Sunday 28 August 2016

کراچی کو آزاد ہونے دو


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ

پیارے کراچی کو آزاد ہونے دو
ختم لقب بھائی الطاف ہونے دو
جی ہاں مہربانی کرو میرے وطن کے سیاستدانوں اور دانشورو اب تو کراچی کو آزاد ہونے دو۔آزاد ہونے دو میرے وطن کے شہر کراچی اور اس میں رہنے والے بہن بھائیوں کو ۔آزاد ہونے دو انہیں الطاف نام کے خوف سے متحدہ کے خوف سے ٹارگٹ کلنگ کے خوف سے بھتے کے خوف سے۔آزاد ہونے دو انہیں لفظ مہاجر سے ۔وہ پاکستانی ہیں اور محب وطن پاکستانی ہیں۔آزاد ہونے دو انہیں جان و مال کے خوف سے ۔آزاد ہونے دو انہیں بے وجہ کی پابندیوں سے۔آزاد ہونے دو انہیں دن و رات کی فضول تقریروں و جلسوں سے ۔انہیں آزادی سے زندگی بسر کرنے دو ۔پاک آرمی نے انکی آزادی کا مشن شروع کیا ہے تو اسے پایا تکمیل تک پہنچنے دو۔متحدہ کے قائد نے اپنی بربادی کو خود چنا ہے تو اسے اسکی جماعت کو برباد ہونے دو ۔سلگتی چنگاری کو سلگتا نہ چھوڑو نہیں تو دوبارہ آگ بڑھک اٹھے گی ۔کراچی قائد اعظم محمد علی جناح کا شہر۔ وہ شہر جو پاکستان کا سب سے پہلا کیپیٹل تھا۔پاکستان کا سب سے بڑا شہر بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے بھی بڑا شہر کراچی ۔پاکستانی تجارت کا مر کز کراچی۔اردو ادب سیاست صحافت موسیقی اداکاری اور کھیل سے وابستہ کئی عظیم ناموں کا تعلق کراچی سے ہے۔پاکستان کا دل ہے کراچی بلکہ جند جان ہے کراچی۔افسوس کہ پاکستان کے اس پیارے شہر کو دشمن عناصر تاریکی کی طرف دھکیلتے رہے۔اور پورا پاکستان تماشائی بنا رہا۔آخر کیوں؟ کیا ہم بے حس ہیں؟۔کیا یہ دہرا معیار نہیں؟ ہم خود کو پاکستانی کہتے ہیں مگر کبھی پاکستانیت کو سمجھا ہی نہیں۔قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان جو ون یونٹ تھا۔نہ سندھی نہ بلوچی نہ پٹھان نہ پنجابی سب سے پہلے پاکستانی پاکستان اور پاکستانیت۔تاریخ گواہ ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کے ملک خلاف بیانات پہلی دفعہ منظر عام پر نہیں آئے بلکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار وہ پاکستان کو کھوکھلا کرنے کی کوشش میں زبان درازی کرتا رہا۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ بار بار ملک کے خلاف غلط الفاظ اگلتا ہے ۔کیا کوئی اسے روکنے والا نہیں؟۔ آپ سب کو اپنے بچپن کے دن تو یاد ہوں گے کوئی ایک غلط کام کرنے پر اتنی سرزنش ہوتی کہ دوبارہ کوئی غلط کام انجام نہ دیتے بلکہ جرئات ہی نہ ہوتی۔ذرا سوچئے ایک ملک دشمن بار بار ملک کے خلاف بولتا ہے اور اسے کوئی روکنے والا ہی نہیں ۔آخر کیوں؟ماضی میں اگر سخت ایکشن لیا ہوتا تو بار بار ایسے الفاظ سے ملکی عزت مجروح نہ کرتا۔آخر کوئی تو خامی ہے ہمارے اندر ہماری حکومتوں کے اندر ہماری تنظیموں کے اندر؟۔آخر کوئی تو عنصر ہے ؟جس کی جڑیں پاکستان میں مضبوط ہیں مگر وہ پاکستان سے مطابقت نہیں رکھتا۔بہت افسوس سے کیا یہ مسلمانوں کا وطن ہے؟ ۔کیا ہم پاکستانی ہیں؟۔کیا مسلمانوں کی قومیں بھی غدار ہوتی ہیں؟۔کیا ہم پاکستانیوں پر غداری کی مہر لگانے جا رہے ہیں؟۔یہ کیا ہے اور کیوں ہے؟۔ہمیں سوچنا ہوگا ۔بیرونی سازشوں کو سمجھنا ہوگا۔ہر شخص کو بذات خود سوچنا ہوگا کہ وہ پاکستانی کہلانے کے لائق ہے کہ نہیں۔بالکل نہیں نہ ہی ہم مسلمانی پر نہ ہی پاکستانیت پر پورا اترتے ہیں۔کوئی ہماری شناخت ہمارے مذہب ہماری ثقافت حتہ کہ ہمارے مکمل وطن پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ہمیں یہ سب روکنا ہوگا اور اپنے مذہب کو اپنے پاکستان کو خود آگے لے کر چلنا ہوگا کوئی فرشتہ اتر کر بیرونی سازشوں سے نہیں بچائے گا۔جی کراچی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی شروع سے ہی جاگیرداروں کے قبضے میں رہا پھر الطاف بھائی او جاگیر دارا اور مہاجر کا نعرہ لگا کر بڑے منظم طریق سے کراچی پر راج کرنے لگا۔