Sunday 17 December 2017

شام کا بحران

چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔
شام میں خانہ جنگی شروع ہوئے چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار چکے۔ انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔مگر شام کا داخلی بحران ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔شاید اسے ختم ہونے نہیں دیا جاتا۔ہر دور میں ہر زمانہ میں طاقتور ریاستیں چھوٹی اور مفادات سے جڑی ریاستوں کی جان نہیں چھوڑتیں۔ایسا ہی معاملہ یہاں ہے امریکہ اور روس ہر گز شام سے اپنا اثر رسوخ کم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور اس کے پس پشت ان کے کئی مقاصد ہوں گے۔
شام مغربی ایشیاء کا ایک اسلامی ملک ہے جسے انگلش میں(syria) کہتے ہیں۔جس کے ہمسایہ ممالک میں ترکی، عراق،لبنان،اردن اور اسرائیل ہیں۔1967میں اسرائیل نے شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جو بعد میں کامیابی سے اسرائیل سے منسلک ہو گئے۔شام کی اندرونی خانہ جنگی عرصہ دراز سے جاری ہے جسے ہر گروپ اپنی انا کی جنگ تصور کرتا ہے۔ایک عرصہ قبل بشارالاسد جو شام کے مضبوط صدر ہیں کی طرف سے کچھ پرامن مظاہرین کو کچلنے کے لئے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔جس کے نتیجہ میں شام پچیدہ صورتحال کی طرف رواں ہوا۔پرامن مظاہرین بپھر گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے خطرناک باغیوں نے جنم لے لیا۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور بشارالاسد کی انا اور غلط پالیسیوں کی بدولت انتہا پسند تنظیموں کو بھی متحرک ہونے کا موقع مل گیا اور انتہا پسند تنظیموں نے باغیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جنگ شروع کردی۔ملکی حالات دن بدن بگھڑنے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے شام کے کردش بھی متحرک ہوگئے۔حذب اللہ نے شامی حکومت یعنی بشارالاسد کا ساتھ دیا۔وقت آیا کہ عراق میں موجود داعش نے شام میں بھی پنجے گاڑھنے شروع کردیئے۔کچھ عرصہ بعد انتہا پسند تنظیم داعش نے شام کے علاقہ النصر پر اپنا قلعہ جما لیا۔ملک شام مکمل طور افراتفری کی لپیٹ میں لپٹا قتل و غارت کا منظر پیش کرنے لگا۔باغیوں نے بھی قبضے جمائے، مگر داعش نے سب کو پس پشت ڈال کر اپنا تسلط جمانا شروع کردیا۔ایسے میں ایران اور حذب اللہ بشارالاسد کے بڑے اتحادی رہے۔جبکہ اسرائیل ،امریکہ، اور ترکی باغیوں کو سپورٹ کرنے لگے۔یہاں تک کہ امریکہ نے باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا۔وہی اسلحہ پھر داعش کو بھی فراہم کیا گیا بلکہ امریکہ کی طرف سے داعش کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی۔مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق داعش کی مدد کے لئے سعودی عرب ،کویت اور قطر کی طرف سے بھاری دولت براستہ ترکی داعش تک پہنچائی جاتی رہی۔ ایسے میں مسلمانوں کی فرقہ وارانہ نفرت کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سعودی عرب سمیت دوسرے عرب ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ایران سمیت ان کے قریبی اتحادیوں کی طاقت اور خودمختاری کبھی پنپنے کا نام نہ لے، جبکہ ایران اور اس کے ساتھی یہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلام میں صرف ان کا بول بالا ہو۔مسلمانوں کے مسلکوں کی لڑائی سے امریکہ کو خوب فائدہ ہوا۔اسی بدولت امریکہ نے عربیوں کی سرمایہ کاری سے مسلمانوں کے ہی کچھ علاقوں میں اپنے مفادات کی جنگ لڑی۔