Sunday, 11 March 2018

سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں


چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے):لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینینئر ہیں۔

پاکستان ایک جنوبی ایشیائی ملک ہے ،جو مشرق وسطی اور وسط ایشیاء کے پار قریب ترین ملک ہے۔پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے دنیا و خطے کی بہت سی طاقتیں اس پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔پاکستان کو جہاں اپنی جغرافیائی اہمیت کا مان ہے اور سی پیک جیسے کئی مفاد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔وہیں اگر محتاط اندازہ لگایا جائے تو باخوبی علم ہوتا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی بدولت بہت سے ممالک جیسے بھارت و امریکہ اسے کمزور و غیر مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔پاکستان میں پھیلتی افراتفری ،عدم مساوات اور انتہا پسندی انہیں طاقتوں کی منصوبہ بندی ہے۔پاکستان معرض وجو د سے ہی بہت سے اقتصادی انتظامی اور سماجی مسائل کا شکار تھا۔ وقت کے ساتھ کچھ پر قابو پالیا گیا۔ مگر کچھ مسائل گمبھیر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔پاکستانی حکومتیں ہمیشہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہیں۔اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ملکی و غیر ملکی قرضوں کی دوڑ میں مگن ہو گئیں۔تمام حکومتوں نے بنیادی مسائل کو حل کرکے اقتصادی و سماجی مسائل پر کنٹرول پانے کی بجائے، وقتی قرضوں کی بدولت اپنی نااہلیوں کو چھپایا۔پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کی راہ میں چند حائل رکاوٹیں۔ 
ملکی و غیر ملکی قرضے، چند حساس میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کا گردشی قرضہ 10کھرب سے تجاوز کر گیا ہے۔صرف پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 10کھرب22ارب روپے ہوگیا ہے۔قانون کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے60فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے،مگر ہمارا قرض قریب جی ڈی پی کے75فیصد تک پہنچ چکا ہے۔گزشتہ چار سال میں پاکستان کے قرضوں میں12ہزار500ارب کا اضافہ ہوا۔موجودہ ملکی و غیر ملکی قرض کا حجم26ہزار814ارب ہے۔جس میں غیر ملکی قرض کا حجم9ہزار816ارب کے لگ بھگ ہے۔پاکستانی کی اقتصادی و سماجی ترقی میں قرضے رکاوٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان ان قرضوں پر ہر سال اربوں روپے سود دیتا ہے اور اصلی قرض بڑھتا چلا جا رہاہے ۔جو ہماری معیشت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔اسی طرح ہماری خودمختاری بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اسی قرض کی بدولت ہمیں غیر ممالک کو اپنے بہت سے معاملات میں رسائی دینا پڑتی ہے۔جو ہمارے سماج پر گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں۔
بڑھتی آبادی،پاکستان کی بڑھتی آبادی اور محدود وسائل پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا کردار ادا کر رہی ہے۔قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان کی آبادی 3کروڑ کے لگ بھگ تھی۔موجودہ 2017کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی21کروڑ ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عام آدمی یومیہ 2ڈالر کے قریب کماتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں غربت و افلاس ہے۔لوگ سماجی و اقتصادی مسائل سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔معاشرہ عدم مساوات کا شکار ہے۔آبادی و معیشت پر کنٹرول صفر ہے۔ایک اچھی و معیاری زندگی بسر کرنے کے لئے حکومت کو عوام میں آبادی کے کنٹرول کے حوالے سے آگاہی دینی چاہئے ۔تا کہ آبادی و وسائل میں توازن قائم رہے۔