الطاف راج بعد ازاں اپنے اصل مقاصد پر آ پہنچا کراچی کو ایک سوچے سمجھے اور بڑے منظم منصوبے کے تحت آہستہ آہستہ کھوکھلا کرنا شروع کر دیا ۔وقت گزرا کراچی کی زندگی اجیرن بن گئی۔الطاف کا حامی ہی خوش رہنے لگا ۔باقی سب بھتہ کی زد میں آنے لگے۔الطاف نے بہت مضبوط عسکری ونگ قائم کیا۔جو جب چاہتا کراچی کے حالات خراب کرتا۔الطاف نے اپنے مقاصد کے لئے کراچی کو استعمال کیا بعد ازاں لندن میں بیٹھ کر رموٹ کے زریعے کراچی چلاتا رہا ۔جب دل چاہا کراچی میں بد امنی پھیلا دی جب دل چاہا قتل و غارت۔اسی دوران الطاف کے اپنی ساتھی بھی اس کے خلاف بولنا چاہے مگر انجام موت پائی ۔یوں الطاف راج اور الطاف بھائی نام کا خوف لوگوں کے دلوں میں گردش کرتا ۔کراچی میں تاجر اور دوسرے لوگ دوسرے شہروں اور ملکوں میں ہجرت پر مجبور ہوگئے۔کاروبار تباہ لوگ بھتے کے ڈر سے کراچی چھوڑکر جاتے رہے۔بوری بند نعشیں دن و رات میں قتل و غارت کی واردات عام ہو گئیں۔کراچی بھائی کے خوف میں گردش کرنے لگا۔اتنا سب کچھ ہوتا رہا کئی سالوں سے الطاف راج قائم ہے۔ایسے میں ہماری حکومتیں اور ادار بے بس نظر آئے۔الطاف کو خوش کرنے کے لئے ہماری حکومتیں اپنے نمائندگان مقر رکرتی رہیں۔مثال رحمان ملک۔یوں ایک لمبا عرصہ کراچی اور اس کے لوگوں کو الطاف حسین مہاجر کے نام سے بے وقوف بناتا رہا۔اور ایک عرصہ کراچی خوف کی گرفت میں قید رہا۔رینجرز نے اس کو خوف کو کم کیا اور مزید کم کرنے کی کوشش میں ہے۔گزشتہ الطاف کے رینجرز کے خلاف اور پاکستان کے خلاف بیانات نے مزید عیاں کر دیا ہے کہ الطاف حسین کٹر پاکستانی دشمن ہے اور رینجرز اس دشمن کی راہ میں رکاوٹ۔رینجر اہلکار اس بیان کے بعد سختی سے متحدہ کے خلاف ایکشن لے رہی ہے۔تو کئی سیاستدانوں اور دانشوروں کو برا لگ رہا ہے۔افسوس کہ ملک دشمن کے خلاف کاروائی پر بھی ہماری قوم متحد نہیں۔بہت سے سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کے بیانات سن کر افسوس ہوا کہ متحدہ کو چلنے دو اس کے کارکنوں کو گرفتار نہ کرو۔ایسا بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔آج ہم کشمیر کے معاملے میں مضبوط ہیں تو ایسے بیانات الطاف کی طرف سے کراچی میں بد امنی پھیلانے اور پاکستان کی توجہ کشمیر سے کراچی پر ڈیورٹ کرنے کی کوشش ہے۔ کہیں دوبارہ ایسی سازش نہ ہو جائے۔ اگر متحدہ کو قائم رکھنا چاہتے ہو تو الطاف کا نام ہمیشہ کے لئے پاکستان اور متحدہ سے ختم کر دو اگر ایسا نہیں کر سکتے تو متحدہ ہی ختم کر دو۔تا کہ دوبارہ کراچی میں بد امنی اور دشمنوں کی زبان کوئی بھی نہ بھول سکے۔ایک عرصہ کراچی خوف کی گرفت میں رہا اب آزادی چاہتا ہر خوف سے۔خدارا اب آزاد ہونے دو۔سلگھتی چنگاری کو سلگھتا ہوا چھوڑو گے تو وہ دوبارہ آگ بن جائے گی ۔اب قائد الطاف بھائی کی چنگاری کو ہمیشہ کے لئے راخ کر دو۔لندن حکومت کبھی بھی الطاف آپ کے حوالے نہیں کرے گی ۔ہمارے اداروں کو خود ہی ایکشن لینا ہوگا۔
پرانی متحدہ سے الطاف مائنس ناممکن ہے ۔متحدہ پاکستان کے نام سے کوئی نئی پارٹی قائم کرنا ضروری ہے۔یا پی ایس پی میں ضم کر دو۔
سلطان جی کچھ تو یہاں کیجئے
غداروں کو بھی کوئی سزا دیجئے

Sunday 21 August 2016

مودی اپنا بھارت سنوارو


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ

بھارت کی سلامتی خطرے میں ہے اور مودی اس خطرے کی گھنٹی ہے۔بھارتی عوام جو سمجھ بوجھ کی حامل ہے اس عوام کے دل میں ایک خوف بھارتی سا لمیت کے بکھرنے کا خوف بھارت میں بدعنوانیوں کے بڑھنے کا خوف بلکہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خوف بھی گردش کر رہا ہے۔بھارت میں ایسی کئی آوازیں ایسے کئی نعرے بلند ہو چکے ہیں کہ مودی اپنا بھارت سنوارو دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرو۔اپنے اس ٹوٹتے ہوئے وطن کو تو سنوارو کہیں دوسروں کے معاملات میں روڑے اٹکاتے ہوئے اپنے وطن کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر بیٹھو۔۔مودی خود کو بین الاقوامی سطح کا سیاستدان تصور کرتا ہے یہ اس کی بھول ہے۔مودی جس کا پورا نام نریندر مودی ہے بھارت کا ایک انتہا پسند ہندو کارکن تھا۔جو اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے ہندؤں میں مقبول ہوا اور بعد ازاں ان انتہا پسند ہندؤں نے اپنے مفادات اور انتہا پسندی کو مزید تقویت دینے کے لئے مودی کو فنڈنگ کر کے سیاست میں اتارا اور پھر انہیں انتہا پسند ہندؤں کی مدد سے مودی وزیر اعلی اور اب وزیر اعظم کی کرسی پر موجود ہے۔یوں انتہا پسندوں نے اپنے نمائندے کو ملک بھارت کا سربراہ بھی بنا لیا تاکہ انتہا پسندی کو تقویت مل سکے اور اقلیتوں کو ڈرا دھمکا کر اپنا غلام بنا کر جب دل چاہے ان پر تشدد کیا جا سکے۔موجودہ کئی انتہا پسندی کے واقعات اس کا ثبوت ہیں۔ایسے کئی گھناؤنے مقاصد کی خاطر انتہا پسندوں نے اپنے نمائندے مودی کو یہاں تک پہنچایا۔سمجھ بوجھ رکھنے والے بھارتی یہ سب سمجھتے ہیں۔مودی سے اتنی جلدی یہ سب ہضم نہیں ہو رہا کہ وہ اتنے بڑے ملک بھارت کا سربراہ ہے۔خود کو اتنے بڑے عہدے پر براجمان پا کر سمجھتا ہے کہ وہ برصغیر کا بادشاہ بن بیٹھا ہے۔جس کے نتیجہ میں مودی کے کئی کارنامے بھی نظر آئے۔مودی سرکار کی برصغیر پر بادشاہی کے نشے کو صرف پاکستان ہی اتارتا ہے۔پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس کے ایٹمی ہتھیار بھارت سے زیادہ ایکٹو اور فعال ہیں۔بھارت نے بنگلہ دیش افغانستان اور دوسرے کئی چھوٹے ممالک تو روپے کے عوض اپنی مٹھی میں کر رکھے ہیں۔اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری لگا کر بھارت نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے مراسم خراب کئے ماضی میں پاکستان سے بنگلہ دیش کی علیحدگی کا ذمہ دار بھی بھارت ہے۔افغانستان جن کا سب سے بڑا خیر خواہ پاکستان ہے۔اور جنہیں پاکستانیوں نے اپنے بھائیوں کی طرح سمجھا۔بھارت نے اسی افغانستان میں کھربوں روپے کے عوض اپنی ساکھ قائم کی اور افغانستان کو مکمل اپنے کنٹرول میں کیا اور پاکستان کے خلاف افغانستان اور افغانیوں کو استعمال کر رہا ہے۔یہ غیور پٹھان صرف روپے کے عوض بھارتی قابو میں نہ آئے بلکہ مکمل منصوبے کے تحت بھارتی خفیہ ایجنسی راء کی سالوں کی برین واشنگ کام کر رہی ہے۔بھارتی میڈیا بھی اس گھناؤنے کر دار کا حصہ ہے۔پھر مودی سرکار کے اچانک ایران کے ساتھ اچھے مراسم اور ایران میں سرمایہ کاری پراجیکٹس صرف اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایران میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر پاکستان مخالف استعمال کیا جائے اور پاکستان کو کوکھلا کیا جائے۔بھارتی سرکار ایسے کئی منصوبے تشکیل دے رہی ہے جن سے ابھی ہم آگاہ نہیں۔مودی سرکار سے پہلے بھی بھارتی سرکار کے ہمیشہ ایسے ہی وچار رہے مگر مودی پاکستان مخالفت میں کچھ زیادہ ہی ایکٹو نظر آتا ہے۔دوستو آج ملک پاکستان جو متعدد مشکلات کا شکار ہے یہ کوئی فٹا فٹ مشکلات کے بھنور میں نہیں پھنسا بلکہ بھارت کی کئی سالوں کی منصوبہ بندی اسکے پیچھے ہے۔بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے افسران کا پاکستان سے گرفتار ہونا اس کا ثبوت ہے۔بھارت پاکستان میں دہشتگردی بھی بھارت براستہ افغانستان کروا رہا ہے۔بھارت سالانہ اربوں روپیہ پاکستان میں غدار تنظیمیں پیدا کرنے میں لگا رہا ہے۔بلوچستان گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں افراتفری پھیلانے کے لئے بھارت نے ان علاقوں میں اپنے خفیہ ایجنٹس بھیج رکھے ہیں جو لوگوں کو پاکستان مخالف کرنے میں آہستہ آہستہ اپنے منصوبوں پر عملدرآمد کر رہے تھے اور ہیں۔جن میں سے متعدد پاکستان کی بہادر اور غیور فورسز نے پکڑ لئے ہیں اور امید کرتے ہیں باقی سب بھی پکڑے جائیں گے۔