Sunday 27 August 2017

مردم شماری کے نتائج اور وسائل کی منصفانہ تقسیم


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ

بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے مردم شماری کروانے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔مبارک ہو حکومت کو بھی جس نے 19برس بعد ملک میں چھٹی مردم شماری کامیابی سے کروائی۔مردم شماری میں شامل تین لاکھ سرکاری اور دو لاکھ فوجی جوان بھی کامیابی کے اس عمل میں مبارکباد کے مستحق ہیں۔جی ہاں! قارئین آخر یہ عمل 19برس بعد پایہ تکمیل کو پہنچ ہی گیا ۔ملک کی چھٹی مردم شماری کے تحت نتائج سامنے آچکے ہیں۔جس کے نتیجہ کے مطابق 1998سے2017تک2.4فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ موجودہ ملکی آبادی20کروڑ77لاکھ74ہزار520افراد پر مشتمل ہے۔بروز جمعہ ادارہ شماریات نے اعداد و شمار مشترکہ مفاداتی کونسل کو پیش کئے۔اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کی آبادی11کروڑ،سندھ کی 4کروڑ78لاکھ،خیبرپی کے کی3کروڑ5لاکھ،بلوچستان کی1کروڑ23لاکھ،فاٹاپچاس لاکھ، اور اسلام آباد کی بیس لاکھ ہے۔جبکہ اعداد و شمار میں کشمیر و گلگت بلتستان کو شامل نہیں کیا گیا۔19سال میں ملکی آبادی میں57فیصد اضافہ ہوا۔جن میں مرد10کروڑ64لاکھ اور خواتین10کروڑ13لاکھ ہیں۔مردوں کی تعداد خواتین سے51لاکھ زیادہ ہے۔قارئین حکومتی مخالفین اور عوام کے نزدیک پاکستان میں موجودہ آبادی مردم شماری کے نتائج کے برعکس ہے۔یعنی موجودہ ملکی آبادی نتائج سے زیادہ ہے۔اختلافات کئے جا سکتے ہیں،مگر ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے اندازے غلط بھی ہو سکتے ہیں۔تاہم 19برس بعد ملک میں مردم شماری ہوئی ہے،گزشتہ19برس سے ملک کو اندازوں کی بدولت ہی چلایا گیا۔اب جب مردم شماری کے نتائج سامنے آ ہی چکے ہیں تو ہم سب کو تسلیم کرنا چاہئے اور اس حکومتی کاوش کو سراہنا چاہئے۔صرف مردم شماری کروانا ہی حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس کے نتائج کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینا اور علاقہ و وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی حکومتی ذمہ داری میں شامل ہے۔آبادی کی تعداد تو سامنے آ چکی ہے ،اب بہت سے اہم کام حکومت کے ذمہ ہیں۔جلد ہی باقی معلومات یعنی شرح خواندگی و ناخواندگی، گھروں کی معلومات اور ملازمت پیشہ و بے روزگار وغیرہ بھی سامنے آ جائیں گی۔صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی جائیں اور طے کیا جائے کہ کس صوبے کا قومی اسمبلی میں کیا تناسب ہونا چاہئے۔خواتین و مخصوص نشستوں کی نئے سرے سے تعداد اور صوبوں میں انکی تعداد وغیرہ۔آبادی کے لحاظ سے ،ضلعوں ،شہروں ، تحصیلوں اور حتی کہ قصبوں و یونین کونسلوں تک نئی حلقہ و حدود بندیوں کے بعد سب سے اہم و ضروری کام ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حلقہ و حدود بندیاں اعداد و شمار کے مطابق کی جائیں۔وسائل کی تقسیم پاکستان میں شروع سے ہی بڑا ایشو رہا ہے مختلف چھوٹے صوبوں و علاقوں کا کہنا ہے کہ انہیں انکے حصہ و تناسب کے لحاظ سے وسائل نہیں دیے جاتے۔حکومتی نمائندے بھی صرف اپنے حلقہ جات تک ہی وسائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں،مخالفین کے حلقوں کو شروع سے ہی نظر انداز کرنے کی روایت ہے۔