داعش سمیت بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔مغربی ایشیائی ممالک کی بربادی اور افراتفری سے ہی اسرائیل کے مفاد بھی منسلک ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ایشیائی بالخصوص مغربی ایشیائی ریاستوں کی موجودہ بحرانی صورتحال میں اسرائیل کا بڑا عمل دخل ہے اور امریکہ سمیت یورپی یونین بھی اسرائیل کو مکمل پنپنے کا محفوظ ماحول فراہم کر رہے ہیں۔تاکہ اسرائیل گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مکمل کر سکے۔دوسرا بڑا فائدہ جو اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ کہ عراق، لیباء، اور شام جیسے مسلم ممالک خام تیل کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں ۔امریکہ اس جنگی بحران کے پس پشت ان ممالک سے تیل نکال رہا ہے۔تمام تنازعہ علاقوں میں امریکہ اپنے تیل نکالنے کے مشن پر گامزن ہے۔گزشتہ کچھ برسوں سے داعش نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں سے خام تیل نکال کر امریکہ کو فروخت کر کے اپنے مالی وسائل نہ صرف پورے کئے بلکہ اپنے آئندہ منصوبوں کے لئے محفوظ بھی کر لئے۔روس بھی ایک مفاد پرست ملک ہے،اور دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عالمی حیثیت کو بحال کرنا چاہتا ہے۔روس نے بھی شام کی بحرانی صورتحال میں عمل دخل کیا روسی فورسز اور حکومت نے بشارالاسد کو سپورٹ کیا اور اسلحہ دیا مالی مدد کی۔بشارالاسد کا پلڑا بھاری کرنے میں روس اور چائنہ کے اسلحے کا بھی بڑا کردار ہے۔گزشتہ روز روسی صدر کی جانب سے شام کی خانہ جنگی کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ شام مکمل طور پر آزاد ہے داعش ختم ہو چکی ہے۔امریکہ کا موئقف ذرا مختلف ہے اور امریکہ ابھی شام میں مزیدعمل دخل چاہتا ہے۔شاید بدلتی صورتحال میں امریکہ مسلم ممالک کو مزید غیر مستحکم کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہنا چاہتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق لاکھوں داعش کے کارندے بھاری اسلحے سمیت شام سے کہیں اور منتقل ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اب ان کا اگلا پڑاؤ کہاں ہے؟ان کے پاس مالی وسائل اور اسلحہ بھی موجود ہے۔یہاں دو پہلو نکل سکتے ہیں۔یا تو امریکہ کچھ دیر بعد پھر انہیں واپس شام کی طرف دھکیل دے گا یا پھر کسی اور اسلامی ریاست کی طرف قافلے رواں ہوں گے۔ایسے میں ایشیائی ممالک کو بلکہ بالخصوص مغربی ایشیائی ممالک کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا کیپیٹل نامزد کرنے کے بعد کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ کسی بھی مسلم ریاست کے حالات بہتر ہوں بلکہ وہ مسلم ریاستوں کو مزید افراتفری کی فضا میں جھونکنا چاہتا ہے۔ایسے میں پاکستان کو بھی چاہئے کہ اپنی اندرونی معاملات جتنی جلد ہو سکے احسن طریقے سے نمٹائے تاکہ کوئی بھی دشمن ہمارے داخلی معاملات کو الجھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔جہاں تک شام و عراق کے جنگی بحران کی بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ سلسلہ کچھ وقت کے دھیما ہوا ہے امریکہ اسے پھر سلگائے گا۔

Sunday 10 December 2017

یہود ونصار کی منظم منصوبہ بندی


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ،مکینیکل انجینیئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