آرمی پبلک سکول لاہور گلشن اقبال اور موجودہ بچوں کا اغواء بھی بھارتی پشت پناہی کا حصہ ہیں۔ان سب کے پیچھے افغانستان کے تانے بانے ملتے ہیں ۔اور سمجھدار باخوبی سمجھتے ہیں افغانستان مطلب کہ بھارت کی کارستانی۔بھارت ایسی کارستانیاں کر کے پاکستان کی توجہ اصل مقاصد سے ہٹانا چاہتا ہے جس میں کشمیر کا مسئلہ اور پاک چائنہ کوریڈور بھی ہیں۔بھارت کی مزید کارستانیاں لکھنے سے قاصر ہوں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت برصغیر میں امن و سلامتی کو کچلنا چاہتا ہے اور پاکستان امن و سلامتی کو فروغ دیتا ہے۔جی وہ کہتے ہیں نہ کر بھلا ہو بھلا۔بھارت کے ساتھ کر برا ہو برا جیسا ہوا۔اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔مودی سرکار کو علم نہیں تھا کہ دوسروں کے ٹکڑے کرتے کرتے کبھی کبھار اپنا گھر بھی بکھر جاتا ہے۔مودی سرکار اپنے گھناؤنے مقاصد کے لئے برصغیر میں سرمایہ کاری تو کر رہی ہے۔کھربوں روپے کا اسلحہ۔مگر اپنا وطن بھارت غربت افلاس نا انصافی بد اخلاقی انتہا پسندی قتل و غارت نیز ہر قسم کی بد عنوانی کا شکار ہے۔ایسی ایسی بد عنوانیاں کہ آپ لکھتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لیں۔انتہا پسند ہندؤں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے وہ جب چاہیں ہندوستان میں مقیم سکھوں مسلمانوں عیسائیوں دلتوں اور بدھ متوں کو زندہ جلا دیں انکی بستیاں اجاڑ دیں ان کی عزتوں کو اچھالیں۔ان غریب بے آسرا اور ستائی ہوئی اقلیتوں نے ہندوستان سرکار سے علیحدہ ریاستوں کا مطالبہ کیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اب یہ مطالبہ تھم نہیں سکتا ایسا مطالبہ ہی بیسویں صدی میں تھا جو اب ایک عرصہ کے بعد دوبارہ تقویت پکڑ رہا ہے اور یہ ہندوستان کی ساکھ کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔اور زیادہ چانسسز ہیں کہ عنقریب ہندوستان اپنی غلط پالیسیوں اور ہٹ دھرمیوں سے بعض نہ آیا تو خود کے ٹکڑے ٹکڑے کر بیٹھے گا۔اتنے ٹکڑے کہ سمیٹنے بھی مشکل ہو جائیں گے۔یہی خوف ہندوستان میں اب بول رہا ہے اور سمجھدار ہندوستانی مودی کے خلاف بول رہے ہیں کہ مودی اپنا بھارت سنوارو نہ کہ دوسروں کے معالات میں ٹانگ اٹکاؤ۔بھارتی میڈیا اگر اپنے وطن کی سلامتی چاہتا ہے تو وطن کو بچانے کے لئے اپنی حکومت کی حقیقی غلط پالیسیوں سے عوام کو آگاہ کرے۔نہیں تو اس سیاسی کھیل میں بھارت کا اپنا ہی شیرازہ بکھر جائے گا۔پاکستانی میڈیا اور حکومت سے درخواست ہے کہ کشمیریوں کی آواز پوری دنیا تک صدق دل سے پورے جذبے سے پہنچائیں تا کہ دنیا کشمیر کو اسکا حق دلانے کے لئے اقدامات کرے۔

Sunday 14 August 2016

یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ
ہم کون ہیں کیا ہیں با خدا یاد نہیں
اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں
ہے اگر یاد تو کافر کے ترانے ہی بس
ہے اگر نہیں یاد تو مسجد کی صدا یاد نہیں
آج اپنی ذلت کا سبب یہی ہے شاید
سب کچھ ہے یاد مگر خدا نہیں
علامہ محمد اقبال کے یہ اشعار ہماری اور ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔چودہ اگست یوم آزادی کے دن کا سورج بھی غروب ہو چکا ہے۔یہ آزادی کا دن تھا ۔دن کچھ مصروف گزرا مصروفیت ایسی کہ سوسائیٹی میں چھوٹے بچوں سے ملا جو کہ پاکستانی جھنڈوں والے بہترین کپڑوں میں ملبوس تھے۔جنکے چہروں پر پاکستانی جھنڈوں کی پینٹنگ بنی ہوئی تھی ہاتھوں میں جھنڈ اور کپڑوں پر اسٹیکرز لگے ہوئے تھے۔بچوں سے کچھ سوالات کئے مگر مایوسی ملی کیونکہ بچوں کو پاکستان کی تاریخ بارے کچھ علم نہیں تھا سوائے کچھ رٹے ہوئے جوابات کے۔کچھ عرصہ و سال پہلے بچے بزرگوں سے پاکستان کی تاریخ پر کہانیاں سنا کرتے تھے جو برسوں یاد رہتیں اور زہن میں حقیقی نقشہ کھینچتیں۔نہ تو وہ پرانے بزرگ رہے اور نہ ہی ویسے بچے ۔