کی عوام میں مقبولیت صرف اور صرف اس کے حقیقی لیڈر ہونے کی وجہ سے ہے نہ کبھی اردوان پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت ہوا نہ کبھی کسی بدعنوانی میں نام آیا۔اور سب سے بڑی بات وہ عوامی نمائندہ ہے اردوان اور اسکی حکومت عوامی سطح تک تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔بلدیاتی ادارے بہت مضبوط ہیں۔لیڈرشپ براہ راست عوام سے منسلک ہے تبھی تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے صدر کے کہنے پر بغاوت کو کچل گیا۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ترک صدر کو اپناہم منصب سمجھتے ہیں۔مگر میرے خیال سے ان دونوں میں بہت سی چیزیں مختلف ہیں۔میاں محمد نواز شریف عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں مگر اردوان کی مقبولیت کا اندازہ آپکو ہو چکا ہے۔ہمارے ہاں عوام اور حکمران جمہوریت کے بڑے بڑے راگ الاپتے ہیں۔مگر حقیقت اس کے برعکس اور تکلیف دہ ہے۔میرے خیال میں پاکستان میں حقیقی معنوں میں ابھی تک کوئی جمہوری پارٹی نمودار نہیں ہوئی۔سب کے سب جمہوریت کی ایک اپنی ہی تعریف بنائے ہوئے ہیں۔اور اس میں موقعے کی مناسبت سے تبدیلیاں کرتے ہیں۔بلا شبہ گزشتہ شب ترک عوام اور حکومت کے لئے ایک کڑا امتحان تھا مگر ان کے حوصلے پست نہیں نہ ہی کسی کے دل میں باغیوں کے لئے کوئی سافٹ کارنر موجود تھا نہ ہی کوئی باغیوں کی حمایت میں نکلا کیونکہ ان کے دل صاف تھے کسی کے دل میں ذاتی مفاد اور کھوٹ موجود نہیں تھی وہ لوگ ون یونٹ تھے۔ اور ملکی مفاد کی خاطر گھروں سے باہر نکلے۔ادھر پاکستان میں سارے کا سارا آوا ہی بگھڑا ہے۔ہر پارٹی کا اپنا مفاد ہے اپنے ذاتی مفادات کے لئے قوم کو توڑتے ہیں کبھی وطن کی عوام کو ون یونٹ نہیں رہنے دیا۔عوام کو اسٹیبلشمنٹ بیروکریسی سیاسی پارٹیوں عدلیہ دوسرے اداروں کا اور اپنا باخوبی علم ہے کہ ملک کی بقاء کے لئے کسی نے کیا کردار ادا کیا ہے۔اگر کسی کو اپنی وطن کے ساتھ بے وفائی پر شک ہے تو ذرا خود کو پرکھو اور دیکھو کے ہمارے اندر اور ترکی کے عوام کے اندر کیا فرق ہے۔کیوں ہماری عوام ون یونٹ نہیں ہوتی؟ کیونکہ ہمارے ہاں اردوان جیسے لیڈر موجود نہیں؟۔کیوں ہم بار بار کرپٹ لوگوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں؟۔کیوں ہماری افواج اپنے کام سے ہٹ کر سیاست میں دخل اندازی کرتی ہے؟۔کیوں ہماری عدلیہ انصاف کے علاوہ باقی سب کاموں میں ماہر؟ کیوں ہمارے وزیر نا اہل؟ کیوں ہماری اپوزیشن جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی حد کو جانے کو تیار ہیں چاہے ملکی نقصان ہی کیوں نہ ہو؟ ۔کیوں ہم سب صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہیں اور دوسروں کے مفادات کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں؟۔کیوں ہمارے اندر ہٹ دھرمی آچکی ہے؟۔کیا ہم مسلمان ہیں؟۔کیا ہم عوام ہیں یا بھیڑ بکریاں؟۔کیوں ہم باتوں میں تو دنیا فتح کرلیتے ہیں مگر حقیقت میں ناہل ہیں ؟کیوں آخر کیوں؟ ۔ذرا سوچئے۔ترکی پر جو گزشتہ شب قیامت ٹوٹی اس سے با خوبی نمٹنے کے لئے ترک عوام کی عظمت کو سلام بلا شبہ دنیا کی تاریخ کا یہ بہت بڑا واقع ہے ترکیوں نے ثابت کر دیا کہ انہیں اپنے اچھے برے کی تمیز ہے انہوں نے اپنے لئے اچھے لیڈروں کو چنا۔ انہوں نے بیرونی سازشوں کو بے نقاب کیا اور مسترد کیا۔ترک عوام ہماری عوام کے لئے مشعل راہ ہے۔ کچھ سیکھئے۔سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ عوام کو سمجھیں عوام کو پرکھیں اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں اگر عوام آپ کے ساتھ ہے تو سمجھ لو تم بڑے مضبوط ہو کیوں کہ عوام سب سے بڑی طاقت ہے۔

Sunday 10 July 2016

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!

چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں 
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ہم اپنے سب سے بڑے خدمت گزار سے محروم ہو گئے۔ایسے انسانیت کی خدمت کرنے والے بہت کم ہی ہوتے ہیں جنکی کی کمی انکے جانے کے بعدکبھی ختم نہیں ہو سکتی۔قوم کی مسیحائی کرنے والے بلکہ انسانیت کی مسیحائی کرنے والے عبدالستار ایدھی کراچی آئی ایس ٹی یو میں دوران علاج انتقال کرگئے۔دنیا ایک مسیحا سے محروم ہو گئی۔عبدالستار ایدھی کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ایدھی ویلج میں گزشتہ روز سپرد خاک کر دیا گیا۔مرحوم کی نماز جنازہ میں سیاسی سرکاری و عسکری قیادتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے نامور وعام لوگوں نے شرکت کی۔بہت بڑا جنازہ تھا۔عبدالستار ایدھی قوم کے لئے عطیہ خداوندی تھے۔انسانوں کی خدمت کے لئے انہوں نے جو میدان منتخب کیا عمر بھر اس میں مصروف عمل رہے۔انسانی خدمت کا روشن ستارہ غروب ہو گیا۔ایدھی ویلج میں انہیں انکی وصیت کے مطابق اس لباس میں دفن کیا گیا جو انہوں نے پہن رکھا تھا۔عظیم شخص جاتے جاتے بھی دو انسانوں کی زندگی کو منور کر گیا۔انکی وصیت کے مطابق انکی آنکھیں عطیہ کی گئیں جو دو مختلف اندھے لوگوں کو لگا دی گئیں۔ہم سب کے ایدھی نے زندگی کا سفر بے سرو سامانی کے عالم میں شروع کیا۔اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھا ۔ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ماں کے آخری ایام میں انکی خوب خدمت کی۔ایدھی صاحب کا کہنا ہے کہ جب ماں کو ہسپتال لے جانا چاہتے تھے تو ایمبولینس میسر نہ ہونے پر وہ رکشہ میں بڑی مشکل سے لے کر جاتے اسی لئے انکے دل میں بے لوث خدمت کا جذبہ بڑا اور ایمبولینس سروس جیسا کارنامہ بھی انجام دیا۔تاکہ کسی کو ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۱۵۹۱ میں ایک چھوٹی سی ڈسپینسری شروع کی۔ہر وقت ڈسپینسری پر بیٹھے رہتے تاکہ کسی کو جب بھی ضرورت پڑے وہ حاضر رہیں۔کبھی بھی مشکل آتی ایدھی صاحب سب سے آگے نظر آتے۔انکے خدمت کے جذبے نے لوگوں کے دل جیت لئے اور لوگوں نے آنکھیں بند کر کے انکا بھروسا کرنا شروع کردیا۔پھر انہوں نے ایدھی فاؤنڈیشن شروع کی ایدھی فاؤنڈیشن وقت کے ساتھ ساتھ اتنی ترقی کر گئی کہ اب پاکستان سے باہر بھی دنیا کے کئی ملکوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ملک بھر میں انکی بارہ سو ایمبولینس کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس دو جہاز ہیلی کاپٹر اور سپیڈ بوٹ ہیں۔پاکستان بھر میں تین سو مراکز اور سترہ شیلٹر ہوم بنائے۔انکی بیماری کے دوران حکومت سندھ نے انکا علاج بیرون ملک کرانے کی خواہش ظاہر کی مگر انہوں نے کہا وہ پاکستان سے ہی علاج کروائیں گے حکومت انہیں کراچی میں قبرستان کے لئے جگہ دے دیں۔عبدالستار ایدھی ایک ایسی عظیم ہستی تھے کہ میں بیاں نہیں کر سکتا۔انکے بارے بہت سے بڑے لکھاریوں نے لکھا۔