ایات اور احادیث سے ثابت یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے کہ یہود و نصار کبھی تمہارے دوست نہیں بن سکتے۔برسوں پہلے یاصدیوں پہلے عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔ایک دوسرے کی جانوں کے پیاسے تھے۔مگر جب مذہب اسلام پھیلنے لگا تو یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ یہود ونصار اسلام کے خلاف یکجا ہیں۔دونوں مذہبوں اور ان کے مذہبی سکالروں نے جب اسلام کوپھیلتے دیکھا تو ان میں تشویش کی لہر اٹھی کہ کہیں پوری دنیا میں اسلام نہ پھیل جائے،جب اسلام کو پھیلنے سے نہ روک سکے تو انہوں نے اسلام کے خلاف منظم منصوبہ بندی شروع کردی۔
موجودہ حالات میں مسئلہ فلسطین زیر بحث ہے،یہ بھی یہود و نصار کی منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
ٹرمپ ایک جنونی شخص ہے وہ کوئی بھی فیصلہ سوچے سمجھے بغیر کردیتا ہے۔امریکی لوگ اسے پاگل قرار دیتے ہیں۔اکثریت امریکی ویورپی عوام اس کے مخالف ہے اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔اس کے رویوں اور فیصلوں سے خود امریکی ادارے بھی اکتائے ہوئے ہیں۔عدلیہ بھی اس سے خفا ہے۔امریکہ و یورپ کے لوگ پرامن ہیں اور ٹرمپ کے انتہا پسندانہ رویے کو سخت ناپسند کرتے ہیں،مگر ٹرمپ کے فیصلوں کو چاہ کر بھی روک نہیں سکتے ۔وغیر ہ وغیرہ
یہ سب بظاہر ہے۔ایسا رویہ جان بوجھ کر اختیار کیا جا رہاہے۔امریکی عوام و ادارے منہ کی بجائے ناک یا کان سے کھانہ نہیں کھاتے کہ وہ غلطی سے انتہا پسند شخص کو ملک کا صدر بنوا بیٹھے اور بعد میں ان کو معلوم ہوا کہ کھانہ تو منہ سے کھایا جاتا ہے۔مسٹر ٹرمپ جو بھی کر رہے ہیں یہ سب اپنے ان وعدوں کی تکمیل ہے جو ٹرمپ نے انتخابی کمپین میں کئے تھے،جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے اپنے انتہا پسند اور اسلام دشمن ہونے کا ثبوت دیا تھا۔قارئین امریکی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو باخوبی علم ہوگا امریکی سیاست میں جو بھی ہوتا ہے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتتدار میں لانا اور اس کا متعصب پسند رویہ دکھانا یہ سب امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔اگر خطے کی صورتحال نہ بدلتی تو امریکہ کی منصوبہ بندی بالکل مختلف ہوتی اور ٹرمپ کی بجائے ہیلری صدر ہوتی۔مگر جب امریکہ کو علم ہوا کہ امریکہ کے مقابلے کچھ دوسری طاقتتیں بھی دنیا میں اثر ورسوخ بڑھا رہی تو انہیں اپنے رویے اور منصوبے میں تبدیلی لانا پڑی۔ایک انتہا پسند جوکر نما شخص کو سامنے لا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہا کہ امریکہ سمیت یورپ ہر گز انتہا پسندی کے مخالف ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک انتہا پسند اور من مانی کرنے والا شخص ہے جو اپنی مرضی سے مختلف پالیسیوں پر عمل کروا رہا ہے،جو کہ امریکہ کے لئے رسوائی کا باعث بن رہا ہے۔سی آئی اے اور دوسرے امریکی و اسرائیلی اداروں کی منصوبہ بندی کے تحت ہی گزشتہ روز یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا،اور امریکی ادارہ یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔بعد میں مختلف یورپی ممالک سے اس کی مذمت بھی کروائی گئی۔ایسا نہیں کہ یہ فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جھٹ پٹ سے دے دیا ہو۔یہ اسرائیل کو 100ویں سالگرہ کا تحفہ ضرور ہو سکتا ہے مگر ایسا تحفہ دینے کی منصوبہ بندی بائیس برس پہلے سے جاری تھی۔گزشتہ برسوں میں شاید ایسی صورتحال یا ایسے مواقع میسر نہیں تھے۔مگر اب کے بار امریکہ کے پاس واضح مواقع موجود تھے ۔موقع محل گردانتے ہوئے انہوں نے اپنا فیصلہ صادر فرمادیا۔مسلمانوں کی موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو مسلمان دفاعی و جنگی صورتحال میں مبتلا ہیں،بٹے ہوئے ہیں۔