وقت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا روایات رسم و رواج بدل گئے بلکہ دوسر ے طاقتور ملک اپنی روایات کو ترقی پذیر ممالک میں بھی رائج کر چکے۔خیر چھوڑئیے بچے تو بچے ہوتے ہیں۔بڑوں کی محفل میں بیٹھا اور ما یوس ہوا ۔آزادی کے متعلق کوئی لفظ نہ سنا پلاٹس کے ریٹ اور گاڑیوں کی قیمت کے بارے سنا۔اچانک سوچتے سوچتے مجھے ایک دوست کی باتیں یاد آگئیں۔موصوف خود کو کافی لبرل و آزاد خیال اور دانشور سمجھتے ہیں۔ایک سیاسی لیڈر پر بحث تھی جناب کو وہ لیڈر بہت پسند ہیں ۔میں نے بات کاٹ کر قائداعظم محمد علی جناح کا حوالہ دیا اور بتایا کہ ایسے ہوتے ہیں لیڈر۔جناب نے میری ساری دلیلوں کو رد کر کے کہہ دیا کہ جناح انگریزوں کا ہم خیال تھا۔جناح نے ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہم ہندوستان میں ہوتے تو آج دنیا میں زیادہ مقام ہوتا۔یقین مانئے دل تو چاہا کہ اس شخص کو زناٹے دار دو چار تھپڑ رسید کروں مگر ایسا کر نہ پایا۔دل میں غصہ لئے میں نے اس شخص کو آزادی کتنی بڑی نعمت ہے کی دلیلیں دیں مگر وہ جنونی و پاگل شخص قائداعظم کو لیڈر ماننے کو تیار نہ تھا پاکستان کی عزت کو پامال کرتا جا رہا تھا۔میرا غصہ بھانپ کر یہ کہہ کر رخصت ہوگیا کہ یہ ہے پاکستان جہاں تم خود محفوظ نہیں جہاں تمہارا جان و مال خطرے میں ہے۔میرا بس چلتا تو اسے اسی وقت پاکستان سے چلتا کرتا۔مگر پاکستان ایک آزاد ریاست ہے میں ایسا نہ کر سکا۔ ایسے لوگوں کی کثیر تعداد ہمارے معاشرے میں موجود ہے جو کرتے کچھ ہیں ان کی زبان کچھ کہتی ہے۔رہتے پاکستان میں ہیں لیکن سوچ کسی اور وطن کی عکاسی کر رہی ہوتی ہے۔یہ لوگ پاکستان کا کھاتے ہیں پاکستان کا پیتے ہیں اور پاکستان کا ہی پہنتے ہیں مگر زبان دوسروں کی بولتے ہیں۔انہیں غدار کہنا مناسب ہوگا۔اب ہم سب کو بھانپنا ہوگا کہ کون غدار اور کون پاکستانی۔ایسے لوگوں کے لئے لکھ رہا ہوں کہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔واقعی تمہیں کچھ علم نہیں ۔تمہیں سبز ہلالی پرچم کی پہچان نہیں ۔تم نہیں جانتے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔تم نہیں جانتے کہ کیوں پاکستان آزاد ہوا۔ہر گز نہیں تم کچھ نہیں جانتے تمہیں تاریخ کی حقیقت کا کوئی علم نہیں۔تم بنی بنائی سازشی کتابوں کی زد میں ہو۔تمہاری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔اللہ سے دعا کرو کے سیدھا رستہ دکھائے۔تم لفظ آزادی سے آشنا نہیں کہ آزادی کیا ہے۔کیونکہ تمہیں کبھی کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے جسے شاید میں بھی بیان نہ کر سکوں۔آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کو جھٹلانا بھی کفر سمجھتا ہوں۔آج ہم پاکستان میں آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔مگر یاد نہیں علم نہیں کہ اس آزادی کے حصول کے لئے کتنی قربانیاں دینا پڑیں۔لاکھوں لوگوں(اپنوں) کا خون ہے اس آزادی کے پیچھے۔یوں آسانی سے یہ وطن حاصل نہیں ہوا۔بڑی تحریکیں چلانا پڑیں۔دن رات ایک کرنا پڑا۔متعدد سالوں کی سخت محنت سے حاصل ہوا یہ وطن۔ہمیں کیا علم آزادی کیا ہے۔ہم گھروں میں بیٹھے صرف ٹیلی ویژن پر ہی آزادی کو بھانپ سکتے ہیں۔آزادی کا تو فلسطین والوں سے پوچھئے آزادی کا مفہوم کشمیریوں سے دریافت کیجئے۔وہ بتائیں آپکو کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔آج ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر لوگوں کو برا بھلا کہتے ہیں ہمیں کوئی روکنے والا نہیں کیوں کہ ہم آزاد ہیں۔مگر افسوس کہ جس شخص قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی بیماری کو پس پشت رکھ کر دن رات وطن عزیز پاکستان کے لئے محنت کی جس کی وجہ سے آج ہم آزاد ہیں اور منہ بڑھا کر جو مرضی بول دیتے ہیں اسے ہی برا بھلا کہتے ہیں کیوں کہ اس نے ہمیں آزادی دلائی۔