Sunday 16 April 2017

شام پر امریکی حملہ اور حقائق


چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ۔چیف ایگزیکٹیو وائس آف سوسائٹی

گزشتہ روز ملک شام کے ائیر بیس پر امریکی حملے کے نتیجہ میں شامی ائیر بیس مکمل تباہ ہو گیا۔یہ حملہ شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف کیا گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اسلامی ملک شام پر پہلی امریکی یکطرفہ فوجی کاروائی کی گئی۔جس میں 59 ٹام ہاک کروز میزائل استعمال کئے گئے۔جس کے نتیجہ میں ائیر بیس تباہ اور ائیر کمونڈور سمیت چھ فوجی جاں بحق ہو گئے۔بقول ٹرمپ کیمیائی ہتھیاروں سے معصوم لوگوں پر حملہ نا قابل قبول ہے ۔امریکی صدر کے دل میں معصوم لوگوں کے لئے ہمدردی ہے بہت اچھی بات ہے۔مگر تاریخ بہت سی تلخ حقیقتوں سے بھی آگاہ کرتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل کی فوجوں نے فلسطین کے معصوم بچوں عورتوں بزرگوں کو بلڈوزروں کے نیچے کچلا گولیوں سے چھلنی کیا انکی عزتوں کو تار تار کیا ظلم کی داستانیں رقم کیں۔کشمیر میں بھارتی فوجیں ظلم اور بربریت کی مثالیں قائم کر رہی ہے کشمیریوں کو جانوروں کی طرح کچلا جا رہا ہے۔بینائی سے محروم کیا جا رہا ہے عزتوں سے کھیلا جا رہا ہے ظلم کی انتہا کو وسعت دی جا رہی ہے۔مگر افسوس کہ دہرا معیار، نرم گوشہ رکھنے والے نمبر دار امریکہ کو یہ ظلم کیوں نظر نہیں آتا؟ان علاقوں کے معصوم بلبلاتے لوگ نظر کیوں نہیں آتے؟شاید امریکہ کو ان سے وابستہ کوئی مفاد نظر نہیں آتا؟امریکہ کا کوئی دوست نہیں مفاد سے اسکی دوستی ہے ۔یہی سپر پاور کی اصلیت ہے۔تاریخ میں اامریکی مفاد پرستی کی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔دنیا جانتی ہے۔جانتی ہے کہ داعش کا بانی و حامی کون ہے۔حقیقت میں بشارالسد اور شامی فورسز امریکی سرپرستی کردہ تنظیم داعش کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہے۔شام میں باغیوں کو ہوا دینے والا بھی امریکہ ہی ہے۔امریکہ شام کو بھی عراق جیسا دیکھنا چاہتا ہے یہ کہنا بجا ہوگا کہ عراق کے ساتھ شام میں بھی پورا کنٹرول امریکی کھیل میں شامل ہے۔روس نے امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ کو سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے اور ساتھ ہی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو بھی امریکہ پر ڈال کر امریکی پراپیگنڈہ کا نام دیا۔روس کا کہنا ہے کہ امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کو خود اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔شام کی حفاظت کے لئے روسی بحری بیڑہ بھی شام پہنچ گیا۔ایران نے بھی روسی موء قف کی حمایت کی۔چین نے امریکی طاقت کے یوں استعمال کو غلط قرار دیا اور امن کے حل کو ترجیح دی۔پاکستان نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی اور امن کی کوششوں پر ذور ڈالا۔جبکہ اسرائیل نے امریکی حملے کا خیر مقدم کیا۔سعودی عرب متحدہ عرب امارات ترکی یورپ اور برطانیہ نے امریکی حمایت میں بیانات دئیے۔پاکستان نے ہمیشہ ایسے مقامات پر ڈبل اسٹینڈرڈ بیانات دیئے ہیںیعنی کسی کی بھی حمایت نہ کی۔عربی ممالک سمجھتے ہیں کہ شامی صدر بشارالسد کی حکومت گرا کر وہ اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیں گے۔مگر حقیقت اسکے برعکس ہے امریکہ اس علاقے کے سر پر جنگ کی تلوار لٹکانا چاہتا ہے اور روس بھی امریکہ سے بدلہ لینے کے لئے اس زمین کا استعمال کرنا چاہتا ہے۔دونوں بڑی طاقتیں اس علاقے کو میدان جنگ بنانے کی کاوشوں میں مگن ہیں۔اسلامی ملک ہیں کہ کسی بھی موء قف پر اکٹھے نہیں بلکہ بٹے ہوئے ہیں جوکہ اسلامی ریاستوں کہ لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔دنیا کی تاریخ کو دیکھا اور پرکھا جائے تو زندہ ضمیر بتاتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے دہشتگرد خود امریکہ اور روس ہیں۔جن کے کھیل اور اثر و طاقت کے دکھاوے اور استعمال نے دنیا میں کروڑوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔کیونکہ مسلمان بار بار طاقت کے اس کھیل میں کود جاتے ہیں۔بکھرے ہوئے مسلمانوں کو فوری متحد ہونے کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں سعودیہ اور ایران کا ایک پیج پر ہونا اتہائی اہم و ضروری ہے۔ورنہ تاریخ کا یہ کھیل مسلمانوں کی ساکھ کے ساتھ یوں ہی کھیلتا رہے گا۔ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم بھی نمبر ون امریکہ نے ہی گرا کر تباہی کی حد کو عبور کیا۔مسلمانوں کو حقیقت سے آگاہ ہو کر پوری مسلم امہ کے مفاد کو ترجیح دینا چاہئے۔نہ کہ امریکی کھیل کو۔امریکہ ہر صورت بشارالسد کو ہٹانا چاہتا ہے۔سوال یہ ہے کہ بشارالسد کے بعد شام کا اگلا صدر کون ہوگا ؟ کہیں یہاں داعش کی حکومت بنا کر انکی جگہ ہموار کرنے کا ارادہ تو نہیں؟اگر روس نے بشارالسد کو بچانے اور امریکہ سے بدلہ لینے لئے کوششیں شروع کردیں تو شام کا کیا حال ہوگا؟ کہیں شام پر بڑی جنگ تو مسلط نہیں کی جا رہی۔جو امریکہ روس کے خلاف داعش کی مدد سے لڑے گا اور روس شامی حکومت کی مدد سے؟۔دنیا کو ،انسانیت کی باتیں کرنے والوں کو، نرم گوشہ رکھنے والوں کو، میڈیا کو، اسلامی ممالک کو، اور سوشل میڈیا پر شعور رکھنے والوں کو، شام کی حمایت کے لئے کھل کر میدان میں آنا چاہئے تا کہ بڑی طاقتیں شام کو اس کے حال پر چھوڑ دیں ناکہ اس پر مسلط مشکلات کو مزید بڑھاوا دیں۔

No comments:

Post a Comment