امریکہ کی اپنے نیٹو اتحادی ترکی سے تعلقات میں بھی گرمجوشی نہیں رہی،پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ اور ڈو مور کے مطالبے نے تعلقات کی نوعیت ہی بدل دی۔واحد ایٹمی قوت پاکستان بھی دفاعی حالت میں ہے،اندرونی معاملات میں الجھا ہوا مشرقی و مغربی سرحدوں پر ستایا ہوا سی پیک کی نگرانی سمیت ہر وقت الرٹ رہنے پر مجبور ہے اوپر سے معیشت کا بھیڑا بھی غرق ہے آئی ایم ایف کے بغیر ہمارا بجٹ نہیں بنتا۔ایسے میں پاکستان سوائے بیانات کے کچھ نہیں کر سکتا۔ایران پرامریکی پابندیاں عائد ہیں اسکے علاوہ امریکی اسپونسرڈ جو سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد بنا ہے اسکا مقصد صرف ایران اور دوسرے مسلم ممالک کو کاؤنٹر کرنا ہے۔سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات اور دوسری عربی ممالک پر بھی امید نہیں رکھی جا سکتی۔اسرائیلی ٹیلی ویژن کے مطابق سعودی عرب اورابودبئی سمیت بہت سے اسلامی ممالک کو پہلے اعتماد میں لیا گیا تھا۔سعودی عرب کے پس پردہ اسرائیل سے تعلقات بھی کسی ڈھکے چھپے نہیں۔ترکی سب سے زیادہ ری ایکٹ کر رہا ہے مگر یہ بھی جان لیجئے کے عرصہ پہلے ترکی نے اسرائیل کوآزاد ریاست تسلیم کر لیا تھا۔باقی لیبیا ،عراق اور شام جیسے ممالک تو حالت جنگ میں ہیں بنگلہ دیش اورملیشیاء وغیرہ انٹرنیشنل معاملات پر کم ہی عمل دخل کرتے ہیں۔امریکہ نے مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لیا انہیں تقسیم کیا اور اب اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ایسی کٹھن مسلمانوں کی صورتحال میں ایسا امریکی فیصلہ آناہی تھا۔کیونکہ امریکی و اسرائیلی ذمہ داران باخوبی علم رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے بیانات آجائیں گے میٹنگز ہو جائیں گی احتجاج کیا جائے گا مگر کوئی بھی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا سکتا۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان حکمران خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120کا جائزہ لیں ،جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ’’اور تم سے ہر گز راضی نہیں ہوں گے یہود ونصاری یہاں تک کہ آپ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی‘‘۔اب مسلمانوں کی عیاشی و لچک دکھانے کا وقت ختم ہو گیا۔اب وقت کچھ کر دکھانے کا ہے،یکجا ہونے کا ہے۔وقت ہے کہ یہود و نصار کے منظم منصوبوں کو سمجھا جائے اور اسلام کا جھنڈا مضبوطی سے تھاما جائے۔ورنہ یوں ہی مسلمان فلسطین ،برما اور کشمیر کی طرح ظلم و بربریت کا نشانہ بنیں گے اور اپنی خودمختاری کو تسلیم کرانے کے لئے برسوں قربان ہوتے رہیں گے۔
کبھی اے نوجواں مسلم ٖ ٖ! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹ ہوا تارا

Sunday 3 December 2017

قاتل معاشرہ


چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکینیکل انجینئر اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

معاشرے میں قتل و غارت عام ہوتی جا رہی ہے ،معاشرہ بد عنوانیوں کی لپیٹ میں ایسا لپٹا ہے کہ اپنے سگے اپنا خون بھی زندگی کی کشمکش میں( افراتفری میں) بھروسے کے قابل نہیں رہا ۔آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ،جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ والد نے بیٹیوں کو قتل کر دیا ہے ۔ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں جنہیں دیکھ کر سن کر انسان ایسی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ خونی رشتوں پر بھی اعتبار نہ کیا جائے۔دشمنوں کی طرف سے پھیلائی ہوئی دہشتگردی جتنی مہلک ہے اس سے کہیں زیادہ خطرناک اپنے سگوں کا سگوں کے ہاتھوں قتل ہونا۔ہمارا معاشرہ جس طرف جا رہا اس سے افرتفری کی فزا مزید پھیلے گی اور خدا نہ خواستہ ایسی خطرناک فضا معاشرے ،ملک و قوم سب درہم برہم کردیتی ہے باقی کچھ نہیں بچتا۔