علامہ محمد اقبال جس نے دو قومی نظریہ پیش کیا جس نے پاکستان ایک آزاد ریاست کا خواب دیکھا اس کو بھی برا بھلا کہتے ہیں اور اپنے اندر جھانکتے ہی نہیں کہ جن کے بار ے ہم باتیں کر رہے ہیں کیا ہم ان کے متعلق کچھ کہنے کے لائق بھی ہیں کہ نہیں۔ہمیں اپنے محسنوں کی پہچان نہیں رہی۔سن لو آزاد خیال لوگو تمہارے سامنے تمہارے خاندان کے کوئی ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور تم کچھ نہ کر سکو تو تم جانو کہ آزادی کس نعمت کا نام ہے۔ہمارے بزرگوں نے اپنے خاندان گھر بار زمین و جائیداد سب کچھ آزادی کی خاطر قربان کر دیامگر غلامی کو تسلیم نہ کیا تاکہ ان کی آنے والی نسلیں بہتر زندگی گزار سکیں۔ہندوستان میں رہتے تو غلامی ہی تمہارا مقدر ٹھہرتی۔آزادی کتنی عظیم نعمت ہے ہندوستان میں مقیم مسلمانوں سکھوں عیسائیوں اور دلتوں سے دریافت کرو ۔ کس طرح ظالم انتہا پسند ہندو انہیں ذلیل کر رہے ہیں انکی عزتیں اچھال رہے ہیں اور ان ظالموں کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ان سے پوچھو تو تمہیں بتائیں کہ آج انہیں ایک اور جناح کی کتنی ضرورت ہے۔آج وہ آزادی کے لئے کتنا ترستے ہیں۔اے نام نہاد پاکستانیو نہیں تمہیں کچھ یاد نہیں۔تم اپنا مذہب اپنی روایات اپنا مان اپنی عزت سب بھول چکے ہو۔تم احسان فراموش ہو چکے ہو۔تم باتوں میں ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہو اور حقیقت میں زمین پر قدم رکھنے کے لائق بھی نہیں۔تمہیں یاد نہیں علم نہیں کہ گاندھی اور نہرو نے مسلمانوں کو مشکلات میں ڈالنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔عورتوں کی عزتیں اچھالیں بچوں کو تلوارں پر سسکایا مردوں کو زندہ جلایا۔ظلم کی انتہا کر دی انتہا پسندوں نے۔آسانی سے وطن حاصل نہیں ہوا ۔بزرگوں بڑوں عورتوں اور بچوں کی قربانیوں نے اس آزادی کی دیوار کو قائم کیا ہے۔تم لوگ بلکہ ہم سب جن کے ہم خیال بننا چاہتے ہیں۔وہ تو ابھی بھی پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں شاید ہمیں یاد نہیں وہ ازل سے ہی ہمارے دشمن ہیں۔وہ اپنے میڈیا کے زریعے ہم جیسے احسان فراموش لوگوں کو بہکانا چاہتے ہیں۔اور ہمیں غدار بنانا چاہتے ہیں۔آج ہمارا وطن مشکلات سے دو چار ہے صرف ان ملک دشمنوں اور ان کے ہم خیالوں کی وجہ سے۔ہم اپنے انٹیلی جنس اداروں اپنے محافظوں کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں مگر اپنے ارد گرد غداروں کو نہیں پہنچانتے۔اپنے اندر نہیں جھانکتے کہ آیا ہم کس سمت میں چل رہے ہیں؟ ہمارا فرض بحثیتپاکستانی کیا ہے؟۔ہمیں کس سمت چلنا چاہیے؟۔آج ہم نام کے مسلمان کیوں ہیں؟۔ ہم اسلام سے دور کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟۔افسوس کہ ہم احتساب کا نام تو لیتے ہیں مگر کبھی اپنا اپنی ذات کا احتساب نہیں کرتے؟۔ہمیں خود کے اندر جھانکنا ہوگا سب سے پہلے اپنا احتساب کر نا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ آیا ہم محب وطن پاکستانی ہیں؟۔کیا ہم سچے مسلمان ہیں؟یا ہمارے اندر کوئی خامی ہے؟ اسے دور کرنا ہوگا۔ہمیں اپنی حالت خود بدلنی ہوگی آسمان سے کوئی فرشتہ اتر کر ہماری حالت نہیں بدلے گا۔اللہ رب العزت بھی انکی مدد کرتا ہے جو قومیں اپنی مدد آپ کریں۔ہمیں اپنی تاریخ کا کوئی بھی حصہ بلکہ کچھ بھی یاد نہیں۔ہمیں یاد کرنا ہوگا اور اپنی نسل تک منتقل کرنا ہوگا۔یوں قومیں اپنی تاریخ و روایات نہیں بھولتیں۔

Sunday 7 August 2016

بچو اور بچاؤ


بچو اور بچاؤ

چوہدری ذوالقرنین ہندل ۔گوجرانوالہ
بہت کٹھن وقت آن پہنچا ہے۔کوئی کسی پر بھروسا ہی نہیں کر سکتا ۔نہ جانے کون کب آپ کے ساتھ ہاتھ کر جائے۔کون کب آپ کو دھوکا دے جائے۔کب اپنا ہی وہشت پر اتر آئے اور آپ کو کسی دلدل میں دھکیل دے۔کسی دوست کسی عزیز و رشتہ دار حتی کہ اپنے سگوں پر بھی بھروسا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ایسا دور آن پہنچا ہے کہ آپ اپنے سب سے بڑے دشمن کو ہی اپنا سب سے بڑا دوست تصور کرتے ہیں مگر وہ ایک دن آپ کو ایسا تباہ کرتا ہے کہ آپ دوبارہ آباد نہیں ہوتے۔ہمیں اس موجودہ دور میں بہت سنبھل کر چلنا ہوگا خود بھی ایسے عناصر سے بچنا ہوگا اور اپنے بال بچوں گھر والوں و دوستوں کو بھی ایسے عناصر سے بچانا ہوگا۔