غربت، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں 80فیصد دیہاتی لوگ خط غربت سے نیچے بنیادی سہولیات سے محروم زندگی بسر کررہے ہیں۔خیبر پختونخوا کی حکومتی رپورٹ کے مطابق44فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کرہے ہیں۔فاٹا میں 60فیصد لوگ غط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔بہت سے مزید علاقے جیسے تھر جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اسی محرومی کے باعث وہ دشمن کے ہاتھوں اونے پونے اپنا ایمان فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔جو ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا سبب ہے۔
ناقص تعلیمی سہولیات،تعلیم ہی ایک ایسا زریعہ ہے جو لوگوں کو صبر اور شعور فراہم کرتا ہے اور معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔مگر افسوس کہ ہمارا تعلیمی ڈھانچہ ہی بہت کمزور اور ناقص ہے۔بہت سے علاقے تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں۔قریب79فیصد پاکستانی میٹرک سے نیچے یعنی انڈر میٹرک ہیں۔تعلیم معاشرے کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ تعلیم کا فقدان ہی معاشرتی و سماجی برائیوں کو جنم دیتا ہے اور معاشرہ ہر لحاظ سے کھوکھلا ہوجاتا ہے۔
بے روزگاری،بے روزگاری مجبور و لاچار لوگوں کے لئے جلتی پر تیل کا کام انجام دیتی ہے۔بہت سے لوگ روزگار سے محروم اور معاشرے سے نالاں ہو کر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔بہت سے لوگ روزگار کے لئے دشمن کے عزائم کا حصہ بن کر دہشتگردی کو فروغ دیتے ہیں۔پاکستان میں2015\16کی رپورٹ کے مطابق 7فیصد لوگ بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں۔جن کو روزگار کا موقع ہی میسر نہیں ہوتا ہے ۔وہی بے روزگار دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔آخر کار ایک وقت ان کے لئے اچھا برا سب تمیز ختم ہوجاتی ہے اور متعدد بدعنوانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
توانائی کا بحران،بجلی کی بندش نے لاکھوں مزدوروں کے روزگار کو سوالیہ نشان بنا رکھا ہے۔سینکڑوں کاروبار ی افراد دیوالیہ ہوگئے ہیں۔ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے۔معاشی عدم استحکام کے باعث معاشرہ ناپاک عزائم میں دشمن کا ہم نوا بن رہا ہے۔
کرپشن، یہ ایک بڑا ناسور ہے جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔کھوکھلا کر رہا ہے۔ملک میں نانصافی کو فروغ دے رہا ہے۔لوگوں کی حق تلفی ہورہی ہے۔پاکستان کی معیشت کو آئے روز چونا لگایا جارہا ہے۔کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان 175میں سے 127نمبر پر ہے یعنی پاکستان میں 127ممالک سے زیادہ شرح کرپشن ہے۔پاکستان میں سیاستدان،بیوروکریٹ ، افواج، پولیس ،ججز اور بہت سے ادارے و عام لوگ کرپشن جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔جو ہماری ترقی کے راستے میں آئے روز سوراخ کر رہے ہیں، گڑھے کھود رہے ہیں اور ہماری ترقی انہیں گڑھوں میں رک جاتی ہے۔
جنگی اثرات، پاکستان نے بھارت کے ساتھ جنگوں میں کافی نقصان اٹھایاہے۔مگر 9/11 کے بعد سے امریکہ نے جہاں پاکستان کی دفاعی معاملات میں مدد کی،وہیں ہمارے سماجی و اقتصادی مسائل بھی بڑھنے لگے۔پاکستان کی طالبان کے لئے حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، امریکہ نے بین الاقوامی پریشر کی بدولت(وار آن ٹیرر)دہشتگردوں کے خلاف جنگ کے نام پر بہت سی انتہا پسند تنظیموں اور افغانستان کو پاکستان کے مخالف کروا دیا۔بعد ازاں امریکی اثرات کی بدولت یہی دہشگردوں کے خلاف جنگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوگئی اور اس کے اثرات پاکستان کے مختلف شہروں میں بم دھماکوں کی صورت میں سامنے آنے لگے۔امریکہ اور دہشتگردوں نے پاکستان کو یرغمال بنانا شروع کر دیا۔پاکستان نے امریکی دوستی کی شکل میں اپنی معیشت اور بنیادی ڈھانچے میں 40بلین ڈالرز کا نقصان اٹھایا۔ لاکھوں جانوں جن میں سویلین شہریوں اور فوجی جوانوں کو قربان کیا۔بدلے میں امریکہ کی طرف سے متعدد سختیوں سے مشروط اتحادی فنڈ جو کہ1.2 بلین سالانہ تاخیر اور ٹال مٹول کے ساتھ دیا جاتا رہا۔شرائط ایسی کے پاکستان اس فنڈ کو اپنے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔پاکستان کو اس فنڈ کے بدلے دہشتگردی کا ٹیگ ملا اور دہشتگردوں کی دشمنی، مارکیٹ میں امریکی اسمگل اسلحہ براستہ افغانستان ملا جو انتہا پسندی کے فروغ کا کردار ادا کررہا ہے۔جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کو برسوں سے روکے ہوئے ہے۔
خطے میں بھارتی اثر و کردار،بھارت نے اپنے برسوں پرانے نمبرداری کے خواب کو پورا کرنے کے لئے بلی چوہے کا کھیل رچایا ہوا ہے۔بھارت خطے میں موجود ممالک بالخصوص پاکستان کو اپنے اثر کی بدولت دبانا چاہتا ہے۔بھارت کشمیر پر جبری قبضہ جمائے ہوئے ہے۔پاکستان کو کشمیر پالیسی کی بدولت اقتصادی سطح پر بہت سے نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔بھارت پاکستان کا پانی روکنے کے لئے دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہا ہے جو ہماری زراعت اور معیشت کے لئے ایک بڑا دھچکہ ہے۔بھارت پاکستان کو مسلسل مختلف محاذوں پر الجھائے ہوئے ہے جس میں ورکنگ باؤنڈری ،افغانستان ،ایران اور کشمیر وغیرہ۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں39000کے قریب بھارتی سپاہی موجود ہیں جن کا مقصد پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دینا ہے اور براستہ افغانستان پاکستان کی تجارت کو روکنا ہے۔۔یہی نہیں بھارت پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تجارتی معاملات میں بھی نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
ایسے بہت سے مزید چھوٹے بڑے عناصر ہیں جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل ہیں ج کا حل بہت ضروری ہے، اور فوری ہونا چاہئیے تا کہ پاکستان آنے والے مزید چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔

Sunday, 4 March 2018

ہمارا نظام تعلیم


چوہدری ذوالقرنین ہندل(میری رائے):لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینئر ہیں۔

دنیا بھر میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ نت نئی و حیرت انگیز ہونے والی ایجادات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے ۔انسان کا چاند اور سیاروں پر جانا صرف تعلیم کی بدولت ہی ممکن ہوا۔تاریخ سے باخوبی علم ہوتا ہے کہ دین اسلام بھی روز اول سے لے کر آج تک دنیا میں علم کی شمع جلا رہا ہے،اور قیامت تک علم کی اس مشعل کو لے کر آگے بڑھتا رہے گا۔دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے سب نے اللہ رب العزت کے احکامات کو لوگوں تک پہنچایا ،اور توحید و تقوی کی تعلیم دی۔اللہ کے آخری نبیﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ کچھ یوں تھی،ترجمہ:’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا‘‘۔آپﷺ نے اللہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچایا اور دین اسلام کو مکمل کیا۔کیا جس نے صحرا نشینوں کو یکتا! آپﷺ نے عرب کی بھگڑی ہوئی قوم کو ایک پرامن معاشرے میں تبدیل کیا ۔انہیں اخلاق و ایمان کی تعلیمات دیں۔
پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ،’آپ تعلیم پر پورا دیہان دیں۔اپنے آپ کو عمل کے لئے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ہماری قوم کے لئے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے‘۔