امید کرتے ہیں ایسی روایات کو ترک کیا جائے گا اور آبادی کے لحاظ سے وسائل کی تقسیم کی جائے گی نہ کی پسند یدگی کی بنا پر۔حکومتی مخالفین کو بھی اپنے مفادات کی خاطر بے بنیاد الزامات اور صوبوں میں محرومیت پیدا کرنے کی روایت کو ترک کرنا چاہئے، اور حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ جلد از جلد نئی حلقہ بندیوں اور و سائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔کسی بھی ملک کی ترقی و بقاء ،بھاگ دوڑ ، انصاف و مساوات میں مردم شماری بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔افسوس کہ پاکستان میں گزشتہ کئی برس حکومتی اندازوں و من مانیوں نے انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں اور جانے و انجانے میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے کرپشن کو پروان چڑھایا۔ترقی یافتہ ملکوں کی لسٹ دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایسے ممالک ہر پانچ یا دس سال بعد مردم شماری کرواتے ہیں تاکہ انہیں انکی اصل آبادی و مسائل کی تشخیص ہوتی رہے۔پاکستانی آئین کے مطابق بھی ہر دس سال بعد مردم شماری کروانا لازمی ہے،بلکہ مقررہ وقت پر موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔افسوس کے اقتدار کے لالچ میں چور ہماری حکومتیں نانصافی کی مرتکب ٹھہریں۔ملکی اعداد و شمار سے متعدد محکموں کا تعین و بہتری کی جاسکتی ہے۔جس میں صحت، لاء اینڈ آرڈر،اکنامک گروتھ،نقل و حمل،اناج اور، تعلیم وغیرہ۔شہروں و دیہاتوں کی تعمیر و ترقی بھی ان کی آبادی کے حساب سے ہی ممکن ہے۔پاکستان تو ایسا ملک ہے جہاں قدرتی و غذائی وسائل کی بھرمار ہے۔چند ایسے ترقی یافتہ ملک بھی ہیں جن کے ہاں قدرتی وسائل کی کمی ہے۔مگر انہوں نے بروقت مردم شماری کی بدولت اپنے اعداد و شمار سے اپنی خامیوں و ضرورتوں کی تشخیص کی اور پھر وسائل کی منصفانہ تقسیم نے ان کو ترقی یاقتہ ممالک کی فہرست میں شامل کروا دیا۔محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے،مگر اکثریت بے روزگار ہے۔میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ اندازوں کے مطابق وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔تقریبا ہر سال پندرہ ہزار سے زائد نوجوان ملازمت سے محروم رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے بے روزگاری کے ستائے نوجوان معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔ہمارے ملک میں غیر منصفانہ تقسیم و کرپشن نے ملکی کاروبار و روزگار کا توازن درہم برہم کر دیا ہے۔وقت آگیا ہے کہ حکومتیں و پالیسی میکرز نئے اعدادو شمار کے ساتھ ہی اپنی پرانی غلطیوں و کوتاہیوں کا ازالہ کرلیں۔حکومتوں و پالیسی میکرز کو اپنی پالیسیاں ملکی مسائل و اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر بنانا ہوں گی، اور ایسی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئے کہ ملک سے ہر قسم کی بد عنوانی و غربت کا خاتمہ ہو جائے معاشرے میں توازن قائم ہو امیر امیر تر غریب غریب تر والا نظریہ بدل جائے، اور ہر پاکستانی اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرے۔