کبھی ایسا وقت بھی ہوا کرتا تھا کہ سب آزادانہ زندگی بسر کیا کرتے۔دکھ فکر غم اور ڈر انسان سے کوسوں دور رہتا ۔زندگی سہل تھی۔پریشانیاں کم تھیں۔لوگ کم تھے سہولتیں نہ تھیں بلکہ لفظ سہولت سے لوگ آشنا ہی نہ تھے۔مشقت کی زندگی تھی۔مگر سکون تھا۔جو جتنی زیادہ مشقت کر لیتا اتنا زیادہ اچھا کھانا کھا لیتا۔دولت نام کی کوئی چیز نہ تھی لوگ عالم نہ تھے۔اتنی سادگی تھی کہ ہم تصور ہی نہیں کر سکتے۔وقت گزرتا گیا لوگوں میں محنت و مشقت کا جذبہ پیدا ہوا۔جو جتنی زیادہ محنت کر لیتا اتنی ہی بہتر زندگی بسر کرلیتا۔آہستہ آہستہ لوگوں میں مقابلہ بازی شروع ہو گئی۔مگر زندگی بہتر بنانے کے مقابلوں میں کبھی ذاتی دشمنی کو پروان نہ چڑھنے دیا۔لوگ سادہ تھے لڑائی جگھڑا بہت کم تھا۔انسان اکٹھے ہو کر دوسری بالاؤں کا مقابلہ کرتے۔انسانوں میں اتفاق تھا۔وقت گزرا بالائیں ٹلیں تو انسان آپس میں لڑنا شروع ہوئے۔وقت کے ساتھ ساتھ لڑائیاں بڑھتی گئیں۔زمین پر انسانوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ ساتھ کئی جرم بھی بڑھے۔حتی کہ یہاں تک نوبت آن پہنچی کہ انسان اپنا مال و زر بھی بڑی احتیاط سے رکھنے لگا صدیاں گزریں مال وزر کو فتنا بنتے دیکھا گیا۔انسان نے اپنے مال ودولت کو محفوظ رکھنے کے لئے کئی اقدامات کئے مگر محفوظ نہ رکھ سکا۔گھر سے باہر نکلتے وقت کوئی اپنے پاس زیادہ رقم نہ رکھتا کہ چھن نہ جائے۔اپنے مال کی حفاظت کے لئے انسان پریشان رہنے لگا۔مگر گزشتہ کئی سالوں سے انسانوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔جب سے انسانی اسمگلنگ کے واقعات سامنے آئے تب سے انسان خود کو کہیں بھی محفوظ نہیں سمجھتا۔گھر سے باہر جاتے ہر کوئی ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی مجھے ہی نہ اٹھا لے۔پوری دنیا میں ایسے واقعات سامنے آئے انسانوں کو انسان ہی اٹھا لے جاتے ہیں۔میں جانتا ہوں ایسے لوگوں کو انسان کہنا گناہ ہے۔لیکن معذرت کے ساتھ یہ انسانی اسمگلر اور اغواء کار بھی ہم جیسے ہی ہیں کوئی اور مخلوق نہیں ہم میں سے ہی ہیں انکے بھی ہماری طرح عزیز و اقارب بھی ہیں۔پوری دنیا میں انسانی اسمگلنگ کئی طریقوں سے کی جاتی ہے۔جن میں نشہ آور چیزوں کے استعمال سے اغوا سب سے زیادہ ہے۔جہاں دنیا بھر میں انسانی قدروں کا خاتمہ ہوا انسانیت کو پامال کیا گیا وہیں پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بھی انسانی اسمگلنگ کے کئی واقعات سامنے آئے۔بچوں بڑوں بوڑھوں اور عورتوں کو بھی اغواء کیا جاتا رہا۔انسانی اسمگلر لوگوں کو اغوا کر کے روپے کے عوض فروخت کر دیتے۔با اثر لوگ انسانوں کو خرید کر ان سے طرح طرح کے دھندے کرواتے ہیں۔کچھ اسمگلرز انسانوں کو اغواء کر کے انکے جسمانی اعضاء نکال کر فروخت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ ڈاکٹرز بھی ملوث ہیں۔کچھ اغوا کار روپے(تاوان) حاصل کر کے مغوی لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔جن کے چھوٹنے پر ہمارے ادارے اپنا جعلی کریڈٹ لے جاتے ہیں۔گزشتہ کئی روز سے پنجاب بھر میں بچوں کے اغواء کے کئی واقعات سامنے آئے۔سینکڑوں بچے پنجاب سے اغوا ہوئے جن میں سے زیادہ کو بازیاب کروا لیا گیا مگر ابھی بھی بہت زیادہ غائب ہیں۔یہ سلسلہ تھما نہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ بچوں کے اغواء میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔بہت سے سوالات ہیں جو لوگوں کے دل و دماغ میں گردش کر رہے ہیں۔اغوا کار کون ہیں کیوں اغوا کرتے ہیں؟بچے آسانی سے کیسے اغوا ہوتے ہیں ؟