لڑکپن بلکہ بچپن ہی سے وہ خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔انکی خدمات دنیا کی تاریخ میں نا قابل فراموش ہیں۔جتنی انکے لئے عزت ملک پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں ہے شاید ہی کسی اور شخصیت کے لئے ایسی عزت ہو۔وہ بے لوث خدمت کرنے والے شخص تھے۔ایدھی فاؤنڈیشن کا کروڑوں کا بجٹ ہوتا مگر ایدھی صاحب کے لئے ان میں سے ایک روپیہ بھی حرام تھا۔بہت سادہ سی زندگی گزاری ہمیشہ ایک ہی جوڑے میں نظر آتے۔دو جوڑوں سے زیادہ کپڑے نہ رکھتے ۔ٹوٹے ہوئے جوتے پہن لیتے۔ساری زندگی دو جوڑوں اور ایک چپل میں گزار دی۔پوری انسانیت کے مسیحا تھے کبھی زندگی میں اپنا فائدہ نہ سوچا بلکہ لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کیا۔بہت سے بے سہاروں کو سہارا دیا۔بہت سی بے آسرا میتوں کو غسل دیا کفن دیا اور پھر ایدھی ویلج میں اپنے ہاتھوں سے تدفین کی۔کبھی کسی کام میں عار محسوس نہ کی خود میت کو غسل دیتے اور دفن کرتے۔بے آسراء بچوں کا آسراء تھے۔یتیموں کے وارث تھے۔انہوں نے اپنی ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں وقف کر دی۔انکے نزدیک رنگ نسل ذات پات مذہب کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ سب کے مسیحا تھے۔نمازی اور تہجد گزار بھی تھے۔اپنی زندگی میں کبھی خدمت سے ہٹ کر کبھی کوئی کا م نہ کیا۔اپنی دنیا کو وقف کر کے اپنی آخرت سنوار لی۔ایدھی صاحب متعدد قومی و بین الاقوامی اعزازات حاصل کر چکے ہیں جنکے باوجود وہ سادہ لوح انسان تھے۔ان اعزازات کی تفصیل درج ذیل ہے۔بین الاقوامی اعزازات۔۔۶۸۹۱ میں عوامی خدمات میں رامون مگسیے اعزاز۔۸۸۹۱ میں لینن امن انعام۔۲۹۹۱ میں پال ہیرس میلوروٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن۔دنیا کی سب بڑی ایمبولینس سروس گنیز بک ورلڈ ریکارڈ ۰۰۰۲۔ہمدان اعزاز برائے عمومی طبی خدمات ۰۰۰۲۔بین الاقوامی بلزان اعزاز ۰۰۰۲ برائے انسنیت وامن بھائی چارہ۔اطالیہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگری ۶۰۰۲۔یونیسکو مدنجیت سنگھ اعزاز ۹۰۰۲۔احمدیہ مسلم امن اعزاز ۰۱۰۲۔قومی اعزازات۔۔کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی طرف سے سلور جوبلی شیلڈ ۲۶۹۱۔۷۸۹۱۔حکومت سندھ کی جانب سے سماجی خدمتگزار برائے برصغیر کا اعزاز۔۹۸۹۱ نشان امتیاز پاکستان کا ایک اعلی اعزاز۔ حکومت پاکستان کے محکمہ صحت اور سماجی بہبود آبادی کی جانب سے بہترین خدمات کا اعزاز۹۸۹۱۔پاکستان سوک سوسائٹی کی جانب سے پاکستان سوک اعزاز ۲۹۹۱۔پاک فوج کی جانب سے اعزازی شیلڈ۔پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائسنز کی جانب سے اعزاز خدمت۔پاکستان حقوق معاشرہ کی طرف سے انسانی حقوق اعزاز۔مارچ ۵۰۰۲ عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز۔ایدھی صاحب کی خدمات ان اعزازات سے کہیں بڑھ کر ہیں نوبل پرائز ایدھی صاحب کو چاہے دیں یا نہ دیں لیکن اللہ کے حضور انشائاللہ انہیں نوبل انعام ضرور ملے گا اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین۔الوداع خادم اعظم پاکستان