Sunday 20 August 2017

محمود اچکزئی کا بیان اور شک و شبہات


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ


پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے گزشتہ روز بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں دشمنی کی اصل وجہ کشمیر ہے اور دونوں ملکوں کو کشمیر آزاد کر دینا چاہئے۔پوچھا گیا کہ بھارت اپنے زیر اثر کشمیر کا حصہ آزاد کرنے کے لئے رضا مند ہو جائے گا؟تو اچکزئی نے جواب دیا کہ بھارت بے شک رضا مند نہ ہو مگر ہمیں کشمیر آزاد کر دینا چاہئے،ہم تو بچ جائیں گے۔ان کے بقول اگر دنیا کو باور کرانا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کو کشمیر کو آزاد کرنے میں پہل کرنا ہوگی۔مزید کہا کہ پاکستان کو بھارت ،افغانستان ، اور ایران کے ساتھ امن قائم کرنا چاہئے،تب ہی سی پیک مکمل ہوگا۔بقول اچکزئی پاکستان اگر اخلاص یعنی صدق دل سے کام کرے تو افغانستان کے ساٹھ فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔محمود اچکزئی نے مزید کہا کہ خفیہ ایجنسیاں انتخابات میں مداخلت بند کریں۔بڑے دکھ و افسوس کے ساتھ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے جو پاکستان کا کھاتے ہیں ،پاکستان سے کماتے ہیں ،مگر ان کے دل دشمنوں کے لئے دھڑکتے ہیں۔کہیں نہ کہیں ان کے دلوں میں ملک کے لئے غلط اور دشمنوں کے لئے اچھا تاثر موجود ہے۔یہ روپے کی لالچ یا ذہنی فطور و غداری میں سے ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ایسے غداروں کی تعداد میں اضافے کا سبب ہماری لاپرواہ اور مفاد پرست حکومتیں اور بکاؤ میڈیا ہے، اور یہ غداری کا گوشہ کوئی یک دم نہیں آیا بلکہ افسوس کے ساتھ اسے ہمارے اپنے ملک میں عرصہ دراز سے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بظاہر ذہنی آزاد لوگ بھی ایسے لوگوں ایسے نظریات کی لپیٹ میں آ رہے ہیں جسے ہماری حکومت و میڈیا نے بھی جانے انجانے تھپکی دے رکھی ہے۔ان نظریات کو پھیلانے کے لئے دشمن ہر سال بھاری مالیت میں فنڈز جاری کرتے ہیں۔اچکزئی کے بیان کی بات کی جائے تو بظاہر اچکزئی پاکستان کو امن کا درس پڑھا رہے ہیں،جیسے معلم شاگرد کو درس دے۔مگر درحقیقت وہ ملکی وقار و سلامتی پر حملے کر کے اسے تار تار کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔اللہ بہتر جانے اچکزئی کے مقاصد کیا ہیں؟مگر بتاتا چلوں کہ موصوف پہلے بھی بے دھڑک ملکی سلامتی کو پس پردہ ڈال کر زبان درازی کرتے رہے۔خیبر پختونخوا کے کچھ علاقہ جات کو افغان سے منسلک علاقے قرار دینا بھی انہی کی زبان سے سرزد ہوا۔تب بھی مذمتی کالم لکھا تھا،اور اب بھی کہتا ہوں کہ اچکزئی کے گزشتہ روز کے بیان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔اس کی تحقیقات ہونی چاہئے آخر اس شخص کی زبان ہی کیوں لڑ کھڑاتی ہے ۔؟سوچنے کی بات ہے کیوں کوئی اچکزئی ، کوئی الطاف، اور کوئی دوسرے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں،اور ان کے خلاف ایکشن بھی نہیں لیا جاتا۔بڑی وجہ بے بس مفاد پرست اور لاپرواہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں ہیں۔