برسوں پہلے، جب ٹیکنالوجی عام نہیں تھی۔گاڑیوں کا شور و دھواں نہیں تھا۔روپے کی اتنی روانی نہیں تھی۔شہروں کی حدودیں بھی اتنی بڑی نہیں تھیں۔دیہات بھی آباد تھے۔البتہ بجلی گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی،اگر تھی بھی تو مخصوص حلقوں تک تھی۔لوگ کنوؤں سے پانی بھر کر پیتے تھے۔آسانیاں نہیں تھیں ہر کام کے لئے بڑی محنت درکار تھی۔روزگار کے لئے خوراک کے لئے اچھی خاصی محنت درکار تھی۔ان سب کے باوجود بھی معاشرہ پر سکون تھا۔لوگ مطمئن تھے،شکر کے کلمات ادا کئے جاتے تھے۔مکان کچے تھے، مسجدیں کچی تھیں۔جدت کے لحاظ سے زمانہ آج سے بہت پیچھے تھا۔سائنسی علوم سے لوگ بہت کم شناسائی رکھتے تھے۔اخلاقی علم سے مالا مال تھے۔آپ ﷺ کی تعلیمات کا گہرہ اثر تھا ان لوگوں پر،آپ کی تعلیمات کو سینے سے لگا کر رکھنے والے لوگ تھے ۔حسن اخلاق ،عزت و احترام اور احساسات جیسی کئی خصوصیات ان میں موجود تھیں۔جو واقعی ان سادہ مگر صاف دل لوگوں نے آپﷺ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے ہی سیکھی ہوں گی۔زمانہ سست تھا،مگر سکون و لطف سے بھرپور۔ایک دوسرے کا احساس اتنا کہ جتنا آج کے خونی رشتے بھی نہ رکھتے ہوں۔اسلحہ عام نہیں تھا شاید اس کی اتنی ضرورت بھی نہ تھی۔خالص و پوتر لوگ، بغض نہ رکھنے والے لوگ تھے۔کوئی بھی گلہ شکوہ ہوتا تو کھل کر بیان کر دیتے دل میں غصہ نہ رکھتے۔شاید اسی لئے برائیاں بہت کم تھیں معاشرہ قاتل نہیں تھا۔چوری چکاری بہت کم تھی۔قتل و غارت جیسی واردات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔اگر کوئی قتل جیسا بڑا سانحہ ہو بھی جاتا تو پورا معاشرہ سوگ میں مبتلا ہو جاتا۔سوگ دور دراز کے علاقوں دیہاتوں کو بھی غمگین کر دیتا۔یہاں تک کہ فضائیں بادل بھی سوگ میں برابر کے شریک ہوتے۔آندھیاں و طوفان برپا ہوجاتے جس سے دور دراز کے لوگ بھی آگاہ ہو جاتے کہ کوئی بڑی انہونی ہوئی ہے۔سوگ میں غمگین یہ لوگ اپنے رب سے رحمت و سلامتی کی دعا کرتے۔ایسی انہونی کبھی کبھار ہوتی اسی لئے لوگ اسے مہینوں تک نہ بھول پاتے اور غمگین رہتے۔آج کا معاشرہ قاتل کہلانے کے لائق ہے کیونکہ روز بروز بڑی بے دردی سے لوگ قتل ہو رہے ہیں مگر کسی کو کوئی احساس نہیں۔روز بروز کی بدعنوانیوں نے ہمارے احساسات کو ختم کر دیا ہے۔احساسات کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے وہ بھی نہیں رہی یہاں دوسروں کے قتل پر افسردہ ہونے کی بجائے لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔
پھر زمانہ بدلتا گیا،وقت گزرا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہروں کی حدود دیہاتوں سے لگنے لگی دن رات محفلیں جمنے لگیں۔ٹیکنالوجی نے زندگی ہی بدل دی،زندگی سہل ہوگئی۔انسان محنت سے عاری ہونے لگا۔ انسان آسانیوں کے اس دور میں غافل ہونے لگا ۔اللہ اور اسکے احکامات کو بھولنے لگا۔دنیا کی رنگینیوں میں رنگنے لگا۔ دنیا کی افراتفری میں اسلحے میں بھی جدت آئی۔اختلافات بڑھنے لگے، قتل و غارت روز کا معمول بن گئی۔معاشرے کا توازن بگھڑ گیا۔باہمی مفادات ختم ہوگئے ،ذاتی مفادات نے ترجیح لے لی۔