اغوا کے واقعات کو روکا کیوں نہیں جاتا؟اور حکومت اسکی روک تھام ک لئے کیا کر رہی ہے؟آخر کہاں ہے وہ میڈیا اور سیاسی و سماجی نمائندگان جو وزیر اعظم گورنر اور چیف جسٹس کے بیٹے کے اغواء پر تو چیختے ہیں مگر عام غریب لوگوں کی آواز کیوں نہیں بنتے؟کسی بھی معاشر میں غربت و جہالت ایسے فیکٹر ہیں جو انسان کو برائی کے کسی بھی درجے پر لے جاتے ہیں۔غربت و جہالت انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا کر شیطان کے برابر بھی کھڑا کر سکتی ہے۔پاکسان میں غربت جہالت و عدم انصاف کی وجہ سے کئی جرم پروان چڑھے جس میں اغواء کاری چوری ڈکیتی جسم فروشی قتل و غارت بہت عام ہیں۔اغواء کار بھی روپے کے لالچ میں ایسے گناؤنے کام کو انجام دے رہے ہیں۔غربت و جہالت ان لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔غربت کے ستائے ہوئے یہ لوگ بااثر اسمگلروں ک ہتھے چڑھ کر روپے کے عوض اپنے اور دوسروں کے گھر اجاڑ رہے ہیں۔ روپے کے لالچ میں اپنا انجام بھول بیٹھے ہیں کہ دنیا و آخرت میں انہیں سخت سزاؤں سے کوئی بچا نہیں سکے گا ۔چھوٹے بچے انکا آسان ہدف ہوتے ہیں۔کیونکہ پاکستان میں لوگ بچوں کو جنم دے کر بھول جاتے ہیں کہ انکا خیال بھی رکھنا ہے۔سکول داخل کروا کر بھول جاتے ہیں کہ بچہ سکول بھی جاتا ہے اور اغواء کار بچوں کو کھانے کے لالچ میں نشا آور اشیاء کھلا کر سکولوں گلی محلوں سے با آسانی اٹھا کر اپنے غلط مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اغواء کے واقعات کو اس لئے روکا نہیں جا سکا کیوں کہ ہمارے ادارے سوئے ہوئے ہیں کوئی بھی ادارہ اپنے فرض سے واقف نہیں۔ہمارے سیکورٹی اداروں کے اہلکار حکومتی نمائندوں کی خدمت میں مصروف و معمور ہوتے ہیں اور عام شہریوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔یقین مانئے بے حد افسوس ہوتا ہے ایسے دہرے معیار پر حکومتی وسیاسی اور سماجی نمائندوں کی بے حسی پر جونامور شخصیات کے بچوں کے اغواء پر دن رات چیختے رہتے ہیں مگر عام شہریوں کے بچوں کے اغواء پر خاموش بیٹھے ہیں۔یہ دہرا معیار کیوں؟آخر کب اسکا خاتمہ ہوگا؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ روپے کے عوض راگ الاپتے ہیں یا پھر انسانی اسمگلروں سے ان کے اچھے مراسم ہیں۔ہمیں ان ماؤں کے غم کا کیا پتہ جن کے معصوم پھول مر جھا گئے جن کی آنکھوں کے آنسو اور روشنی ختم ہوگئی جو اپنے پیاروں کی شکل دیکھنے کو تڑپ رہی ہیں۔ہمیں اس باپ کے غم کا کیا علم جس کے سامنے اس کے بچوں کو اغواء کیا گیا اور وہ کچھ نہ کر سکا وہ ساری زندگی کیسے جی سکے گا۔آہ ان عورتوں کو کون پوچھے گا جن کو اغواء کر کے بھی زندہ رکھا گیا آہ یہ بے حس معاشرہ۔ہمیں کسی کے غم کا کیا اندازا کسی اپنے بلکہ جگر کے ٹکڑے کے چھن جانے کا کیا غم ہے۔کیا یہ وہی پاکستان ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا جہاں لوگ اپنی آزادانہ زندگی بسر کر سکتے کبھی بھی نہیں میں اسے اسلام سے کیسے منصوب کر دوں جہاں کوئی کسی کا درد بھانٹنے والا نہیں جہاں اخوت نہیں انصاف نہیں قانون نہیں۔جہاں ہر کوئی دولت کے لالچ میں ڈوبا ہوا ہے کیسے وہ اسلامی ملک ہو سکتا ہے۔خدارا خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔آج کسی کا بیٹا اغواء کرو گے تو کل کوئی تمہارا اغواء کرے گا۔آج تمہیں کسی کے غم کی کوئی پروا نہیں تو کل کو اللہ نہ کرے تمہارے ساتھ ایسا ہوجائے تو کسی کو تمہارے غم کی بھی کوئی پروا نہیں ہوگی۔یاد رکھو جو بیج بویا جائے گا اسی کو کاشت کرو گے۔حکمرانوں اور اداروں سے امیدیں وابستہ کرنا چھوڑ دیں یہ آپ کے زخموں پر نمک ہی چھڑک سکتے ہیں۔خود ایک اچھا معاشرہ بن جاؤ ایک دوسرے کے ہاتھ بن جاؤ اتنے مضبوط ہاتھ کے کوئی تمہاری طرف میلی آنکھ سے دیکھ نہ سکے۔دوسروں کی مدد کر کے ان کو بچائیں اور اللہ کے حضور خود بھی بچیں یعنی بخشش پائیں۔