چلے جائیں گے ہم تو ہمیں یاد کرو گے
ڈھونڈنے کو پھر ہمیں سر بازار پھرو گے

Sunday 3 July 2016

محمود خاں اچکزئی اور افغان مہاجرین

محمود خاں اچکزئی اور افغان مہاجرین

چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ
وہ جو کہتے ہیں نا پہلے تولو پھر بولو بالکل درست کہتے ہیں۔انسان کو اپنی زبان کا درست استعمال کرنا چاہیے۔اسی زبان سے دنیا میں بہت کچھ ہوا اور ہو رہا ہے۔اگر زبان احتیاط سے استعمال کی جائے تو انسان مفاد کے ساتھ ساتھ معتبر بھی نظر آتا ہے۔اگر بے احتیاطی سے بغیر سوچے سمجھے استعمال کی جائے تو انسان خسارے کے ساتھ ساتھ جاہل بھی سمجھا جاتا ہے۔کہتے ہیں کم بولنا عقلمندی ہے بالکل درست کہتے ہیں۔انسان اپنی زبان سے پوری دنیا میں دوست بھی بنا سکتا ہے اور دشمن بھی۔خیر چھوڑئیے ہمارے ہاں تو اکثر لوگوں کی زبان پھسلتی رہتی ہے اور وہ بھی ملکی مفاد کے بر عکس اسے زبان پھسلن سے منصوب کرنا چاہیے یا پھر ملکی دشمنی سے؟گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک متنازع بیان پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا سامنے آیا۔جناب نے افغان اخبار افغانستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پی کے افغانوں کا ہے اور افغان مہاجرین وہاں جب تک چاہیں رہ سکتے ہیں۔افغان مہاجرین کو اگر کسی دوسرے صوبے میں مشکلات ہوں تو وہ خیبر پی کے آکر بلا خوف و خطر رہ سکتے ہیں یہاں ان سے کوئی بھی پناہ گزین کارڈ نہیں مانگ گا۔کیونکہ یہ افغانوں کا علاقہ ہے۔پاک افغان سرحدی تنازع پر اچکزئی نے کہا کہ بہتر ہے کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں مل کر معاملات کو حل کر لیں ورنہ امریکہ اور چین معاملات طے کر لیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود تمام پشتون بھی ایسے حالات پر افسردہ ہیں۔بعد ازاں جب انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے کہا کہ ان کے بیان کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا۔اور ایک نئی بحث شروع کروا دی ۔کہا کہ میں نے صرف یہ کہاہے کہ خیبر پی کے کبھی افغانستان کا حصہ تھا۔محمود خان اچکزئی کے ایسے بیانات نے پاکستان میں کھلبلی مچا دی خیبر پی کے حکومت اور عوام نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہیں ایسے بیانات دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔خیبر پی کے صرف پاکستان کا ہے۔اور اس کے بغیر پاکستان کو مکمل تصور کیا ہی نہیں جا سکتا۔۷۴۹۱ کے ریفرینڈم میں خیبر پی کے کے لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا نہ کہ افغانستان کے حق میں۔پھر ایک پاکستانی قومی اسمبلی کے رکن کی طرف سے ایسے بیانات آنا باعث تشویش ہے۔انہوں نے تو سیدھا سیدھا پاکستان میں سے ایک صوبے کو کاٹ ہی دیا اور افغانیوں سے منصوب کرنے کی کوشش کی ایسے میں انہیں غدار کہنا ہی بہتر ہے۔