قارئین پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اسی دوران بیسیوں پالیسیاں بنیں اور مرتب کی گئیں مگر ہمارا تعلیم کا مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے بہت سے ممالک اس میدان میں آج ہم سے بہت آگے ہیں۔ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں136thنمبر پر ہے۔پاکستان میں58%لوگ پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں جنہیں ہم خواندہ کہتے ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 67لاکھ بچے سکول جانے کی عمر میں سکول جا ہی نہیں پاتے۔قریب59%بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کے کچھ عرصہ بعد مختلف وجوہات کی بنا پر سکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں5.3ملین بچے سکول ہی نہیں جا پاتے جو دنیا میں سکول سے محروم بچوں کا9.2%ہیں۔ پاکستان میں قریب49ملین بالغ افراد پڑھنا لکھنا ہی نہیں جانتے جو دنیا میں ناخواندہ افراد کا6.3%ہیں۔یو این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پرائمری سطح کی تعلیم میں دنیا سے پچاس سے زائد سال اور سیکنڈری سطح کی تعلیم میں ساٹھ سے زائد سال دنیا سے پیچھے ہے۔ہمارے نظام تعلیم میں بہت سی خرابیاں اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم آج دنیا سے پیچھے ہیں۔
غیر متوازن نظام تعلیم ،ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کا بڑا سبب ہے۔ہمارا تعلیمی نصاب ہو یا تعلیمی ڈھانچہ سب غیر متوازن ہیں۔ریاست ہمیشہ ملک کی عوام کو ایک جیسی تعلیم اور ایک جیسے تعلیمی مواقع دینے میں نکام رہی ہے۔ہمارے ہاں پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم جیسے مقدس شعبے میں مافیا کا کردار ادا کر رہے ہیں۔من چاہے تعلیمی نصاب اور من چاہے تعلیمی اخراجات عام عوام پر مسلط کئے جاتے ہیں۔غیر متوازن نظام تعلیم نے معاشرے کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور تعلیم کے میدان میں بھی افراتفری کا سماں ہے۔سرکاری ادارے میٹرک اور ایف اے کروا رہے ہیں اور پرائیویٹ ادارے اے لیول او لیول کروا رہے ہیں۔سرکاری ادارے اردو میڈیم ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر انگلش میڈیم ہیں۔اس غیر متوازن نظام تعلیم نے مڈل کلاس اور غرباء کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔جو کہ ہمارے نظام تعلیم کی بہتری میں حائل بڑی رکاوٹ ہے۔
علاقائی عدم مساوات، بھی تعلیمی بہتری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔بلوچستان فاٹا اور دوسرے علاقے جہاں پہلے ہی علاقائی اختلافات کے باعث تعلیمی میدان متاثر ہورہا ہے وہاں حکومت کا معیاری تعلیم کی فراہمی میں توجہ نہ دینا بھی نظام تعلیم کی بڑی ناکامی ہے۔ایسے علاقوں میں کالجز اور یونیورسٹیز بہت کم ہیں اور ان علاقوں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کے سکول و کالجز کے معیار میں بھی زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ان علاقوں کو برابری کی سطح پر تعلیمی ماحول و مواقع فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست اپنے اس فرض سے بھی غافل دکھائی دیتی ہے۔
فنی تعلیم کا فقدان ،بھی ہمارے نظام تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔دنیا بھر میں ریاست اپنے نوجوانوں کو خودمختار بنانے کے لئے انہیں فنی تعلیم مہیا کرتی ہے۔اسی ضمن میں فنی تربیتی ادارے قائم کئے جاتے ہیں کالجز بنائے جاتے ہیں۔تربیت یافتہ نوجوان خودمختار ہوکر نہ صرف فنی تعلیم اور معاشرے کی بہتری میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں۔پاکستان میں ایسے فنی تربیتی کالجز کا فقدان ہے۔جو کچھ کالجز ہیں وہاں مناسب تربیتی سہولیات موجود نہیں،مناسب لیبارٹریز اور آلات موجود نہیں ہیں۔
صنفی فرق(gender unequality) ،یعنی مرد و عورت کی غیر برابری کا نظریہ بھی ہمارے نظام تعلیم کو بہتر ہونے سے روکتا ہے۔اس کا اندازہ پرائمری سکولوں میں لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد سے ہوتا ہے جو 10:4ہے۔بہت سے والدین آج بھی لڑکیوں سے غیر امتیازی طور پر ان کے بہت سے بنیادی حقوق چھین لیتے ہیں یا فراہم ہی نہیں کرتے۔اسی بنا پر بہت سی قابل لڑکیاں اپنی قابلیت کو نکھارنے سے محروم ہو جاتی ہیں۔جو ہمارے ملک کی ترقی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