ایجنسیوں کا سیاست میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کرنا بھی اس کمزوری کی وجہ ہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس خود مختار حکومت نہیں ہوتی ایسے میں انہیں اپنے ساتھ ملک دشمن لوگوں کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی فکر کے اپنے مفادات کے برعکس ملکی سلامتی کے خلاف سازش کرنے والوں کے حمایتی بن جاتے ہیں۔اچکزئی بھی موجودہ حکومت مسلم لیگ ن کا اتحادی ہے اور موصوف کا بھائی گورنر بلوچستان بھی ہے۔یعنی حکومتی بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ ملک کے خلاف زہر افشانی کرنے والے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔کیا یہ سراسر غداری نہیں؟غدار کا حمایتی کیا ہوا؟ کیاغداروں کے خلاف ایکشن ضروری نہیں؟اچکزئی کے گزشتہ بیان کا ذرا جائزہ لیں،کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے ریر اثر کشمیر کو آزاد کر دینا چاہئے۔بہت خوب جناب اچکزئی! تا کہ بھارت اس علاقہ پر بھی قبضہ کر کے مسلمان کشمیریوں کو درند گی و ظلم کا نشانہ بنا سکے۔موصوف یہ بھی جان لینا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے دو نہیں تین فریق ہیں ۔چائنہ کے قریبی کشمیر کے کچھ قصبے چائنہ کے زیر اثر ہیں۔شاید اچکزئی نے نقشہ نہیں دیکھا، کہ آزاد کشمیر آزاد ہو کر اپنی آزادی و خود مختاری کو قائم رکھ سکے گا۔نہیں۔اگر پاکستان آزاد کر دے تو آزاد کشمیر مشکلات کی گرفت میں جکڑ جائے گا۔چائنہ اور انڈیا مداخلت شروع ہو جائے گی اور دونوں ہی غیر مسلم ریاستیں ہیں۔پاکستان ہی تو درحقیقت وطن ہے بلکہ آس و امید ہے کشمیر کی کشمیر میں موجود مسلمانوں کی۔عرصہ دراز سے کشمیری بھارت کے ظلم و ستم کو برداشت کر رہے ہیں قربانیاں دے رہے ہیں صرف اس لئے کہ پاکستان ہی ان کا وطن ہے اور پاکستان ہی وہ وطن ہے جس میں ان کے آزاد مسلمان بہن بھائی آباد ہیں۔یہ کہنا درست ہے کہ اچکزئی کہ اس بیان نے کشمیریوں کے ستر سالہ جذبے کو ٹھیس پہنچائی ہے۔اچکزئی کے اس بیان نے پاکستان میں موجود لوگوں کے دلوں میں شک و شبہات کو مزید ہوا دی ہے۔طرح طرح کے سوالات گردش کرنے لگے ہیں۔کیا اچکزئی پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے؟ کیا اچکزئی ملک دشمنی میں ملوث ہے؟کیا اچکزئی افغانستان کی بھارت نواز زبان استعمال کر رہا ہے؟۔کیا بھارت پاکستان کے خلاف ایسے بیانات کو استعمال کر سکتا ہے۔؟حکومت کی ایسے بیانات پر خاموشی بے حسی کی علامت ہے یا مفاد پرستی کی؟اچکزئی نے کشمیریوں و پاکستانیوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچائی ہے اسے فوری سب سے معافی مانگنی چاہئے۔اگر ایسا نہیں تو پاکستان چھوڑ کر بھارت نواز افغانستان منتقل ہو جانا چاہئے۔دو ہی پہلو نکلتے ہیں کہ یا تو اچکزئی نفسیاتی بیماری کا شکار ہے یا پھر بھارتی کارندہ ہے دونوں صورت میں مینٹل ہسپتال ہی اس کا اصل مقام ہے۔مسلم لیگ ن جس کے دور میں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا گیا اسی حکومت کا اتحادی اچکزئی ایسے بیانات میں ملوث رہا اور حکومت خاموش رہی۔یہ مسلم لیگ ن کی سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہوگا۔ اگر مسلم لیگ ن نے بروقت کوئی ایکشن نہ لیا تو آئندہ الیکشنز میں اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔موجودہ حکومت سے اچکزئی کے بیان پر بس یہی مطالبہ ہے۔
سلطان جی کچھ تو یہاں کیجئے
غداروں کو بھی کوئی سزا دیچئے