ظاہری رنگین محفلوں والا پرکشش معاشرہ، انسان کو ذہنی الجھنوں میں پھنسانے لگا۔انسان اتنی چہل پہل افراتفری میں بھی ذاتی مفادات تک،تنہا ہونے لگا۔معاشرہ دن بدن ٹوٹنے لگا۔انسانی سوچیں بڑھنے لگیں۔انسان مالیت پرست ہو گیا۔پریشانیاں بڑھنے لگیں۔معاشرہ بے ہنگم ہو گیا ،لوگ چکرا گئے۔انسانی قدروں کا خاتمہ ہوگیا۔اتنی بڑی فورسز اداروں اور قوانین کے باوجود بھی انسانی درندگی حوس و بد عنوانی بڑھنے لگی۔معاشرے کا بھائی چارہ تو ختم ہوا مگر خونی رشتے بھی مدھم ہوکر ختم ہونے لگے۔نفسیاتی بیماریاں بڑھنے لگیں۔نفسیات پر کنٹرول ختم ہو گیا، انسان کا خود پر قابو ختم ہوگیا۔معاشرہ بظاہر بڑا رنگین ،درحقیقت ایک قاتل و کھوکھلا معاشرہ بن کر رہ گیا۔
یقین مانئے جب سے ہوش سنھبالا ہے حالات دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔بے حسی و بدعنوانیوں کی ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جیسے انسانوں کے معاشرے میں نہیں کسی اور مخلوق کے معاشرہ میں رہ رہے ہیں۔دشمنوں و دہشتگردوں کے ہاتھوں معصوموں ،بوڑھوں اور جوانوں کا شہید ہونا تو معمول ہے۔بھائی ، والد اور چچا کے ہاتھوں بہنوں بیٹیوں کا قتل ہونا بھی معمول بن چکا ہے۔بیٹے کے ہاتھوں باپ و ماں کا قتل ہونا بھی اس قاتل کا معاشرے کا کارنامہ ہے۔مگر گزشتہ روز ایک نئی ہی خبر سننے کو ملی ہے جس نے رشتوں کے کم ہوتے اعتبار کو مکمل ہی ختم کر دیا ہے۔اس سے آگے اب کچھ نہیں یہ انتہا ہے معاشرہ قاتل ہے قاتل ہے۔وہ قاتل معاشرہ جس میں ماں نے اپنے شوہر سے جگھڑے کی بنا پر اپنے ان ننھے منے بچوں کو گلہ کاٹ کر قتل کر دیا جو شاید اس ماں کے قدموں تلے اپنی جنت کے متلاشی ہوں گے، اور پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہیں نہر میں پھینک دیا۔ وہ کمسن بچے جنہوں نے زندگی کے کچھ برس ہی گزارے تھے ۔جنہیں ابھی سکولوں کالجوں میں پڑھنا تھا،جنہوں نے زندگی میں ابھی کسی سے کوئی لڑائی جگھڑا بھی نہیں کیا تھا۔ جنہیں شاید ابھی لفظ موت اور قتل سے واقفیت بھی نہ تھی۔ جنہیں ابھی دنیا کی درندگی کا اندازہ بھی نہ تھا۔ جن کی عمر کھیلنے کی تھی۔ اور ابھی وہ ماں کی ممتا میں خوشیوں کے متلاشی تھے، جس ماں کی گود میں کھیلنا تھا جس کے ہاتھوں سے غذا کے لقمے کھانے تھے انہیں ہاتھوں نے نہ جانے کیسے چھری چلائی ہوگی،اگلے جہاں میں بیٹھے یہ معصوم بچے ضرور افسردہ ہوں گے اور اپنے رب سے گلہ بھی کریں گے۔ اے خدایہ یہ کیا ہوا ماں تو بچوں کے لئے جان قربان کرسکتی ہے ماں کے قدموں تلے تو جنت ہے اے ہمارے رب خداوند ہم اپنی جنت کہاں تلاش کریں ہماری جنت نے تو ہمیں لہولہان کردیا آخر ہمارا کیا قصور تھا ۔اس سے زیادہ بے حسی بدعنوانی کیا ہو سکتی ہے ۔یہ معاشرہ اخلاق احساس سے بہت دور چلا گیا ہے۔ایسے ہی کئی واقعات اور ہیں جو انسانی درندگی کو عیاں کرتے ہیں۔کچھ ہی روز قبل گوجرانوالہ میں ایک باپ نے اپنی دو کمسن بیٹیوں کو زندہ نہر میں پھینک دیا۔ایک دیہاتی عورت نے پیر کے کہنے پر اپنے بیمار بیٹے کا قتل کر دیا۔کیا کیا لکھوں! بے حسی و بدعنوانی کے قصے ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
اس سے بڑی سفاکی کیا بتاؤں آدمی ہی انسانیت کا قاتل نکلا
تڑپا تڑپا کر سسکا سسکا کر مارا جس نے بھائی ہی بہن کا قاتل نکلا
دیس کی مٹی کی وفا کو کیا ہوا اس دیس کی مٹی کا وجود بھی غافل نکلا
اس مٹی کی اور کیا بے وفائی بتاؤں بیٹا ہی باپ کا دشمن عناصر نکلا
زرخیز اس مٹی نے اگایا ہے نفرت کو برابر کہ بھائی ہی بھائی کا قاتل نکلا
اس دیس کی کیا داستان سناؤں ہندل ہائے ماں بیٹے کی اور بیٹا ماں کا قاتل نکلا