غیر تربیت یافتہ اساتذہ ،بھی ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔دنیا بھر میں تعلیم میں اول نمبر اور قابل ترین افراد کو معلم کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے۔مگر ہمارے ہاں تو نظام ہی الٹ ہے جسے کوئی نوکری نہ ملے وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنی قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے جیسے بہت سے کم علم اور کم فہم طلباء کو پروان چڑھاتا ہے جو ہمارے نظام تعلیم کی خرابی اور معیار کی پستی کا باعث بنتے ہیں۔
غربت ،ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے ۔ملک کی بڑی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ایسے میں لوگوں کے لئے تعلیم کا حصول مشکل ہو جاتا ہے اور غریب والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کی بجائے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے بھٹوں اور مکینکوں کے پاس مزدوری کے لئے چھوڑ آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا ایک بڑا حصہ تعلیم سے محروم ہے۔
ناقص امتحانی طریقہ و تشخیص ،بھی ہمارے تعلیمی اداروں اور امتحانی مراکزکی بڑی خامی ہے۔دنیا بھر میں طلباء کو تعلیم بوجھ کے تصور سے بالاتر ہو کر بغیر کسی خوف اور سیکھانے کے نظریے سے دی جاتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں گریڈز اور نمبروں کی دوڑ میں ماں باپ اور اساتذہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے تعلیم کے بوجھ تلے دبے انہیں 90فیصد نتائج تو دے رہے ہیں مگر حقیقت میں سیکھنے کے مرحلے میں انہوں نے 50%بھی نہیں سیکھا۔دنیا بھر کے تعلیمی میدان میں روز یعنی معمول کاکام روز کروا کر اسی دن اس کام کو پرکھ لیا جاتا ہے اور اسی حساب سے طلباء کو نمبرز اور گریڈز دیئے جاتے ہیں۔اس طرح طلباء کام کے بوجھ سے بالاتر ہوکر سیکھتے ہیں اور گھر جا کر تعلیمی پریشانی سے آزاد کھیل کود کر اپنی جسمانی نشونما میں بھی بہتری لاتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں تو بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں ہفتے کا کام دو دنوں میں کروایا جاتا ہے اور اس کی تشخیص کے لئے مہینوں بعد کوئی امتحان لیا جاتا ہے۔جس کے باعث طلباء نمبروں کے لئے نقل یا رٹہ سسٹم کا سہارا لیتے ہیں۔اسی طرح ناقص امتحانی طریقے اور تشخیص نے ہمیں ایسے رٹے لگوائے ہیں کہ ہمیں انگریزی میں ہر لفظ یاد تو ہے مگر اس کے مطلب کا پتہ نہیں۔
ریاستی ناکامی، ان سب وجوہات کا باعث ہے۔ریاست برسوں سے میدان تعلیم میں اپنی ناہلی کی راہ پر گامزن ہے۔ہر حکومت اپنے مفادات کی دوڑ میں تعلیم جیسے اہم شعبے پر توجہ دینے سے کتراتی ہے۔
پاکستان کے آئین کی شق 25Aکے مطابق ’ریاست 5 سے16سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے‘۔مگر یہاں تو سارا نظام ہی الٹ ہے ریاست اپنے دوسرے فرائض کی طرح اس مقدس اور اہم فریضے کو بھی پورا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ریاست کی ناکامیوں کے باعث پرائیویٹ مافیا دن رات ہمارے نظام تعلیم کو پنکچر لگانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ہماری حکومتیں تعلیمی فنڈز میں کرپشن کرتی ہیں۔تعلیم کے لئے مختص کئے گئے فنڈز GDPکا 2%ہوتے ہیں جسے کم از کمGDPکا7%ہونا چاہئے۔دنیا بھر میں تعلیم کے لئے دفاع سے زیادہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔
ایسے مزید بہت سے عناصر(Factors) ہیں جو ہمارے نظام تعلیم کی راہ میں حائل ہیں اور آج ہم تعلیمی میدان میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ریاست کو تعلیم جیسے اہم شعبے کی ترقی کے لئے خلوص نیت سے کام کرنا ہوگا ،تبھی جاکر ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں شامل ہوگا اور ایک پرامن اور نمبر ون ملک بن کر ابھرے گا۔