موصوف متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور موجودہ رکن بھی ہیں موصوف کے بھائی بلوچستان کے گورنر اور رشتے دار وزیر بھی ہیں۔جناب نے ایسا کام کیا کہ جس پلیٹ میں کھایا اسی میں چھید کرنے کی کوشش کی موصوف نے رکن اسمبلی بنتے ہوئے حلف اٹھایا تھا کہ وہ ملکی بقاء و سلامتی کا خیال رکھیں گے۔ مگر انہوں نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی اور ملکی بقاء کو ڈبونے کی کوشش کی۔جناب کہتے ہیں جی کہ خیبر پی کے افغانیوں کا ہے اور انہیں یہاں سے کوئی نکال نہیں سکتا۔شاید انہیں یاد نہیں کہ پاکستان نے انہیں افغان مہاجرین کو پینتیس سال سینے سے لگا کر رکھا افغانیو کو آزادانہ زندگی بسر کرنے دی یہاں افغانیوں نے کاروبار کئے اور بہت سے کاموں میں شرکت کی افغانیو کو مختلف فورمز پر جابز دی گئیں۔اور اگر اتنی زیادہ خدمت کے باوجود پاکستان انہیں اپنے وطن کو جانے کا کہے تو پاکستان برا۔شاید اچکزئی کو یاد نہیں جب ہندوستان میں انگریزوں کا قبضہ تھا تو مسلمانوں پر ظلم و ستم کئے جاتے تھے ۔مسلمانوں کا ایک گروہ گزشتہ وقت کے افغان حاکموں سے رابطے کے بعد اس نیت سے افغانستان کی طرف ہجرت کر کے گیا کہ وہ مسلمانوں کا علاقہ ہے ہمیں کچھ دیر یا عرصہ رہنے دیں گے مگر افغانیوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بارڈر پر روکے رکھا اور اندر جانے کی اجازت نہ دی وہ مسلمان جو اپنا سب کچھ بیچ باچ کر گئے تھے وہیں بھوک پیاس سے مرنے لگے مگر افغانیوں کو رحم نہ آیا۔مگر پاکستان نے دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو اس لئے گلے لگایا کہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔آج اگرچہ انہیں بھائیوں کی وجہ سے ملک میں دہشتگردی پھیل چکی ہے۔آج وطن پاکستان مشکلات کا شکار ہے تو افغانیوں کو چاہیے کہ جلد از جلد افغان مہاجرین کو اپنے وطن منتقل کریں۔یوں بار بار وقت کی توسیع مانگ کر معاملات کو لٹکانے کی نہیں بلکہ فوری حل کرنے کی کوشش کریں۔اور اچکزئی کو پاکستان کا غدار کہنا مناسب ہے شاید اچکزئی کو پاکستانی کی تعریف کا نہیں پتا۔پاکستانی وہ ہوتا ہے جو ہر لحاظ سے اپنے ملک کی حفاظت کرے کسی بھی طریقے سے وطن کو ٹھیس نہ پہنچائے بلکہ اس کے قول فعل سے پاکستان کے لئے محبت جھلکتی ہو۔اچکزئی سے بہتر وہ محب وطن سکھ عیسائی اور ہندو ہیں جو کہتے ہیں ہمارا پیارا پاکستان اس پے جان بھی قربان۔ایسے بیانات کو نپٹنے کے لئے کوئی قانون ہونا چاہئیے۔بلکہ حکومت کو اچکزئی کے بیان پر ایکشن لیتے ہوئے انکی رکنیت قومی اسمبلی ختم کرنی چاہئیے بلکہ انہیں پاکستان سے چلتا کرنا چاہئیے تا کہ آئیندہ کوئی پاکستانیوں کو ٹھیس نہ پہنچائے۔اچکزئی جو کہ ملکی معاملات میں اگلی صفحوں میں نظر آتے ہیں انکی طرف سے ایسا بیان قابل مذمت ہے بلکہ اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
سلطان جی کچھ تو یہاں کیجئے
غداروں کو بھی کوئی سزا دیجئے